کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے رجحان میں اضافہ
کالم: اسلم بیگبدھ 28 اکتوبر 2015م
یورپ آج کل غیر قانونی تارکین وطن کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور ہزاروں لوگ چھوٹی کشتیوں کے ذریعے بپھرے سمندر کا سفر کر کے غیر قانونی طریقے سے یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔ یورپ کے اس بحران کو جنگ عظیم دوم کے بعد پناہ گزینوں کا سب سے بڑا بحران قرار دیا جا رہا ہے۔ ان غیر قانونی تارکین وطن میں زیادہ تر افراد کا تعلق خانہ جنگی کے شکار ممالک شام، عراق اور لیبیا سے ہے مگر حالیہ مہینوں میں ان غیر قانونی تارکین وطن میں بڑی تعداد پاکستانیوں کی بھی ہے جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر بہتر مستقبل کی خاطر انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر یورپ کا رخ کر رہے ہیں جن میں سے بہت کم خوش نصیب اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں جبکہ زیادہ تر افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ حال ہی میں غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہونے والے 16 پاکستانیوں کی لاشیں وطن واپس پہنچیں جن میں سے ایک نوجوان کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر گجرات سے تھا جو اپنی منزل مقصود تک تو نہ پہنچ سکا لیکن تابوت میں اُسے وطن واپس بھیج دیا گیا۔
27 سالہ عبدالمعروف کو ایک مقامی ایجنٹ نے 5 لاکھ روپے کے عوض اٹلی بھجوانے کا جھانسہ دے کر اپنے جال میں پھنسایا تھا لیکن بیرون ملک روانگی کے ایک ماہ بعد عبدالمعروف نے ماں کو اپنی آخری گفتگو میں بتایا کہ
’’مجھے نہیں معلوم کہ میں اِس وقت کہاں ہوں مگر یہاں ہر طرف ریت ہی ریت ہے اور ایک ہال میں ایک ہزار سے زائد افراد موجود ہیں جن میں اکثریت پاکستانیوں کی ہے جنہیں کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا جا رہا۔‘‘
اس گفتگو کے کچھ دنوں بعد ماں کو بیٹے کی لاش موصول ہوئی جو اٹلی کے مردہ خانے سے پاکستان لائی گئی تھی۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ زیادہ افراد سوار ہونے کے باعث کشتی اٹلی کے ساحل کے قریب ڈوب گئی تھی اور اس حادثے میں کئی پاکستانی جاں بحق ہوئے ، عبدالمعروف ان لوگوں میں تھا جنکی لاشیں سمندر سے نکال لی گئیں جبکہ باقی افراد کی لاشیں تاحال نہیں مل سکی ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں لیبیا کے ساحل پر اسی طرح کے ایک واقع میں غیر قانونی طور پر یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں 85 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں بڑی تعداد پاکستانیوں کی تھی۔
پاکستان میں امن و امان کی خراب صورتحال، غربت اور بیروزگاری کے باعث نوجوانوں کی بیرون ملک جانے کی خواہش روز بروز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے جس میں حالیہ مہینوں میں بے انتہا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے خواہشمند پاکستانیوں کی اصل تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران 4 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو مختلف ممالک سے پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا جن میں اکثریت کا تعلق گجرات، جہلم، بہاولپور، منڈی بہائو الدین اور دیگر شہروں سے تھا۔ ان علاقوں کے لوگ یہ دیکھ کر کہ محلے کے کسی خاندان کے نوجوان کے بیرون ملک جانے سے اُس خاندان کے معاشی حالات بہتر ہو گئے ہیں تو وہ بھی اسی لالچ میں اپنے نوجوان بیٹوں کو بیرون ملک جانے کی ترغیب دیتے ہیں لیکن خاندان کی معاشی بہتری اور آنکھوں میں روشن مستقبل کے سہانے خواب سجائے بیرون ملک جانے والے اکثر نوجوان انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو اُنہیں بہتر مستقبل کا خواب دکھا کر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک لے جانے کا جھانسہ دیتے ہیں جس کے عوض وہ ان سے بھاری رقوم بٹورتے ہیں۔
پاکستان میں ایران سے ملحق سرحد انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جہاں اسمگلرز انتہائی سرگرم ہیں۔ یہ اسمگلر یورپ جانے کے خواہشمند نوجوانوں کو بذریعہ سڑک پہلے پاکستان سے ایران اور ترکی لے جاتے ہیں پھر اُنہیں کنٹینرز اور کشتیوں میں بھر کر یورپی ملک یونان لے جایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ پاکستانیوں کو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے یورپی ملک اسپین بھی لے جایا جاتا ہے۔
اسی طرح غیر قانونی طور پر خلیجی ممالک جانے کے خواہشمند نوجوانوں کو بلوچستان کے سرحدی علاقے مندبلو کے راستے کشتی کے ذریعے مسقط پہنچایا جاتا ہے جہاں سے یہ نوجوان مختلف خلیجی ریاستوں میں غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا میں پناہ لینے کے قوانین میں نرمی کے باعث گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستانی نوجوان بڑی تعداد میں آسٹریلیا کا رخ کررہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ یہ نوجوان تفریحی ویزے پر پہلے تھائی لینڈ کا رخ کرتے ہیں جہاں سے وہ ملائیشیا یا انڈونیشیا نکل جاتے ہیں اور بعد ازاں اُنہیں انسانی اسمگلنگ میں ملوث جرائم پیشہ ایجنٹ چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آسٹریلیا اسمگل کر دیتے ہیں۔ چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آسٹریلیا اسمگل کرنے کا سفر انتہائی اذیت ناک ہوتا ہے، اس دوران بیشتر نوجوان یا تو سمندر کی خونی لہروں کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر آسٹریلیا کے ساحل پر گرفتار کر لئے جاتے ہیں اور بہت کم نوجوان اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال انڈونیشیا سے بذریعہ کشتی آسٹریلیا اسمگل کئے جانے والے 200 سے زائد افراد جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی، کشتی ڈوب جانے کے باعث ہلاک ہو گئے تھے جس پر میں نے کالم بھی تحریر کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ادارے UNDC کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی اسمگلنگ نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور یہ وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ پاکستان میں اس گھنائونے دھندے سے ایک ہزار سے زائد کریمنل نیٹ ورک منسلک ہیں جن کا یہ غیر قانونی کاروبار ایک ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ جرائم پیشہ انسانی اسمگلرز سرعام سادہ لوح اور معصوم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان سے بھاری رقوم بٹوررہے ہیں لیکن حکومت ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے جبکہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے متعلقہ ادارے بھی کرپشن کی وجہ سے ان جرائم پیشہ افراد پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہیں۔ انسانی اسمگلنگ سے جہاں ایک طرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے، وہاں دوسری طرف غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے اکثر پاکستانی نوجوان اپنی قیمتی جان گنوا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے خواہشمند پاکستانی نوجوانوں میں سے صرف 2 فیصد خوش نصیب نوجوان ہی اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جبکہ باقی 98 فیصد پاکستانی یا تو سمندری لہروں کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر گرفتار کر کے پاکستان ڈی پورٹ کر دیئے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے جس تشویش کا اظہار کیا ہے، اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو مستقبل قریب میں یہ معاشی بیماری کی صورت اختیار کر جائے گی۔ سمندر میں ڈوب کر مرنے والے یا کنٹینرز میں دم گھنٹے سے ہلاک ہونے والے پاکستانی نوجوانوں کی داستانیں اتنی المناک ہیں کہ انہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر انسانی اسمگلنگ کے روز بروز بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود حکومتی بے حسی اور خاموشی معنی خیز ہے حالانکہ حکومت نے اپنی ریڈ بک میں ایسے انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کے نام درج کر رکھے ہیں جو معصوم اور سادہ لوح نوجوانوں کو اپنے جال میں پھانسنے کیلئے ملک بھر میں دندناتے پھر رہے ہیں مگر افسوس کہ حکومتی ادارے اُنہیں گرفتار نہیں کرتے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ نہ صرف انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے بھرپور اقدامات کرے بلکہ اس گھنائونے کام میں ملوث افراد کو بھی عبرتناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ انسانی اسمگلنگ کے گھنائونے دھندے میں ملوث افراد پیسے کے لالچ میں معصوم و سادہ لوح نوجوانوں کی زندگیوں سے نہ کھیل سکیں۔ والدین کو بھی چاہئے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نوجوان اولاد کے غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ کل وہ اُن کی موت کا ذمہ دار خود کو نہ ٹھہراسکیں
ح