• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیراللہ کے قانون کو شریعتِ اسلامی پر ترجیح دینا

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
653
ری ایکشن اسکور
197
پوائنٹ
77
غیراللہ کے قانون کو شریعتِ اسلامی پر ترجیح دینا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ

کیا ان کے لیے اللہ کے سوا ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے وہ دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا؟ اگر قیامت کے دن فیصلہ کرنے کی بات نہ ہوتی تو یقیناً ابھی فیصلہ کر دیا جاتا۔
[سورة الشورى، آیت : ۲۱]

ہمارے ہاں توحید الوہیت کی شاخ توحید الدعاء والعبادة پر تو زور دیا جاتا ہے، جس کے مطابق اللہ ہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے، جبکہ توحید الوہیت کی دوسری شاخ توحید الحکم والطاعة ہے، جس کے مطابق قانون اور دستور ٹھہرانا صرف اللہ کا خاص حق ہے۔ اگر بندے اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر اس کے مخالف خود کوئی قانون وضع کر لیں اور اسے شریعت پر ترجیح دے کر اجتماعی طور پر نافذ العمل ٹھہرائیں، تو یہ اللہ کی توحید میں شرک اور طاغوت کی عبادت ہے۔

حاکمیت اور قانون سازی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کی وضع کردہ شریعتِ اسلامی ہی یہ حق رکھتی ہے کہ وہ انسانوں کے ہر قسم کے میدان زندگی، سماجی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور عدالتی نظامِ مملکت پر نافذ و غالب کی جائے۔ لیکن اس کے برعکس، انسانوں کے وضع کردہ اور پسند کردہ قوانین کو نظامِ زندگی پر نافذ کرنا درحقیقت اللہ کی حاکمیت میں شرک اور اس کی شریعت سے کفر و انکار کر دینے کے مترادف ہے۔

شریعت کو ظاہراً مانتے ہوئے اور اسے عملاً عدالتوں میں حکم اور قانون ٹھہراتے ہوئے، اس کے احکام سے کسی قاضی و حکمران کی انفرادی خلاف ورزی و ظلم تو معاصی اور کبیرہ گناہ میں سے ہے، جس سے مسلمان کافر نہیں ہوتا۔ البتہ اللہ کی شریعت سے مخالف دستور و قانون کی طرف رجوع کر لینا اور اسے اپنی عدالتوں و فیصلوں میں نافذ اور حکم ٹھہرا لینا، کفرِ اکبر میں سے ہے۔ نواقضِ الاسلام میں اس مذکورہ صورت کو اسلام سے خارج کرنے والا عمل ٹھہرایا گیا ہے۔

شیخ محمد حامد الفقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ومثل هذا وشر منه من اتخذ من كلام الفرنجة قوانين يتحاكم إليها في الدماء والفروج والأموال, ويقدمها على ما علم وتبين له من كتاب الله وسنة رسوله -صلى الله عليه وسلم-. فهو بلا شك كافر مرتد إذا أصر عليها ولم يرجع إلى الحكم بما أنزل الله. ولا ينفعه أي اسم تسمى به, ولا أي عمل من ظواهر أعمال الصلاة والصيام ونحوها.

جو شخص قتل، زناکاری یا چوری وغیرہ کے مقدمات میں فرنگیوں کے قوانین کے ذریعے فیصلے کرتا ہے اور ان قوانین کو کتابُ اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدم کرتا ہے، وہ بھی تاتاریوں جیسا ہے، بلکہ ان سے بھی بدتر ہے۔ ایسا شخص اگر اسی طریقے پر ڈٹا رہا اور اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کا راستہ اختیار نہ کرے تو وہ بلا شک و شبہ کافر اور مرتد ہے۔ اسے نہ تو مسلمانوں کا کوئی نام فائدہ دے سکتا ہے اور نہ ہی ظاہری اعمال، مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کا اسے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔


[حاشیہ فتح المجيد شرح كتاب التوحيد، ص : ٣٩٦]
 
Top