عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
غلطیوں کی اصلاح کا نبوی طریق کار
تحریر: عبدالغفار سلفی، بنارس
انسان خطا ونسیان کا پتلا ہے.کوئی انسان یہ دعوی کر ہی نہیں سکتا کہ وہ غلطیوں سے پوری طرح سے مبرا ہے. لہذا اگر انسان سے خطا کا صدور ہو تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں. اہم بات یہ ہے کہ آدمی غلطی پر مصر نہ رہے بلکہ جیسے ہی غلطی واضح ہو حق کی طرف رجوع کر لے. آج ہم جب اصلاح معاشرہ کی بات کرتے ہیں تو اس میں بہت سارے ایسے مواقع آتے ہیں جب ہمیں معاشرے میں پھیلی ہوئی غلط باتوں یا غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہوتا ہے، ہمیں سامنے والے کو اس کی غلطی بتانی ہوتی ہے. ظاہر ہے کہ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے اس لیے کہ جلدی کوئی اپنی غلطی مانتا نہیں ہے. آئیے ہم جاننے کی کوشش کریں کہ اس سلسلے میں معلم انسانیت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل کیا تھا؟ آپ کس طرح لوگوں کی غلطی واضح کرتے تھے اور ان کی اصلاح کرتے تھے.
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق اصلاح عموماً نرمی پر مبنی ہوتا تھا. اللہ تعالی نے فطرتاً آپ کو انسانیت کے حق میں انتہائی نرم بنایا تھا اور دلوں کو فتح کرنے کا ملکہ بھی آپ کو اسی نرمی اور خوش کلامی کے سبب حاصل تھا. اللہ فرماتا ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۠ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ
(اے نبي!) اللہ تعالٰی کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بدزبان اور سخت 'دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ،سُو آپ ان سے درگُزر کریں اور ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالٰی پر بھروسہ کریں بیشک اللہ تعالٰی توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(سوره آل عمران: 159)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی نرم طبیعت کا تقاضا تھا کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ بھی نرمی اور ملائمت کا سلوک کرتے تھے جو آپ کے ساتھ ناشائستہ سلوک کر جاتے تھے. ایک مثال ملاحظہ کریں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا «السام عليكم.» (تمہیں موت آئے) عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں اس کا مفہوم سمجھ گئی اور میں نے ان کا جواب دیا کہ «وعليكم السام واللعنة.» (یعنی تمہیں موت آئے اور لعنت ہو) بیان کیا کہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ٹھہرو، اے عائشہ! اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی اور ملائمت کو پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے سنا نہیں انہوں نے کیا کہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس کا جواب دے دیا تھا کہ «وعليكم» (اور تمہیں بھی)۔(صحیح بخاری: 6024)
لیکن اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی غلط بات پرغصہ نہیں آتا تھا اور آپ غضبناک نہیں ہوتے تھے. بلکہ جب کبھی اللہ کے دین کے ساتھ استہزاء وتمسخر کا معاملہ ہوتا یا قانون الہی سے بغاوت کی بات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سختی سے صحیح موقف کو اپنے اصحاب کے سامنے واضح کرتے. حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ کے بڑے محبوب صحابی تھے لیکن ایک بار جب انہوں نے حدود شریعت کے سلسلے میں سفارش کرنی چاہی تو آپ نے کیسی شدت کے ساتھ اس کی تردید کی، حدیث ملاحظہ فرمائیں:
حضرت عائشه رضي الله عنها فرماتى هيں کہ مخزومیہ خاتون (فاطمہ بنت اسود) جس نے (غزوہ فتح کے موقع پر) چوری کر لی تھی، اس کے معاملہ نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کون کرے! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا (جس میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں. (صحيح بخاري:3475)
اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق اصلاح مخاطب کی رعایت کے مطابق ہوتا تھا. اگر غلطی آپ کے خاص اصحاب میں سے کسی سے ہوتی اور اس کا تعلق دین کے بنیادی امور سے ہوتا تھا تو آپ نہایت سخت موقف اپناتے تھے. حقیقت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ذاتی اغراض کے پیش نظر کسی سے ناراض نہیں ہوتے تھے البتہ جب حدود شریعت پامال کی جاتی تو آپ کسی قسم کی رو رعایت نہ برتتے. اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے لیے کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اسی کو اختیار فرمایا جس میں آپ کو زیادہ آسانی معلوم ہوتی بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔ کیونکہ اگر اس میں گناہ کا کوئی شائبہ بھی ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔ لیکن اگر اللہ کی حرمت کو کوئی توڑتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ضرور بدلہ لیتے تھے۔(صحيح بخاري:3560)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نادان اور ناواقف شخص کو اس کی غلطی پر انتہائی صبر وتحمل کے ساتھ سمجھا بجھا کر اس کی غلطی واضح فرماتے تھے. ایک بار مسجد نبوی میں ایک اعرابی نے پیشاب کر دیا. لوگ اس پر جھپٹنے لگے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا بھرا ہوا ڈول یا کچھ کم بھرا ہوا ڈول بہا دو۔ اور اس کے بعد آپ نے بہت پیارا جملہ ارشاد فرمایا:
"فإنما بعثتم ميسرين ، ولم تبعثوا معسرين"
" کیونکہ تم نرمی کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کے لیے نہیں۔"(صحیح بخاری: 220)
ایک داعی اور مصلح کے لیے اس جملے میں بہت ساری نصیحتیں ہیں.
غلطیوں کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طریق کار یہ بھی تھا کہ آپ برائی کا ارادہ کرنے والے کے دل میں اس برائی کی ایسی نفرت ڈال دیتے اور اس کی قباحتوں کو اس طرح واضح کر دیتے کہ وہ انسان راہ راست پر آ جاتا.ایک مرتبہ ایک نوجوان آپ کے پاس آیا اور زنا کی اجازت مانگنے لگا. لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے برا بھلا کہنے لگے اور کہنے لگے: چپ ہو جاؤ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے میرے قریب کر دو۔ وہ آدمی آپ ﷺ کے قریب آیا اور بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اپنی ماں کے لئے اسے پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اپنی ماؤں کے لئے اسے پسند نہیں کرتے ۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اپنی بیٹی کے لئے اسے پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں واللہ! اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لئے اسے پسند نہیں کرتے۔ پھر فرمایا: کیا تم اپنی بہن کے لئے اسے پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔آپ ﷺنے فرمایا:لوگ بھی اپنی بہنوں کے لئے اس کام کو پسند نہیں کرتے۔ پھر فرمایا: کیا اپنی پھوپھی کے لئے اس کام کو پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اپنی پھوپھیوں کے لئے اس کام کو پسند نہیں کرتے۔ پھر آپ نے اس سے فرمایا: کیا تم اپنی خالہ کے لئے اس کام کو پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں۔ اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اس کام کو اپنی خالاؤں کے لئے پسند نہیں کرتے۔ پھر آپ ﷺ نے اس کے اوپر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا: اے اللہ اس کے گناہ بخش دے، اس کا دل پاک کر دے اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما۔ اس کی بعد وہ نوجوان کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا. (سلسلة الأحاديث الصحيحة: 2189)
سبحان اللہ کتنا پیارا اور دل پذیر انداز ہے اصلاح کا، اور اس قدر موثر کہ ایک ہی بار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت سیدھے اس نوجوان کے دل میں اتر گئی اور وہ سچے دل سے تائب ہو گیا. سچ ہے...
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
اللہ ہمیں بھی اصلاح کے سلسلے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت کو اپنانے کی توفیق دے. آمین.