عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
غور و فکر کے چند زاویے
تحریر: علامہ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ
یہ تو ہلکا سا عکس ہے مسلمانوں کے معاشی ثقافتی اور سیاسی انحطاط و گراوٹ کا۔
دوسری جانب مسلمانوں کی اپنی اعتقادی، عملی اور اخلاقی حالت اور ان کی داخلی کیفیت اس سے بدتر ہورہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ خلفاء راشدین اور کسی حد تک خلافت بنوامیہ اور بعض سلاطین کے ادوار کو مستثنیٰ کر دیا جائے تو مسلمان اپنی داخلی کیفیت میں اپنے دین اور اپنی شریعت کے مقتضیات سے دور ہی ہوتے چلے آرہے ہیں۔ توحید کا وہ عظیم الشان عقیدہ جس کے لیے قرآن کریم کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ وقف ہے اور جس کی ترکیز کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور نبوت کا بیشتر حصہ صرف فرمایا اور جس توحید اور اس کے مقتضیات کے نکھارنے اور شرک و ذرائعِ شرک کی بیخ کنی کے لیے صحابہ، تابعین، اتباع تابعین، ائمہ محدثین و فقہاء و مصلحین و مجددین نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور جس عقیدۂ توحید کے کمال و ندرت نے یہودیت، مسیحیت بودھ ازم، ہندو مت اور پارسی مذہب تک پر اپنی چھاپ ڈالی اور ان مذاہب کے ذمہ داران بھی اپنے آپ کو موحد ثابت کرنے پر مجبور ہوئے جس کا یہ اثر تھا کہ ہندومت کے بطن سے آریت اور سکھ ازم نے جنم لیا عیسائیت تثلیث کی تاویل و توجیہ پر مجبور ہوئی وہ عقیدۂ توحید خود مسلمان کے یہاں اجنبیت اور غربت کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ کتنی تعجب خیز بات ہے کہ اہل التوحید امت محمدیہ کی دولت کا اکثر و بیشتر حصہ شرک پرستی کی نذر ہورہا ہے۔ قبر پرستی، مزار پرستی، عرس پرستی، پیر پرستی، مشائخ پرستی، شخصیت پرستی، توسل پرستی، تصوف پرستی، اور اہل بیت پرستی ،اور ہزاروں پر ستیاں ہیں جو مسلمانوں کو اپنے چنگل میں لے چکی ہیں۔
اس پسماندہ ملت کی دولت و ثروت کا بیشتر حصہ عید میلاد النبی، شب برات، رجبی عرس، جیسی بدعات و خرافات پر برباد ہو رہا ہے اور اس کے علماء و اعیان کی قوت و انرجی تقلید و شخصیت پرستی کے رجحانات کو تقویت دینے میں خرچ ہو رہی ہے، عقیدۂ ایمان بالرسالت انگوٹھوں کے چومنے اور مبالغہ آمیز نعتیہ شاعری تک محدود ہو کر رہ گیا، اسوۂ رسول، جس کے مطابق زندگی گزارنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے وہ ہماری نظروں سے بالکل اوجھل ہوچکا ہے۔ آخرت، قیامت دوزخ و جنت بہشت و حور، حساب و کتاب پل صراط و کوثر کے تصورات تو اس قدر پس پشت ڈالے جا چکے ہیں کہ مسلمانوں کو ان کے ذکر سے وحشت سی ہوتی ہے۔ اور عملی نقطہ نظر سے زبوں حالی اتنی بڑھ چکی ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں فرق کرنا تک ممکن نہیں رہ گیا ہے۔ صلاۃ و صوم زکوٰۃ حج اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فرائض سے ہم روز بروز دور ہوتے جارہے ہیں لباس، رنگ ڈھنگ، چال اور شکل و صورت کسی بھی لحاظ سے ہمارا امتیاز باقی نہیں رہا۔ مسجدیں شاندار سے شاندار بنائی جا رہی ہیں، تعمیر مساجد میں فخر و مباحات کی ساری سنتیں تازہ ہو رہی ہیں لیکن مصلیان صفر کے درجہ میں ہیں۔ مسلمانوں کے صوم اور حج مقصدیت سے یکسر دور ہو چکے ہیں۔ نفلی صدقات و تبرعات کا تو ذکر ہی کیا فریضہ زکوٰۃ تک متروک ہوتا جارہا ہے اور انگلیوں پر گنے چنے افراد اگر زکوٰۃ دیتے بھی ہیں تو ذکر ہی کے جذبے سے یا تاوان سمجھ کر۔ تعلیم و تربیت جو کسی بھی قوم کے ارتقاء و عروج کا معیار ہوتا ہے اس میں مسلمان سب سے پیچھے ہیں دینی علوم ہوں یا عصری، ہر میدان میں ان کا معیار پستی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔
رہے اخلاق و معاملات جو قوموں کی بقاء اور اجتماعی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں تو مسلمانوں کی گراوٹ ضرب المثل بن چکی ہیں۔ بے غیرتی، چوری، زناکاری، وعدہ خلافی، بد عہدی، دروغ بافی، دھوکہ دہی، غلاظت، گندگی، جھنجھلاہٹ، غصہ، چڑچڑاپن، فضول خرچی، اسراف و تبذیر، لین دین میں خرابی امانت میں خیانت، تہمت تراشی، غیبت، استہزاء ، تفسیق، تکفیر، تضلیل، ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا، الغرض اخلاق و معاملات کی کون سی ایسی خرابی ہے جو ان کے اندر نہ ہو۔
یہ ہے مسلمانوں کی دینی، اخلاقی معاشی، معاشرتی اور سیاسی حالت کا مختصر سا خاکہ۔
ایک طرف تو مسلمانوں کے داخلی اور خارجی مسائل کی یہ نزاکت ہے اور دوسری جانب مسلمان مکمل طور پر ذہنی عیاشی کا شکار ہے۔ آپ رکشا پر سوار ہوں، تانگہ پر بیٹھے ہوں، جھاڑو دینے والے یا نالی صاف کرنے والے سے گفتگو کریں وہ نکسن و برزنیف کی ملاقات، اندرا بھٹو کی چوٹی کانفرنس، ہیتھ و پومیڈور کے سیاسی نظریات سے نیچی گفتگو نہیں کریں گے، خواہ ان کے گھر میں ایک وقت کی روٹی اور جسم ڈھانکنے کے لئے چیتھڑا تک نہ ہو، لیکن اپنی بات چیت میں وہ کمندیں کرہ قمر و مریخ پر ہی ڈالیں گے اور ذہنی عیاشی کی یہ کیفیت عوام تک محدود نہیں بلکہ اصلاح و تعمیر ملت کے دعویدار قائدین تک شعوری یا غیر شعوری انداز میں اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔
مسلمانوں کی اکثریت اس ابلہ فریبی میں مبتلا ہوتی جارہی ہے کہ سیاسی تنظیم و استحکام اور سیاسی وحدت ہی وہ جادو کی چھڑی ہے جس کے ہلانے سے مسلمان ادبار و تنزل کی گہرائیوں سے اچھل کر عروج و اقبال کے عرش معلی پر پہنچ جائیں گے اور اس سلسلہ میں بعض سیاسی تنظیمیں موقع شناسی اور ہوس اقتدار میں اس قدر اندھی ہوچلی ہیں کہ کٹرسے کٹر فرقہ پرست فسطائی مسلم دشمن جماعتوں سے لے کر الحاد، دہریت اور دین و مذہب دشمنی اور اسلام کی بیخ کنی کے تصورات پر مبنی جماعتوں تک سے پیکٹ کرنے سے جھجھک محسوس نہیں کرتیں اور سیاست کے نام پر ہر ناجائز و جائز تسلیم کرنے پر اپنے آپ کو تیار رکھتی ہیں اور ایک پارٹی، ایک قیادت اور ایک جھنڈے کی موہوم خوش فہمی میں مسلمانوں کو مبتلا کرتے ہوئے شریف سے شریف مسلمانوں کی عزت و ناموس پر کیچڑ اچھالنے تک میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ جذباتیت، طیش، اور سوڈا واٹر جیسا سستا جوش و خروش ہی ان کا سارا سرمایۂ فکر ہے، اس کے بالمقابل سرکاری مسلمانوں اور کانگریس کے چشم و ابرو کے اشاروں پر حرکت کرنے والی بعض تنظیموں کا یہ حال ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو سیکولرزم، سوشلزم اور موہوم جمہوریت اور قومی دھارے کے غلط تصور میں مبتلا رکھ کر ان کے ملی وجود کو ختم کر دینے کی غیر شعوری حرکت کا ارتکاب کر رہی ہیں۔
اور کچھ لوگ صرف کلمہ کی رٹ لگوا دینے اور بغیر سمجھے بوجھے چند ایام کا چلہ لے لینے ہی کو ملت کی نجات کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
اور کچھ ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو مسلمانوں کے مختلف طبقات کو اپنی اپنی فکری غلطیوں، خرافات، و بدعات تقلید و شخصیت پرستی اور اوہام پرستی پر باقی رہتے ہوئے متحد ہو جانے کی دعوت دیتی ہیں اور اسی کو تعمیر ملت کاسب سے بڑا ذریعہ سمجھتی ہیں۔ ایک طرف تو یہ الیکشن کے موقع پر مسلمانوں کو اپنی رائے کے استعمال سے روکتی اور خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلانے کی دعوت دیتی ہیں اور اپنے آپ کو بظاہر بھارت کی عملی سیاست سے الگ بتاتی ہیں اور دوسری جانب ملت میں موجود اور نئی پیدا شدہ تمام سیاسی لہروں کے پیچھے ان کا ہاتھ ہوتا ہے۔
یہ ہے مسلمان قائدوں اور مسلم تنظیموں کا مختصر سا تجزیہ اور موجودہ حالات و ظروف۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سے وہ صحیح طریقے ہیں جنہیں اپنا کر مسلمان اپنی تاریخ کے ان نازک ترین حالات میں صحیح سمت کی جانب سفر اور اصلاح و تعمیرِ ملت کا اہم کام شروع کر سکتے ہیں؟
سو عرض ہے کہ اس سلسلے میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کا بھی بھر پور مطالعہ اور اسی کی روشنی میں اصلاح کی تلاش اور اس کی جانب سفر ہی امت کو موجودہ مشکلات سے نجات دلا سکتی ہے اور کچھ نہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا جب ہم گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں تو سب سے پہلی حقیقت جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کسی بھی لمحہ توحید اور عقائد سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئے، آپ کے سامنے دولت و ثروت اور اقتدار کی ہر طرح کی پیش کش ہوئی۔ بعض اصحاب ثروت و جاہ کی طرف سے فقراء مساکین کو تھوڑی دیر تک نظر انداز کر دینے اور خود ان کے پندار و نخوت کا لحاظ کرنے کی گزارش ہوئی لیکن آپ نے اسے بھی گوارا نہیں فرمایا۔ حق کو نظر انداز کر کے اصول اسلام کی بابت آپ کی تھوڑی سی نرمی بھی بظاہر کافی فائدہ بخش ثابت ہوتی لیکن وقتی اور ہنگامی کامیابی و کامرانی کو آپ نے حق کشی کے مترادف سمجھا، کسی غلط نظریات کے حامل فریق سے پیکٹ کرنا آپ نے کبھی صحیح نہیں سمجھا۔ مدینہ منورہ میں آپ نے عیسائیوں کی حمایت کر دی ہوتی تو وہ آپ کی دوستی کا پورا حق ادا کرتے، لیکن آپ نے اپنے عقائد کی حفاظت کی خاطر سب کی دشمنی مول لی اور کسی سے بھی ہنگامی اور وقتی بے اصول مصالحت پر آمادہ نہ ہوئے۔ مکی زندگی کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے عملی سیاست سے یکسر کنارہ کشی فرمائی اور پورا زور اصلاح معاشرہ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت، ان کی اخلاقی بلندی، تزکیہ نفس اور فکری و نظریاتی تقدیس اور ان کا کیرکٹر بلند کرنے پر صرف فرمایا۔ اپنے عقیدہ کی راہ میں ہر قسم کے ایثار و قربانی کی اسپرٹ ان کے اندر پیدا فرمادی اور اس تربیت کے نتیجہ میں عزیمت و استقامت کے ایسے اعلی اوصاف ان کے اندر پیدا ہوئے کہ بڑے سے بڑا عذاب اور بڑے سے بڑا لالچ بھی انہیں ان کے موقف سے نہ ہلا سکا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ اسلام میں شرک، ذرائعِ شرک، بدعات و خرافات، غلط رسوم و عادات اور باطل تصورات کو کبھی گوارہ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح موقع پرستی اور جوڑ توڑ نیز ذہنی عیاشی کی کوئی گنجائش نہیں ملتی ہے، اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ’’قل الحق ولو کان مرا‘‘ (حق بولو چاہے وہ کڑواہی کیوں نہ ہو) ’’الفتنۃ اشد من القتل‘‘ (فتنہ و فساد قتل سے بھی زیادہ مضر ہے) ”من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ“ (آدمی کے اسلام کی اچھائی اور صحت کا ایک اہم جزو یہ ہے کہ وہ لا یعنی، بعید از کار اور اپنے سے غیر متعلق باتوں کو چھوڑ دے) اسلام کی سیدھی راہ یہ ہے کہ پہلے انسانیت کو شرک، مظاہرِ شرک، غلط تصورات و افکار، خرافات و بدعات، رسوم و عادات سے نجات دلائی جائے اور توحید اور اس کے تقاضوں کو پورے طور پر دل و دماغ میں مستحکم و پیوست کیا جائے۔ اس کے بعد اسلامی فرائض و شعائر کا عادی بنایا جائے۔ اخلاق و معاملات کی پاکیزگی پیدا کی جائے اور ان بنیادوں پر افراد کی عملی تربیت ہو اور انہیں تربیت یافتہ افراد پر مبنی صالح معاشرہ وجود پذیر ہو، پھر خود بخود ظلم و جور، قہر مانیت اور شرارت کے جھروکے بند ہو جائیں گے اور عدل و انصاف مساوات و شرافت اور اچھی قدروں کا دریا موجزن ہوگا۔
یہ ہے صحیح راہ عمل اور واحد طریقہ نجات اور اسی ذریعہ سے ملت کی تعمیر اور انسانی معاشرہ کی اصلاح کا کارنامہ انجام پا سکتا ہے۔
مسلمانوں سے میں اپیل کروں گا کہ وہ جذباتی نعروں، غلط سیاست بازی، سیاسی جور توڑ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور سطحی و ہنگامی شورشوں سے یکسر احتراز کریں۔ مسلم پرسنل لاء، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنیادی اقلیتی حقوق وغیرہ سے متعلق مسلم پرسنل لاء بورڈ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکشن کمیٹی، دینی تعلیمی کونسل جیسے مخلص ادارے اپنی حد تک پوری محنت کر رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات، اردو، مسلمانوں کے لیے ملازمت، مسلمانوں کے سیاسی حقوق، دستور، حقوق کے تحفظ وغیرہ مسائل سے متعلق بھی ہم اپیل کریں گے کہ تمام مکاتب فکر پر مشتمل انجمنیں اور کونسلیں بنادی جائیں اور سارے مسلمان ان کے ساتھ تعاون کریں، لیکن مجموعی طور پر تمام مسلمان افراد اور تنظیموں کو معاشرہ کی اصلاح، اخلاقی سدھار، معاملاتی درستگی اور مسلمانوں کو شرک و مظاہرِ شرک، بدعات و خرافات، رسوم و عادات، قبر پرستی، مزار پرستی، عرس پرستی اور مشائخ پرستی نیز شخصیت پرستی کے خطرناک فتنوں سے بچانے کی طرف پورے طور پر متوجہ ہو جانا چاہئے۔ ساتھ ہی عصری علوم میں مسلمان جتنا پیچھے ہوتا جا رہا ہے اس کے لیے آل انڈیا پیمانے پر ایک مضبوط تعلیمی تنظیم قائم ہونی چاہیے جس کا نہایت معقول فنڈ ہو اور اس کی قیادت خالص دینی نقطۂ نظر رکھنے والے ماہرین تعلیم فرمائیں اور ماہرین تعلیم مسلمانوں کا ایک بورڈ پورے ملک کا سروے کر کے ذہین ترین طلباء کا انتخاب کر لے اور انٹریو لینے کے بعد ان طلباء کے رجحان کے مطابق ادب و آرٹ، قانون و سیاست، میڈیکل وانجینئرنگ، سائنس و تجارت اور دوسرے جدید علوم اور صنعتی شعبوں میں ان کا داخلہ کرائے اور اس تعلیمی فنڈ سے بطور قرض یا بطور وظیفہ ان کی تعلیم اور دوسرے مصارف کا معقول بندو بست ہو، انہیں وظیفے دئے جائیں اور پوزیشن لانے پر انعامات سے بھی انہیں نوازا جائے اور یہ کام نہایت امانت و انصاف اور غیر جانب داری کے ساتھ انجام دیا جائے۔ اس کے لیے باقاعدہ دس سالہ پلاننگ ہو اور مخلصین ملت سے مشوروں کے بعد اس کے پروگرام تیار ہوں اور موجودہ نعروں اور سیاست بازیوں کے تصورات سے اسے یکسر الگ رکھا جائے اور معاشی حیثیت سے مسلمانوں کی پسماندگی کے سلسلہ میں فوری اسمال انڈسٹریز اور چھوٹی صنعتوں اور مختصر کارخانوں وغیرہ کے طریقے تجربے میں لائے جا سکتے ہیں۔
ہماری نظر میں مسلمانوں کے دینی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کا حل اور تعمیر ملت کا یہی واحد راستہ ہے، کیا میں امید کروں کہ قائدین ملت ان حقیر گزارشات پر غور کرنے کی زحمت گوارا فرمائیں گے۔؟