• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم غزوہ ٔ بنو قریظہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غزوہ ٔ بنو قریظہ

جس روز رسول اللہﷺ خندق سے واپس تشریف لائے اسی روز ظہر کے وقت جبکہ آپ حضرت اُمِ سلمہؓ کے مکان میں غسل فرمارہے تھے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ اور فرمایا : کیا آپ نے ہتھیار رکھ دیئے حالانکہ ابھی فرشتوں نے ہتھیار نہیں رکھے۔ اور میں بھی قوم کا تعاقب کرکے بس واپس چلا آرہا ہوں۔ اُٹھئے ! اور اپنے رفقاء کو لے کر بنو قریظہ کا رخ کیجیے۔ میں آگے آگے جارہا ہوں۔ ان کے قلعوں میں زلزلہ برپا کروں گا ، اور ان کے دلوں میں رعب ودہشت ڈالوں گا۔ یہ کہہ کر حضرت جبریل ؑ فرشتوں کے جلو میں روانہ ہوگئے۔
ادھر رسول اللہﷺ نے ایک صحابی سے منادی کروائی کہ جوشخص سمع وطاعت پر قائم ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ ہی میں پڑھے۔ اس کے بعد مدینے کا انتظام حضرت ابن ام مکتوم کو سونپا۔ اور حضرت علیؓ کو جنگ کا پھریرا دے کر آگے روانہ فرمادیا۔ وہ بنو قریظہ کے قلعوں کے قریب پہنچے تو بنو قریظہ نے رسول اللہﷺ پر گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔
اتنے میں رسول اللہﷺ بھی مہاجرین وانصار کے جلو میں روانہ ہوچکے تھے۔ آپ نے بنوقریظہ کے دیار میں پہنچ کر ''انا'' نامی ایک کنویں پر نزول فرمایا۔ عام مسلمانوں نے بھی لڑائی کا اعلان سن کر فوراً دیار ِ بنی قریظہ کا رُخ کیا۔ راستے میں عصر کی نماز کا وقت آگیا تو بعض نے کہا : ہم - جیسا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے - بنو قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھیں گے حتیٰ کہ بعض نے عصر کی نماز عشاء کے بعد پڑھی ، لیکن دوسرے صحابہ نے کہا: آپ کا مقصود یہ نہیں تھا بلکہ یہ تھا کہ ہم جلد ازجلد روانہ ہوجائیں۔ اس لیے انہوں نے راستے ہی میں نماز پڑھ لی البتہ جب رسول اللہﷺ کے سامنے یہ قضیہ پیش ہوا تو آپﷺ نے کسی بھی فریق کو سخت سُست نہیں کہا۔
بہرکیف مختلف ٹکڑیوں میں بٹ کر اسلامی لشکر دیار ِ بنو قریظہ میں پہنچا اور نبیﷺ کے ساتھ جاشامل ہوا۔ پھر بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا ، اس لشکر کی کل تعداد تین ہزار تھی اور اس میں تیس گھوڑے تھے۔
جب محاصرہ سخت ہوگیا تو یہود کے سردار کعب بن اسد نے ان کے سامنے تین متبادل تجویزیں پیش کیں :
یاتو اسلام قبول کرلیں۔ اور محمدﷺ کے دین میں داخل ہوکر اپنی جان ، مال اور بال بچوں کو محفوظ کرلیں۔ کعب بن اسد نے اس تجویز کو پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ واللہ! تم لوگوں پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ وہ واقعی نبی اور رسول ہیں۔ اور وہ وہی ہیں جنہیں تم اپنی کتاب میں پاتے ہو۔
یا اپنے بیوی بچوں کو خود اپنے ہاتھوں قتل کردیں۔ پھر تلوار سونت کر نبیﷺ کی طرف نکل پڑیں۔ اور پوری قوت سے ٹکراجائیں۔ اس کے بعد یاتو فتح پائیں یاسب کے سب مارے جائیں۔
یا پھر رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر دھوکے سے سنیچر کے دن پل پڑیں کیونکہ انہیں اطمینان ہوگا کہ آج لڑائی نہیں ہوگی۔
لیکن یہود نے ان تینوں میں سے کوئی بھی تجویز منظور نہ کی۔ جس پر ان کے سردار کعب بن اسد نے (جھلا کر) کہا:تم میں سے کسی نے ماں کی کوکھ سے جنم لینے کے بعد ایک رات بھی ہوش مندی کے ساتھ نہیں گزاری ہے۔
ان تینوں تجاویز کو رد کردینے کے بعد بنو قریظہ کے سامنے صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا تھا کہ رسول اللہﷺ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ اور اپنی قسمت کا فیصلہ آپ پر چھوڑ دیں ، لیکن انہوں نے چاہا کہ ہتھیار ڈالنے سے پہلے اپنے بعض مسلمان حلیفوں سے رابطہ قائم کرلیں۔ ممکن ہے پتہ لگ جائے کہ ہتھیا ر ڈالنے کا نتیجہ کیا ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ ابو لبابہ کو ہمارے پاس بھیج دیں۔ ہم ان سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔ ابو لبابہ ان کے حلیف تھے۔ اور ان کے باغات اور آل اولاد بھی اسی علاقے میں تھے۔ جب ابو لبابہ وہاں پہنچے تو مرد حضرات انہیں دیکھ کر ان کی طرف دوڑ پڑے۔ اور عورتوں اور بچے ان کے سامنے دھاڑیں مار مار کررونے لگے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر حضرت ابولبابہؓ پررقت طاری ہوگئی۔ یہود نے کہا : ابو لبابہ ! کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم محمدﷺ کے فیصلے پر ہتھیار ڈال دیں ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ! لیکن ساتھ ہی ہاتھ سے حلق کی طرف اشارہ بھی کردیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ذبح کردیئے جاؤ گے ، لیکن انہیں فورا ً احساس ہوا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت ہے۔ چنانچہ وہ رسول اللہﷺ کے پاس واپس آنے کے بجائے سیدھے مسجد نبوی پہنچے۔ اور اپنے آپ کو مسجد کے ایک کھمبے سے باندھ لیا۔ اور قسم کھائی کہ اب انہیں رسول اللہﷺ ہی اپنے دست مُبارک سے کھولیں گے۔ اور وہ آئندہ بنوقریظہ کی سرزمین میں کبھی داخل نہ ہوں گے۔ ادھر رسول اللہﷺ محسوس کررہے تھے کہ ان کی واپسی میں دیر ہورہی ہے۔ پھر جب تفصیلات کا علم ہو اتو فرمایا: اگر وہ میرے پاس آگئے ہوتے تو میں ان کے لیے دعائے مغفرت کردیئے ہوتا ، لیکن جب وہ وہی کام کربیٹھے ہیں تو اب میں بھی انہیں ان کی جگہ سے کھول نہیں سکتا ، یہاں تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالے۔
ادھر ابو لبابہ کے اشارے کے باوجود بنو قریظہ نے یہی طے کیا کہ رسول اللہﷺ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ اور وہ جو فیصلہ مناسب سمجھیں کریں حالانکہ بنو قریظہ ایک طویل عرصے تک محاصرہ برداشت کرسکتے تھے کیونکہ ایک طرف ان کے پاس وافرمقدارمیں سامان خوردو نوش تھا ، پانی کے چشمے اور کنوئیں تھے۔ مضبوط اور محفوظ قلعے تھے۔ اور دوسری طرف مسلمان کھلے میدان میں خون منجمد کر دینے والے جاڑے اور بھُوک کی سختیاں سہ رہے تھے۔ اور آغازِ جنگِ خندق کے بھی پہلے سے مسلسل جنگی مصروفیات کے سبب تکان سے چور چور تھے ، لیکن جنگ بنی قریظہ درحقیقت ایک اعصابی جنگ تھی۔ اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا تھا۔ اور ان کے حوصلے ٹوٹتے جارہے تھے۔ پھر حوصلوں کی یہ شکستگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب حضرت علی بن ابی طالبؓ اور حضرت زبیر بن عوامؓ نے پیش قدمی فرمائی۔ اور حضرت علیؓ نے گرج کر یہ اعلان کیا کہ ایمان کے فوجیو! اللہ کی قسم ! اب میں بھی یا تو وہی چکھوں گا جو حمزہؓ نے چکھا یاان کا قلعہ فتح کرکے رہوں گا۔
چنانچہ حضرت علیؓ کایہ عزم سن کر بنو قریظہ نے جلدی سے اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے حوالے کردیا کہ آپ جو فیصلہ مناسب سمجھیں کریں۔ رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ مردوں کو باندھ دیا جائے۔ چنانچہ محمد بن مسلمہ انصاریؓ کے زیر نگرانی ان سب کے ہاتھ باندھ دیئے گئے۔ اور عورتوں اور بچوں کو مَردوں سے الگ کردیا گیا۔ قبیلہ اوس کے لوگ رسول اللہﷺ سے عرض پر داز ہوئے کہ آپ نے بنو قینقاع کے ساتھ جو سلوک فرمایا تھا وہ آپ کو یاد ہی ہے بنو قینقاع ہمارے بھائی خَزْرج کے حلیف تھے اور یہ لوگ ہمارے حلیف ہیں۔ لہٰذا ان پر احسان فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: کیا آپ لوگ اس پر راضی نہیں کہ ان کے متعلق آپ ہی کا ایک آدمی فیصلہ کرے ؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : تو یہ معاملہ سعد بن معاذ کے حوالے ہے۔ اَوس کے لوگوں نے کہا : ہم اس پر راضی ہیں۔
اس کے بعد آپ نے حضرت سعد بن معاذ کو بلا بھیجا۔ وہ مدینہ میںتھے ، لشکر کے ہمراہ تشریف نہیں لائے تھے ، کیونکہ جنگِ خندق کے دوران ہاتھ کی رگ کٹنے کے سبب زخمی تھے۔ انہیں ایک گدھے پر سوار کرکے رسول اللہﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ جب قریب پہنچے تو ان کے قبیلے کے لوگوں نے انہیں دونوں جانب سے گھیر لیا۔ اور کہنے لگے : سعد ! اپنے حلیفوں کے بارے میں اچھائی اور احسان سے کام لیجئے گا ... رسول اللہﷺ نے آپ کو اسی لیے حَکم بنایا ہے کہ آپ ان سے حسن سلوک کریں۔ مگر وہ چپ چاپ تھے کوئی جواب نہ دے رہے تھے۔ جب لوگوں نے گزارش کی بھر مار کردی تو بولے : اب وقت آگیا ہے کہ سعد کو اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی پروا نہ ہو۔ یہ سن کر بعض لوگ اسی وقت مدینہ آگئے اور قیدیوں کی موت کا اعلان کردیا۔
اس کے بعد جب حضرت سعد نبیﷺ کے پاس پہنچے تو آپ نے فرمایا: اپنے سردار کی جانب اٹھ کر بڑھو۔ (لوگوں نے بڑھ کر ) جب انہیں اتارلیا تو کہا: اے سعد ! یہ لوگ آپ کے فیصلے پر اترے ہیں۔ حضرت سعد نے کہا : کیا میرا فیصلہ ان پر نافذ ہوگا ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں ! انہوں نے کہا مسلمانوں پربھی ؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں ! انہوں نے پھر کہا : اور جو یہاں ہیں ان پر بھی؟ ان کا اشارہ رسول اللہﷺ کی فرودگاہ کی طرف تھا۔ مگر اجلال وتعظیم کے سبب چہرہ دوسری طرف کررکھا تھا۔ آپ نے فرمایا : جی ہاں! مجھ پر بھی۔ حضرت سعد نے کہا : تو ان کے متعلق میرا فیصلہ یہ ہے کہ مردوں کو قتل کردیا جائے ، عورتوں اور بچوں کو قید ی بنا لیا جائے۔ اور اموال تقسیم کردیے جائیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم نے ان کے بارے میں وہی فیصلہ کیا ہے جو سات آسمانوں کے اوپر سے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔
حضرت سعد کا یہ فیصلہ انتہائی عدل وانصاف پر مبنی تھا کیونکہ بنو قریظہ نے مسلمانوںکی موت وحیا ت کے نازک ترین لمحات میں جو خطرناک بدعہدی کی تھی وہ تو تھی ہی ، اس کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ڈیڑھ ہزار تلواریں ، دوہزار نیزے ، تین سوزِرہیں اور پانچ سو ڈھال مہیا کررکھے تھے جس پر فتح کے بعد مسلمانوں نے قبضہ کیا۔
اس فیصلے کے بعد رسول اللہﷺ کے حکم پر بنو قریظہ کو مدینہ لاکر بنو نجار کی ایک عورت - جو حارث کی صاحبزادی تھیں - کے گھر میں قید کردیا گیا۔ اور مدینہ کے بازار میں خندقیں کھود ی گئیں ، پھر انہیں ایک ایک جماعت کرکے لے جایا گیا۔ اور ان خندقوں میں ان کی گردنیں ماردی گئیں۔ کارروائی شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد باقی ماندہ قیدیوں نے اپنے سردار کعب بن اسد سے دریافت کیا کہ آپ کا کیا اندازہ ہے ؟ ہمارے ساتھ کیا ہورہاہے ؟ اس نے کہا : کیا تم لوگ کسی بھی جگہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے ؟ دیکھتے نہیں کہ پکار نے والا رک نہیں رہا ہے اور جانے والاپلٹ نہیں رہا ہے؟ یہ اللہ کی قسم! قتل ہے۔ بہر کیف ان سب کی (جن کی تعداد چھ اور سات سو کے درمیان تھی ) گردنیں ماردی گئیں۔
اس کارروائی کے ذریعے غدر وخیانت کے ان سانپوں کا مکمل طور پرخاتمہ ہوگیا جنہوں نے پختہ عہدوپیمان توڑا تھا۔ مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ان کی زندگی کے نہایت سنگین اور نازک ترین لمحات میں دشمن کو مدد دے کر جنگ کے اکابر مجرمین کا کردار ادا کیا تھا۔ اور اب وہ واقعتا مقدمے اور پھانسی کے مستحق ہوچکے تھے۔
بنو قریظہ کی اس تباہی کے ساتھ بنو نضیر کا شیطان اور جنگ ِ احزاب کا ایک بڑا مجرم حیی بن اخطب بھی اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ یہ شخص اُم المومنین حضرت صفیہ ؓ کا باپ تھا۔ قریش وغَطفان کی واپسی کے بعد جب بنو قریظہ کا محاصرہ کیا گیا۔ اور انہوں نے قلعہ بندی اختیار کی تو یہ بھی ان کے ہمراہ قلعہ بند ہوگیا تھا۔ کیونکہ غزوۂ احزاب کے ایام میں یہ شخص جب کعب بن اسد کو غدر وخیانت پر آمادہ کرنے کے لیے آیا تھا تو اس کا وعدہ کررکھا تھا۔ اور اب اسی وعدے کو نباہ رہا تھا ، اسے جس وقت خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لایا گیا ، ایک جوڑا زیب تن کیے ہوئے تھا جسے خود ہی ہر جانب سے ایک ایک انگل پھاڑ رکھا تھا تاکہ اسے مال غنیمت میں نہ رکھوالیا جائے۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے پیچھے رسی سے یکجا بندھے ہوئے تھے۔ اس نے رسول اللہﷺ کو مخاطب کرکے کہا : سنئے ! میں نے آپ کی عداوت پراپنے آپ کو ملامت نہیں کی ، لیکن جو اللہ سے لڑتا ہے مغلوب ہوجاتا ہے۔ پھر لوگوں کو مخاطب کرکے کہا : اللہ کے فیصلے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ تو نوشتہ ٔ تقدیر ہے اور ایک بڑا قتل ہے۔ جو اللہ نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا تھا۔ اس کے بعد وہ بیٹھا اور اس کی گردن ماردی گئی۔
اس واقعہ میں بنو قریظہ کی ایک عورت بھی قتل کی گئی۔ اس نے حضرت خَلاّد بن سُویدؓ پر چَکیّ کا پاٹ پھینک کر انہیں قتل کردیا تھا اسی کے بدلے اسے قتل کیا گیا۔
رسول اللہﷺ کا حکم تھا کہ جس کے زیر ناف بال آچکے ہوں اسے قتل کردیا جائے ، چونکہ حضرت عطیہ قرظی کو ابھی بال نہیں آئے تھے۔ لہٰذا انہیں زندہ چھوڑ دیا گیا۔ چنانچہ وہ مسلمان ہو کر شرفِ صحبت سے مشرف ہوئے۔
حضرت ثابت بن قیس نے گزارش کی کہ زبیر بن باطا اور اس کے اہل وعیال کو ان کے لیے ہبہ کردیا جائے - اس کی وجہ یہ تھی کہ زبیر نے ثابت پر کچھ احسانات کیے تھے - ان کی گزارش منظور کرلی گئی۔ اس کے بعد ثابت بن قیس نے زبیر سے کہا کہ رسول اللہﷺ نے تم کو اور تمہارے اہل وعیال کو میرے لیے ہبہ کردیا ہے۔ اور میں ان سب کو تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ (یعنی تم بال بچوں سمیت آزاد ہو ) لیکن جب زبیر بن باطا کو معلوم ہوا کہ اس کی قوم قتل کردی گئی ہے تو اس نے کہا : ثابت ! تم پر میں نے جو احسان کیا تھا اس کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی دوستوں تک پہنچادو۔ چنانچہ اس کی بھی گردن مار کراسے اس کے یہودی دوستوں تک پہنچا دیا گیا۔ البتہ حضرت ثابت نے زبیر بن باطاکے لڑکے عبدالرحمن کو زندہ رکھا، چنانچہ وہ اسلام لاکر شرف ِصحبت سے مشرف ہوئے۔ اسی طرح بنو نجار کی ایک خاتون حضرت ام المنذر سلمیٰ بنت قیس نے گزارش کی کہ سموأل قرظی کے لڑکے رفاعہ کو ان کے لیے ہبہ کردیا جائے۔ ان کی بھی گزارش منظور ہوئی۔ اور رفاعہ کو ان کے حوالے کردیا گیا۔ انہوں نے رفاعہ کو زندہ رکھا۔ اور وہ بھی اسلام لاکر شرفِ صحبت سے مشرف ہوئے۔
چند اور افراد نے بھی اسی رات ہتھیار ڈالنے کی کارروائی سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا۔ لہٰذا ان کی بھی جان ومال اور ذریت محفوظ رہی۔ اسی رات عَمر و نامی ایک اورشخص - جس نے بنو قریظہ کی بدعہدی میں شرکت نہ کی تھی - باہر نکلا۔ اسے پہرہ داروں کے کمانڈر محمد بن مسلمہ نے دیکھا لیکن پہچان کر چھوڑ دیا ، پھر معلوم نہیں وہ کہاں گیا۔
بنو قریظہ کے اموال کو رسول اللہﷺ نے خمس نکال کر تقسیم فرمادیا۔ شہسوار کو تین حصے دیئے۔ ایک حصہ اس کا اپنا اور دوحصہ گھوڑو ں کا۔ اور پیدل کو ایک حصہ دیا ، قیدیوں اور بچوں کو حضرت سعد بن زید انصاریؓ کی نگرانی میں نجد بھیج کر ان کے عوض گھوڑے اور ہتھیار خرید لیے۔
رسول اللہﷺ نے اپنے لیے بنو قریظہ کی عورتوں میں سے حضرت ریحانہ بنت عمرو بن خنافہ کو منتخب کیا۔ یہ ابن اسحاق کے بقول آپﷺ کی وفات تک آپ کی ملکیت میں رہیں۔1 لیکن کلبی کا بیان ہے کہ نبیﷺ نے انہیں ۶ھ میں آزاد کرکے شادی کرلی تھی۔ پھرجب آپ حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے تو ان کا انتقال ہوگیا۔ اور آپ نے انہیں بقیع میں دفن فرمادیا۔2
جب بنو قریظہ کاکام تمام ہوچکا تو بندہ ٔ صالح حضرت سعد بن معاذؓ کی اس دعا کی قبولیت کے ظہور کا وقت آگیا جس کا ذکر غزوۂ احزاب کے دوران آچکا ہے۔ چنانچہ ان کا زخم پھوٹ گیا۔ اس وقت وہ مسجد نبوی میں تھے۔ نبیﷺ نے ان کے لیے وہیں خیمہ لگوادیا تھا تاکہ قریب ہی سے ان کی عیادت کرلیا کریں۔ حضرت عائشہ ؓ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۲۴۵ 2 تلقیح الفہوم ص ۱۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کا بیان ہے کہ زخم ان کے لبہ (سینے)سے پھوٹ کر بہا۔ مسجد میں بنو غفار کے بھی چند خیمے تھے۔ وہ یہ دیکھ کر چونکے کہ ان کی جانب خون بہہ کر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا : خیمہ والو ! یہ کیا ہے جو تمہاری طرف سے ہماری طرف آرہا ہے ؟ دیکھا تو حضرت سعد کے زخم سے خون کی دھاررواں تھی ، پھر اسی سے ان کی موت واقع ہوگئی۔1
صحیحین میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سعد بن معاذؓ کی موت سے رحمان کا عرش ہل گیا۔ 2امام ترمذی نے حضرت انسؓ سے ایک حدیث روایت کی ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے کہ جب حضرت سعد بن معاذؓ کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین نے کہا : ان کا جنازہ کسی قدر ہلکا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اسے فرشتے اٹھا ئے ہوئے تھے۔3
بنو قریظہ کے محاصرے کے دوران ایک مسلمان شہید ہوئے جن کا نام خَلاّد بن سُوَیْد ہے۔ یہ وہی صحابی ہیں جن پر بنوقریظہ کی ایک عورت نے چکی کا پاٹ پھینک مارا تھا۔ ان کے علاوہ حضرت عکاشہ کے بھائی ابو سنان بن محصن نے محاصرے کے دوران وفات پائی۔
جہاں تک حضرت ابولبابہؓ کا معاملہ ہے تو وہ چھ رات مسلسل ستون سے بندھے رہے۔ ان کی بیوی ہرنماز کے وقت آکر کھول دیتی تھیں۔ اور وہ نماز سے فارغ ہو کر پھر اسی ستون میں بندھ جاتے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ پر صبح دم ان کی توبہ نازل ہوئی۔ اس وقت آپ حضرت ام سلمہ ؓکے مکان میں تشریف فرماتھے۔ حضرت ابو لبابہؓ کا بیان ہے کہ حضرت ام سلمہؓ نے اپنے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر مجھ سے کہا : اے ابو لبابہ خوش ہوجاؤ۔ اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی۔ یہ سن کر صحابہ انہیں کھولنے کے لیے اچھل پڑے لیکن انہوں نے انکار کردیا کہ انہیں رسول اللہﷺ کے بجائے کوئی اور نہ کھولے گا۔ چنانچہ جب نبیﷺ نماز فجر کے لیے نکلے اور وہاں سے گزرے تو انہیں کھول دیا۔
یہ غزوہ ذی قعدہ میں پیش آیا پچیس روز تک محاصرہ قائم رہا۔4اللہ نے اس غزوہ اور غزوہ ٔ خندق کے متعلق سورۂ احزاب میں بہت سی آیات نازل فرمائیں۔ اور دونوں غزووں کی اہم جزئیات پر تبصرہ فرمایا۔ مومنین ومنافقین کے حالات بیان فرمائے۔ دشمن کے مختلف گروہوں میں پھوٹ اور پست ہمتی کا ذکر فرمایا۔ اور اہل کتاب کی بدعہدی کے نتائج کی وضاحت کی۔

****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۵۹۱ 2 ایضاً ۱/۵۳۶ صحیح مسلم ۲/۲۹۴ جامع ترمذی ۲/۲۲۵
3 جامع ترمذی ۲/۲۲۵
4 ابن ہشام ۲/۲۳۷، ۲۳۸ غزوے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو: ابن ہشام ۲/۲۳۳ تا ۲۷۳ صحیح بخاری ۲/۵۹۰، ۵۹۱ زاد المعاد ۲/۷۲، ۷۳، ۷۴، مختصر السیرۃ للیشخ عبد اللہ ص ۲۸۷ ،۲۸۸، ۲۸۹، ۲۹۰
 
Top