ابویوسف محمد حماد قریشی
مبتدی
- شمولیت
- دسمبر 11، 2020
- پیغامات
- 2
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 17
محترم جناب مفتی طارق مسعودصاحب
ویڈیو لنک:
مسئلہ: فاتحہ خلف الامام
ایک صاحب نے مفتی صاحب کو پرچی دی کہ آپ لوگ امام کے پیچھے سورۃا لفاتحہ نہیں پڑھتے اس کی کیادلیل ہے؟ اس پر مفتی صاحب نے صحیح مسلم کی ایک حدیث سنائی کہ ”امام کو امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو واذاقرا فانصتوا ا ور جب قرأت شروع کرے تو خاموش ہو جاؤ۔ اور جب ولضالین کہے تو تم آمین کہو، جب رکوع کرے تو رکوع کرو۔“ پھر کہتے ہیں اس میں مقتدی کی فاتحہ کہاں گئی؟
تو میری اتنی سی گزارش ہے کہ مفتی صاحب یہ جوآپ نے حدیث سنائی یہ عام قرأت کے لئے ہے یا کہ خاص کے لئے یعنی سورۃا لفاتحہ کے لئے بھی؟ اس میں عام قرأت سے منع کیا گیا ہے یا خاص طور پر سورۃا لفاتحہ پڑھنے سے؟ اگر اس میں سورۃالفاتحہ سے بھی منع ہے تو پھر وہ صحیح احادیث میں امام کے پیچھے سورۃا لفاتحہ پڑھنے کا ذکر آیا ہے،بظاہر ان دونوں احادیث میں تضاد آگیا اورآپﷺ کے کسی فرمان میں ذرہ برابر بھی تعارض نہیں مگر مفتی صاحب کی تشریح کے مطابق دونوں احادیث میں تضاد معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃا لفاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے، ناقص ہے ہر گز پوری نہیں“۔ ابو سائب نے کہا: اے ابو ہریرہؓ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں، تو ابو ہریرہ ؓنے میرا بازو دبایا اور کہا : اقرأ بھافی نفسک یا فارسی! فانی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: قسمت الصلاۃ بینی و بین عبدی نصفین۔ نماز میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھہ آدھہ تقسیم کی گئی ہے، آدھی میری اور آدھی اس کی اور میرے بندے نے جو مانگا اسے دیا جائیگا پھر نبیﷺ نے فرمایا ”اقراء“ پڑھا کرو۔ (موطأ امام مالک حدیث ۹۳)، صحیح مسلم۔
اب اگر یہ حدیث جس سے مفتی صاحب فاتحہ نہ پڑھنے کی دلیل ثابت کر ناچاہ رہے ہیں تو پھر یہ حدیث جو میں نے موطا امام مالک سے نقل کی اس کو کہاں لے جائیں گے جس میں واضح فرمان نبوی ﷺ ہے کہ ناقص ہے وہ نماز جس میں سورۃا لفاتحہ نہیں پڑھی جائے اور آگے ابو ہریرہ ؓ سے وضاحت بھی ہے کہ جب امام کے پیچھے ہو تب بھی اقرا بھافی نفسک یعنی آہستہ پڑھو۔ اس حدیث کی روشنی میں صحیح مسلم کی حدیث جس میں واذاقراء فانصتوا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عمومی قرأت کا ہے کہ جب امام قرأت کرے تو قرآن سے کچھ نہ پڑھو۔ اس سے مراد سورۃا لفاتحہ کی نفی نہیں ہے کیونکہ سورۃا لفاتحہ کے لئے الگ سے خاص حکم موجود ہے اور ایسی کئی احادیث موجود ہیں کہ جس میں سورۃا لفاتحہ کی تخصیص کی گئی ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے "لاصلاۃلمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب" ” اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃا لفاتحہ نہیں پڑھی“۔ یا ابو داؤد، ترمذی، اور نسائی میں حدیث موجود ہے کہ ایک مرتبہ فجر کی نماز میں بعض صحابہ اکرم ؓ بھی نبیﷺ کے ساتھ قرآن پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ پر قرأت بوجھل ہو گئی نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ پڑھتے رہے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ ؐنے فرمایا: لاتفعلو اِلابام القرآن، فانہ لاصلٰوۃ لمن لم یقراُبھا۔ تم ایسا مت کیا کرو البتہ سورۃا لفاتحہ ضرور پڑھا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ سورۃا لفاتحہ کے بغیر نماز نہیں،چاہے امام ہو یا مقتدی، انفرادی ہو یا اجتماعی، سِری ہو یا جہری خواہ کوئی بھی نماز ہو حتیٰ کہ نماز جنازہ۔ اور یہ آیت وازاقری القرآن فاستمعوالہ وانصتوا (الاعراف ۴۰۲) جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو یا حدیث واذاقرا فانصتوا جب امام قرأت کرے تو خاموش رہو کا مطلب یہ ہے کہ جب امام جہری نمازوں میں قرأت کرے تو خاموشی سے سنو کچھ نہ پڑھو سوائے سورۃا لفاتحہ کے کیونکہ سورۃا لفاتحہ کا حکم خاص آیا ہے اور اسی طریقے سے قرآن کا اور احادیث کا آپس میں تعارض نہیں ہوتااور یہ اصول بھی مقرر ہے کہ عام خاص پر مقدم ہوتا ہے۔
جیسا کہ امام غزالی (متوفی ۵۰۵ھ) فرماتے ہیں:
ٍٍٍٍ٭ہمیں عموم کے دعویداروں کے درمیان اس بات پر اختلاف معلوم نہیں کہ اس کی تخصیص دلیل کے ساتھ جائز ہے۔ (المستلفیٰ من علم الاصول ۴۱۸۹)
امام ابن الحاجب (متوفی ۶۴۶ھ) فرماتے ہیں:
یعنی عام کی تخصیص (علماء) کے نزدیک جائز ہے۔ (منتہیٰ الوصل والامل فی علم الاصول والجدل صفحہ ۹۱۱)
آمدی شافعی (متوفی ۱۳۶ھ)
٭اکثر علماء کے نزدیک سنت کی تخصیص سنت کے ساتھ جائز ہے اور مزید یہ فرماتے ہیں ”اور قرآن کے عموم میں تخصیص سنت کے ساتھ جائز ہے۔“ (الاحکام فی اصول الاحکام ۲/۵۴۳ ۲/۷۴۳)
متاخرین میں سے امام شوکانی (۵۵۳۱ھ) کا بھی قول ہے (ارشادالمحول ص-۳۴۱)
اس بات کو مزید آسان کر کے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ نے مردار کو حرام کیا ہے۔(سورہ بقرہ -۳۷۱، المائدہ-۳) یہ مردار کا حرام ہونا عمومی حکم ہے جس سے سب مردار حرام ہو جاتے ہیں مگر حدیث میں ان مردار کی تخصیص موجود ہے کہ نبی ؐنے فرمایا”ہمارے لئے دو مردار مچھی اور ٹڈی حلال ہیں۔“ (سنن ابن ماجہ -۸۱۲۳، ۴۱۳۳)
لہٰذا مردار تو سب حرام ہیں سوائی مچھلی اور ٹڈی کے کیونکہ ان کی تخصیص موجود ہے اسی طریقے سے امام کے پیچھے قرآن پڑھنا منع ہے سوائے سورۃا لفاتحہ کے کیونکہ اس کی تخصیص صحیح احادیث میں موجود ہے۔
اسی طریقے سے اللہ نے اسی ایک آیت میں خون کو بھی حرام قرار دیا ہے مگر حدیث میں دو خون کی تخصیص موجود ہے ایک کلیجی اور تلّی (سنن ابن ماجہ ۴۱۳۳)
شریعت میں خاص کو عام پر مقدم رکھنے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا لہٰذا جو حدیث عمومی حکم کی ہے اسے خاص کے لئے دلیل بنا نا کم علمی کے سوا کچھ نہیں۔
اس کے بعد مفتی صاحب سرفراز خان صفدر کی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہ پڑھیں،تو اس بات کے جواب میں اتنی سی بات عرض کر کے آگے چلوں کہ اس کتاب میں ایسے ہی دلائل نقل کئے ہوئے ہیں جو کہ میں نے ابھی بتائے اور مزید یہ کہ الحمدللہ اس کتاب کا مدلل، مفصل اور مکمل جواب شیخ محترم ارشادالحق اثری حفظ للہ تعالیٰ کے قلم سے دیا جا چکا ہے بنام ”توضیع الکلام فی وجوب القراء خلف الامام“جو کہ ادارۃ العلوم الاثریہ فیصل آباد سے شائع ہے۔ جس میں الحمد للہ شیخ محترم نے مولانا سرفراز خان صفدر کے تمام اعتراضات کے جواب دیئے ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ امام کے پیچھے سورۃا لفاتحہ پڑھنا دلائل سے ثابت ہے۔
پھر مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حدیث جہری نمازوں کے لئے ہے پھر وہ سرِّی نمازوں کے لئے ایک حدیث سناتے ہیں کہ ”جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کی قرأت مقتدی کے لئے کافی ہے“ کہتے ہیں کہ عجیب بات ہے کہ بعض لوگ اس حدیث کو فوراََ ضعیف کہ دیتے ہیں جبکہ یہ امام ابو حنیفہؒ کی مضبوط دلیل ہے اور پھر مفتی صاحب ایک عجیب بات اور ذکر کرتے ہیں کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب امام صاحب (امام ابو حنیفہ ؒ)کو یہ حدیث پہنچی تو صحیح تھی بعد کے راوی اس میں کمزور آئے اور بعدکے محدثین نے اس کے ضعیف ہونے کا فیصلہ کیا جبکہ اصل میں وہ صحیح تھی۔
انا للہ و انا الیہ راجعون!
کہتے ہیں آپ جس حدیث کو ضعیف کہ رہے ہیں ضروری نہیں کہ وہ تابعین کے دورمیں بھی ضعیف سمجھی جاتی ہو۔
میں اتنے بڑے مفتی صاحب سے اتنی چھوٹی بات کی توقع تو کم سے کم نہیں رکھتا تھا۔ اگر کوئی کم علم شخص یہ بات کرتا تو اس کی کم علمی عذز ہوتی مگر مفتی صاحب تو ایک عالم ہیں وہ ایسی بات کرتے ہیں اور ایسا قانون پیش کرتے ہیں جو آج تک کسی نے پیش نہیں کیا اور اگر مفتی صاحب کے اس قانون کو صحیح مان لیا جائے تو کوئی روایت بھی ضعیف بچے گی ہی نہیں کیونکہ روایت میں ضعف پیدا ہوتا ہے عموماََتیسرے،چوتھے یا پانچوے راوی کا، یعنی اگر یہ مان لیا جائے کہ جو راوی روایت میں ضعیف ہے اس سے پہلے کی پوری سند صحیح ہے کیونکہ وہ اس دور تک صحیح تھی بعد میں فلاں ضعیف راوی کے آجانے سے حدیث ضعیف ہوئی تو ایسے وہ حدیثیں جنہیں مفتی صاحب آپ بھی ضعیف مانتے ہیں وہ بھی صحیح ہو جائینگی۔ مثال کے طور پر ایک موقع پر خود مفتی صاحب چار دن قربانی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ایک حدیث کے بارے میں جوابو سعید خدری ؓاور ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا تشریق کے سارے دن ذبح کے دن ہیں (سنن الکبریٰ للبھیقی ۹/۹۹۴) اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان دونوں احادیث میں ایک راوی معاویہ بن یحیٰ الصدفی جس کے بارے میں محدثین کہتے ہیں کہ ’واحن‘ تھے اور اس راوی کو جناب مفتی صاحب ’ضعیف‘کہتے ہیں۔ تو اسکا مطلب تو یہ ہوا مفتی صاحب کے اصول کے مطابق کے راوی معاویہ بن یحیٰ الصدفی خود تو ضعیف ہے مگر ان سے پہلے کے جتنے راوی ہیں وہ صحیح ہیں لہٰذا ان سے پہلے یہ روایت صحیح مانی جاتی تھی۔ اگر مفتی صاحب کے اس اصول کو صحیح مان لیا جائے تو جتنی بھی ضعیف روایت ہیں ہو سب کے سب اسی طرح صحیح ہو جائیں گی۔ اس کے بعد مفتی صاحب لوگوں کو تقلید کرنی کی ترغیب دے رہے ہیں جبکہ شریعت میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے اس کو ہم کبھی ان شا ء ا للہ ذیر بحث لائیں گے۔
خلاصہ بحث:
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ فریق مخالف کی طرف سے جو دلائل امام کے پیچھے فاتحہ نا پڑھنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا ان سے استدلال غلط کیا گیا ہے جو کہ منہج سلف یعنی صحابہ اکرامؓ کے خلاف ہے اور سورۃا لفاتحہ پڑھنا ہر نماز میں (خواہ وہ امام کے پیچھے ہو یا انفرادی) ضروری ہے۔
اللہ تبارک و تعلیٰ ہمیں حق بات سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وما علینا اِلاالبلغ
وسلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاۃ
ازقلم:
ابو یوسف محمد حماد بن جاوید قریشی
ویڈیو لنک:
ایک صاحب نے مفتی صاحب کو پرچی دی کہ آپ لوگ امام کے پیچھے سورۃا لفاتحہ نہیں پڑھتے اس کی کیادلیل ہے؟ اس پر مفتی صاحب نے صحیح مسلم کی ایک حدیث سنائی کہ ”امام کو امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو واذاقرا فانصتوا ا ور جب قرأت شروع کرے تو خاموش ہو جاؤ۔ اور جب ولضالین کہے تو تم آمین کہو، جب رکوع کرے تو رکوع کرو۔“ پھر کہتے ہیں اس میں مقتدی کی فاتحہ کہاں گئی؟
تو میری اتنی سی گزارش ہے کہ مفتی صاحب یہ جوآپ نے حدیث سنائی یہ عام قرأت کے لئے ہے یا کہ خاص کے لئے یعنی سورۃا لفاتحہ کے لئے بھی؟ اس میں عام قرأت سے منع کیا گیا ہے یا خاص طور پر سورۃا لفاتحہ پڑھنے سے؟ اگر اس میں سورۃالفاتحہ سے بھی منع ہے تو پھر وہ صحیح احادیث میں امام کے پیچھے سورۃا لفاتحہ پڑھنے کا ذکر آیا ہے،بظاہر ان دونوں احادیث میں تضاد آگیا اورآپﷺ کے کسی فرمان میں ذرہ برابر بھی تعارض نہیں مگر مفتی صاحب کی تشریح کے مطابق دونوں احادیث میں تضاد معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃا لفاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے، ناقص ہے ہر گز پوری نہیں“۔ ابو سائب نے کہا: اے ابو ہریرہؓ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں، تو ابو ہریرہ ؓنے میرا بازو دبایا اور کہا : اقرأ بھافی نفسک یا فارسی! فانی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: قسمت الصلاۃ بینی و بین عبدی نصفین۔ نماز میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھہ آدھہ تقسیم کی گئی ہے، آدھی میری اور آدھی اس کی اور میرے بندے نے جو مانگا اسے دیا جائیگا پھر نبیﷺ نے فرمایا ”اقراء“ پڑھا کرو۔ (موطأ امام مالک حدیث ۹۳)، صحیح مسلم۔
اب اگر یہ حدیث جس سے مفتی صاحب فاتحہ نہ پڑھنے کی دلیل ثابت کر ناچاہ رہے ہیں تو پھر یہ حدیث جو میں نے موطا امام مالک سے نقل کی اس کو کہاں لے جائیں گے جس میں واضح فرمان نبوی ﷺ ہے کہ ناقص ہے وہ نماز جس میں سورۃا لفاتحہ نہیں پڑھی جائے اور آگے ابو ہریرہ ؓ سے وضاحت بھی ہے کہ جب امام کے پیچھے ہو تب بھی اقرا بھافی نفسک یعنی آہستہ پڑھو۔ اس حدیث کی روشنی میں صحیح مسلم کی حدیث جس میں واذاقراء فانصتوا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عمومی قرأت کا ہے کہ جب امام قرأت کرے تو قرآن سے کچھ نہ پڑھو۔ اس سے مراد سورۃا لفاتحہ کی نفی نہیں ہے کیونکہ سورۃا لفاتحہ کے لئے الگ سے خاص حکم موجود ہے اور ایسی کئی احادیث موجود ہیں کہ جس میں سورۃا لفاتحہ کی تخصیص کی گئی ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے "لاصلاۃلمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب" ” اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃا لفاتحہ نہیں پڑھی“۔ یا ابو داؤد، ترمذی، اور نسائی میں حدیث موجود ہے کہ ایک مرتبہ فجر کی نماز میں بعض صحابہ اکرم ؓ بھی نبیﷺ کے ساتھ قرآن پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ پر قرأت بوجھل ہو گئی نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ پڑھتے رہے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ ؐنے فرمایا: لاتفعلو اِلابام القرآن، فانہ لاصلٰوۃ لمن لم یقراُبھا۔ تم ایسا مت کیا کرو البتہ سورۃا لفاتحہ ضرور پڑھا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ سورۃا لفاتحہ کے بغیر نماز نہیں،چاہے امام ہو یا مقتدی، انفرادی ہو یا اجتماعی، سِری ہو یا جہری خواہ کوئی بھی نماز ہو حتیٰ کہ نماز جنازہ۔ اور یہ آیت وازاقری القرآن فاستمعوالہ وانصتوا (الاعراف ۴۰۲) جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو یا حدیث واذاقرا فانصتوا جب امام قرأت کرے تو خاموش رہو کا مطلب یہ ہے کہ جب امام جہری نمازوں میں قرأت کرے تو خاموشی سے سنو کچھ نہ پڑھو سوائے سورۃا لفاتحہ کے کیونکہ سورۃا لفاتحہ کا حکم خاص آیا ہے اور اسی طریقے سے قرآن کا اور احادیث کا آپس میں تعارض نہیں ہوتااور یہ اصول بھی مقرر ہے کہ عام خاص پر مقدم ہوتا ہے۔
جیسا کہ امام غزالی (متوفی ۵۰۵ھ) فرماتے ہیں:
ٍٍٍٍ٭ہمیں عموم کے دعویداروں کے درمیان اس بات پر اختلاف معلوم نہیں کہ اس کی تخصیص دلیل کے ساتھ جائز ہے۔ (المستلفیٰ من علم الاصول ۴۱۸۹)
امام ابن الحاجب (متوفی ۶۴۶ھ) فرماتے ہیں:
یعنی عام کی تخصیص (علماء) کے نزدیک جائز ہے۔ (منتہیٰ الوصل والامل فی علم الاصول والجدل صفحہ ۹۱۱)
آمدی شافعی (متوفی ۱۳۶ھ)
٭اکثر علماء کے نزدیک سنت کی تخصیص سنت کے ساتھ جائز ہے اور مزید یہ فرماتے ہیں ”اور قرآن کے عموم میں تخصیص سنت کے ساتھ جائز ہے۔“ (الاحکام فی اصول الاحکام ۲/۵۴۳ ۲/۷۴۳)
متاخرین میں سے امام شوکانی (۵۵۳۱ھ) کا بھی قول ہے (ارشادالمحول ص-۳۴۱)
اس بات کو مزید آسان کر کے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ نے مردار کو حرام کیا ہے۔(سورہ بقرہ -۳۷۱، المائدہ-۳) یہ مردار کا حرام ہونا عمومی حکم ہے جس سے سب مردار حرام ہو جاتے ہیں مگر حدیث میں ان مردار کی تخصیص موجود ہے کہ نبی ؐنے فرمایا”ہمارے لئے دو مردار مچھی اور ٹڈی حلال ہیں۔“ (سنن ابن ماجہ -۸۱۲۳، ۴۱۳۳)
لہٰذا مردار تو سب حرام ہیں سوائی مچھلی اور ٹڈی کے کیونکہ ان کی تخصیص موجود ہے اسی طریقے سے امام کے پیچھے قرآن پڑھنا منع ہے سوائے سورۃا لفاتحہ کے کیونکہ اس کی تخصیص صحیح احادیث میں موجود ہے۔
اسی طریقے سے اللہ نے اسی ایک آیت میں خون کو بھی حرام قرار دیا ہے مگر حدیث میں دو خون کی تخصیص موجود ہے ایک کلیجی اور تلّی (سنن ابن ماجہ ۴۱۳۳)
شریعت میں خاص کو عام پر مقدم رکھنے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا لہٰذا جو حدیث عمومی حکم کی ہے اسے خاص کے لئے دلیل بنا نا کم علمی کے سوا کچھ نہیں۔
اس کے بعد مفتی صاحب سرفراز خان صفدر کی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہ پڑھیں،تو اس بات کے جواب میں اتنی سی بات عرض کر کے آگے چلوں کہ اس کتاب میں ایسے ہی دلائل نقل کئے ہوئے ہیں جو کہ میں نے ابھی بتائے اور مزید یہ کہ الحمدللہ اس کتاب کا مدلل، مفصل اور مکمل جواب شیخ محترم ارشادالحق اثری حفظ للہ تعالیٰ کے قلم سے دیا جا چکا ہے بنام ”توضیع الکلام فی وجوب القراء خلف الامام“جو کہ ادارۃ العلوم الاثریہ فیصل آباد سے شائع ہے۔ جس میں الحمد للہ شیخ محترم نے مولانا سرفراز خان صفدر کے تمام اعتراضات کے جواب دیئے ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ امام کے پیچھے سورۃا لفاتحہ پڑھنا دلائل سے ثابت ہے۔
پھر مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حدیث جہری نمازوں کے لئے ہے پھر وہ سرِّی نمازوں کے لئے ایک حدیث سناتے ہیں کہ ”جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کی قرأت مقتدی کے لئے کافی ہے“ کہتے ہیں کہ عجیب بات ہے کہ بعض لوگ اس حدیث کو فوراََ ضعیف کہ دیتے ہیں جبکہ یہ امام ابو حنیفہؒ کی مضبوط دلیل ہے اور پھر مفتی صاحب ایک عجیب بات اور ذکر کرتے ہیں کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب امام صاحب (امام ابو حنیفہ ؒ)کو یہ حدیث پہنچی تو صحیح تھی بعد کے راوی اس میں کمزور آئے اور بعدکے محدثین نے اس کے ضعیف ہونے کا فیصلہ کیا جبکہ اصل میں وہ صحیح تھی۔
انا للہ و انا الیہ راجعون!
کہتے ہیں آپ جس حدیث کو ضعیف کہ رہے ہیں ضروری نہیں کہ وہ تابعین کے دورمیں بھی ضعیف سمجھی جاتی ہو۔
میں اتنے بڑے مفتی صاحب سے اتنی چھوٹی بات کی توقع تو کم سے کم نہیں رکھتا تھا۔ اگر کوئی کم علم شخص یہ بات کرتا تو اس کی کم علمی عذز ہوتی مگر مفتی صاحب تو ایک عالم ہیں وہ ایسی بات کرتے ہیں اور ایسا قانون پیش کرتے ہیں جو آج تک کسی نے پیش نہیں کیا اور اگر مفتی صاحب کے اس قانون کو صحیح مان لیا جائے تو کوئی روایت بھی ضعیف بچے گی ہی نہیں کیونکہ روایت میں ضعف پیدا ہوتا ہے عموماََتیسرے،چوتھے یا پانچوے راوی کا، یعنی اگر یہ مان لیا جائے کہ جو راوی روایت میں ضعیف ہے اس سے پہلے کی پوری سند صحیح ہے کیونکہ وہ اس دور تک صحیح تھی بعد میں فلاں ضعیف راوی کے آجانے سے حدیث ضعیف ہوئی تو ایسے وہ حدیثیں جنہیں مفتی صاحب آپ بھی ضعیف مانتے ہیں وہ بھی صحیح ہو جائینگی۔ مثال کے طور پر ایک موقع پر خود مفتی صاحب چار دن قربانی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ایک حدیث کے بارے میں جوابو سعید خدری ؓاور ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا تشریق کے سارے دن ذبح کے دن ہیں (سنن الکبریٰ للبھیقی ۹/۹۹۴) اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان دونوں احادیث میں ایک راوی معاویہ بن یحیٰ الصدفی جس کے بارے میں محدثین کہتے ہیں کہ ’واحن‘ تھے اور اس راوی کو جناب مفتی صاحب ’ضعیف‘کہتے ہیں۔ تو اسکا مطلب تو یہ ہوا مفتی صاحب کے اصول کے مطابق کے راوی معاویہ بن یحیٰ الصدفی خود تو ضعیف ہے مگر ان سے پہلے کے جتنے راوی ہیں وہ صحیح ہیں لہٰذا ان سے پہلے یہ روایت صحیح مانی جاتی تھی۔ اگر مفتی صاحب کے اس اصول کو صحیح مان لیا جائے تو جتنی بھی ضعیف روایت ہیں ہو سب کے سب اسی طرح صحیح ہو جائیں گی۔ اس کے بعد مفتی صاحب لوگوں کو تقلید کرنی کی ترغیب دے رہے ہیں جبکہ شریعت میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے اس کو ہم کبھی ان شا ء ا للہ ذیر بحث لائیں گے۔
خلاصہ بحث:
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ فریق مخالف کی طرف سے جو دلائل امام کے پیچھے فاتحہ نا پڑھنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا ان سے استدلال غلط کیا گیا ہے جو کہ منہج سلف یعنی صحابہ اکرامؓ کے خلاف ہے اور سورۃا لفاتحہ پڑھنا ہر نماز میں (خواہ وہ امام کے پیچھے ہو یا انفرادی) ضروری ہے۔
اللہ تبارک و تعلیٰ ہمیں حق بات سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وما علینا اِلاالبلغ
وسلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاۃ
ازقلم:
ابو یوسف محمد حماد بن جاوید قریشی