محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,803
- پوائنٹ
- 1,069
بسم الله الرحمن الرحيم
عید کا تہوار اور خوشی بانٹنے کے اسباب وذرائع
تحریر: ڈاکٹر شیخ صالح بن حمید
ترجمہ: ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق
عید کا تہوار اور خوشی بانٹنے کے اسباب وذرائع
تحریر: ڈاکٹر شیخ صالح بن حمید
ترجمہ: ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق
رمضان 1436 ہ کا مہینہ تقریبا ختم ہونے والا ہے , چند دن اور باقی ہیں, اس وقت پوری دنیا کے مسلمان عید اور اس کی خوشی منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں, لہذا اس مناسبت سے یہ تحریر پیش کی جا رہی ہے تاکہ ہمارے مسلمان بھائی اپنی عید کی خوشی کو اور دو بالا کرسکیں اور خوشی منانے اور ایک دوسرے کے ساتھ خوشی کو شیر کرنےکے اسباب و ذرائع اور اس کی اہمیت سے واقف ہو سکیں, اللہ تعالى دنیا کے تمام مسلمانوں کو عید کی خوشیاں نصیب فرمائے, آمیں
اللہ سب سے بڑا ہے,ہمارے رب کی عزت وعظمت باعتبار غلبہ وسلطنت بلند ہے۔ہر طرح کی بہت زیادہ اچھی اور بابرکت تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے بخشش اور احسان کے طور پر ہمارے اوپر اپنی کامل نعمتوں کا فیضان کیا ہے, اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ہمارے رب کے فضل واحسان کی وجہ سے اس کی بہت زیادہ تعریف ہے, ساري تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تعریف،بزرگی اور ثنا کے لائق ہے،جس سے معافی،بخشش اور درگزر کی امید کی جاتی ہے,میں اس کی تعریف کرتا ہوں جیسا ایک اپنے رب کا عبادت گذار اس کی تعريف کرتا ہے, میں اس کی بڑائی بیان کرتا ہوں جیسا ايك اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے والا اس کی بڑائی کرتا ہے, اور میں اس کی پاکی بیان کرتا ہوں اور اس کا ثنا خواں ہوں جو بلندی میں عزت والا اور آسمان میں جلال والا ہے,جو اس کا ذکرکرتا ہے تو وہ بھی اس کا ذکر کرتا ہے، جو اس کا شکر بجالاتا ہے تو وہ اسے اپنی نعمتوں سے مزید نوازتا ہے اور جو اس کے اوپر بھروسہ کرتا ہے تو وہ اس کے لیے کافی ہے,اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے,اسی نے ہر چیز پیدا کی اور پھر اس کی تقدیر بنائی,اسی نے شریعت بنائی اور اسے آسان کیا,میں شکر گزار بندوں کی ثنا کی طرح اس کی ثنا کرتا ہوں،اس سے میں صبر کرنے والوں کی مدد کا سوال کرتا ہوں،ذلیل اور رسواکن عذاب سے اسی کی پناہ چاہتا ہوں۔اس کی اطاعت سب سے بہترین کمائی ہے،اس کا تقوی سب سے اعلی نسب ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودبرحق نہیں ہے،وہ تنہا ہے،اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے،وہ بالکل پاک ہے اور ان باتوں سے بلند ہے جو ظلم کرنے والے اور منکرین اس کے بارے میں کہتے ہیں, اور یہ ایسی گواہی ہے جو اس دن کے لیے ذخیرہ کی گئی ہے جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی اور میں گواہ ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں،اس کے برگزیدہ بندے اور خلیل ہیں اور اس کی مخلوق میں سب سے افضل اور برتر ہیں جو سچی خبر اور ڈرانے والی عبرت لے کر آئے اور جو قیامت کے دن شفاعت فرمانے والے ہیں,آپ پر اللہ کی رحمت،سلامتی اور برکت نازل ہو،آپ کی آل واولاد پر جو پاک باز،روشن اور سردار تھے،آپ کے بابرکت صحابیوں پر جو انسانوں کے سردار تھے،تابعین پر اور اس پر بھی جو اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کرے اور ان کے نقش قدم پر چلے۔
اللہ اکبر،اللہ اکبر،لاالہ الااللہ، واللہ اکبر،اللہ اکبر، وللہ الحمد۔
اللہ أکبر کبیراً،والحمد للہ کثیراً،وسبحان اللہ بکرۃ وأصیلاً۔
اور اللہ تعالیٰ کی رحمت،سلامتی اور برکت نازل ہو آپ پر،آپ کی آل واولاد پر،آپ کے صحابیوں پر اور ان سب پر بہت زیادہ سلامتی ہو ۔
امابعد:اے لوگو!میں سب سے پہلے اپنی ذات کو اور پھر آپ سب کو اللہ کے تقوی کی نصیحت کرتا ہوں۔اللہ آپ سب پر رحم فرمائے۔صرف اللہ ہی سے ڈرو،یقیناً وہ شخص بڑا خوش نصیب اور شرف ومنزلت والا ہے جس نے اپنے گھر میں امن کی حالت میں اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے رات گزاری،اپنی کمائی پر قانع رہا،اس کی تونگری اس کے دل میں ہے, اور جسے یہ یقین ہے کہ یہ دنیا بہت ہی دھوکے باز ہے،اس کی قیمت اتنی بھی نہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے بھی اس پر غم کیا جائے۔جو اس میں سے تھوڑے پر بھی قانع رہا تو ہر مشکل اس کے لیے آسان ہوجاتی ہے۔دنیا میں سعادت مندی یہ نہیں ہے کہ جو تم کرو اسی کو پسند کرو،صبر بلاشبہ مشقت کی دوا ہے اور اللہ کی محبت اسی کی طرف سے توفیق ہے۔
اللہ أکبر کبیراً،والحمد للہ کثیراً،وسبحان اللہ بکرۃ وأصیلاً
اے مسلمانو!آپ سب کو عید مبارک ہو۔اللہ تعالیٰ آپ کے روزوں،راتوں میں قیام اور دیگر تمام طاعتوں کو شرف قبولیت سے نوازے،مبارک ہو آپ سب کا روزے رکھنا،افطاری کرنا اور مبارک ہو روزہ کے دن کی خوشی اور عید کے دن کی مسرت،اسی طرح آپ سب کا اپنے رب کی طرف تکبیر،تحمید اور تہلیل کے ساتھ متوجہ ہونا بھی مبارک ہو۔
نہ چاہتے ہوئے بھی ہم نے ماہ رمضان کو الوداع کہا،بغیر کسی عداوت و دشمنی کے ہم نے اسے رخصت کیا۔ تمھارا دن صدقہ اور روزہ تھا جب کہ رات تلاوت اور قیام تھی،تم پر تمام مسلمانوں کی طرف سے سلامتی اور دعا ہو۔
اے مسلمان بھائیو!ہماری عید دین اور اطاعت میں رشک کی عید ہے،دنیا میں اور دنیا کی زندگی میں خوشی اور مسرت کی عید ہے،نیک ارادہ کے غلبہ کی مسرت اور شادمانی ہے،اللہ کی اطاعت کی رضامندی ہے اور شیطان کی گمراہی سے دوری ہے۔
ہماری عید ایک دوسرے سے ملاقات،باہم صلہ رحمی،قرابت داری،درگزر،معافی اور دل کی صفائی کی عید ہے جس میں مسلمان اسلام جیسی نعمت پر اپنے رب کی تعریف کرتے ہیں،روزہ وقیام کی توفیق پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور اس کے فضل وانعام پر اس کی بڑائی بیان کرتے ہیں۔
اللہ اکبر،اللہ اکبر،لاالہ الااللہ، واللہ اکبر،اللہ اکبر، وللہ الحمد۔
اے مسلمانوں کی جماعت!انسان فطری طور پر سماجی طبیعت کا ہے۔اللہ نے اسے سماج پسند بنایا ہے۔اسے خورد ونوش ،لباس،رہائش،سواری اور اپنے تمام پیشوں مثلاًکاشتکاری،تجارت،تعلیم،علاج معالجہ،صنعت وحرفت اور دیگر بے شمار ضرورتوں، باہمی تعلقات اور مفادات کے آپسی ربط وتعلق وغیرہ میں ایک دوسرے کا محتاج بناکر پیدا کیا ہے۔اسی وجہ سے انسان کی طبیعت اور اس کے حسناخلاق کا پتا اس کے گردوپیش میں موجود اس کے قرابت داروں،دوستوں اور اجنبیوں کے ساتھ اس کے تعلقات سے ظاہر ہوتا ہے۔لوگوں سے کٹ کر الگ تھلگ رہنا اور اپنی دنیا میں مگن رہنا ایک سلیم الفطرت انسان کی صفت نہیں ہوتی چہ جائے کہ ایک مومن ایسا کرے۔حدیث میں آیا ہے کہ ایک مسلمان جو لوگوں سے ملتا جلتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے،اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں سے ملتا نہیں اور نہ ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جسے احمد،ترمذی،ابن ماجہ اور بیہقی نے ذکر کیا ہے۔ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ لوگوں میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو دوسروں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو۔اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب عمل مسلمان کے دل میں خوشی بکھیرنا اور مسرت کی لہر دوڑانا ہے۔طبرانی کی روایت کے الفاظ ہیں کہ فرائض کی ادائیگی کے بعد اللہ کو سب سے محبوب عمل مسلمانوں کو خوش کرنا ہے۔
ایک بار نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟آپ نے فرمایا:کسی مومن کو خوش کرنا،کسی بھوکے کو کھانا کھلانا یا کسی مومن کے عیب کو چھپانا۔اس حدیث کو طبرانی نے ابن عمرسے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن لغیرہ ہے۔بعض صحابہ سے پوچھا گیا کہ دنیاكى کون سی لذت ہے جو باقی رہ گئی ہے تو ان کا جواب تھا کہ بھائیوں کو خوش کرنا۔امام مالک سے پوچھا گیا کہ آپ کو کون سا عمل محبوب ہے؟انھوں نے جواب دیا کہ مسلمانوں کو خوش کرنا۔
اللہ أکبر کبیراً،والحمد للہ کثیراً،وسبحان اللہ بکرۃ وأصیلاً۔
مسلمان بھائیو!مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے۔جب اس کا ایک عضوبیمار ہوتا ہے تو سارے اعضا کو تکلیف ہوتی ہے اور جب کوئی ایک خوش ہوتا ہے تو سب کو خوشی ہوتی ہے۔ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی خوشی سے خوش ہوتا ہے اور اس کی مسرت وشادمانی میں شریک ہوتا ہے۔اسی طرح اس کے غم کے موقع پر غم گین ہوتا ہے،اسے صبر کی تلقین کرتا ہے،اس سے تعزیت کرتا ہے اور اس کو تسلی دیتا ہے۔
لیجیے!یہ اس سال کی عید ہے جو اس امت پر ایسے وقت میں آئی ہے جب کہ دنیا کے مختلف حصے بحران،مصائب،مشکلات اور فتنوں سے گھرے ہوئے ہیں،اس کے دشمن اس پر ٹوٹ پڑے ہیں اور اس کے اپنے ہی لوگوں نے اس پر ہلہ بول دیا ہے۔لہذا یہ مصیبت زدہ لوگ ہماری ہمدردی اور غم خواری کے شدید ضرورت مند ہیں،ان کو خوش کرنے اور ان کے چہروں پر مسرت وشادمانی بکھیرنے کی اشد ضرورت ہے۔خاص طور پر یتیم بچے،بیوہ عورتیں،بے گھر لوگ،بیگانے،پناہ گزیں،فقراء ومساکین اور کمزور لوگ ہماری توجہ کے کچھ زیادہ ہی حق دار ہیں۔
یہ عید ہماری امت کے بعض علاقوں میں ایسے وقت میں آئی ہے جب کہ وہاں کے لوگ معزز ہونے کے بعد ذلیل ہوگئے ہیں،ان کو طرح طرح کی بدنصیبیوں اورشقاوتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔وہ اس سے پہلے بہت ہی ناز ونعمت میں تھے،زندگی بہت خوش حال تھی لیکن اب خوش حالی کی جگہ آہ وفغاں ہے اور مسرت کی جگہ چیخ وپکار ہے,ان سب کو مومن دلوں،سچی زبانوں،سخی ہاتھوں اور صاف شفاف سینوں کی طرف سے ایک بے لوث توجہ اور نظر کرم کے ذریعے خوش کرنے اور صرف ان کو ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان کو خوش کرنے کی ضرورت ہے۔
سبحاناللہ،والحمد للہ،ولاالہ الااللہ،واللہ أکبر۔
برادران اسلام!یہ بات آپ کے علم میں رہے کہ خوشی ومسرت اور شادمانی کو بکھیرنے والی چیزیں بہت ہیں،ان کو شمار بھی نہیں کیا جاسکتا,تنہا مال ہی خوشی کا ذریعہ اور شادمانی کا سبب نہیں ہے بلکہ حسن سلوک کے دروازے بہت ہی کشادہ ہیں,اس میں اچھی بات چیت،بہترعمل،اچھی عادت اور وجدانی مشارکت سب داخل ہیں,وہ اتنا ہی کشادہ ہے جتنا اللہ کی بے شمار نعمتیں کشادہ ہیں, لہذا یہ سب کے سب خوشی،مسرت اور شادمانی کے ذرائع ہیں۔
اللہ تم سب کا بھلا کرے،تمھاری عید میں برکت عطا فرمائے۔یا درکھو کہ خوشی کا سب سے پہلا اور افضل ذریعہ توحید کا اثبات اور اللہ پر ایمان لانا ہے،اس پر سچا اعتماد اور مکمل بھروسہ کرنا ہے اور تمام معاملات کو اسی کے سپرد کردینا ہے,آدمی اپنی ذات کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ دوسروں سے کوئی امید نہیں رکھے گا،نہ ان سے کسی بدلے اور شکریے کا انتظار کرے گا،اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل اور زبان کو ذکرالٰہی سے آباد رکھے گا،اس کی متنوع نعمتوں اور بخششوں پر غور وفکر کرے گا اور اللہ کی ان ظاہری اور باطنی نعمتوں کا بیان واظہار کرے گا,انسان کی زندگی اس کے طریقہ فکر اور انداز فہم سے عبارت ہے،اگر وہ خوش رہنے والا،اچھی امیدیں رکھنے والا،ہنس مکھ اور مثبت طرز فکر کا حامل مومن ہے تو وہ یقیناًخوش وخرم اور مسرور وشادماں ہوگا۔
اللہ اکبر،اللہ اکبر،لاالہ الااللہ، واللہ اکبر،اللہ اکبر، وللہ الحمد۔
اسی طرح خوشی کا ایک ذریعہ اپنے بھائیوں سے ملاقات کے وقت خوشی ومسرت کا اظہار کرنا ہے،تیوری چڑھانے اور ترش روئی اختیار کرنے سے اجتناب ہے کیوں کہ اپنے مومن بھائی سے مسکراکر ملنا بھی صدقہ ہے۔
اللہ آپ کی حفاظت فرمائے۔یادرکھئے کہ مسکراہٹ،وقار،خشوع اور مخلصانہ عبادت کے منافی نہیں ہے۔ابوایوب سختیانی رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ راتوں کو بہت زیادہ رونے والے اور دن کے اوقات میں بہت زیادہ مسکرانے والے تھے,ان کے بارے میں ان کے دوستوں کا کہنا تھا کہ ہم نے ان سے زیادہ کسی کو لوگوں کے سامنے مسکرانے والا نہیں دیکھا,لہذا مسکرانا بھی دوسروں کو خوشی دینے کا ایک ذریعہ ہے جو شادمانی کی خوشبو بکھیرتا ہے،فضا کو خوش گوار بناتا ہے اوررنج وغم کو ختم کرتا ہے,ہمارے نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ بلا شبہ تمھارا مال لوگوں کے لیے کفایت نہیں کرے گا بلکہ تمھارے پاکیزہ اخلاق اور تمھاری بشاشت ان کے لیے کافی ہوگی۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اسلامی اخلاق یہی ہے,اس کا اعلی مقام یہ ہے کہ آدمی رات میں رونے والا اور دن میں مسکرانے والا ہو,انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص ترش رو اور تیوری چڑھانے والا ہو اسے مسکرانا چاہئے،اپنے اخلاق کو اچھا بنانا چاہئے اور اپنی بدخلقی پر اپنے نفس کو ملامت کرنا چاہئے۔
اللہ آپ سب کو اپنی برکتوں سے نوازے۔کیا ہی بہتر ہوگا جب مسکراکر کوئی اچھی بات کہی جائے کیوں کہ اچھی اور عمدہ بات صدقہ ہے,ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اور میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اچھی بات کہیں۔“(الاسراء:۳۵)۔
اسی حکم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ چھوٹے دکانداروں کی رعایت کرتے ہوئے خرید وفروخت کے موقع پر زیادہ بھاؤ تاؤ اور زیادہ تلاش وجستجو چھوڑ دی جائے تاکہوہ خوش ہوجائیں اور اس عظیم مقصد کے پیش نظر چند درہموں سے دست برداری اختیار کرلی جائے,لہذا۔للہ آپ سب پر رحم فرمائے۔مسکراؤ اور خوشیاں بکھیرو اور اپنے خوش کن جذبات کا اظہار کرو۔
خوشی دینے والی چیزوں میں سے ایک چیز مبارک باد دینا بھی ہے,اور وہ دعا اور مبارک بادی کے کلمات کے ساتھ شریک ہونا ہےجس سے تمھارا بھائی خوش ہو اور فرحت محسوس کرے,مبارک بادی میں جو آپسی محبت،رحمت اور شفقت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے,مبارک بادی دلی محبت،سینے کی صفائی اور حسد سے دوری کی دلیل ہے,تمھارا اپنے بھائی کو ملنے والی کسی نعمت مثلاً کامیابی،سلامتی،فائدہ،ملازمت کا حصول،بچے کی ولادت،نئے گھر کی تعمیر اور دیگر خوش نصیبی والی چیزوں میں شریک ہونا مبارک بادی میں داخل ہے۔
طبرانی نے مسند الشامیین اور خرائطی نے اپنی مسند میں پاکیزہ اخلاق کے باب میں عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی روایت ذکر کی ہے کہ
نبی اکرم ﷺ نے سوال کیا کہ کیا تمھیں پڑوسی کے حقوق معلوم ہیں؟پھر آپ نے خود ہی فرمایا:جب وہ مدد طلب کرے تو تم اس کی مدد کرو،قرض مانگے تو اس کو قرض دو،اس کو کوئی بھلائی اور خوشی حاصل ہو تو اسے مبارک باد دو اور اگر اس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو اس كى تعزیت کرو۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں حضرت کعب بن مالک کے توبہ کے واقعے میں مذکور ہے کہ لوگ ان کے پاس فوج درفوج امڈتے ہوئے چلے آ رہے تھے,اللہ کے ذریعے ان کی توبہ قبول کیے جانے پر وہ انھیں مبارکباد پیش کررہے تھے,حضرت کعب کہتے ہیں کہ اسی درمیان طلحہ بن عبیداللہ دوڑتے ہوئے آئے،مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی,اللہ کی قسم!ان کے علاوہ مہاجرین میں سے کوئی میرے پاس نہیں آیا,میں نے طلحہ کے اس مخلصانہ کردار کو ہمیشہ یاد رکھا اور کبھی نہیں بھولا,حضرت کعب مزید کہتے ہیں کہ جب میں نے نبی اکرم ﷺ سے سلام کیا تو آپ کا چہرہ مبارک خوشی سے چمک رہا تھا,آپ نے فرمایا:خوش ہوجاؤ،آج کا یہ دن تمھاری زندگی کا سب سے بہترین دن ہے۔
یاد رکھو کہ جن تقریبات میں بہت زیادہ مبارک باد پیش کرنا چاہئے،ان میں سب سے اہم تقریب یہ عیدالفطر کی مبارک تقریب ہے,آپ سب کو عید مبارک ہو،اللہ آپ کے روزوں کو قبول فرمائے اور ہماری ملت پر غلبہ،نصرت اور عزت کے ساتھ دوبارہ اسے واپس لائے۔
محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں ابوامامہ باہلی اور ان کے علاوہ نبی اکرم ﷺکے دوسرے بعض ساتھیوں کے ساتھ رہا ہوں،وہ جب عید سے واپس لوٹتے تو ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ اللہ ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے۔امام احمد فرماتے ہیں کہ ابوامامہ کی اس حدیث کی سند اچھی ہے۔
حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کرام جب عید کے دن آپس میں ملتے تو ایک دوسرے سے کہتے کہ اللہ ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے۔اس حدیث کی سند حسن ہے۔
اللہ أکبر کبیراً،والحمد للہ کثیراً،وسبحان اللہ بکرۃ وأصیلاً۔
اے دوستوں کی جماعت!جان لو کہ خوشی دینے اور مسرت بہم پہنچانے کا ایک ذریعہ آپس میں تحائف کا تبادلہ ہے۔ایک دوسرے کو تحفے اور ہدیے دیا کرو۔اس سے تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگوگے کیوں کہ ہدیہ تعلقات کو مضبوط بناتا ہے اور دلوں سے بغض وکدورت کو ختم کرتا ہے۔
امام طبرانی نے اپنی اوسط میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے،وہ فرماتی ہیں کہ اے مومنوں کی بیویاں!آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو،اگرچہ وہ بکری کے کھر کا کنارہ ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ ہدیہ محبت کو بڑھاتا اور کینہ کپٹ کو دور بھگاتا ہے۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک دھاری دار کپڑا لایا گیا۔آپ نے پوچھا کہ ام خالد کہاں ہیں؟وہ حضرت ابوالعاص کی بیٹی تھیں اور بہت چھوٹی تھیں,ان کی ولادت حبشہ میں ہوئی تھی۔بچی کو نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا,آپ وہ کپڑا اسے خود پہنانے لگے۔بچی اس دھاری دار کپڑے کوبڑی خوشی سے دیکھ رہی تھی,جب آپ اسے کپڑا پہنا چکے تو اس کی رنگین دھاریوں کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے کہ اے ام خالد!یہ سنا ہے۔اے ام خالد!یہ سنا ہے۔حبشی زبان میں سنا خوبصورت کو کہتے ہیں,میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان،یہ سب کچھ آپ نے محض اس چھوٹی بچی کو خوش کرنے کے لیے کیا تھا تاکہ اس کے معصوم بچپن کے احساسات وجذبات میں آپ بھی شریک ہوجائیں۔
ایک دوسرا واقعہ ہے کہ اسلاف میں سے کسی کا گزر کھیل میں مصروف بچوں کے پاس سے ہوا,بچوں کو دیکھ کر وہ واپس گئے اور ان کے لیے مٹھائی خرید لائے اور پھر اسے بچوں میں تقسیم کردیا,جب ان سے اس کی وجہ دریافت کی گئی تو ان کا جواب تھا کہ میں اس طرح کے کاموں سے ثواب کماتا ہوں اور خوشیاں بانٹتا ہوں اور یہ بچے بہت تھوڑے پیسوں میں خوش ہوجاتے ہیں۔
دوسروں کو خوش کرنے کے کئی ایک ذرائع اور بھی ہیں جیسے اپنے بھائی کی دعوت قبول کرنا،اس سے ملاقات کرنے جانا،ملاقات کرکے،خط وکتابت کرکے یا ٹیلی فون کرکے اس کا حل چال معلوم کرنا،اس کی خوشیوں اور تقریبات میں شریک ہونا اور اس سے ہنسی مذاق اور لطائف کا تبادلہ کرناکیوں کہ مذاق رذالت ا ور کمینگی کے تکلف سے بہت بہتر ہے۔
ہمارے نبی کریم ﷺ کبھی تنہا خوشی نہیں مناتے تھے,آپ کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ اپنے صحابہ کو بھی اپنی خوشی میں شریک کریں,دجال سے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ تمیم میرے پاس آئے اور انھوں نے مجھے ایسی بات بتائی جسے سن کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں قیلولہ نہ کرسکا اور میں نے چاہا کہ تم بھی اپنے نبی کی خوشی میں شریک ہوجاؤ,اللہ کی رحمت اورسلامتی ہو آپ پر اور میرے ماں باپ آپ پر قربان۔
اسی طرح اس واقعہ کو یاد کیجئے جب ایک شخص نے اپنے بوڑھے والدین کو تنہا چھوڑ کر جہاد میں جانے کا ارادہ کیا،جس سے اس کے والدین رونے لگے اور ان کی خوشیاں ختم ہوگئیں,جب آپ ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے اس کو حکم دیا کہ اپنے والدین کے پاس واپس چلاجائے اور آپ نے اس سے کہا کہ ان کے پاس جاکر انھیں اسی طرح ہنساؤ جس طرح تم نے انھیں رلایا ہے۔
اللہ أکبر کبیراً،والحمد للہ کثیراً،وسبحان اللہ بکرۃ وأصیلاً۔