• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غضیف بن الحارث الکندي (غطیف، غضیب، غظیف) صحابی یا تابعی؟

شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
اس خبر میں موجود غضیف بن الحارث راجح قول میں صحابی نہیں بلکه تابعی ہیں:
غضیب - غضیف - غطیف وغیرہ نام زکر ہوئے ہیں اِن کے۔
لیکن راجح نام کیا ہے اِن کا؟
ملاحظه کریں:
(1) امام ابن ابی حاتم نے کہا:
٣١١ - غضيف بن الحارث أبو اسماء السكوني الكندى واختلف في اسمه فقال بعضهم الحارث بن غضيف وقال ابى وابو زرعة الصحيح غضيف ابن الحارث له صحبة روى عن بلال روى عنه ابنه عياض بن غضيف وابو راشد الحبرانى وحبيب بن عبيد الرحبى ويونس بن سيف ومكحول وعبادة بن نسي سمعت أبى يقول ذلك.
یعنی:
(غضیف بن الحارث ابو اسماء الکندی السکونی) ان کے نام میں اختلاف ہوا ہے۔ امام ابو زرعة نے کہا ان کا صحیح نام غضیف بن الحارث ہے۔
ان سے ان کا بیٹا عیاض بن غضیف بھی روایت کرتا ہے اور ابو راشد بھی".
(یاد رہے کہ ابن ابی حاتم اور ابوزرعة کے نزدیک یہ وہی غضیف بن الحارث "الکندی" ہیں، اور ان سے اِن کا بیٹا عیاض بھی روایت کرتا ہے)
۔
لیکن امام ابن ابی خیثمة نے کیا نام بتایا؟
وقال أبو بكر بن أبي خيثمة: غضيف بن الحارث، وقيل: الحارث بن غضيف، والصحيح غضيف بن الحارث، له صحبة، نزل الشام، وهو بالضاد، فأما غطيف الكندي - بالطاء تحتها نقطة - فهو غير هذا، يروي عنه ابنه عياض بن غطيف قال: سمعت النبي يقول: "إذا شرب الرجل الخمر فاجلدوه"
یعنی:
امام ابن ابی خیثمة کہتے ہیں: غضیف بن الحارث اور یہ بھی کہا گیا کہ الحارث بن غضیف۔ لیکن صحیح جو ھے وہ غضیف بن الحارث ہی ہے۔ لیکن یہ جو غطیف الکندی ہے۔ یہ کوئی الگ راوی ہے۔ اس غطیف سے اس کا بیٹا عیاض بن غطیف روایت کرتا ہے".
۔
اب بتائیں یہاں تو غضیب بن الحارث الکندی کو الگ کردیا امام ابن ابی خیثمة نے؟ کیونکہ ناموں میں ہی اس قدر اضطراب موجود ہے۔
۔
جبکہ امام ابن ابي شيبة نے جب اس اکلوتی روایت کو لکھا۔ تو غطیف بن الحارث کو الکندی ہی لکھا شک کے ساتھ بھی۔
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا زيد بن حباب قال: حدثنا معاوية بن صالح قال: حدثني يونس بن سيف العنسي، عن الحارث بن غطيف، أو غطيف بن الحارث الكندي، شك معاوية، قال: مهما رأيت نسيت لم أنس أني «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وضع يده اليمنى على اليسرى، يعني في الصلاة»
یعنی
یہ الکندی ہی ہیں جیسا کہ ابن ابی حاتم اور ابو زرعة نے کہا۔ رحمھم الله عليهم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن امام ابن ابی حاتم اور ابو زرعة نے ان کا راجح نام "غضيف ابن الحارث الکندی السکونی" بتایا۔ یعنی ضاد کے ساتھ۔
لیکن ابن ابی شیبة والی روایت میں جو نام ھے وہ "غطیف بن الحارث الکندی" ہے۔ یعنی طاء کے ساتھ۔
بحرحال ناموں کے اسقدر اختلاف کے باوجود، یہ ایک ہی شخص ہیں۔
۔
کوئی ایسی روایت موجود نہیں جس سے یہ صحابی ثابت ہوتے ہوں:
امام احمد نے کہا:
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا معاوية، عن يونس بن سيف، عن الحارث بن غطيف أو غطيف بن الحارث قال: ما نسيت من الأشياء لم أنس أني " رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة "
۔

لیکن طبرانی وغیرہ میں یونس اور غضیف بن الحارث کے درمیان ابو راشد ہیں جو بحرحال ثقة تو ہیں۔ لیکن اس سند میں بھی معاویه بن صالح موجود ہیں۔
اور بقول امام ابونعیم۔ اس شک و اضطراب کے ذمے دار بھی معاویة بن صالح ہیں۔
۔
معاویہ بن صالح کا وھم۔
کبھی کہتے ہیں

۔من قال: الحارث بن غطيف، أو: غطيف بن الحارث الكندي،
ومن قال غضيف بن الحارث، أو: الحارث بن غضيف،
ومنهم من فقال: غطيف بن الحارث الكندي، أو غضيف بن الحارث،
ومنهم من قال: الحارث بن غطيف، أو الحارث بن غضيف،
ومنهم من قال: الحارث بن غظيف، وقيل غير ذلك.
.
تو معاویه بن صالح کو ان کا نام ہی صحیح طرح ضبط نہ ہوسکا کہ آخر یہ کون ہیں؟ الحارث ہیں؟ یا غضیف ہیں؟
پھر معاویة بن صالح اسی سند میں کبھی یونس بن سیف کہتے ہیں اور کبھی یوسف بن سیف کہتے ہیں؟؟؟
پھر کبھی یونس بن سیف اور غضیف کے درمیان ابو راشد کا ذکر کردیتے ہیں؟؟
۔
تو یہ اکلوتی سند معاویه بن صالح کا شدید اضطراب اور افراد ہے۔ اور اس سند سے جو متن آیا ہے۔ اس میں غضیف بن الحارث خود کہہ رہے ہیں کہ
میں جو کچھ بھولنا تھا وہ تو بھول چکا ہوں۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ میں نے دیکھا نبی علیه السلام نے نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا تھا".
۔
جبکہ مسند احمد ہی کی دوسری حدیث میں، غضیف بن الحارث، ابو ذر رضی الله عنه سے مکالمہ کرتے ہوئے اپنی صحابیت کے بجائے ابو ذر کی صحابیت کا اثبات کر رہے ہیں۔
ملاحظه ہو:
حدثنا يونس، وعفان، المعنى، قالا: حدثنا حماد بن سلمة، عن برد أبي العلاء، قال عفان: قال: أخبرنا برد أبو العلاء، عن عبادة بن نسي، عن غضيف بن الحارث، أنه مر بعمر بن الخطاب، فقال: نعم الفتى غضيف، فلقيه أبو ذر، فقال: أي أخي استغفر لي. قال: أنت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنت أحق أن تستغفر لي فقال: إني سمعت عمر بن الخطاب يقول: نعم الفتى غضيف، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله ضرب بالحق على لسان عمر وقلبه» قال عفان: «على لسان عمر يقول به» (حم) ٢١٢٩٥
۔
غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا غضیف بہترین نوجوان ہے پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بھائی! میرے لئے بخشش کی دعاء کرو غضیف نے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ میرے لئے بخشش کی دعاء کریں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ غضیف بہترین نوجوان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کردیا ہے۔

۔
لہذا یہ جو غضیف بن الحارث ہیں۔ ان کی مرویات صحابہ اکرام سے ہی معروف ہیں زیادہ تر۔ یعنی خود یہ تابعی ہیں۔ اور یہی ایک مضطرب الاسناد خبر ہے جس سے ان کا صحابی ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اگر انکی صحبت ہوتی تو ان کے پاس اس کے علاوہ بھی روایات ہوتیں نبی علیه السلام سے۔
ھاں اگر یہ مسند روایت کسی اور سند سے موجود ہے؟ جس میں معاویہ بن صالح کا کوئی قوی متابع موجود ہے، تو بات سمجھ آئے گی۔

قال البغوي: "لم يسند الحارث بن غطيف غير هذا۔
امام بغوی نے کہا کہ اس خبر کے علاوہ اس راوی (یعنی غضیف بن الحارث) نے کوئی بھی روایت مسند بیان نہیں کی۔
۔
یعنی
اس حدیث کا دارومدار معاویة بن صالح پر ہے۔ اور ان پر جروحات بھی ہیں ہلکی پھلکی۔ تو امام یعقوب بن شیبة نے اِن کا درجة یہ متعین کیا ہے۔
وقال يعقوب بن شيبة: قد حمل الناس عنه، ومنهم من يضعفه ومنهم من يرى أنه وسط ليس بالثبت ولا بالضعيف.
۔
امام ابن عدي نے کہا:
وهو عندي صدوق، إلا أنه يقع في حديثه إفرادات
۔
وقال أبو حاتم: صالح الحديث، حسن الحديث، يكتب حديثه ولا يحتج به.
۔
وقال علي بن المديني: سألت يحيى بن سعيد عنه فقال: ما كنا نأخذ عنه ذلك الزمان ولا حرفا
۔
وقال ابن معين مرة: صالح، وقال مرة: ليس برضى، وقال مرة: كان يحيى بن سعيد لا يرضاه.
۔
امام ابن حجر نے کہا:
صدوق له أوهام
۔
امام الذھبی نے کہا:
صدوق إمام [الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة (4/ 310)]
۔
وقال أبو صالح الفراء: حدثنا أبو إسحاق، يعني الفزاري يوما بحديث عن معاوية بن صالح، ثم قال أبو إسحاق: ما كان بأهل أن يروى عنه [تهذيب الكمال (28/ 186)]
۔
وذكره أبو العرب في « جملة الضعفاء »، وكذلك الفسوي والبرقي [إكمال تهذيب الكمال (11/ 269)]
۔
وقال أبو الفتح الأزدي: ضعيف. [إكمال تهذيب الكمال (11/ 269)]
۔
وقال ابن القطان: مختلف فيه، ومن ضعفه ضعفه بسوء حفظه. [إكمال تهذيب الكمال (11/ 269)]
۔

یعنی قول راجح میں معاویة بن صالح صدوق حسن الحدیث تو ہیں۔ لیکن اِن کے مفردات ہیں اور ان کو اوھام ھوجاتا ہے اکثر۔ اسی لئے کچھ ائمه کو اِن سے یہی ڈر تھا۔ اور پھر اس حدیث کو بیان کرنے میں معاویه بن صالح کو خود شک ہے۔ کہ یہ کون ہیں؟ غضیف بن الحارث؟ یا الحارث بن غضیف؟ یا غطیف بن الحارث یا الحارث بن غطیف؟ یا غضیب بن الحارث وغیرہ وغیرہ!!
تو ایک حسن الحدیث راوی جس کے حفظ پر بھی کلام کیا گیا ہو۔ اور پھر وہ اپنی کسی مخصوص روایت میں شک کا بھی شکار ہو۔ تو ایسی روایت قابل قبول کیسے ہوسکتی ہے؟
اسی لئے امام ابن حجر اور امام الذھبی نے، امام ابن الاثیر وغیرہ نے اِن کے بارے میں کہا۔ کہ اِن کی صحابیت میں اختلاف ہے۔
اور راجح یہی ہے کہ یہ صحابی نہیں ہیں۔ بلکه تابعین میں سے ہیں۔
یہی بات امام ابن سعد، امام الدارقطنی، ابن خراش، اور امام ابن حبان , امام احمد بن صالح الجیلی وغیرہ نے کی ہے کہ یہ تابعین میں سے ہیں۔ اور یہی بات قرین قیاس بھی ہے۔

امام العلائی اور مغلطائی حنفی دونوں نے امام الدارقطنی سے نقل کیا ہے کہ
امام العلائی کے الفاظ
٩٢٠ - يونس بن سيف روى عن الحارث بن غطيف أو غطيف بن الحارث قال ما نسبت من الأشياء فلم أنس أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة
قال الدارقطني لا يعرف إلا بهذا الحديث يعني الحارث ولا أعلم يونس بن سيف سمع منه أم لا____
تو اس اکلوتی سند پر ایک اشکال یہ بھی ہے۔ بقول امام الدارقطنی "یہ خبر صرف اسی سند سے پہچانی جاتی ہے۔ اور مجھے نہیں معلوم کہ یونس بن سیف نے غضیف سے سنا ہے یا نہیں؟)
۔
مغلطائی الحنفی کی عبارت:
قال مغلطاي في شرح سنن ابن ماجه (٥/ ١٤٠٧ - ط الباز) (٥/ ١٢٥ - ط مكتبة ابن عباس): "وقال الخلال في علله: عن عصمة: ثنا حنبل: ثنا أبو عبد الله: ثنا عبد الرحمن: ثنا معاوية -يعنى: ابن صالح-، عن يوسف بن سيف عنه، قال: وقال أبو عبد الله: هذا إسناد شامي.
وقال الدارقطني: يعني أحمد بهذا أنه لم يرض إسناده؛ لأن الحارث لا يعرف إلا بهذا الحديث، ولا نعلم يوسف بن سيف سمع منه أو لا؟ ".

باقی چند روایات کا حال:
٥٦٣٨ - أخبرناه خيثمة بن سليمان، في كتابه، ثنا سليمان بن عبد الحميد، قال: سمعت العلاء بن يزيد الثمالي، يقول: حدثني عيسى بن أبي رزين الثمالي، قال: سمعت غضيف بن الحارث، يقول: كنت صبيا أرمي النخل للأنصار، فأتوا بي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمسح برأسي، فقال: «كل مما يسقط ولا ترم نخلهم»

خلاصہ : یہ بچے تھے۔ اب معلوم نہیں کتنے بچے تھے کیا عمر تھی؟ لیکن اس روایت کی سند بھی ضعیف ہے۔ جب سند ہی ثابت نہیں تو عمر کی تحقیق کرنا فضول ہے۔
علاء بن یزید الثمالی اور عیسی بن ابی زرین الثمالی دونوں مجھول ہیں اس سند میں۔
۔
امام طبرانی نے ایک اور خبر اس نام کے راوی سے ذکر کی:
٥٦٣٦٥٦٣٦ - حدثنا سليمان بن أحمد، ثنا علي بن عبد العزيز، ثنا أبو غسان، مالك بن إسماعيل، ح، وحدثنا محمد بن أحمد بن الحسن، ثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة، ثنا سعيد بن عمرو الأشعثي، قالا: ثنا عبد السلام بن حرب، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي فروة، عن مكحول، عن أبي إدريس عائذ الله، عن غضيف أو أبي غضيف رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أحدث هجاء في الإسلام، فاقطعوا لسانه» اتفق علي بن عبد العزيز، ومحمد بن عثمان بن علي، غضيف أو أبو غضيف بالضاد
۔
اگر یہ وہی غضیب ہیں بلفرض؟ تو دوباتیں معلوم ہوئیں۔ کہ مکحول سے انکا سماع نہیں۔ لیکن چونکه یہ سند بھی ضعیف ہے۔ تو ممکن ہے اس سند میں مکحول اور غضیب کے درمیان کا اضافہ اسحاق بن عبد الله بن أبي فروة ضعیف نے کیا ہو۔ والله اعلم
نیز اس سند میں اضطراب بھی ہے۔
اسحاق بن عبد الله بن أبي فروة نے اس کو ایسے بھی روایت کیا ہے:
٧٤٦٧ - حدثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، ثنا الحكم بن موسى، ثنا يحيى بن حمزة، ح وحدثنا الحسن بن جرير الصوري، ثنا سليمان بن عبد الرحمن الدمشقي، ثنا محمد بن شعيب، كلاهما عن إسحاق بن أبي فروة، عن مكحول، عن حفص بن سعيد بن جابر، عن أبي إدريس، عن أبي أمامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «من أحدث هجاء في الإسلام، فاقطعوا لسانه
۔
یعنی یہ سند مضطرب بھی ہے۔ اور ضعیف بھی۔
لہذا غضیف بن الحارث کے صحابی ہونے کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔ البتہ یہ ثقة تابعین میں ہیں۔
مکحول کی متابعت عبادہ بن نسي نے کر رکھی ہے۔
اور عمر رضی کے لئے یہ منقبت ثابت ہے اس میں بھی

۔
اور امام ابن حجر نے ناموں کے اختلاف کی وجہ سے ان میں ایک کو معروف تابعی بھی لکھا ہے۔
٦٩٥٨- غضيف بن الحارث الكندي :
تابعي معروف. حدث عن الصحابة في السنن، وقد تقدم التنبيه عليه في القسم الأول.
[الإصابة في تمييز الصحابة]
ا
 
Top