• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غض بصر کے احکام

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521

غضِ بصر کے احکام

مردوں کو غضِ بصر کا حُکم

"اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے۔"
النور:24:30

غضِ بصر کے معنی

غَضّ کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے، گھٹانے اور پست کرنے کے۔ غضِ بصر کا ترجمہ عام طور پر "نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا" کیا جاتا ہے۔ لیکن دراصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے، بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا اور نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزاد نہ چھوڑ دینا ہے۔ یہ مفہوم "نظر بچانے" سے ٹھیک ادا ہوتا ہے، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹالی جائے، قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچے کرے یا کسی اور طرف اسے بچا لے جائے۔

امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باقر سے، اور وہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی فضل بن عباسؓ (جو اُس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے) مشعر حرام سے واپسی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضلؓ ان کی طرف دیکھنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیر دیا۔
(ابو دائود)

اسی حجۃ الوداع کا قصہ ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت راستے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباسؓ نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا منہ پکڑ کر دوسری طرف کر دیا۔
(بخاری، ابودائود، ترمذی)

بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جن میں اجنبیہ کو دیکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔ مثلاً کوئی مریضہ کسی طبیب کے زیرعلاج ہو، یا کوئی عورت کسی مقدمہ میں قاضی کے سامنے بحیثیت گواہ یا فریق پیش ہو، یا کسی آتش زدہ مقام میں کوئی عورت گھِر گئی ہو، یا پانی میں ڈوب رہی ہو، یا اس کی جان یا آبرو کسی خطرے میں مبتلا ہو۔ ایسی صورتوں میں چہرہ تو درکنار حسب ِضرورت ستر کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، جسم کو ہاتھ بھی لگایا جا سکتا ہے، بلکہ ڈوبتی ہوئی یا جلتی ہوئی عورت کو گود میں اٹھا کر لانا بھی صرف جائز ہی نہیں، فرض ہے۔ شارع کا حکم یہ ہے کہ ایسی صورتوں میں جہاں تک ممکن ہو اپنی نیت پاک رکھو، لیکن اقتضائے بشریت سے اگر جذبات میں کوئی خفیف سی تحریک پیدا ہوجائے تب بھی کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ ایسی نظر اور ایسے لمس کے لیے ضرورت داعی ہوئی ہے اور فطرت کے مقتضیات کو بالکل روک دینے پر انسان قادر نہیں ہے۔
("پردہ"، جون 1967ئ، ص 299 -298)


غضِ بصر کے حُکم سے مستثنیٰ صورتیں

غض بصر کے اس حکم سے مستثنیٰ صورتیں صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو، مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو۔ اس غرض کے لیے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے، بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب تو ضرور ہے۔

مغیرہ بن شعبہؓ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم نے لڑکی کو دیکھ بھی لیا ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: "اسے دیکھ لو۔ اس طرح زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہوگی"
(احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)

حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کہیں شادی کا پیغام بھیجا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لڑکی کو دیکھ لو، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے"
(مسلم، نسائی، احمد)

جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواستگار ہو تو حتی الامکان اسے دیکھ کر یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ آیا عورت میں ایسی کوئی خوبی ہے جو اس کے ساتھ نکاح کی طرف راغب کرنے والی ہو"
(احمد، ابودائود)

مسند احمد میں ابُوحمیدہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض کے لیے دیکھنے کی اجازت کو فَلاَ جُنَاحَ کے الفاظ میں بیان کیا، یعنی ایسا کرلینے میں مضائقہ نہیں ہے۔ نیز اس کی بھی اجازت دی گئی کہ لڑکی کی بے خبری میں بھی اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی سے فقہا نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں۔ مثلاً تفتیشِ جرائم کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا، یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا، یا علاج کے لیے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ۔

غضِ بصر کے حکم کا منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے"
(احمد، مسلم، ابودائود، ترمذی)

حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’کسی زندہ یا مُردہ انسان کی ران پر نگاہ نہ ڈالو۔‘‘
(تفہیم القرآن،سوم، ص 382، النور حاشیہ 29)
[تفہیم القرآن، جلد سوم،ص 86-83]
سید ابوُالاعلیٰ مودودیؒ


By Shams Khan
 
Top