• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غفور ورحيم کی مختصراً وضاحت..

شمولیت
فروری 21، 2019
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
56
غفور اور رحيم یہ دونوں اللہ رب العزت کے مبارک اسماء میں سے ہیں، ان دونوں اسماء کا ذکر قرآن مجید میں بکثرت ہوا ہے
باری باری ہم اس کی مختصراً وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وما توفیقی الا باللہ
غفور۔۔۔۔۔ گناہ بخشنے والا
یہ "غفار" کی طرح مبالغہ کے معنی رکھتا ہے مگر " غفار " میں تکرار کے معنی ہیں ( یعنی بار بار بخشنے والا) اور " غفور " میں کمال اور تمام کے یعنی سب گناہ بخشنے والا۔
( الغزالي بحوالة تشريح الاسماء الحسنى،ص : ٨٤)
یہ اسم مبارک تنہا قرآن مجید میں (٩١) مرتبہ واقع ہوا ہے۔
اور "رحیم" کے ساتھ (٧٥) مرتبہ ، اسم " عزیز کے ساتھ (٢) مرتبہ، اسم " عفو" کے ساتھ (٥) مرتبہ، اسم " شکور " کے ساتھ (٢) مرتبہ ، اسم " حلیم " کے ساتھ ایک مرتبہ، اسم " ودود" کے ساتھ ایک مرتبہ اور صفت " ذوالرحمة " کے ساتھ ایک مرتبہ وارد ہوا ہے

شيخ ابن عثيمين رحمه الله لکھتے ہیں:
" غفور" مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ غفر سے ماخوذ ہے جو کہ " بچاؤ کے ساتھ پردہ " سے عبارت ہے، اور یہ غفر یغفر مغفر سے ماخوذ ہے۔ مغفر (خود) ایک ایسی چیز ہے جسے فوجی جنگ کے دوران تیروں وغیرہا سے بچنے کے لیے سر پر پہنتا ہے۔ اس سے دو فائدے حاصل ہوتے ہیں، ایک تو سر چھپ جاتا ہے دوسرے تیروں سے محفوظ رہتا ہے، اس اعتبار سے " الغفور " وہ ہے جو اپنے بندوں کے گناہوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور پھر معاف کرکے انہیں ان کی سزاؤں سے بچاتا ہے ۔ اس معنی کی دلیل نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے: " اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندے کے ساتھ علیحدگی میں جاکر اس سے اس کے گناہوں کا اعتراف کرواتے ہوئے فرمائے گا: تو نے یہ عمل کبھی کیا؟، تونے یہ گناہ بھی کیا ۔۔۔۔۔یہاں تک کہ وہ سب کا اقرار کرلے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کہے گا : میں نے دنیا میں تیرے یہ گناہ چھپائے رکھا اور آج میں انہیں معاف کرتا ہوں " (صحیح بخاری: ٢٤٤١ ۔ صحیح مسلم : ٢٧٦٨)

دوسری جگہ لکھتے ہیں : " غفور" مبالغہ کے لئے اسم فاعل ہے یا صفت مشبہ ۔ دوسری صورت میں یہ صفت لازم ثابت پر دلالت کرتی ہے جو کہ صفت مشبہ کا تقاضا ہے، جبکہ پہلی صورت میں یہ صیغہ تکثیر کی طرف محول ہے، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی کثرت کے ساتھ معاف فرمایا کرتا ہے ۔
ہمارے نذیک یہ صیغہ دونوں چیزوں کا جامع ہے، یہ صفت مشبہ بھی ہے، اس لیے کہ مغفرت اللہ تعالیٰ کی دائمی صفت ہے، نیز یہ ایسا فعل بھی ہے جو اس کی طرف سے بکثرت واقع ہوا کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کس قدر زیادہ اور کس قدر باعظمت ہے ۔

رحیم۔۔۔۔ نہایت رحم کرنے والا، ہمہ گیر رحمت والا
یہ بھی اسم فاعل اور مبالغہ کے صیغہ کی طرف محول ہے، " رحم " سے اسم فاعل تو " رحیم " آتا ہے، مگر رحمت باری تعالی کی کثرت وسعت اور مرحومین کی کثرت کی وجہ سے اسے مبالغہ کے صیغہ " رحیم" میں تحویل کردیا گیا ۔
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں اسموں کو ایک ساتھ ذکر کیا اس لیے کہ یہ دونوں ملتے جلتے معنی پر دلالت کرتے ہیں۔
مغفرت باری تعالی مکروب اور گناہ کے آثار کے زوال کا پیغام لے کر جبکہ رحمت ایزدی حصول مطلوب کی بشارت لے کر آتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا : " تو میری رحمت ہے میں تیرے ساتھ جس پر چاہوں گا رحم کروں گا۔ ( صحیح بخاری ٤٨٥٠ ۔ صحیح مسلم ٢٨٤٥ )
(شرح العقيدة الواسطية ص ٣٤٤)
رحیم۔۔۔ قرآن مجید میں (١١٤) مرتبہ آیا ہے

(ہدایت اللہ فارس)
 
Top