) کیا کوئی غیر مسلم مسلمانوں کی مسجد یا نماز کی جگہ میں نماز کے موقع پر یا تقریر سننے کے لئے داخل ہوسکتا ہے؟
(۲) مسلمان کیلئے گرجامیں داخل ہونے کا کیا حکم ہے خواہ وہ ان کی نماز دیکھنے کیلئے جائے یا لیکچر سننے جائے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتهالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ کے متعلق اس سے پہلے ہماری طرف سے فتویٰ نمبر ۲۹۲۲ جاری ہوچکا ہے۔ اس کے الفاظ یہ تھے: ’’مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ کسی کافر کو مسجد حرام یا حدود حرام میں داخل ہونے کی اجازت دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا }(التوبة۹؍۲۸)
’’اے مومنو! مشرک یقینا ناپاک ہیں تو وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں۔ ‘‘
دوسری مسجد کے بارے میں بعض فقہاء نے جواز کا فتویٰ دیا ہے کہ کونکہ منع کی دلیل موجو دنہیں ‘ بعض علماء کہتے ہیں جائز نہیں ‘ وہ مسجد حرام پر دوسری مساجد کو قیاس کرتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اگر کوئی شرعی مصلحت اور حاجت ہو تو جائز ہے۔ مثلاً کوئی تقریر وغیرہ سننا جس سے اس کے مسلمان ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ یا مسجد میں پانی ہے اور اسے پینے کی ضرورت ہے تو داخل ہوسکتاہے۔
مسلمانوں کیلئے کافروں کے پاس ان کی عبادت گاہوں میں جانا ناجائز ہے‘ کیونکہ اس سے ان کے اجتماع کو رونق ملتی ہے اور اس لئے کہ امام بیہقی نے صحیح سند سے حضرت عمر رضی الله عنہما کا قول نقل کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا: ’’مشرکین کے پاس ان کے کلیساؤں اور عبادت گاہوں میں نہ جاؤ‘ کیونکہ ان پر (اللہ) کا غضب نازل ہوتا ہے۔ ‘‘
1
البتہ اگر کوی شرعی مصلحت پیش نظر ہو یا ان کو اللہ کی طرف بلانا مقصود ہو یا اور کوئی ایسی وجہ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
اللجنة الدائمة۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز
فتویٰ (۶۳۶۴)
---------------------------------
1 سنن بیہقی ۹؍۲۳۴‘ مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر: ۱۶۰۹۔
فتاوی بن باز رحمہ اللہ