• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غزوہ تبوک میں مسلمان مالی پریشانی کا شکار کیوں؟

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
السلام علیکم

میرا اہل علم حضرات سے سوال ہے کہ فتح مکہ ، غزوہ حنین، غزوہ طائف میں 8 ہجری میں وقوع پذیر ہوئے جس میں مسلمانوں کو بہت زیادہ مال غنیمت ملا۔ لیکن جب غزوہ تبوک (9 ہجری )کا موقع آتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے پورے گھر اور حضرت عمر آدھے گھر کا سامان پیش کرتے ہیں اور مسلمان بھی اس میں حصہ ملاتے ہیں ۔
مال غنیمت کی ایک تفصیل سیرت ابن ہشام میں اس طرح سے ہے۔
طائف سے محاصرہ اُٹھا کر حضور ﷺ جعرانہ تشریف لائے۔ یہاں اموال غنیمت کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زائد بکریاں، کئی من چاندی،اور چھ ہزار قیدی۔[3] اسیرانِ جنگ کے بارے میں آپ ﷺنے ان کے رشتہ داروں کے آنے کا انتظار فرمایا۔ لیکن کئی دن گزرنے کے باوجود جب کوئی نہ آیا تو آپ نے مال غنیمت کو تقسیم فرما دینے کا حکم دے دیا۔ مکہ اور اس کے اطراف کے نومسلم رئیسوں کو آپ نے بڑے بڑے انعاموں سے نوازا۔ یہاں تک کہ کسی کو تین سو اونٹ، کسی کو دو سو اونٹ، کسی کو سو اونٹ انعام کے طور پر عطا فرما دیا۔ اسی طرح بکریوں کو بھی نہایت فیاضی کے ساتھ تقسیم فرمایا۔
سیرت ابن ہشام جلد 2 صضحہ 489
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
غزوہ تبوک کے وقت جو مشکلات اور تنگیاں آئیں ، اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں :
1۔ پھل پک چکے تھے ، کاٹنے کا وقت آگیا تھا ، یہ معمول ہے کہ جب نیا پھل آنے والا ہو تو پرانا ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے ۔ لیکن جنگ کی وجہ سے مسلمانوں کو پھل کاٹنے کا موقعہ ہی نہ ملا ۔
2۔ تبوک کا فاصلہ بہت زیادہ تھا ، اس سے پہلے جنگ کے لیے اتنا لمبا سفر کرنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا ، مسلمان اندرون جزیرہ عرب ، سازشوں سے نپٹ کر سکون کا سانس لے رہے تھے ، یہ امید ہی نہ تھی کہ اچانک جنگ کے لیے اتنی دور جانا پڑے گا ۔
3۔ پہلے سے جو مال غنیمت ، ہیرے جواہرات ، مال و زر وغیرہ تھا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پیروی میں صحابہ کرام بھی اسے خرچ کردیا کرتے تھے ، اس وجہ سے سابقہ جنگوں میں حاصل ہونے والا مال غنیمت کسی قومی خزانے کی زینت بننے کی بجائے ، اللہ کی راہ میں غریبوں مسکینوں اور حقداروں تک پہنچ چکا تھا ، جب جنگ کی تیاریوں کا اعلان ہوا تو مسلمان بڑھ چڑھ کر مال جمع کروانے لگے ، لیکن پھر بھی اتنا نہیں تھاکہ اتنے بڑے پیمانے پر لڑی جانے والی اس جنگ کے لیے کافی ہوسکے ۔ واللہ اعلم بالصواب
 
Last edited:
Top