• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غزوہ بدر اور نوید کی کرن

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ترجمہ: شفقت الرحمٰن​
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے10-رجب -1435 کا خطبہ جمعہ " غزوہ بدر اور نوید کی کرن" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے قرآنی آیات کی روشنی میں غزوہ بدر سے حاصل ہونے والے دروس و اسباق ذکر کئے، اور پھر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اللہ کی مدد مؤمنین کیلئے اس وقت حتمی ہوگی جب مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلیں گے۔
پہلا خطبہ:
یقینا تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اور نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کےبندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی کی جانب سے آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں، اور سلامتی ہو۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ سے ایسے ڈرو جیسے کہ ڈرنے کا حق ہے، تقوی الہی نعمتوں کے حصول اور تکالیف رفع کرنے کا ذریعہ ہے۔
مسلمانو!
معرفتِ الہی، معرفتِ دین، اور معرفتِ نبوی حاصل کرنا دین کی بنیاد ہے، انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے رب اور دین کو پہچانتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دونوں جہانوں میں کامیابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں پنہاں ہے۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : "اپنی نجات و سعادت مندی چاہنے والے کیلئے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے تمام پہلوؤں کے بارے اچھی خاصی معلومات حاصل کرے، تا کہ آپکی تابعداری کرتے ہوئے آپکی جماعت میں شامل ہوسکے"
لیکن کچھ لوگ سیرت نبوی کے بارے میں تھوڑا بہت جانتے ہیں، اور کچھ بہتر معلومات رکھتے ہیں ، اور کچھ تو بالکل نابلد ہیں، سن دو ہجری 17 رمضان المبارک جمعہ کا دن تاریخ اسلام میں عظیم مقام رکھتا ہے، اللہ تعالی نے اس دن کو "یوم فرقان" کا نام دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن دعا فرمائی تھی: (یا اللہ! اگر یہ مٹھی بھر لوگ ختم ہو گئے ؛ تو زمین پر تیری کبھی عبادت نہیں ہوگی) مسلم
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "غزوہ بدر کا دن اسلام کیلئے تعمیر نو کا دن تھا"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ میں بنفس نفیس شامل تھے، اس دن ایک ہزار فرشتے آسمان سے نازل ہوئے جن میں سب سے آگے جبریل علیہ السلام تھے، اس غزوہ میں شریک مؤمنین کے سارے گناہ معاف کر دئیے گئے، ان پر جہنم حرام کر دی گئی، اور انکا بلند جنتوں میں مقام ہوگا، اسی طرح جن فرشتوں نے اس میں شرکت کی تھی انہیں دیگر اہل آسمان پر فوقیت حاصل ہے، اس غزوہ میں متعدد نصائح و اسباق ، نشانیاں اور معجزات رونما ہوئے۔
قریش نے دینِ الہی کی مخالفت کرتے ہوئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے باہر نکال دیا، اور آپکے صحابہ کرام کو اذیتیں دینا شروع کیں، تو انہوں نے مدینہ کی جانب ہجرت کی، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی کہ ابو سفیان کی نگرانی میں شام سے قریشیوں کا تجارتی سامان سے مالا مال قافلہ آ رہا ہے، تو مشرکوں کے سامنے مسلمانوں کی قوت ظاہر کرنے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو قافلہ روکنے کیلئے دعوت دی ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین سو دس سے کچھ زیادہ افراد ہمراہ ہو لئے، آپ کا ارادہ جنگ کا نہیں تھا، بلکہ ہدف تجارتی قافلہ تھا، چنانچہ جب ابو سفیان کو مسلمانوں کی آمد کے بارے میں اطلاع ہوئی تو قریش کو مدد کیلئے پیغام بھیج دیا، اور پھر ساحلی راستے چلتے ہوئے بچ نکلا، اور قریش کو اپنی خیریت کا پیغام بھی بھیجوا دیا۔
لیکن قریش اپنے سرغنوں کے ہمراہ نکل چکے تھے، قریشی سرداروں میں سے ابو لہب کے سوا کوئی پیچھے نہیں رہا تھا، انہوں نے مسلمانوں کے خاتمے کیلئے دیگر عرب قبائل کو بھی ساتھ ملایا، اور بڑے گھمنڈ اور متکبرانہ انداز میں چل پڑے جیسے کہ سورہ انفال آیت 47 میں اس کا ذکر موجود ہے۔
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نبی کے بہترین ساتھی ثابت ہوئے، چنانچہ جب انہیں قریش کی آمد کے بارے میں خبر ملی تو مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا: "ہم قوم موسی کی طرح نہیں کہیں گے: فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ جاؤ جا کر تم اور تمہارا رب قتال کرو، ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے۔[المائدة: 24]بلکہ ہم آپکے دائیں بائیں اور آگے پیچھے چہار سو قتال کریں گے"
ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس منظر کے بارے میں کہتے ہیں: "میں نے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو دیکھا جو کہ خوشی سے چمک دمک رہا تھا" بخاری
انصاریوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے موقف پیش کیا: "اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے دوڑانے کا حکم دو گے ہم کر گزریں گے، اور اگر آپ ہمیں حبشہ کے شہر "برک الغماد" پر یلغار کا حکم دیں گے تو ہم ایک لمحہ بھی تأمل نہیں کرینگے"
چنانچہ مشرکین قریب پہنچ گئے، اور انکی تعداد مسلمانوں سے تین گنا زیادہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات خوب گڑگڑا کر اللہ سے مناجات اور مدد مانگتے رہے، آپکی چادر مبارک بھی کندھوں سے گر جاتی، ابو بکر رضی اللہ عنہ درست فرماتے اور کہتے: "یا رسول اللہ! اللہ تعالی آپکی دعا ضرور قبول فر مائے گا"
اس رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل آرام نہیں کیا، بلکہ ساری رات بارگاہِ الہی میں گریہ و زاری میں گزار دی، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں نے اس رات دیکھا تو سب سوئے ہوئے تھے، صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاگتے رہے اور صبح تک نماز اور دعا میں مشغول رہے"
اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرمائی، اور آپ نے صحابہ کرام کو فتح کی نوید سنائی، آپ نے انہیں وہ جگہیں بھی بتلائی جہاں مشرکوں کی لاشیں گرنی تھیں۔
قریش اپنے لاؤ لشکر سمیت بدر پہنچے، اور دونوں لشکر حکمت الہی کے مطابق مقررہ وعدے کے بغیر ہی آمنے سامنے ہوگئے، جس کا تذکرہ اللہ تعالی نے یوں فرمایا: وَلَوْ تَوَاعَدْتُمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ وَلَكِنْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا اور اگر تم آپس میں [جنگ کے لئے] کوئی وعدہ کر لیتے تو ضرور [اپنے] وعدہ سے مختلف [وقتوں میں] پہنچتے لیکن [اللہ نے تمہیں اتفاقا جمع فرما دیا] یہ اس لئے [ہوا] کہ اللہ اس کام کو پورا فرما دے جو ہو کر رہنے والا تھا [الأنفال: 42]
اور اللہ تعالی نے مؤمنین پر اطمینان و امان طاری کرنے کیلئے غنودگی نازل فرمائی، جس کے بارے میں فرمایا: إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِنْهُ جب اللہ نے اپنی طرف سے تمہارا خوف دور کرنے کے لئے تم پر غنودگی طاری کردی [الأنفال: 11]
اسی طرح اللہ تعالی نے مسلمانوں کی تعداد مشرکوں کی نظر میں کم کردی، تا کہ مشرکین ڈر کر بھاگیں مت، اور مشرکوں کی تعداد مسلمانوں کی نظروں میں کم اس لئے کی کہ مسلمان آگے بڑھیں، چنانچہ اس بارے میں فرمایا: وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا اور جب تم دشمن سے ملے اللہ تعالیٰ نے تمہاری نظروں میں دشمن کی تعداد تھوڑی دکھلائی اور دشمن کی نظروں میں تمہیں تھوڑا کر کے پیش کیا تاکہ اللہ تعالیٰ وہ کام پورا کرے جس کا ہونا مقدر تھا [الأنفال: 44]
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "میں نے اپنی بغل والے ساتھی سے کہا: آپکو انکی تعداد ستر کے قریب لگتی ہے؟ تو اس نے کہا: مجھے ایک سو لگتی ہے! حالانکہ وہ ایک ہزار کے قریب تھے"
اللہ تعالی نے رعب دبدبہ مشرکوں کے دلوں میں ڈالتے ہوئے فرمایا: سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ میں کافروں کےد لوں پر رعب طاری کردونگا [الأنفال: 12]
اور مؤمنین کو اللہ تعالی نے فرشتوں کے ذریعے ثابت قدم بنایا چنانچہ فرمایا: إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا جب آپکے رب نے فرشتوں کو وحی کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مؤمنوں کو ثابت قدم بناؤ [الأنفال: 12]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤمنوں کو قتال پر ابھارا، دونوں لشکر آمنے سامنے ہو گئے، اور میدان جنگ گرم ہو گیا، تو بارش کے ذریعے مسلمانوں کی مدد شروع ہوئی جس کے باعث مسلمان ظاہری اور باطنی طور پر پاک ہو گئے، انکے قدم جمنے لگے، دلوں کی ڈھارس بندھ گئی، اور شیطانی وسوسے زائل ہونے لگے، ان سب کا تذکرہ اللہ تعالی نے یوں فرمایا: وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ اور ( وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے اپنی طرف سے تمہارا خوف دور کرنے کے لئے تم پر غنودگی طاری کر دی اور آسمان سے تم پر بارش برسا دی تاکہ تمہیں پاک کر دے، اور شیطان کی (ڈالی ہوئی) نجاست تم سے دور کر دے، اور تمہارے دلوں کو مضبوط کرد ے اور تمہارے قدم جما دے [الأنفال: 11]
اُدھر شیطان نے مشرکوں سے آکر کہا: لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَكُمْ آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا، میں جو تمہارا مددگار ہوں[الأنفال: 48]
لیکن جیسے ہی فرشتوں کو دیکھا تو مشرکوں کو چھوڑ کر الٹے پاؤں بھاگ نکلا، اور کہنے لگا: إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ مجھے وہ کچھ نظر آرہا ہے جو تم نہیں دیکھتے، مجھے اللہ سے ڈر لگتا ہے [الأنفال: 48]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی گھمسان کی جنگ لڑی، علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں نے دیکھا کہ بدر کے دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اپنا دفاع کرتے، آپ ہم سے زیادہ دشمن کے قریب رہتے، اور اس دن آپ نے سب سے زیادہ مقابلہ کیا"
جبریل علیہ السلام معرکہ میں لڑائی کیلئے خود نازل ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اس با ت کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: (یہ جبریل اپنے گھوڑے کو تھامے جنگی سامان سے لیس [آر ہا ]ہے)بخاری
آپ کے ساتھ ایک ہزار فرشتے جنگ میں شریک تھے، اللہ تعالی نے مؤمنین کو فرشتوں کیساتھ مشترکہ جنگ کی خبر خوشخبری اور اطمینان کے طور پر دی، چنانچہ فرمایا: وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُمْ بِهِ فرشتوں سے مدد کی خبر اللہ نے تمہیں صرف اس لیے دی ہے کہ تم خوش ہو جاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہو جائیں [آل عمران: 126]
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : " ایک مسلمان مشرک کا تعاقب کر تے ہوئے بھاگے جا رہا تھا ، تو اچانک اس ( مسلمان ) نے مشرک پر پڑتے ہوئے کوڑے کی آواز سنی ، پھر اس نے ایک سوار کی آواز سنی جو یہ کہہ رہا تھا " حیزوم " آگے بڑھ۔۔۔ پھر اس مسلمان کی نظر اپنے آگے بھاگتے ہوئے مشرک کی طرف گئی تو دیکھا کہ وہ زمین پر چت پڑا ہوا ہے ، اس نے یہ بھی دیکھا کہ اس مشرک کی ناک پر نشان پڑا ہوا تھا اور اس کا چہرہ پھٹ کر سبز نیلگوں ہو چکا تھا" چنانچہ اس انصاری صحابی نے آگر اپنا سارا واقعہ سنایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم سچ کہتے ہو، یہ تیسرے آسمان کی مدد تھی) غزوہ بدر کے دن ستر مشرک قتل اور ستر ہی قید ہوئے تھے۔ مسلم
سھل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "ہم نے بدر کے دن ملاحظہ کیا کہ ہم ابھی مشرک کے سر کی طرف تلوار اٹھاتے ہی تھے کہ ہماری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی اسکی گردن تن سے جدا ہو جاتی تھی" اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا: فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ تم نے انہیں قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا ہے[الأنفال: 17]
اس غزوہ میں ستر مشرک قتل ہوئے جن میں اللہ کے دین سے روکنے والے سربراہان بھی شامل تھے، ان سرغنوں کے قتل کے بعد مشرکوں کو کمر ٹوٹ گئی اور اسلام اللہ کے فضل سے دور دور پھیل گیا۔
بچے کھچے مشرکین کے بارے میں اللہ کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا، چنانچہ ان میں سے کافی لوگ بعد میں مسلمان ہوئے جیسے کہ ابو سفیان، اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما۔
چودہ صحابہ کرام جامِ شہادت نوش کرتے ہوئے اعلی جنتوں میں جا پہنچے، چنانچہ حارثہ بن سراقہ کی والدہ نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حارثہ کے بارے میں پوچھا: "اللہ کے نبی! کیا آپ مجھے حارثہ کے بارے کچھ نہیں بتائیں گے؟ آپ نے فرمایا: (حارثہ کی ماں! جنت کے اندر مختلف جنتیں ہیں ، اور آپکا بیٹا فردوس اعلی میں ہے)بخاری
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس میں اہل بدر کیلئے عظیم فضیلت بیان کی گئی ہے؛ کیونکہ حارثہ رزم و جنگ میں شہید نہیں ہوئے، بلکہ وہ میدان جنگ سے دور تھے، انہیں ایک نامعلوم تیر حوض سے پانی پیتے ہوئے لگا، لیکن اس کے باوجود جنت الفردوس میں اتنا بلند مقام ملا، تو دشمنوں سے گتھم گتھا ہونے والوں کے بارے میں آپکا کیا خیال ہوگا؟"
مسلمانو!
اللہ کا دین سچا ہے، وہ اسے غالب کر کے رہے گا، باطل اگرچہ چار دن کی چاندنی پا لے لیکن حق ایک دن ضرور غالب آئے گا، اسباب نہ بھی ہوں پھر بھی غلبہ اللہ کی طرف سے ضرور ہوگا، چنانچہ انسان کو دین پر کار بند رہنا چاہئے، اور اللہ تعالی کے احکام پر عمل پیرا رہے تا کہ نصرت الہی حاصل کر سکے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد فرمائی حالانکہ تم اس وقت بالکل بےسرو سامان تھے [آل عمران: 123]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اِس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد - صلی اللہ علیہ وسلم -اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!
اسلام ہم تک بڑی ہستیوں کی قربانیوں کے بعد پہنچا ہے، جسکے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا، اور جسم زخموں سے چھنی ہوئے، اس دین کی سر بلندی ، بقا، اور ہم تک پہنچانے کیلئے انبیاء، صدیقین، شہداء، اور فرشتوں نے جنگیں لڑیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دین کامل اور مکمل ، ہر وقت و زمانے کیلئے قابل عمل ثابت ہوا۔
اس لئے ہر شخص کیلئے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا، اور اسکی نشر و اشاعت کیلئے سر گرداں رہنا ضروری ہے۔
یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
اللهم صل وسلم على نبينا محمد، یا اللہ! خلفائے راشدین جنہوں نے حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کئے یعنی ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا۔
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یااللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ہمارے رب! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔[البقرة: 201]
یا اللہ! ہم تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت، اور تونگری کا سوال کرتے ہیں، یا ذوالجلال والاکرام!
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی چاہت کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل اور شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
یا اللہ! تیرے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کی ہر جگہ مدد فرما، یا اللہ! توں ہی انکا والی ، وارث ، پشت پناہ، اور مدد گار بن ۔
یا اللہ! مسلمانوں کے ہر جگہ پر حالات درست فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما۔
یا اللہ! جو ہمارے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف غلط سوچ رکھے تو اسے اپنے جان کے لالے پڑ جائیں، اسکی مکاریوں کو اسی کے گلے کا کانٹا بنا دے، یا قوی !یا عزیز!
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔
لنک
 
Top