• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غامدی صاحب کی ایک اصطلاح سنت سے مراد ملت ابراہیمی کا جائزہ

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

اصول غامدی:

سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایاہے۔
قرآن میں اس کا حکم آپ کے لئے اس طرح بیان ہوا ہے :
ثُمَّ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ۔(سورۃ النحل ،آیت ۱۲۳)
ترجمہ:پھر ہم نے تمہیں وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔(اصول و مبادی ،ص ۱۰)

جواب:

میں اس اصطلاح سے متعلق دو باتیں ذکر کرنا چاہوں گا ۔
(۱) غامدی صاحب نے اپنے اس موقف کو ثابت کرنے کے لئے جو آیت پیش کی ہے اگر ہم اس پر غور کریں تو ہمیں دو باتیں معلوم ہوتی ہیں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
’’ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا‘‘(النحل ۔ ۱۲۳)
ترجمہ :پھر ہم نے وحی کی تمہاری طرف کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو ۔
یہاں اللہ رب العزت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہے اور لازمی بات ہے کہ جس چیز کا حکم اللہ نے اپنے نبی کو دیا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل بھی کیا ہوگا ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل پوری امت کے لئے اسوہ نمونہ اور حجت ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیْراً۔(سورۃ الاحزاب،آیت۲۱)
ترجمہ:’’یقینا تمھارے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے اس کے لئے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے،اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے ۔‘‘

اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملت ابراہیمی کی معرفت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ہوتی ہے جو کہ ہمارے پاس احادیث کے ذریعے پہنچی چاہے متواترہو یا احاد۔ (احاد کے بارے میں غامدی صاحب کا جو اصول ہے اس کی بحث آگے آئے گی ۔ انشاء اللہ )

(۲)مذکورہ آیت میں ملت ابراہیمی سے مراد توحید(عقائد) ہے کیونکہ اگر ہم ملت ابراہیمی کی اتباع سے متعلقہ آیات کا بغور مطالعہ کریں تو ان میں ہمیں توحید کا اثبات اور شرک کی مذمت ملتی ہے مثلاً قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :
’’وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّۃِ إِبْرَاہِیْمَ إِلاَّ مَن سَفِہَ نَفْسَہُ‘‘(البقرۃ،آیت ۱۳۰)
ترجمہ:’’ملت ابراہیم سے بے رغبتی وہی کرے گا جو محض بے وقوف ہو ۔‘‘

قارئین کرام !اس آیت کو اور اس کے بعد والی تقریبا تین آیات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ ملت ابراہیم سے مراد توحید ربّ العالمین ہے ہم نے اختصار کی خاطر ان آیات کا ذکر نہیں کیا تفصیل کے لئے ملاحظہ کیجئے سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۳۱تا ۱۳۶۔مزید براں امام قرطبی ؒاپنی تفسیر احکام القرآن میں اس آیت:
ثُمَّ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ۔(سورۃ النحل ،آیت ۱۲۳)
کی تفسیر میں بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ’’والصحیح الاتباع فی العقائد الشرع دون الفروع لقولہ تعالیٰ : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَۃً وَمِنْہَاجاً‘‘(تفسیر القرطبی،ج۵،ص۱۴۵)۔

صحیح بات یہ ہے کہ (ملت ابرہیم )کی اتباع کا حکم توحید میں ہے نہ کہ فروع (عمومی مسائل)میںہے۔اس بات کی دلیل میں امام قرطبی نے یہ آیت پیش کی ہے ترجمہ’’ کہ ہم نے تم میں سے ہر کسی ایک لئے دستور اورایک طریقہ بنایا ہے‘‘۔ قارئین کرام گزشتہ شریعتوںمیں ہر نبی علیہ السلام کو مختلف فروعی احکامات عطا کئے گئے تھے۔ایک شریعت میں بعض چیزیں حرام تھیں تو دوسری شریعت میں حلال تھیں ۔بعض میں کسی مسئلہ میں تشدید تھی تو دوسری میںتخفیف لیکن دین سب کا ایک تھا یعنی توحید پر مبنی تھا اس لحاظ سب انبیاء کی دعوت ایک ہی تھی جو کہ توحید ہے ۔اس مضمون کی ایک حدیث صحیح بخاری میں بھی آتی ہے :
’’نحن معاشرالانبیاء اخوۃ لعلات دیننا واحد‘‘
ترجمہ:’’ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں ،ہمارا دین ایک ہے ۔‘‘
علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں کہ جن کی مائیںتو مختلف ہوں مگر باپ ایک ہو ۔مطلب یہ کہ ان کا دین ایک ہی تھا مگر شریعتیں مختلف تھیں ۔

یہی بات حافظ ابن حجر ؒ نے کہی ہے (الواضح فی اصول الفقہ،ص۱۳۰)۔اور یہی مؤقف امام ابن جریر الطبری کا ہے ،امام موصوف فرماتے ہیں :
’’واولی القولین فی ذلک عندی بالصواب قول من قال معناہ :لکل اھل ملۃ منکم ایھاالامم جعلناشرعۃومنھا جا‘‘(تفسیر طبری،ج۴،ص۷۱۰)
ترجمہ:’’کہ میرے نزدیک حق اور صواب قول یہی ہے کہ ہر اہل ملت کی شریعت ایک ایک (الگ الگ)ہے۔‘‘

چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
(۱)سجدہ تعظیمی گزشتہ شریعتوں میں جائز تھا ۔ مگر شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حرام اور باطل ہے ۔( سورۃ یوسف،آیت ۱۰۰)۔

(۲)دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا گزشتہ شریعت میں جائز تھا مگر شریعت محمد یہ ؐ میں حرام ہے ۔(سورۃ نساء ،آیت ۳۰)

(۳)قربانی کا گوشت و مال غنیمت گزشتہ امتوں کے لئے حرام تھا مگر امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس کو حلال کر دیا گیا ۔

قارئین کرام !یہ چند ایک معدودے مثالیں تھیں جو ہم نے آپ کے سامنے بیان کیں ،اس جیسی اور بھی کئی مثالیں ہیں کہ جن کو ہم نے طوالت کے خوف سے نظرانداز کر دیا ہے۔
 
Top