ابوطلحہ بابر
مشہور رکن
- شمولیت
- فروری 03، 2013
- پیغامات
- 674
- ری ایکشن اسکور
- 843
- پوائنٹ
- 195
سلف صالحین کی پیروی ہی اہل سنت کا شعار ہے۔
دلیل نمبر ۳
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أنهم لما فتحوا تستر، قال : فوجد رجلا أنفه ذراع في التابوت، كانوا يستظهرون ويستبطرون به، فكتب أبو موسى إلى عمر بن الخطاب بذلك، فكتب عمر : إن هذا نبي من الانبياء والنار لا تأكل الانبياء، والارض لا تأكل الانبياء، فكتب أن أنظر أنت وأصحابك – يعني أصحاب أبي موسى – فادفنوه في مكان لا يعلمه أحد غيركما، قال : فذهبت أنا وأبو موسى فدفناه.
”جب صحابہ کرام نے تستر کو فتح کیا تو وہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا۔ اس کی ناک ہمارے ایک ہاتھ کے برابر تھی۔ وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ و بارش طلب کیا کرتے تھے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا اور سارا واقعہ سنایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں۔ نہ آگ نبی کو کھاتی ہے نہ زمین۔ پھر فرمایا: تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو، وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور سیدنا ابو موسیٰ گئے اور اسے (ایک گمنام جگہ میں ) دفن کر دیا۔“ (مصنف ابن أبي شيبه:4/7، الرقم:33819، وسنده صحيح)
یعنی سیدنا عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیائے کرام کے جسم یا ان کی ذات کو وسیلہ بنانا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ عجمی علاقوں کے کفار اس توسل کے قائل تھے، ان کے اس فعل شنیع کو ختم کرنے کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس نبی کے جسم کو کسی گمنام جگہ میں دفن کرنے کا حکم دے دیا۔
دلیل نمبر ۴
ابوالعالیہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
لما افتحنا تستر وجدنا في بيت مال الهرمزان سريرا، عليه رجل ميت، عند رأسه مصحف له، فأخذنا المصحف، فحملناه إلى عمر بن الخطاب، فدعا له كعبا، فنسخه بالعربية، أنا أول رجل من العرب قراه، قرأته مثل ما أقرأ القرآن ھذا، فقلت لأبي العالية : ما كان فيه؟ قال: سيرتكم، وأموركم، ودينكم،ولحون كلامكم، وما هو كائن بعد، قلت: فما صنعتم بالرجل ؟ قال: حفرنا بالنهار ثلاثة عشر قبراً متفرقة، فلما كان في الليل، دفناه وسوينا القبور كلها، لنعميه علي الناس لا ينبشونه، فقلت : وما يرجون منه ؟ قال: كانت السماء إذا حبست عليهم برزوا بسرير، فيمطرون۔ قلت: من كنتم تظنون الرجل؟قال: رجل يقال له : دانيال، فقلت: مذ كم وجدتموه مات؟ قال: منذ ثلاثمائة سنة، قلت: ما كان تغير شيء ؟ قال: لا، إلا شعرات من قفاه أن لحوم الأنبياء لا تبليها الأرض، ولا تأكلها السباع.
”ہم نے جب تستر کو فتح کیا تو ہرمزان کے بیت المال میں ایک چارپائی دیکھی۔ اس پر ایک فوت شدہ شخص پڑا تھا۔ اس کے سر کے پاس ایک کتاب تھی۔ ہم نے وہ کتاب پکڑی اور اسے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔ انہوں نے کعب احبار تابعی رحمہ اللہ کو بلایا جنہوں نے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کر دیا۔ میں عربوں میں سے وہ پہلا شخص تھا جس نے اس کتاب کو پڑھا۔ میں اس کو یوں پڑھ رہا تھا، گویا قرآن کریم کو پڑھ رہا ہوں۔ ابوالعالیہ کے شاگرد کہتے ہیں : میں نے ابوالعالیہ سے پوچھا کہ اس کتاب میں کیا لکھا تھا۔ انہوں نے فرمایا: اس میں امت محمدیہ کی سیرت، معاملات، دین، تمہارے لہجے اور بعد والے حالات۔ میں نے عرض کیا: آپ نے اس فوت شدہ شخص کا کیا کیا؟ انہوں نے فرمایا: ہم نے دن کے وقت مختلف جگہوں پر تیرہ قبریں کھو دیں۔ پھر رات کے وقت ان میں سے ایک میں اسے دفن کر دیا اور سب قبریں زمین کے برابر کر دیں۔ اس طرح کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح قبر کا علم نہ ہو اور وہ قبر کشائی نہ کر سکیں۔ میں نے عرض کیا: وہ لوگ اس فوت شدہ شخص سے کیا امید رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ان کا خیال یہ تھا کہ جب وہ قحط سالی میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس کی چارپائی کو باہر نکالنے سے ان کو بارش عطا کی جاتی ہے۔ میں نے پوچھا: آپ کے خیال میں وہ شخص کون تھا؟ انہوں نے کہا: جسے دانیال کہا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا: آپ کے خیال کے مطابق وہ کتنے عرصے سے فوت ہو چکا تھا؟ انہوں نے فرمایا: تین سو سال سے۔ میں نے کہا: کیا اس کے جسم میں کوئی تبدیلی آئی تھی ؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، بس گدی سے چند بال گرے تھے، کیونکہ انبیائے کرام کے جسم میں نہ زمین تصرف کرتی ہے نہ درندے اسے کھاتے ہیں“۔ (السيرة لابن إسحاق، ص:67،66، طبع دارالفكر، بيروت، دلائل النبوة للبيھقي:382،381/1، طبع دار الكتب العلمية، بيروت)
ان دونوں آثار سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام، انبیائے کرام کے جسموں اور ان کی قبروں سے توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے بڑے اہتمام سے اس دانیال نبی علیہ السلام کے جسم مبارک کو چھپا دیا تاکہ نہ لوگوں کو ان کی قبر کا علم ہو، نہ وہ ان سے توسل کر سکیں۔
بعض لوگ خیانت علمی سے کام لیتے ہوئے ان روایات کے آدھے ٹکڑے سامعین کے سامنے رکھتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ انبیائے کرام کے اجسام اور ان کی قبروں سے توسل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی لیا جاتا تھا۔ یہ لوگ اگلے ٹکڑے ڈکار جاتے ہیں جن میں وضاحت ہے کہ یہ کام عجمی کفار کا تھا اور صحابہ کرام نے ان کے اس کام کو جائز نہیں سمجھا، نہ انہیں اس کام کی اجازت دی، بلکہ اس کے سدباب کے لیے انتہائی اقدامات کیے۔
یہ حرکت بدترین خیانت ہے۔ دنیا میں تو اللہ تعالیٰ نے ایسے نام نہاد سکالرز کو مہلت دی ہوئی ہے، لیکن ایسے لوگ روز قیامت عذاب الٰہی سے نہیں بچ پائیں گے۔ اب بھی موقع ہے، انہیں حشر اور حساب سے ضرور جانا چاہیے۔
اسی بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولهذا كان السلف يسدون هذا الباب ؛ فإن المسلمين لما فتحوا تستر، وجدوا هناك سرير ميت باق، ذكروا أنه ”دانيال“، ووجدوا عنده كتابا فيه ذكر الحوادث، وكان أهل تلك الناحية يستسقون به، فكتب في ذلك أبو موسى الأشعري إلى عمر، فكتب إليه أن يحفر بالنهار ثلاثة عشر قبراً، ثم يدفن بالليل في واحد منها، ويعفى قبره، لئلا يفتتن الناس به.
”سلف صالحین (صحابہ و تابعین) اس دروازے (انبیاء و صالحین کے توسل) کو بند کرتے تھے۔ جب مسلمانوں نے تستر کے علاقے کو فتح کیا تو وہاں ایک فوت شدہ سلامت شخص کو دیکھا۔ انہوں نے اسے دانیال نبی قرار دیا۔ اس کے قریب ایک کتاب بھی تھی جس میں واقعات کا ذکر تھا۔ اس علاقے کے لوگ اس کے توسل سے بارش طلب کرتے تھے۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تو انہوں نے جواباً فرمایا کہ دن کو تیرہ قبریں کھودی جائیں، پھر رات کے اندھیرے میں ان میں سے ایک میں دانیال علیہ السلام کو دفن کر دیا جائے۔ پھر قبر کا نشان مٹا دیا جائے تاکہ لوگ شرک میں مبتلا نہ ہوں۔“ (مجموع الفتاوي:170/27)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
ففي ھذه القصة ما فعله المھاجرون والأنصار، من تعمية قبره، لئلا يفتتن به الناس، وھو إنكار منھم لذلك.
”اس واقعے میں مہاجرین اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دانیال علیہ السلام کی قبر کو چھپایا ہے تاکہ لوگ اس کی وجہ سے شرک و بدعت میں مبتلا نہ ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام انبیاء و صلحاء کی قبروں سے توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔“
معلوم ہوا کہ صحیح احادیث اور اسلاف امت سے وسیلہ بالذات والاموات ثابت نہیں۔
بشکریہ http://www.tohed.com
دلیل نمبر ۳
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أنهم لما فتحوا تستر، قال : فوجد رجلا أنفه ذراع في التابوت، كانوا يستظهرون ويستبطرون به، فكتب أبو موسى إلى عمر بن الخطاب بذلك، فكتب عمر : إن هذا نبي من الانبياء والنار لا تأكل الانبياء، والارض لا تأكل الانبياء، فكتب أن أنظر أنت وأصحابك – يعني أصحاب أبي موسى – فادفنوه في مكان لا يعلمه أحد غيركما، قال : فذهبت أنا وأبو موسى فدفناه.
”جب صحابہ کرام نے تستر کو فتح کیا تو وہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا۔ اس کی ناک ہمارے ایک ہاتھ کے برابر تھی۔ وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ و بارش طلب کیا کرتے تھے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا اور سارا واقعہ سنایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں۔ نہ آگ نبی کو کھاتی ہے نہ زمین۔ پھر فرمایا: تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو، وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور سیدنا ابو موسیٰ گئے اور اسے (ایک گمنام جگہ میں ) دفن کر دیا۔“ (مصنف ابن أبي شيبه:4/7، الرقم:33819، وسنده صحيح)
یعنی سیدنا عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیائے کرام کے جسم یا ان کی ذات کو وسیلہ بنانا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ عجمی علاقوں کے کفار اس توسل کے قائل تھے، ان کے اس فعل شنیع کو ختم کرنے کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس نبی کے جسم کو کسی گمنام جگہ میں دفن کرنے کا حکم دے دیا۔
دلیل نمبر ۴
ابوالعالیہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
لما افتحنا تستر وجدنا في بيت مال الهرمزان سريرا، عليه رجل ميت، عند رأسه مصحف له، فأخذنا المصحف، فحملناه إلى عمر بن الخطاب، فدعا له كعبا، فنسخه بالعربية، أنا أول رجل من العرب قراه، قرأته مثل ما أقرأ القرآن ھذا، فقلت لأبي العالية : ما كان فيه؟ قال: سيرتكم، وأموركم، ودينكم،ولحون كلامكم، وما هو كائن بعد، قلت: فما صنعتم بالرجل ؟ قال: حفرنا بالنهار ثلاثة عشر قبراً متفرقة، فلما كان في الليل، دفناه وسوينا القبور كلها، لنعميه علي الناس لا ينبشونه، فقلت : وما يرجون منه ؟ قال: كانت السماء إذا حبست عليهم برزوا بسرير، فيمطرون۔ قلت: من كنتم تظنون الرجل؟قال: رجل يقال له : دانيال، فقلت: مذ كم وجدتموه مات؟ قال: منذ ثلاثمائة سنة، قلت: ما كان تغير شيء ؟ قال: لا، إلا شعرات من قفاه أن لحوم الأنبياء لا تبليها الأرض، ولا تأكلها السباع.
”ہم نے جب تستر کو فتح کیا تو ہرمزان کے بیت المال میں ایک چارپائی دیکھی۔ اس پر ایک فوت شدہ شخص پڑا تھا۔ اس کے سر کے پاس ایک کتاب تھی۔ ہم نے وہ کتاب پکڑی اور اسے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔ انہوں نے کعب احبار تابعی رحمہ اللہ کو بلایا جنہوں نے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کر دیا۔ میں عربوں میں سے وہ پہلا شخص تھا جس نے اس کتاب کو پڑھا۔ میں اس کو یوں پڑھ رہا تھا، گویا قرآن کریم کو پڑھ رہا ہوں۔ ابوالعالیہ کے شاگرد کہتے ہیں : میں نے ابوالعالیہ سے پوچھا کہ اس کتاب میں کیا لکھا تھا۔ انہوں نے فرمایا: اس میں امت محمدیہ کی سیرت، معاملات، دین، تمہارے لہجے اور بعد والے حالات۔ میں نے عرض کیا: آپ نے اس فوت شدہ شخص کا کیا کیا؟ انہوں نے فرمایا: ہم نے دن کے وقت مختلف جگہوں پر تیرہ قبریں کھو دیں۔ پھر رات کے وقت ان میں سے ایک میں اسے دفن کر دیا اور سب قبریں زمین کے برابر کر دیں۔ اس طرح کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح قبر کا علم نہ ہو اور وہ قبر کشائی نہ کر سکیں۔ میں نے عرض کیا: وہ لوگ اس فوت شدہ شخص سے کیا امید رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ان کا خیال یہ تھا کہ جب وہ قحط سالی میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس کی چارپائی کو باہر نکالنے سے ان کو بارش عطا کی جاتی ہے۔ میں نے پوچھا: آپ کے خیال میں وہ شخص کون تھا؟ انہوں نے کہا: جسے دانیال کہا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا: آپ کے خیال کے مطابق وہ کتنے عرصے سے فوت ہو چکا تھا؟ انہوں نے فرمایا: تین سو سال سے۔ میں نے کہا: کیا اس کے جسم میں کوئی تبدیلی آئی تھی ؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، بس گدی سے چند بال گرے تھے، کیونکہ انبیائے کرام کے جسم میں نہ زمین تصرف کرتی ہے نہ درندے اسے کھاتے ہیں“۔ (السيرة لابن إسحاق، ص:67،66، طبع دارالفكر، بيروت، دلائل النبوة للبيھقي:382،381/1، طبع دار الكتب العلمية، بيروت)
ان دونوں آثار سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام، انبیائے کرام کے جسموں اور ان کی قبروں سے توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے بڑے اہتمام سے اس دانیال نبی علیہ السلام کے جسم مبارک کو چھپا دیا تاکہ نہ لوگوں کو ان کی قبر کا علم ہو، نہ وہ ان سے توسل کر سکیں۔
بعض لوگ خیانت علمی سے کام لیتے ہوئے ان روایات کے آدھے ٹکڑے سامعین کے سامنے رکھتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ انبیائے کرام کے اجسام اور ان کی قبروں سے توسل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی لیا جاتا تھا۔ یہ لوگ اگلے ٹکڑے ڈکار جاتے ہیں جن میں وضاحت ہے کہ یہ کام عجمی کفار کا تھا اور صحابہ کرام نے ان کے اس کام کو جائز نہیں سمجھا، نہ انہیں اس کام کی اجازت دی، بلکہ اس کے سدباب کے لیے انتہائی اقدامات کیے۔
یہ حرکت بدترین خیانت ہے۔ دنیا میں تو اللہ تعالیٰ نے ایسے نام نہاد سکالرز کو مہلت دی ہوئی ہے، لیکن ایسے لوگ روز قیامت عذاب الٰہی سے نہیں بچ پائیں گے۔ اب بھی موقع ہے، انہیں حشر اور حساب سے ضرور جانا چاہیے۔
اسی بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولهذا كان السلف يسدون هذا الباب ؛ فإن المسلمين لما فتحوا تستر، وجدوا هناك سرير ميت باق، ذكروا أنه ”دانيال“، ووجدوا عنده كتابا فيه ذكر الحوادث، وكان أهل تلك الناحية يستسقون به، فكتب في ذلك أبو موسى الأشعري إلى عمر، فكتب إليه أن يحفر بالنهار ثلاثة عشر قبراً، ثم يدفن بالليل في واحد منها، ويعفى قبره، لئلا يفتتن الناس به.
”سلف صالحین (صحابہ و تابعین) اس دروازے (انبیاء و صالحین کے توسل) کو بند کرتے تھے۔ جب مسلمانوں نے تستر کے علاقے کو فتح کیا تو وہاں ایک فوت شدہ سلامت شخص کو دیکھا۔ انہوں نے اسے دانیال نبی قرار دیا۔ اس کے قریب ایک کتاب بھی تھی جس میں واقعات کا ذکر تھا۔ اس علاقے کے لوگ اس کے توسل سے بارش طلب کرتے تھے۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تو انہوں نے جواباً فرمایا کہ دن کو تیرہ قبریں کھودی جائیں، پھر رات کے اندھیرے میں ان میں سے ایک میں دانیال علیہ السلام کو دفن کر دیا جائے۔ پھر قبر کا نشان مٹا دیا جائے تاکہ لوگ شرک میں مبتلا نہ ہوں۔“ (مجموع الفتاوي:170/27)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
ففي ھذه القصة ما فعله المھاجرون والأنصار، من تعمية قبره، لئلا يفتتن به الناس، وھو إنكار منھم لذلك.
”اس واقعے میں مہاجرین اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دانیال علیہ السلام کی قبر کو چھپایا ہے تاکہ لوگ اس کی وجہ سے شرک و بدعت میں مبتلا نہ ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام انبیاء و صلحاء کی قبروں سے توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔“
معلوم ہوا کہ صحیح احادیث اور اسلاف امت سے وسیلہ بالذات والاموات ثابت نہیں۔
بشکریہ http://www.tohed.com