رانا اویس سلفی
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 387
- ری ایکشن اسکور
- 1,609
- پوائنٹ
- 109
ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی اپنے عرش پر مستوی ہے اور اسکا عرش اسکے تمام آسمانوں سے اوپر ہے اور وہ اپنی تمام مخلوقات سے الگ ہے بلند و بالا بزرگ و برتر اپنی مخلوقات کی حالت میں نہیں ہے۔ وہی ہے جو سب سے اعلی و ارفع اپنی تمام تر مخلوقات سے اوپر پاک و مقدس ذات ہے۔ یہی عقیدہ کتاب و سنت کے دلائیل سے ، اجماع صحابہ سے، تابعین و تبع تابعین سے، اور ان کے بعد آنے والے تمام علماء ومحققین سے ثابت ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن کے مختلف مقامات پر اس بات کو واضح کیا۔
1۔ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ سورۃ الاعلی آیت 1
" اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر "
2۔ يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩ ﴿50﴾ سورۃ النحل آیت 50
" اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے، کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں "
اور پھر 6 مختلف مواقع پہ فرمایا:
3۔ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ
سورۃ الاعراف آیت 54
سورۃ یونس آیت 3
سورۃ الرعد آیت 2
سورۃ الفرقان آیت 59
سورۃ السجدہ آیت 4
سورۃ الحدید آیت 4
" پھر عرش پر مستوی ہوا"
4۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ۔۔ سورۃ فاطر آیت 10
" تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے، "
5۔ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿158﴾ سورۃ النساء آیت 158
" بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں واﻻ ہے "
6۔ أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ ﴿16﴾ سورۃ الملک آیت 16
" کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے بےخوف ہو کہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور وہ اس وقت حرکت کرنے لگے "
یہاں آسمان کا مطلب بلندی یا وہ معروف آسمان جو اوپر ہیں۔ اسی طرح یہاں "فی" "علی" کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی "فی السماء" کا مطلب" آسمان میں" نہیں بلکہ" آسمان کے او پر "ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نہ تو کسی چیز سے محصور ہے اور نہ وہ اپنی مخلوقات میں سے کسی چیز کے اندر داخل ہے۔ اسکی مثال سورۃ الانعام کی آیت نمبر 11 میں اللہ نے فرمایا "قل سیروا فی الارض" یعنی زمین پر چلو نہ کہ زمین میں چلو۔ اور یہ واضح ہے کے انسان زمین کے اوپر ہی چلتا ہے نہ کی زمین کے اندر۔ جسطرح یہاں فی کامطلب علی استعمال ہوا ہے اسی طرح اوپر کی آیت میں بھی فی کا معنی علی استعمال ہوا ہے۔ اسکی دوسری مثال سورۃ طہ میں جو اللہ تعالی نے فرعون کی بات نقل کرتے ہوے فرمایا کہ " وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ" "میں تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھا دوں گا" میں بھی "فی" "علی" کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اب ہم احادیث رسول ز کی روشنی میں اس عقیدے کو واضح کرتے ہیں۔
1۔ صحیح مسلم میں معاویہ بن الحکم السلمی کی وہ روایت جس میں انہوں نے رسول اللہ ز سے اپنی لونڈی کو آزاد کرنے کا پوچھا تو آپ ز نے فرمایا کہ اسے میرے پاس لاؤ۔ آپ ز نے اس لونڈی سے پوچھا کہ "اللہ کہاں ہے؟" تو اس نے کہا کہ آسمان پر۔ پھر آپ ز نے پوچھا کہ "مین کون ہوں" تو اس نے کہا کہ اللہ کے رسول۔ تب آپ ز نے فرمایا۔ اسے آزاد کر دو۔ بے شک یہ مومنہ ہے۔
یہی حدیث 15 مختلف روایات میں موجود ہےجن میں سے چند یہ ہیں۔
صحیح مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِه حدیث نمبر 836
سنن ابی دائود، حدیث نمبر795 بَاب تَشْمِيتِ الْعَاطِسِ فِي الصَّلَاةِ
سنن نسائ، حدیث نمبر 1203، باب الْكَلَامُ فِي الصَّلَاةِ
2۔ حضرت جابر بن عبداللہ ر نے فرمایا کہ رسول اللہ ز نے عرفۃ کے دن اپنے خطبہ میں فرمایا۔ کہ لوگو، کیا میں نے اللہ کا پیغام پنہچا دیا؟ تو سب نے کہا جی ہاں، پھر آپ ز اپنی انگلی مبارک کو آسمان کی طرف اٹھاتے اور پھر لوگوں کی طرف کرتے ہوے فرماتے "اے اللہ تو گواہ ہو جا"
صحیح مسلم، حدیث نمبر 2137 باب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
3۔ حضرت ابو ھریرۃ ر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ز نے فرمایا کہ فرشتے آگے پیچھے زمین پر آتے جاتے ہیں۔ ان میں کچھ رات کے فرشتے ہیں اور کچھ دن کے۔ یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جنہوں نے تمہارے پاس رات گذاری ہو اسکی طرف "یعنی اللہ کی طرف" اوپر چڑھتے ہیں۔ پھر اللہ ان سے پوچھتاہے۔ حالانکہ وہ خود جانتا ہے۔ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ فرشتے کہتے ہیں۔ جب ہم ان کے پاس گئے تو انہیں نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ اور جب ہم نے انہیں چھوڑا تو بھی نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر 2983، باب ذکر الملائیکۃ، کتاب بدء الوحی۔
4۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص ر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ز نے فرمایا۔ زمین والوں پر تم رحم کرو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔
سنن ابی دائود، حدیث نمبر ۴۲۹۰، باب فی الرحمۃ، کتاب الادب۔
5۔ حضرت انس ر فرماتے ہیں کہ حضرت زینب بنت جحش اس بات پر فخر کیا کرتی تھیں کہ میری شادی ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اللہ رب العزت نے کروائ ہے۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر6870، باب وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ، کتاب التوحید۔
6۔ حضرت ابی سعید الخدری ر فرماتے ہیں کہ ایک موقعہ پر رسول اللہ ز نے فرمایا، کیا تم مجھے امین تسلیم نہیں کرتے؟ حالانکہ مجھے اس نے امین تسلیم کیا جو آسمان پر ہے۔ میرے پاس آسمان سے خبر صبح و شام آتی ہے۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر 4004، باب حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنھما کو یمن بھیجنا۔ کتاب المغازی۔
7۔ حضرت ابو ھریرۃ ر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ز نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر کسی عورت کا خاوند اسے اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے تو آسمان کے اوپر والا اس عورت پر اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اسکا خاوند اس سے راضی نہ ہو جائے۔
صحیح مسلم، حدیث نمبر 2595، باب تَحْرِيمِ امْتِنَاعِهَا مِنْ فِرَاشِ زَوْجِهَا، کتاب النکاح۔
8۔ رسول اللہ ز کا معراج کا واقعۃ جس میں آپ ز نے فرمایا کہ پھر مجھے ساتوں آسمانوں کے اوپر لے جایا گیا۔ سدرۃ المنتھی کے پاس۔ وہاں میں نے اللہ کو سجدہ کیا۔ پھر اللہ نے پچاس نمازوں کا حکم دیا۔ الی آخرہ۔
سنن نسائی۔ حدیث نمبر 446۔ کتاب الصلاۃ، باب فَرْضُ الصَّلَاةِ وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ فِي إِسْنَادِ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاخْتِلَافُ أَلْفَاظِهِمْ فِيه۔
9۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ر کا حضرت عائیشہ رضی اللہ عنہا سے یہ کہنا کہ اللہ نے آپکی براءت ساتوں آسمانوں کے اوپر سے نازل کی ہے۔
مسند احمد، حدیث نمبر 2366۔
10۔ رسول اللہ ز کا سعد بن معاذ ر کو بنی قریظہ کے درمیان فیصلہ کرنے پر یہ فرمانا کہ یہی فیصلہ اللہ کا ساتوں آسمانوں کے اوپر سے ہے۔
السنن الکبری للبیہقی، باب أخذ السلاح وغيره بغير اذن الامام، جلد ۹ ص ۶۳۔
اور یہی عقیدہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین و تبع تابعین سے ثابت ہے۔ اور ان اثبات میں سے حضرت عبد اللہ بن رواحۃ کی طرف منسوب وہ شعرہمارے لیے کافی ہے کہ:
شهدت بأن وعد الله حق ... وأن النار مثوى الكافرينا
وأن العرش فوق الماء حق ... وفوق العرش رب العالمينا
وتحمله ملائكة غلاظ ... ملائكة الإله مسومينا
الكتاب : الإستيعاب في معرفة الأصحاب لابن عبدالبر جلد ۱ ص ۲۵۵
میں نے گواہی دی کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ کافروں کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے۔ اور یہ حق ہے کہ اسکا عرش پانی پر تھا۔ اور یہ کہ عرش کے اوپر رب العالمین ہے۔ اور اس معبود کے عرش کو بہت ہی مکرم اور اس کے مقرب فرشتے اٹھائے ہوے ہیں۔
اور جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو اسے بے شمار آئیمۃ مسلمین نے بیان کیا ہے۔
1۔ امام اوزاعی ( المتوفى سنة 157هـ ) فرماتے ہیں کہ ہم اور دیگر بہت سے متبعین سنت یہی کہتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالی اپنے عرش پر مستوی ہے اور ہم اسکی تمام ثابت شدہ صفات اسی طرح مانتے ہیں جس طرح وہ وارد ہیں۔
2۔ امام عثمان بن سعید الدارمی فرماتے ہیں کہ تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالی آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔
3۔ الإمام قتيبة بن سعيد ( المتوفى سنه 240هـ) فرماتے ہیں: کہ آئیمہ اسلام اور اھل السنۃ والجماعۃ کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالی ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش پر ہے جیسا کہ اس نے قرآن میں فرمایا " الرحمن علی العرش استوی"
4۔ امام أبو زرعة الرازي ( المتوفى سنة 264هـ ) اور امام أبو حاتم فرماتے ہیں: کہ ہم جتنے بھی علماء سے ملے ہیں ان سب کا یہی مذہب ہے کہ اللہ تعالی اپنے عرش پر اپنی تمام مخلوقات سے الگ ہے اور ویسا ہی ہے جیسا اس نے اپنے لیے وصف کیا بغیر کسی کیفیت و مثال کے۔ اور اس کا علم تمام چیزوں پر محیط ہے۔
5۔ امام ابن عبد البر حافظ المغرب ( المتوفى سنة 463هـ ) اپنی کتاب التمهيد ( 6/ 124) میں حدیث نزول کی شرح میں فرماتے ہیں اور یہ حدیث بہت سے متواتر اور عادل رواۃ سے نبی ز سے منقول ہے، جس میں یہ دلیل ہے کہ اللہ عزوجل ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ اور محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اس دلیل "الرحمن علی العرش استوی" کو معتزلۃ اور جھمیۃ کی بات " کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے" کے رد میں واضح کیا ہے
6۔ امام الحافظ أبو نعيم صاحب الحلية اپنی كتاب محجة الواثقين میں فرماتے ہیں : کہ تمام محدثین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالی تمام آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ اور اس کے اوپر کوئ چیز مستوی نہیں جیسا کہ جھمیۃ کا یہ کہنا کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔
7۔ ابن المبارك رحمه الله ( المتوفى سنه 181هـ ) سے یہ پوچھا گیا کہ ہمارے لیے اللہ کو پہچاننا کس طرح لائیق ہے۔ تو انہوں نے فرمایا: کہ ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش پر۔ اور ہم جھمیۃ کی طرح یہ قطعا نہیں کہیں گے کہ وہ ہر جگہ یعنی یہاں زمین پر بھی موجود ہے۔
8۔ امام الذهبي اپنی کتاب "العلو" کے آخر میں فرماتے ہیں اور اللہ تعالی اپنے عرش کے اوپر ہے جیسا کہ تمام صحابہ تابعین اور تبع تابعین کا اس بات پر اجماع ہے۔ اور بعد میں پیدا ہونے والو ں کا یہ باطل قول ہے کہ اللہ نہ توکسی جگہوں پر ہے اور نہ ان سے باہر، اور نہ ہی وہ اپنے عرش پر ہے، نہ وہ اپنی مخلوقات سے متصل ہے نہ منفصل۔ نہ سمتوں میں ہے نہ سمتوں سے باہر۔ اوریہ بڑی ہی ناسمجھی اور بے عقلی کی بات ہے کہ وہ نہ اس میں ہے نہ اس میں ہے نہ یہاں ہے نہ وہاں ہے۔ اور پھر یہ بات ویسے بھی بے شمارر آیا ت و احادیث کے مخالف ہے۔
پس جو یہ کہتا ہے کہ اللہ ہر جگہ ہے وہ دراصل اس بات کی نفی کرتا ہے کہ وہ اپنے عرش پر سب سے بلند ہے۔ تو اس کا یہ کہنا نہ صرف قول باطل ہے بلکہ اللہ کے ساتھ کفر کرنا بھی ہے۔ کیونکہ اس باطل قول سے حلول اور مخلوقات کے ساتھ امتزاج جیسے کفریہ عقیدہ کا اثبات ہوتا ہے۔
اسی لیے اما م ابن خزیمۃ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو اس بات کا انکار کرے کہ اللہ تعالی ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے اسے توبہ کرنی چاہیے۔ پس اگر تو وہ توبہ کرلے تو بہتر ورنہ اس کی گردن اڑا دی جائے اور اسے سر عام لٹکا دیا جائے تاکہ اہل علاقہ اس سے عبرت حاصل کریں۔
اور جو یہ کہے کہ اللہ تعالی اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے تویہی حق ہے۔ اور اسے اس بات کو واضح کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی اپنے علم و ادراک کے لحاظ سے ہر جگہ ہے مگر اپنی ذات کے لحاظ سے ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنی تمام تر مخلوقات سے الگ اپنے عرش پر مستوی ہے۔ تاکہ اسکی بات حلول کے کفریہ عقیدۃ سے مشابہت نہ کرے۔ اور یہی اصل معنی ہے "وھو معکم این ما کانوا " کا کہ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی ہو تم ہو۔
اور اللہ رب العزت کا یہ فرمان:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿٧﴾ سورۃ المجادلۃ
کہ
" کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وه ہوتا ہے اور نہ اس سے کم کی اور نہ زیاده کی مگر وه ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وه ہوں، پھر قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال سے آگاه کرے گا بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے "
اس آیت سے مراد اللہ کا اپنے علم کے لحاظ سے ہر کسی کے ساتھ ہونا ہے جیسا کہ آیت کہ آخری حصہ إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ سے بھی واضح ہے۔
امام مالک بن انس رحمہ اللہ سے صحیح مروی ہے کہ اللہ تعالی ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے اور اسکا علم ہر جگہ ہے۔ اس سے کوئ چیز اوجھل نہیں۔ امام أبو عمرو الطلمنكي فرماتے ہیں کہ تمام مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت سے مراد علم ہے۔
القاضي أبو بكر الباقلاني اپنی کتاب الإبانة میں لکھتے ہیں کہ کیا تم اس آیت سے یہ مراد لو گے کہ اللہ تعالی ہر جگہ ہے؟ معاذاللہ بلکہ وہ تو اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا کہ خود اس نے قرآن مجید میں فرما دیا "الرحمن علی العرش استوی" اور اسی طرح قرآن کی وہ تمام آیات جو اوپر مذکور ہیں اسی بات پر دلالت کرتی لیں۔
اور اگر ہم یہ کہیں کہ وہ ہر جگہ ہے تو معاذاللہ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ وہ ہمارے پیٹ میں ہے۔ ہماری گندگی میں ہے، ہمارے پائوں کے نیچے ہے۔ والعیاذ باللہ۔
لہذا ہمیں اللہ رب العزت کی وہ تمام صفات ویسے ہی ماننا ہوں گی جیسا کہ اس نے بیان کیں۔ بغیر کسی تشبیہ اور تاویل کے۔ جیسا کے اللہ کے ہاتھ ہیں، اللہ کے پائوں ہیں۔ اللہ کی پنڈلی ہے۔ اللہ سنتا ہے، دیکھتا ہےلیکن جیسے اسکے شایان شان ہے۔ ہم نہیں کہ سکتے کہ کیسے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا " لیس کمثلہ شئی" اس جیسی کوئ چیز نہیں۔
جسے اہل سنت والجماعت کے عقیدہ اور ان کے دلائیل کا تفصیلی مطالعہ کرنا ہو وہ درج ذیل کتب کا مطالعہ کرے۔
1- كتاب الإيمان والتوحيد لابن منده .
2- الإبانة لابن بطة العكبري.
3- التوحيد لابن خزيمة.
4- كتاب أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للطبري اللالكائي.
5- كتاب الإبانة للإمام أبي الحسن الأشعري .
6- كتاب العلو للحافظ الذهبي.
7- كتاب الفتوى الحموية لابن تيمية.
8- كتاب اجتماع الجيوش الإسلامية لابن القيم.
اللہ رب العزت ہمیں قرآن و سنت کوسمجھنے اور اسکے مطابق اپنا عقیدہ درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
http://fitna-kufi.com/Kia-Allah-Har-Jagah-mojood-hay.html
علو الله على خلقه واستوائه على العرش (3) : أقوال العلماء بعد عهد السلف • موقع عقيدة السلف الصالح
اللہ رب العزت نے قرآن کے مختلف مقامات پر اس بات کو واضح کیا۔
1۔ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ سورۃ الاعلی آیت 1
" اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر "
2۔ يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩ ﴿50﴾ سورۃ النحل آیت 50
" اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے، کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں "
اور پھر 6 مختلف مواقع پہ فرمایا:
3۔ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ
سورۃ الاعراف آیت 54
سورۃ یونس آیت 3
سورۃ الرعد آیت 2
سورۃ الفرقان آیت 59
سورۃ السجدہ آیت 4
سورۃ الحدید آیت 4
" پھر عرش پر مستوی ہوا"
4۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ۔۔ سورۃ فاطر آیت 10
" تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے، "
5۔ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿158﴾ سورۃ النساء آیت 158
" بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں واﻻ ہے "
6۔ أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ ﴿16﴾ سورۃ الملک آیت 16
" کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے بےخوف ہو کہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور وہ اس وقت حرکت کرنے لگے "
یہاں آسمان کا مطلب بلندی یا وہ معروف آسمان جو اوپر ہیں۔ اسی طرح یہاں "فی" "علی" کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی "فی السماء" کا مطلب" آسمان میں" نہیں بلکہ" آسمان کے او پر "ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نہ تو کسی چیز سے محصور ہے اور نہ وہ اپنی مخلوقات میں سے کسی چیز کے اندر داخل ہے۔ اسکی مثال سورۃ الانعام کی آیت نمبر 11 میں اللہ نے فرمایا "قل سیروا فی الارض" یعنی زمین پر چلو نہ کہ زمین میں چلو۔ اور یہ واضح ہے کے انسان زمین کے اوپر ہی چلتا ہے نہ کی زمین کے اندر۔ جسطرح یہاں فی کامطلب علی استعمال ہوا ہے اسی طرح اوپر کی آیت میں بھی فی کا معنی علی استعمال ہوا ہے۔ اسکی دوسری مثال سورۃ طہ میں جو اللہ تعالی نے فرعون کی بات نقل کرتے ہوے فرمایا کہ " وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ" "میں تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھا دوں گا" میں بھی "فی" "علی" کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اب ہم احادیث رسول ز کی روشنی میں اس عقیدے کو واضح کرتے ہیں۔
1۔ صحیح مسلم میں معاویہ بن الحکم السلمی کی وہ روایت جس میں انہوں نے رسول اللہ ز سے اپنی لونڈی کو آزاد کرنے کا پوچھا تو آپ ز نے فرمایا کہ اسے میرے پاس لاؤ۔ آپ ز نے اس لونڈی سے پوچھا کہ "اللہ کہاں ہے؟" تو اس نے کہا کہ آسمان پر۔ پھر آپ ز نے پوچھا کہ "مین کون ہوں" تو اس نے کہا کہ اللہ کے رسول۔ تب آپ ز نے فرمایا۔ اسے آزاد کر دو۔ بے شک یہ مومنہ ہے۔
یہی حدیث 15 مختلف روایات میں موجود ہےجن میں سے چند یہ ہیں۔
صحیح مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِه حدیث نمبر 836
سنن ابی دائود، حدیث نمبر795 بَاب تَشْمِيتِ الْعَاطِسِ فِي الصَّلَاةِ
سنن نسائ، حدیث نمبر 1203، باب الْكَلَامُ فِي الصَّلَاةِ
2۔ حضرت جابر بن عبداللہ ر نے فرمایا کہ رسول اللہ ز نے عرفۃ کے دن اپنے خطبہ میں فرمایا۔ کہ لوگو، کیا میں نے اللہ کا پیغام پنہچا دیا؟ تو سب نے کہا جی ہاں، پھر آپ ز اپنی انگلی مبارک کو آسمان کی طرف اٹھاتے اور پھر لوگوں کی طرف کرتے ہوے فرماتے "اے اللہ تو گواہ ہو جا"
صحیح مسلم، حدیث نمبر 2137 باب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
3۔ حضرت ابو ھریرۃ ر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ز نے فرمایا کہ فرشتے آگے پیچھے زمین پر آتے جاتے ہیں۔ ان میں کچھ رات کے فرشتے ہیں اور کچھ دن کے۔ یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جنہوں نے تمہارے پاس رات گذاری ہو اسکی طرف "یعنی اللہ کی طرف" اوپر چڑھتے ہیں۔ پھر اللہ ان سے پوچھتاہے۔ حالانکہ وہ خود جانتا ہے۔ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ فرشتے کہتے ہیں۔ جب ہم ان کے پاس گئے تو انہیں نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ اور جب ہم نے انہیں چھوڑا تو بھی نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر 2983، باب ذکر الملائیکۃ، کتاب بدء الوحی۔
4۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص ر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ز نے فرمایا۔ زمین والوں پر تم رحم کرو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔
سنن ابی دائود، حدیث نمبر ۴۲۹۰، باب فی الرحمۃ، کتاب الادب۔
5۔ حضرت انس ر فرماتے ہیں کہ حضرت زینب بنت جحش اس بات پر فخر کیا کرتی تھیں کہ میری شادی ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اللہ رب العزت نے کروائ ہے۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر6870، باب وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ، کتاب التوحید۔
6۔ حضرت ابی سعید الخدری ر فرماتے ہیں کہ ایک موقعہ پر رسول اللہ ز نے فرمایا، کیا تم مجھے امین تسلیم نہیں کرتے؟ حالانکہ مجھے اس نے امین تسلیم کیا جو آسمان پر ہے۔ میرے پاس آسمان سے خبر صبح و شام آتی ہے۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر 4004، باب حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنھما کو یمن بھیجنا۔ کتاب المغازی۔
7۔ حضرت ابو ھریرۃ ر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ز نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر کسی عورت کا خاوند اسے اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے تو آسمان کے اوپر والا اس عورت پر اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اسکا خاوند اس سے راضی نہ ہو جائے۔
صحیح مسلم، حدیث نمبر 2595، باب تَحْرِيمِ امْتِنَاعِهَا مِنْ فِرَاشِ زَوْجِهَا، کتاب النکاح۔
8۔ رسول اللہ ز کا معراج کا واقعۃ جس میں آپ ز نے فرمایا کہ پھر مجھے ساتوں آسمانوں کے اوپر لے جایا گیا۔ سدرۃ المنتھی کے پاس۔ وہاں میں نے اللہ کو سجدہ کیا۔ پھر اللہ نے پچاس نمازوں کا حکم دیا۔ الی آخرہ۔
سنن نسائی۔ حدیث نمبر 446۔ کتاب الصلاۃ، باب فَرْضُ الصَّلَاةِ وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ فِي إِسْنَادِ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاخْتِلَافُ أَلْفَاظِهِمْ فِيه۔
9۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ر کا حضرت عائیشہ رضی اللہ عنہا سے یہ کہنا کہ اللہ نے آپکی براءت ساتوں آسمانوں کے اوپر سے نازل کی ہے۔
مسند احمد، حدیث نمبر 2366۔
10۔ رسول اللہ ز کا سعد بن معاذ ر کو بنی قریظہ کے درمیان فیصلہ کرنے پر یہ فرمانا کہ یہی فیصلہ اللہ کا ساتوں آسمانوں کے اوپر سے ہے۔
السنن الکبری للبیہقی، باب أخذ السلاح وغيره بغير اذن الامام، جلد ۹ ص ۶۳۔
اور یہی عقیدہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین و تبع تابعین سے ثابت ہے۔ اور ان اثبات میں سے حضرت عبد اللہ بن رواحۃ کی طرف منسوب وہ شعرہمارے لیے کافی ہے کہ:
شهدت بأن وعد الله حق ... وأن النار مثوى الكافرينا
وأن العرش فوق الماء حق ... وفوق العرش رب العالمينا
وتحمله ملائكة غلاظ ... ملائكة الإله مسومينا
الكتاب : الإستيعاب في معرفة الأصحاب لابن عبدالبر جلد ۱ ص ۲۵۵
میں نے گواہی دی کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ کافروں کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے۔ اور یہ حق ہے کہ اسکا عرش پانی پر تھا۔ اور یہ کہ عرش کے اوپر رب العالمین ہے۔ اور اس معبود کے عرش کو بہت ہی مکرم اور اس کے مقرب فرشتے اٹھائے ہوے ہیں۔
اور جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو اسے بے شمار آئیمۃ مسلمین نے بیان کیا ہے۔
1۔ امام اوزاعی ( المتوفى سنة 157هـ ) فرماتے ہیں کہ ہم اور دیگر بہت سے متبعین سنت یہی کہتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالی اپنے عرش پر مستوی ہے اور ہم اسکی تمام ثابت شدہ صفات اسی طرح مانتے ہیں جس طرح وہ وارد ہیں۔
2۔ امام عثمان بن سعید الدارمی فرماتے ہیں کہ تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالی آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔
3۔ الإمام قتيبة بن سعيد ( المتوفى سنه 240هـ) فرماتے ہیں: کہ آئیمہ اسلام اور اھل السنۃ والجماعۃ کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالی ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش پر ہے جیسا کہ اس نے قرآن میں فرمایا " الرحمن علی العرش استوی"
4۔ امام أبو زرعة الرازي ( المتوفى سنة 264هـ ) اور امام أبو حاتم فرماتے ہیں: کہ ہم جتنے بھی علماء سے ملے ہیں ان سب کا یہی مذہب ہے کہ اللہ تعالی اپنے عرش پر اپنی تمام مخلوقات سے الگ ہے اور ویسا ہی ہے جیسا اس نے اپنے لیے وصف کیا بغیر کسی کیفیت و مثال کے۔ اور اس کا علم تمام چیزوں پر محیط ہے۔
5۔ امام ابن عبد البر حافظ المغرب ( المتوفى سنة 463هـ ) اپنی کتاب التمهيد ( 6/ 124) میں حدیث نزول کی شرح میں فرماتے ہیں اور یہ حدیث بہت سے متواتر اور عادل رواۃ سے نبی ز سے منقول ہے، جس میں یہ دلیل ہے کہ اللہ عزوجل ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ اور محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اس دلیل "الرحمن علی العرش استوی" کو معتزلۃ اور جھمیۃ کی بات " کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے" کے رد میں واضح کیا ہے
6۔ امام الحافظ أبو نعيم صاحب الحلية اپنی كتاب محجة الواثقين میں فرماتے ہیں : کہ تمام محدثین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالی تمام آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ اور اس کے اوپر کوئ چیز مستوی نہیں جیسا کہ جھمیۃ کا یہ کہنا کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔
7۔ ابن المبارك رحمه الله ( المتوفى سنه 181هـ ) سے یہ پوچھا گیا کہ ہمارے لیے اللہ کو پہچاننا کس طرح لائیق ہے۔ تو انہوں نے فرمایا: کہ ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش پر۔ اور ہم جھمیۃ کی طرح یہ قطعا نہیں کہیں گے کہ وہ ہر جگہ یعنی یہاں زمین پر بھی موجود ہے۔
8۔ امام الذهبي اپنی کتاب "العلو" کے آخر میں فرماتے ہیں اور اللہ تعالی اپنے عرش کے اوپر ہے جیسا کہ تمام صحابہ تابعین اور تبع تابعین کا اس بات پر اجماع ہے۔ اور بعد میں پیدا ہونے والو ں کا یہ باطل قول ہے کہ اللہ نہ توکسی جگہوں پر ہے اور نہ ان سے باہر، اور نہ ہی وہ اپنے عرش پر ہے، نہ وہ اپنی مخلوقات سے متصل ہے نہ منفصل۔ نہ سمتوں میں ہے نہ سمتوں سے باہر۔ اوریہ بڑی ہی ناسمجھی اور بے عقلی کی بات ہے کہ وہ نہ اس میں ہے نہ اس میں ہے نہ یہاں ہے نہ وہاں ہے۔ اور پھر یہ بات ویسے بھی بے شمارر آیا ت و احادیث کے مخالف ہے۔
پس جو یہ کہتا ہے کہ اللہ ہر جگہ ہے وہ دراصل اس بات کی نفی کرتا ہے کہ وہ اپنے عرش پر سب سے بلند ہے۔ تو اس کا یہ کہنا نہ صرف قول باطل ہے بلکہ اللہ کے ساتھ کفر کرنا بھی ہے۔ کیونکہ اس باطل قول سے حلول اور مخلوقات کے ساتھ امتزاج جیسے کفریہ عقیدہ کا اثبات ہوتا ہے۔
اسی لیے اما م ابن خزیمۃ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو اس بات کا انکار کرے کہ اللہ تعالی ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے اسے توبہ کرنی چاہیے۔ پس اگر تو وہ توبہ کرلے تو بہتر ورنہ اس کی گردن اڑا دی جائے اور اسے سر عام لٹکا دیا جائے تاکہ اہل علاقہ اس سے عبرت حاصل کریں۔
اور جو یہ کہے کہ اللہ تعالی اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے تویہی حق ہے۔ اور اسے اس بات کو واضح کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی اپنے علم و ادراک کے لحاظ سے ہر جگہ ہے مگر اپنی ذات کے لحاظ سے ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنی تمام تر مخلوقات سے الگ اپنے عرش پر مستوی ہے۔ تاکہ اسکی بات حلول کے کفریہ عقیدۃ سے مشابہت نہ کرے۔ اور یہی اصل معنی ہے "وھو معکم این ما کانوا " کا کہ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی ہو تم ہو۔
اور اللہ رب العزت کا یہ فرمان:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿٧﴾ سورۃ المجادلۃ
کہ
" کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وه ہوتا ہے اور نہ اس سے کم کی اور نہ زیاده کی مگر وه ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وه ہوں، پھر قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال سے آگاه کرے گا بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے "
اس آیت سے مراد اللہ کا اپنے علم کے لحاظ سے ہر کسی کے ساتھ ہونا ہے جیسا کہ آیت کہ آخری حصہ إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ سے بھی واضح ہے۔
امام مالک بن انس رحمہ اللہ سے صحیح مروی ہے کہ اللہ تعالی ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے اور اسکا علم ہر جگہ ہے۔ اس سے کوئ چیز اوجھل نہیں۔ امام أبو عمرو الطلمنكي فرماتے ہیں کہ تمام مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت سے مراد علم ہے۔
القاضي أبو بكر الباقلاني اپنی کتاب الإبانة میں لکھتے ہیں کہ کیا تم اس آیت سے یہ مراد لو گے کہ اللہ تعالی ہر جگہ ہے؟ معاذاللہ بلکہ وہ تو اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا کہ خود اس نے قرآن مجید میں فرما دیا "الرحمن علی العرش استوی" اور اسی طرح قرآن کی وہ تمام آیات جو اوپر مذکور ہیں اسی بات پر دلالت کرتی لیں۔
اور اگر ہم یہ کہیں کہ وہ ہر جگہ ہے تو معاذاللہ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ وہ ہمارے پیٹ میں ہے۔ ہماری گندگی میں ہے، ہمارے پائوں کے نیچے ہے۔ والعیاذ باللہ۔
لہذا ہمیں اللہ رب العزت کی وہ تمام صفات ویسے ہی ماننا ہوں گی جیسا کہ اس نے بیان کیں۔ بغیر کسی تشبیہ اور تاویل کے۔ جیسا کے اللہ کے ہاتھ ہیں، اللہ کے پائوں ہیں۔ اللہ کی پنڈلی ہے۔ اللہ سنتا ہے، دیکھتا ہےلیکن جیسے اسکے شایان شان ہے۔ ہم نہیں کہ سکتے کہ کیسے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا " لیس کمثلہ شئی" اس جیسی کوئ چیز نہیں۔
جسے اہل سنت والجماعت کے عقیدہ اور ان کے دلائیل کا تفصیلی مطالعہ کرنا ہو وہ درج ذیل کتب کا مطالعہ کرے۔
1- كتاب الإيمان والتوحيد لابن منده .
2- الإبانة لابن بطة العكبري.
3- التوحيد لابن خزيمة.
4- كتاب أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للطبري اللالكائي.
5- كتاب الإبانة للإمام أبي الحسن الأشعري .
6- كتاب العلو للحافظ الذهبي.
7- كتاب الفتوى الحموية لابن تيمية.
8- كتاب اجتماع الجيوش الإسلامية لابن القيم.
اللہ رب العزت ہمیں قرآن و سنت کوسمجھنے اور اسکے مطابق اپنا عقیدہ درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
http://fitna-kufi.com/Kia-Allah-Har-Jagah-mojood-hay.html
علو الله على خلقه واستوائه على العرش (3) : أقوال العلماء بعد عهد السلف • موقع عقيدة السلف الصالح