ہدایت اللہ فارس
رکن
- شمولیت
- فروری 21، 2019
- پیغامات
- 53
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 56
قارئین کرام!
اس بات سے ہم مسلمان اچھی طرح واقف ہیں اور ہمارا اس پر قوی اعتقاد ہے کہ اللہ تعالی کے لیے کوئی چیز مشکل نہیں (إن الله على كل شيء قدير)، لیکن اس کا غلط فائدہ نکال کر اللہ تعالی یا اس کے رسولﷺ کی طرف کسی ایسی چیز کو منسوب کردینا جس کا تعلق کتاب وسنت سے نہیں ہے تو یہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان میں ایک طرح سے خیانت ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ غار میں مکڑی کا جالا بننا اور کبوتری کا اس پر انڈے دینا یہ واقعہ عوام الناس بلکہ علماء کے مابین بھی مشہور تو ہے پر حقیقتاً یہ روایت غیر معتبر ہے۔
هيثمى اسے مجمع ٦/ ٥٣ میں امام بزار اور طبرانی کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں " اس کی سند میں کچھ راویوں کو میں نہیں جانتا ہوں" اسے ابن سعد نے الطبقات: ١/ ٢٢٩ میں روایت کیا ہے۔اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے, الضعيفة : ١١٢٨
اس کے بالمقابل صحیح روایت وہی ہے جسے امام بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے کہ جب مشرکین آپﷺ کا تعاقب کرتے ہوئے غار ثور کے بالکل سامنے کھڑے ہوگئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھ لیا تو وہ ہمیں دیکھ لیں گے!!
تب اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ "لا تحزن إن الله معنا"
صحیح بخاری : ٣٦٥٣ صحیح مسلم : ٢٣٨١
اس روایت سے معاملہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ کفار غار تک پہنچ تو گیے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے غار پر سے ان کا دھیان ہٹا دیا تھا۔
یہی روایت اوپر والی روایت کی تردید بھی کرتی ہے جو کہ حدیث کے الفاظ سے واضح ہے۔۔۔
(ہدایت اللہ فارس)
اس بات سے ہم مسلمان اچھی طرح واقف ہیں اور ہمارا اس پر قوی اعتقاد ہے کہ اللہ تعالی کے لیے کوئی چیز مشکل نہیں (إن الله على كل شيء قدير)، لیکن اس کا غلط فائدہ نکال کر اللہ تعالی یا اس کے رسولﷺ کی طرف کسی ایسی چیز کو منسوب کردینا جس کا تعلق کتاب وسنت سے نہیں ہے تو یہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان میں ایک طرح سے خیانت ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ غار میں مکڑی کا جالا بننا اور کبوتری کا اس پر انڈے دینا یہ واقعہ عوام الناس بلکہ علماء کے مابین بھی مشہور تو ہے پر حقیقتاً یہ روایت غیر معتبر ہے۔
هيثمى اسے مجمع ٦/ ٥٣ میں امام بزار اور طبرانی کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں " اس کی سند میں کچھ راویوں کو میں نہیں جانتا ہوں" اسے ابن سعد نے الطبقات: ١/ ٢٢٩ میں روایت کیا ہے۔اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے, الضعيفة : ١١٢٨
اس کے بالمقابل صحیح روایت وہی ہے جسے امام بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے کہ جب مشرکین آپﷺ کا تعاقب کرتے ہوئے غار ثور کے بالکل سامنے کھڑے ہوگئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھ لیا تو وہ ہمیں دیکھ لیں گے!!
تب اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ "لا تحزن إن الله معنا"
صحیح بخاری : ٣٦٥٣ صحیح مسلم : ٢٣٨١
اس روایت سے معاملہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ کفار غار تک پہنچ تو گیے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے غار پر سے ان کا دھیان ہٹا دیا تھا۔
یہی روایت اوپر والی روایت کی تردید بھی کرتی ہے جو کہ حدیث کے الفاظ سے واضح ہے۔۔۔
(ہدایت اللہ فارس)