امام أبو حنیفہ کا خروج کے بارے نقطہ نظر
ظالم و فاسق مسلمان حکمران کے خلاف خروج کے بارے میں امام أبو حنیفہ کی رائے کیا تھی؟ اس بارے میں حنفیہ کا اختلاف ہے۔ امام طحاوی (٢٣٩ تا ٣٢١ھ) کی کتاب 'عقیدہ طحاویہ' سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کا نقطہ نظر ظالم و فاسق حکمران کے خلاف عدم خروج کا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
'' ھذا ذکر بیان عقیدة أھل السنة والجماعة علی مذھب فقھاء الملة : أبی حنیفة النعمان بن ثابت الکوفی وأبی یوسف یعقوب بن براہیم الأنصاری وأبی عبد اللہ محمد بن الحسن الشیبانی رضوان اللہ علیھم أجمعین وما یعتقدون من أصول الدین ویدینون بہ رب العلمین۔۔۔ولا نری الخروج علی أئمتنا وولاة أمورنا وان جاروا ولا ندعوا علیھم ولا ننزع یدا من طاعتھم ونری طاعتھم من طاعة اللہ عز وجل فریضة ما لم یأمروا بمعصیة وندعوا لھم بالصلاح والمعافاة.''(العقیدة الطحاویة : ص ١'٤)
'' یہ فقہائے ملت' امام أبو حنیفہ' امام أبو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ أجمعین کے مذہب پر اہل سنت و الجماعت کے عقائد کا بیان ہے اور یہ أئمہ حضرات جن أصول دین کا اعتقاد رکھتے تھے اور ان کو رب العلمین کا دین قرار دیتے تھے' یہ (رسالہ) ان عقائد و اصولوں کا بیا ن ہے..اور ہم اپنے مسلمان حکمرانوں اور امراء کے خلاف خروج کو جائز نہیں سمجھتے اگرچہ وہ ظلم ہی کیوں نہ کریں۔اور ہم ایسے حکمرانوں کے خلاف بدعا بھی نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچتے ہیں اور ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت میں شمار کرتے ہیں کہ جس کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے جب تک کہ یہ حکمران کسی گناہ کا حکم نہ دیں اور ہم ان کی اصلاح اور معافی کی دعا کرتے ہیں۔''
اسی عقیدے کا اظہار ابن أبی العز الحنفی(٧٣١ تا ٧٩٢ھ)نے
'عقیدہ طحاویہ' کی شرح میں بھی کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
''وأما لزوم طاعتھم و ان جاروا' فلأنہ یترتب علی الخروج من طاعتھم من المفاسد أضعاف ما یحصل من جورھم' بل فی الصبر علی جورھم تکفیر السیئات ومضاعفة الأجور' فن اللہ تعالی ما سلط علینا الا لفساد أعمالنا' والجزاء من جنس العمل' فعلینا الاجتھاد بالاستغفار والتوبة وصلاح العمل۔ قال تعالی وما أصابکم من مصیبة فبما کسبت أیدیکم ویعفوا عن کثیر وقال تعالی أو لما أصابتکم مصیبة قد أصبتم مثلیھا قلتم أنی ھذا قل ھو من عندأنفسکم وقال تعالی ما أصابک من حسنة فمن اللہ وما أصابک من سیئة فمن نفسک. وقال تعالی وکذلک نولی بعض الظلمین بعضا بما کانوا یکسبون.فذا أراد الرعیة أن یتخلصوا من ظلم الأمیر الظالم.فلیترکوا الظلم.(شرح العقیدة الطحاویة : ص٣٧٣۔ ٣٧٤' الریاض)
'' اگرچہ وہ حکمران ظلم کریں' پھر بھی ان کی اطاعت لازم ہے' یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کی اطاعت سے نکل جانے میں جو فساد و بگاڑ ہے وہ اس فساد سے کئی گناہ زیادہ ہے جو ان کے ظلم کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔اور اگر امت ان کے ظلم پر صبر کرے گی تو اس کے گناہ معاف ہوں گے اور اس کے درجات بلند ہوں گے کیونکہ اللہ تعالی نے اس ظالم حکمرانوں کو ہمارے اوپر ہمارے اعمال کے بگاڑ کی وجہ سے مسلط کیا ہے اور سزا' عمل کی جنس سے ہی ہے(یعنی امتیوں نے ایک دوسرے پر ظلم کیا تو اللہ نے ان پر ظالم حکمران بطور سزا مسلط کر دیے)۔ پس ہم پر لازم ہے کہ ہم توبہ و استغفار اور اصلاح عمل کی خوب کوشش کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں: جو بھی تم کوکوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے اور تمہارے بہت سے اعمال سے تو اللہ تعالی ایسے ہی در گزر فرمادیتے ہیں۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: اور کیا جب تمہیں ایک بڑی مصیبت پہنچی (یعنی أحد میں) جبکہ تم اس سے دو گنا مصیبت (کفار کو بدر میں) پہنچا چکے تھے تو تم نے کہا: یہ مصیبت کہاں سے آ گئی؟ آپ کہہ دیں: یہ مصیبت تمہاری اپنی جانوں کی طرف سے ہے(یعنی تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے)۔ اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: جو بھی تمہیں بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی تمہیں برائی پہنچتی ہے تو وہ تمہاری اپنی جانوں کی طرف سے ہے۔اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: اور اسی طرح ہم بعض ظالموں کا حکمران بعض دوسرے ظالموں کو بنا دیتے ہیں' اس وجہ سے کہ جو وہ ظالم اعمال کرتے تھے۔پس اگر رعایا حکمران کے ظلم سے نجات چاہتی ہے تو وہ خود ظلم کرنا ترک کر دے۔''
بریلوی اور دیوبندی مدارس میں عموماً عقیدے کی جو کتاب پڑھائی جاتی ہے یا بطور نصاب مقرر ہے وہ
'شرح العقائد النسفیة' ہے۔ اس کتاب میں بھی علامہ سعدالدین تفتازانی (متوفی ٧٩٣ھ) نے ظالم و فاسق حکمرانوں کے خلاف عدم خروج ہی کا عقیدہ بیان کیا ہے' جیسا کہ ہم
'شرح العقائد النسفیة' کا حوالہ اس مسئلے میں سابقہ صفحات میں نقل کر چکے ہیں۔
امام محمد(١٣٢ تا ١٨٩ھ) کی کتاب
'السیر الکبیر' سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا موقف بھی ظالم و فاسق حکمرانوں کے خلاف عدم خروج کا تھا۔ وہ فرماتے ہیں:
''الا أن یأمرھم بأمر ظاھرلا یکاد یخفی علی أحد أنہ ھلکة أو أمرھم بمعصیة فحینئذ لا طاعة علیھم فی ذلک ولکن ینبغی أن یصبروا ولا یخرجوا علی أمیرھم لحدیث ابن عباس رضی اللہ عنھما أن النبیۖ قال من أتاہ من أمیرہ ما یکرھہ فلیصبر فن من خالف المسلمین قید شبرثم مات مات میتة الجاھلیة.''(السیر الکبیر مع شرحہ للسرخسی' باب مایجب من طاعة الوالی وما لایجب' جلد١' ص ١١٨' دار الکتب العلمیة' بیروت)
''سوائے اس کے کہ وہ حکمران کسی شخص کو ایسے کام کا حکم دے کہ جس کے بارے میں کسی ایک کو بھی اشتباہ نہ ہو کہ وہ ہلاکت ہے یا حکمران کسی شخص کو معصیت کا حکم دے تو اس وقت اس مسئلے میں حکمران کی اطاعت رعایا پر لازم نہیں ہے لیکن ان کے لیے یہبھی لازم ہے کہ وہ صبر کریں اور اپنے حکمران کے خلاف خروج نہ کریں جیساکہ حدیث ابن عباس میں ہے کہ آپ نے فرمایا:جو کوئی اپنے حکمران میں کوئی ناپسندیدہ امر دیکھے تو اس پر صبر کرے کیونکہ جس نے بالشت برابر بھی مسلمانوں کی اجتماعیت کی مخالفت کی اور اسی حالت میں وہ مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔''
حنفیہ کے خاتمة المحققین علامہ ابن عابدین شامی(متوفی ١٢٥٢ھ)لکھتے ہیں:
وعند الحنفیة لیست العدالة شرطا للصحة فیصح تقلید الفاسق الامامة مع الکراھة' وذا قلد عدلا ثم جار وفسق لا ینعزل' ولکن یستحب العزل ان لم یستلزم فتنة' ویجب أن یدعی لہ' ولا یجب الخروج علیہ' کذا عن أبی حنیفة' وکلمتھم قاطبة فی توجیھہ ھو أن الصحابة صلواخلف بعض بنی أمیة وقبلوا الولایة عنھم.''(ردالمحتار علی در المختار ' کتاب الصلاة' باب الامامة)
''حنفیہ کے نزدیک عدالت' صحت ِ امامت کے لیے شرط نہیں ہے۔ پس فاسق امام کی تقلید کراہت کے ساتھ جائز ہے۔ پس اگر تو حالت عدل میں اس کو امامت دی گئی اور پھر وہ ظالم و فاسق بن گیا تو خود بخود معزول نہیں ہو گا لیکن اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو (یعنی اگر پر امن طریقے سے معزولی ممکن ہو) تو اس کو معزول کرنا لازم ہے۔ یہ بھی (امت پر) واجب ہے کہ ایسے امام کے لیے دعا کرے اور اس کے خلاف خروج واجب نہیں ہے۔ امام أبو حنیفہ کا موقف بھی یہی ہے۔ تمام حنفیہ نے اس مسئلے کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ صحابہ بنو أمیہ کے حکمرانوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے اور صحابہ نے بنو أمیہ کے حکمرانوں کی ولایت قبول بھی کی تھی۔''
تا ہم امام جصاص (٣٠٥تا٣٧٠ھ)نے
' أحکام القرآن' اور الموفق المکی (٥٦٨ھ) نے
'مناقب الامام أبی حنیفة' اور 'حافظ الدین الکردری (٨٢٧ھ) رحمہم اللہ نے اپنی کتاب
'مناقب'میں امام صاحب کے بارے میں اس نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے کہ وہ فاسق وفاجر اور ظالم مسلمان حکمران کے خلاف خروج کو واجب سمجھتے تھے۔ مؤخر الذکر دو کتابیں تو تاریخی کتابیں ہیں کہ جن میں رطب و یابس' سب جمع ہے لہذا کسی امام کے شرعی موقف کو معلوم کرنے کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ یہ دونوں حضرات امام صاحب سے بہت متأخر ہیں اور ان کی کسی بات پر بغیر کسی سند کے کیسے اعتماد کیا جا سکتاہے کہ یہی امام صاحب کا موقف ہے جبکہ متقدمین حنفیہ سے اس سے برخلاف موقف مروی ہے؟ اگرچہ مولانا مودودی نے اپنی کتاب
'خلافت و ملوکیت' میں خروج کے مسئلے میں امام صاحب کا مسلک بیان کرنے کے لیے انہی دو تاریخی کتابوں کی روایات کو بنیاد بنایا ہے' جو کہ ہمارے نزدیک درست طرز عمل نہیں ہے۔
کسی بھی مسئلے میں امام صاحب کا شرعی موقف جاننے کے لیے حنفیہ نے کبھی بھی 'مناقب' یا 'تاریخ' کی کتابوں کی طرف رجوع نہیں کیا بلکہ اس کے لیے عموماً فقہ حنفی کی کتابوں کو بنیاد ی مصدر سمجھا جاتا ہے۔ 'تاریخ 'کی کتابوں کا موضوع فقہی موقف کا بیان نہیں ہے بلکہ ماضی کے حالات و واقعات کا بیان ہے۔ فقہ حنفی کے بنیادی مصادر امام محمد کی چھ کتابیں ہیں کہ جنہیں
'ظاہر الروایہ' بھی کہتے ہیں۔ ان چھ کتابوں میںپانچ مطبوع ہیں جن میں سے ایک
'السیر الکبیر' بھی ہے۔ اس کتاب کا حوالہ ہم اوپرنقل کر چکے ہیں۔ ظالم و فاسق حکمران کے خلاف خروج 'فقہ' کا مسئلہ بھی ہے اور اسی طرح علم 'عقیدہ' کے مباحث میں بھی داخل ہے کیونکہ اہل سنت کو اس مسئلے میں معتزلہ' اہل تشیع اور خوارج سے شروع ہی سے اختلاف رہا ہے۔ معتزلہ' اہل تشیع اور خوارج ظالم اور فاسق وفاجرمسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کو واجب سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے حنفیہ کے عقیدے کی معتبر کتابوں کے حوالے سے بھی امام صاحب اور صاحبین کا نقطہ نظر بیان کر دیا ہے۔
تاہم امام جصاص کے' أحکام القرآن'کے حوالہ جات قابل غور ہیں۔ امام جصاص نے سورہ البقرة کی آیت
قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ﴿١٢٤﴾ یعنی میرا (امامت کا وعدہ) ظالموں کونہیں پہنچے گا' کے تحت امام أبو حنیفہ کا یہ مسلک نقل کیا ہے کہ امام صاحب فاسق و فاجراورظالم مسلمان حکمران کے خلاف خروج کو واجب سمجھتے تھے۔ امام جصاص نے اس موقف کے اثبات میں آیت مذکورہ بالا کے علاوہ 'أمر بالمعروف اور نہی عن المنکر' کی آیات سے بھی استدلال کیا ہے۔
یہ بات أظہر من الشمس ہے کہ اہل سنت اور معتزلہ کے تصور 'أمر بالمعروف و نہی عن المنکر' میں بہت فرق ہے۔ 'أمر بالمعروف و نہی عن المنکر' معتزلہ کے اصول خمسہ میں سے ایک بنیادی أصول ہے کہ جس کے تحت وہ مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کو واجب سمجھتے ہیں جیسا کہ عقائد کے کتابوں میں یہ بحث مفصل طور پر موجود ہے۔ امام جصاص اپنی جلالت علم اور فقہی بصیرت کے باوجوداس مسئلے میں 'أمر بالمعروف و نہی عن المنکر' سے متعلق آیات و أحادیث کی جوتشریح و توضیح پیش کرتے ہیں' وہ درحقیقت معتزلہ کے تصور دین اور دلائل پر مبنی ہیں۔ اہل سنت 'نہی عن المنکر بالید' کے قائل ہیں لیکن معتزلہ کی طرح ہر حال میں اس کو واجب قرار نہیں دیتے۔
رہا امام جصاص کا آیت مذکورہ یعنی
لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ سے خروج کے وجوب پر استدلال کرنا' تو یہ استدلال کئی اعتبارات سے محل نظر ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں خبر دی گئی ہے نہ کہ یہ أمر ہے اور آیت کا سیاق و سباق
قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ خبر کو بمعنی أمر لینے میں مانع معلوم ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس آیت کو خبر بمعنی أمرمان بھی لیا جائے تو اس آیت میں منشا متکلم یہ ہے کہ فاسق و فاجر یا ظالم کوابتدا امام یا حکمران نہ بنایا جائے اور اس پر تو جمیع اہل سنت کا اتفاق ہے۔ لیکن مسئلہ تو یہ زیر بحث ہے کہ جب ایسا شخص تلوار یا کسی جمہوری طریقے سے حکمران بن جائے تو اس کے بارے میں کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟ تیسری بات یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں امامت سے مراد کوئی سیاسی امامت یاحکمرانی نہیں ہے بلکہ روحانی امامت مراد ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم کو دلوں کی امامت حاصل تھی نہ کہ وہ دنیا کے بادشاہ تھے۔ پس اس معنی میں ہر دور میں اہل علم کو مسلمانوں کی روحانی امامت حاصل رہی ہے اور لوگ دل و جان سے ان کے معتقد اور پیروکار رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہی اس آیت کا واقعی مفہوم ہے اور یہ امامت آج بھی
'راسخون فی العلم' کوحاصل ہے۔ امام 'فعال' کے وزن میں اسم مفعول کے معنی میں ہے یعنی جس کی پیروی کی جائے اور اصل پیروی تو انبیاء یا ان کے ورثاء اہل علم ہی کی ہوتی ہے نہ کہ سیاسی حکمرانوں کی۔ پس اس معنی کے ساتھ یہ اللہ کی طرف سے انبیاء' صحابہ' تابعین ' أئمہ سلف اور راسخون فی العلم کو روحانی امامت عطا کرنے کا ایک وعدہ ہے جو کہ پورا ہو چکا اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔
اگر تاریخی روایات پر اس مسئلہ کی بنیاد رکھیں توامام أبو حنیفہ کوفہ میں تقریباً١٢٠ھ میں اپنے استاذ امام حماد کی وفات کے بعد مسند درس و تدریس پر فائز ہوئے۔ زید بن علی کا خروج١٢٢ھ میں ہوا کہ جس خروج کے حق میں تاریخ کی مستند و ابتدائی کتابوں مثلاً تاریخ طبری' طبقات ابن سعد اور تاریخ بغداد میں امام صاحب کی تائید کا تذکرہ ہمیں نہیں ملا۔ بلکہ امام جصاص نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ امام صاحب نے اس خروج کے بارے میں اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ یہ کامیاب ہونے والا نہیں ہے۔ ١٤٥ھ میں محمد بن عبد اللہ نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبد اللہ نے عباسی خلیفہ أبوجعفر المنصور کے خلاف خروج کیا۔ مولانا مودودی نے امام جصاص اورعلامہ کردری رحمہم اللہ کے حوالے سے یہ نقل کیا ہے کہ امام أبوحنیفہ اپنے شاگردوں کو نفس زکیہ سے بیعت کرنے کی تلقین کرتے تھے اور اس کے ساتھ مل کر عباسی خلیفہ کے خلاف خروج کو کافروں سے جنگ سے بھی زیادہ افضل سمجھتے تھے اور اس خروج کو نفلی حج سے ٥٠ یا ٧٠ گنا زیادہ قابل ثواب سمجھتے تھے۔
یہاں ہم پھر یہی عرض کریں گے کہ جب مولانا مودودی کو تاریخ کی مستند و ابتدائی کتابوں میں اس خروج کے حق میں اس قدر مبالغہ آمیز بیانات یا سرے سے ہی کوئی بیان نہ ملا تو انہوں نے اپنی تحقیق کی بنیاد ثانوی مصادر کو بنالیا۔ امام جصاص کی کتاب'أحکام القرآن' تو سرے سے تاریخ کی کتاب ہی نہیں ہے اور علامہ کردری نویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں۔ تاریخ کے بنیادی مصادرابن سعد (١٦٨ تا ٢٣٠ھ) کی
'الطبقات الکبری' اورابن جریر طبری(٢٢٤تا ٣١٠ھ) کی کتاب'تاریخ طبری' وغیرہ میں امام صاحب کے یہ بیانات موجود نہیں ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ چھٹی یانویں صدی ہجری میں الموفق المکی اور علامہ کردری رحمہما اللہ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ امام صاحب کا نفس زکیہ کے خروج کے بارے میں یہ موقف تھا؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ امام صاحب کا طرز عمل ان اقوال کی شدت سے نفی کرتا ہے۔ امام صاحب اگر اپنے شاگردوں کو نفس زکیہ کی بیعت کی تلقین کرتے تھے تو انہوں نے خود ان کی بیعت کیوں نہ کی؟ اگر امام صاحب کے نزدیک یہ خروج واجب تھا تو انہوں نے ایک شرعی واجب کو ترک کیوں کیا؟ اگر امام صاحب اس خروج کو نفلی حج سے ٥٠ یا ٧٠ گنا زیادہ ثواب کا کام سمجھتے تھے تو وہ یہ ثواب حاصل کرنے میں پیچھے کیوں رہے اور صرف اپنے شاگردوں کو ہی اس ثواب کے حصول کی تلقین کرتے رہے؟ اور ان کے شاگردوں میں سے بھی امام أبو یوسف' امام محمد' امام زفر رحمہم اللہ کس نے ان کے اس فتوی پر عمل کیا اور بالفعل اس خروج میں شامل ہوئے؟
ہم اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ کبھی امام صاحب سے نفس زکیہ نے خروج کے بارے میں کوئی سوال ہوا ہوتو انہوں نے اس کے خروج کے جواز کی تائید میں کوئی بات کہی ہو لیکن اس کو بھی اسی وقت مانا جاسکتا ہے جبکہ اس بارے میں تاریخ یا فقہ کی اولین و مستند کتابوں میں کوئی بیانات مذکور ہوں اور جہاں تک اس خروج کے حوالے سے مبالغہ آمیز کہاوتیں امام صاحب کی طرف منسوب کرنے کا معاملہ ہے تو ہم اس کے حق میں بالکل بھی نہیں ہیں جیسا کہ بعض متأخرین حنفیہ اور مولانا مودودی رحمہ اللہ نے ایسا کیا ہے۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ امام صاحب نے نفس زکیہ کے خروج کے حق میں فتوی دیا تھا تو پھر بھی اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ امام صاحب نے اس خروج کی ناکامی اور مفاسد کو دیکھتے ہوئے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہو جیسا کہ شیخ أبو زہرہ نے اپنی کتاب
'حیات امام أبی حنیفہ' میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ خروج کے حوالہ سے امام صاحب کی رائے تبدیل ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں
'عقیدہ طحاویة' اور
'السیر الکبیر'کے بیانات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کی رائے عدم خروج کی تھی اور اگر انہوں نے کسی زمانے میں خروج کے حق میں فتوی دیا بھی تھا تو اس سے رجوع کر لیا تھا۔