شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,011
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
خطبہ جمعۃ المبارک مسجدِ حرام مکہ المکرّمہ!
حمد و ثناء کے بعد: سفر آخرت کے لئے زاد راہ :
لوگو ! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہوں ، اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے اللہ کا تقوی و پرہیزگاری اختیار کرو ـ سمجھدار وہ ہوتا ہے جو انجام کے بارے میں فکر کرے اور محتاط دانشمند وہ ہے جو اپنے سفر کیلئے زاد راہ تیار کر کے رکھے اور کوتاہی سے اجتناب کرے ، دنیاوی ساز و سامان کا پیچھا کرنا ترک کر دے اور حرام سے مکمل طور پر باز رہے ـ اللہ آپ پر رحم فرمائے ، اپنے معاملات میں مکمل حزم و احتیاط سے کام لیں۔
ـ آپ کے سامنے ایک ایسا دن آ رہا ہے جب کوئی ندامت و شرمندگی کام نہ دے گی اور اگر یہاں پر قدم پھسل گیا تو وہاں پر افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ـ اور وہ دن روز قیامت ہے جب آپ سب کو حیات آخروی کیلئے دوبارہ اٹھایا جائیگا ، جسکے بارے میں ارشاد الہی ہے :
{ اس دن نہ مال ہی کچھ کام دے گا اور نہ بیٹے ہی کوئی فائدہ پہنچائیں گے ، ہاں جو شخص اللہ کے پاس پاک دل لے کر آیا ( وہ بچ جائیگا ) ـ } ( الشعراء : 88 ــ 89 )
مصائب و مشکلات کا دور :
مسلمانو ! دور حاضر انتہائی حزین و غمگین دنوں اور مشکل اوقات کا زمانہ ہے ، تاریخ کے سیاہ صفحات ہیں ، پوری انسانیت اس وقت حق و باطل کے باھمی اختلاط و گڈ مڈ ہو جانے سے دو چار ہے ـ عدل و انصاف کے پیمانے بے کار ہو چکے ہیں اور حکمرانی کے معیار سب الٹ پلٹ ہو چکے ہیں ، یوں لگتا ہے جیسے ساری انسانیت ایک سیاہ رات یا تاریک سرنگ میں پھنس چکی ہے یا پھر میدان تیہہ یا کھلے صحراء میں بھٹک رہی ہے ، پوچھنے والا پوچھتا ہے مگر حالات رواں کی حقیقت تک پہچنے سے عاقل بھی قاصر ہے ـ
عدل و انصاف :
آج قومیں بہت بڑے امتحان سے گزر رہی ہیں ـ آج کے دور جسے مھذب و متمدن دور کہا جاتا ہے اور یہی ترقی کی راہیں طے کر رہا ہے اس دور پر واجب ہے کہ احساس و شعور میں ترقی کرے اور اپنی انسانی نظرکو اس درجے تک ترقی دے جو کہ اسکے لائق ہے ، جو تہذیب و تمدن کے شایان شان ہے عدل و انصاف کی آواز بلند ہونی چاہیئے ، عدل و انصاف کے میزان کو فیصلوں میں استعمال کریں اور انصاف کی راہ چلیں ـ
عادلانہ معاھدے :
جی ہاں ! آج دنیا عدل و انصاف پر مبنی عہد معاھدوں اور واضح قسم کے ایگریمنٹ چاہتی ہے اور یہ آج ہرکسی کا بھرپور مطالبہ ہے جس سے دنیا کا کوئی ملک بھی مستثنی نہیں ہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، طاقتور ہو یا کمزور ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ ـ اسی طرح ہی آج دنیا کو باھمی خیر سگالی کے جذبات اور باھمی سنجیدہ و صادق تعاون کی ضرورت ہے تاکہ تمام اھل دنیا خوشحالی کی زندگی گزار سکیں ، بھوکوں کو کھانا کھلانا ، بیماروں کاعلاج کرنا ، امن و امان مہیا کرنا ، علم کو پھیلانا ، جہالت و ناخواندگی کا انسداد و خاتمہ ، عدل گستری کرنا اور حق کو ثابت کرنا بھی انتہائی ضروری واجب ہے ارشاد الہی ہے:
{اے لوگو ! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کی شناخت کرو اور اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقوی والا ( پرہیزگار ) ہے ، بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا (اور ) ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے ـ } ( الحجرات :13)
یہ نداء و صدا تو ساری دنیا کیلئے ہے ـ
اپنوں سے خطاب و اپیل :
البتہ اپنی امت اسلامیہ کیلئے ھماری نداء اور اپیل یہ ہے کہ اس پر واجب ہے کہ اختلافات کو ختم کر دیں ، اپنی رائے مشورہ میں وحدت پیدا کریں ، عالمی تغیرات کا مقابلہ کرنے کیلئے صف واحد بن جائیں ـ عقیدہ توحید کی بنیاد پر قائم وحدت امت کے طرز عمل پر ثابت قدم ہو جائیں ـ اللہ رب العالمین کیلئے عبودیت و بندگی کو خالص کر کے حقیقی حریت و آزادی حاصل کریں ـ شر ھمیشہ امت اسلامیہ کی صفوں میں پھوٹ پیدا کرتا رہا ہے ـ اسکی وحدت کو پارہ پارہ کرنے میں بھی شب و روز مصروف ہے اور وہ اپنے اس کرتوت پر مسلسل قائم رہے گا لیکن امت اسلامیہ کو اسکے رب نے یہ حکم فرمایا ہے :
{ آپس میں تنازعہ و جھگڑا نہ کرنا ورنہ تم بزدل ( ناکام ) ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ، اور صبر سے کام لو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ـ}(الانفال :46 )
وحدت کی برکات :
اتحاد و اتفاق اور وحدت امت کی برکت یہ ہے کہ اس سے منسلک کوئی شخص ظلم کا شکا ہو کر چلاّتا نہیں ، اسکے ساتھ رہتے ہوئے کوئی شخص محروم و نامراد نہیں رہتا اور نہ ہی انکے ممالک میں کوئی باغی و سرکش سخص اسکے امن و امان سے کھیل سکتا ہے ، نہ ہی ان لوگوں کے حقوق کو کوئی غصب کر سکتا ہے ـ
وحدت ایک قربانی اور ایک دوسرے کیلئے سہارا ہے ـ اس سے روابط و تعلقات میں گہرائی آتی ہے ، وحدت ہے مواقف میں صدق و سچائی اور امیدوں اور آلام میں باہم مواقفت میسر آتی سے چاہے اس میں کتنی ہی مشکلیں کیوں نہ آئيں نتائج سب خوش آئند ہوتے ہیں ـ
اپنوں ہی کا کیا دھرا :
مسلمانو !اکثر اختلافات جنھوں نے امت میں تفرقہ و انتشار پیدا کر رکھا ہے ان سب کا تعلق خود افراد امت سے ہی ہے ـ ان میں سے بکثرت اختلافات تو صرف خواہشات نفس کی طغیانی و سرکشی کا نتیجہ ہیں یا حب غلبہ و ہوس اقتدار ، جبر واستبداد کی رغبت ، لوگوں کے عیوب تلاش کرنے والی عادت اور ہفوات کو مشہور کرنے کی وجہ سے بھی اختلافات در آتے ہیں ، ان امور کے ساتھ ہی اختلافات کو جنم دینے میں یہ چیزیں بھی شامل ہیں کہ لوگ گفتگو اور مذاکرات میں بے ادبی سے کام لیتے ہیں ، طعن آمیز اشارے اور غیبت و چغلی کھاتے ہیں ــــ اللہ تعالی ان امور سے اپنی پناہ میں رکھے ــ یہ چيزیں اس بدترین غفلت کو جنم دیتی ہیں جسکا نتیجہ پہلے چھوٹی چھوٹی تقسیمات و تنازعات کی شکل میں سامنے آتا ہے اور پھر وہ بڑھتے بڑھتے بڑے بڑے اختلافات و تفرقہ بازی کا رنگ اختیار کر جاتے ہیں ـ یہی باعث ھلاکت اورسبب تباہی ہیں۔
برادارن اسلام ! امت اسلامیہ پر مصائب باہر سے نہیں آتے اور نہ ہی اس وقت تک یہ مشکلات اور بڑے بڑے حادثات میں مبتلا ہوتی ہے جب تک کہ اسے اسکے اندر سے نقصان نہ پہنچے ـ موجودہ بحران میں یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے گردابوں سے بچنے کیلئے سب سے مضبوط ترین قلعہ اس بات میں پوشیدہ ہے کہ اللہ وحدہ پر مضبوط ایمان ہو ، اسی پر سچا توکل اور مکمل اعتماد و بھروسہ ہو ، اپنے تمام کاموں کو اسی کے سپرد اور اسکی شریعت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ـ اسی طرح معاشرے کے افراد کا باہم کندھے سے کندھا ملا کر چلنا اور ایک دوسرے کا ساتھ دینا بھی امت کے لئے ایک مظبوط قلعے کی حیثیت رکھتا ہے ـ
بحرانوں میں وحدت امت کی ضروت
بحرانوں اور انقلابات کے دوران سب سے پہلی ضرورت ہی یہ ہوتی ہے کہ اپنی صفوں کو مضبوط و متحد کیا جائے ، صادق و سچا موقف اپنایا جائے اور باھمی اتحاد و اتفاق کا اس حد تک مظاھرہ کیا جائے کہ دشمنوں اور انکے بہی خواہ ایجنٹوں کے ہاتھ سے شور مچانے ، تفرقہ پیدا کرنے اور امت کی ہوا اکھڑنے اور اسکا اقبال جاتے رہنے کا موقع نکل جائے ـ
یہ افواہیں :
برادران گرامی ! موجودہ حالات کی تاریک فضاؤں اور ذرائع ابلاغ کی اس انتہائی ترقی کے دور میں ان امور و اشیاء سے خوب بچ کر رہنا چاہیئے جنھیں جنگ کی آگ کو ہوا دینے اور بھڑکانے والے پھیلاتے ہیں اور انھیں پھیلانے میں موجودہ تیز تر ذرائع ابلاغ اھم کردار اداکر رہے ہیں اور ٹیلفون ، سیٹلائیٹ اور انٹرنیٹ بھی انھیں رواج دینے میں پیش پیش ہیں اور وہ بے سروپا افواہیں اور نفرتوں کو بھڑکانے والی باتیں ہیں ـ اور دور بھی کونسا ہے جبکہ آسمان کھلا ہے اور اسکی فضائیں ( مصنوعی سیاروں سے ) دھڑا دھڑ خبریں برساتی جاتی ہیں ـ باتیں اور تبصرے یوں چلتے ہیں کہ وہ کسی حد و قید پر رکتے ہی نہیں ،ان حالات میں غلط و صحیح میں تمیز کرنا انتہائی ضروری ہے ـ
افواھوں کے نتائج :
یہ افواہیں اور جنگ کی آگ بھڑکانے والی باتیں ، جو مختلف مصادر سے سامنے آتی ہیں ، یہ پیار و محبت اور کندھے سے کندھا ملا کر چلنے یا وحدت امت کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں ، وہ لوگوں کے دلوں میں حقد و بغض اور کینہ و کدورت پیدا کرتی ہیں ،ان کا کام بدظنیاں پھیلانا بھی ہے اور یہ منفی و سلبی پہلوؤں کی ترویج کرتی ہیں ـ اگر کسی سے کہیں کوئی معمولی سی غلطی سرزد ہو جائے تو یہ ذرائع اسے رائی کا پہاڑ بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی سعی نامشکور سر انجام دیتے ہیں ـ یہ افواہ سازی اور جنگ و جدال کی آگ بھڑکانے والی باتیں خود غرض لوگوں ، خواہشات نفس کے پیروکاروں دشمنان دین اور انکے ریزہ خوار مسلمان ایجنٹوں کے ہاتھ کا خوفناک ہتھیار ہیں ـ یہ لوگ دین کے قواعد و ضوابط کو لرزہ بر اندام کر دینا چاہتے ہیں ، مسلمانوں کے صفوں میں تفریق اور اسلام سے انکے تعلق کو کمزور کرنے کی ٹھانے ہوئے ہیں ـ
اللہ کے بندو ! اس وقت امت بحرانوں اور شکستوں سے دوچار ہے اور یہ چمـگادڑ ہستے گاتے پھرتے ہیں ـ گریہ انکے قریب بھی نہیں آتا وہ اپنی مجلسوں اور کلبوں میں رتجگے کرتے ہیں ، بے سود و لایعنی بحث مباحثوں میں فقاہت جھاڑتے پھرتے ہیں اور افواھوں کو پھیلانے فتنوں کو ہوا دینے اور فضول تبصرے اور تجزیئے کرنے میں لگے رہتے ہیں ـ ان سب کی ایک ہی دھن ہے کہ اپنے گروپوں ، اپنے چینلز اور سائیٹس ، اپنے صفحات اور اپنی تحریروں میں جادو جگاتے جائيں اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ان کا شعور مردہ ہوتا جا رہا ہے ، وہ امت کے غموں پر پریشانیوں ، حالات اور انجام کی کوئی پرواہ ہی نہیں کرتے وہ عوام الناس میں افواھیں اور فتنوں کو بھڑکانے والی باتیں اگلتے چلے جاتے ہیں ، اور یہی باتیں اپنے کلبوں کی کھلی فضاؤں میں بھی اڑاتے چلے جاتے ہیں جبکہ انکی چھوڑی یا اڑائی ہوئی ہواہیوں میں سے کوئی چیز بھی بحث و تحقیق کے میدان میں پائیہ ثبوت کو نہیں پہنچ پاتی ـ
افواھوں کے اثرات بد
افواہیں فتنوں کے زمانے میں لوگوں کو دھشت زدہ کرتی ہیں ان کے دلوں میں نفرت کے کانٹے بوتی ہیں اور معنوں و اخلاقی اسپرٹ کو برباد کر کے رکھ دیتی ہیں ـ اسی طرح یہ افواہیں لوگوں کے دلوں سے پیار و محبت کے جذبات کا خاتمہ کرتی ، افکار میں انتشار پیدا کرتی ، اپنی ذات ، امت اور قیادت پر اعتماد کو ضایع کرتی، امت کے ڈھانچے کو زنگ آلود کرتی اور افراد امت کے دلوں میں بغض و حقد اور نفرت کے جذبات کو جنم دیتی ہیں ـ انھیں افواھوں کے نتیجہ میں کتنے ابریاء و نیک طینت لوگ پریشان ہوئے ، تعلقات ٹوٹے ہیں ، جرائم کا ارتکاب ہوا ہے ، علاقات منقطع ہوئے ہیں ، قومیں پسماندگی میں چلی گئ ہیں اور کتنی فوجیں تباہ ہوئی ہیں ـ
افواہ ساز کون ؟
مسلمانو ! یہ افواہیں عموما کسی بھی فرد یا جماعت سے صادر ہوں ، ہوتی انہی سے ہیں جو ناپسندیدہ اور دھتکارے ہوئے ہوں ، جس کا دل حقد و بغض سے برا ہوا ہو ، جس کا سینہ نفرت سے تنگ ہو چکا ہو اور جس کا نفس غیض و غضب اور غصے سے جل بھن چکا ہو ، وہ افواہ پھیلا کر اپنے غصے کا زھر نکالتا ، اپنے حقد و بغض کو پھیلاتا ہے اور اپنے سینے سے نفرت کو نکالتا ہے اور لوگوں میں اگلتا ہے ـ فتنے کو ہوا دیکر بھڑکانے والی بات صرف حاقد دشمن ، چھپے ایجنٹ یا برے جاھل سے ہی صادر ہوتی ہے ـ
نیکی و خلوص بجا مگر ہوشیاری بھی :
پیارے بھائیو ! ھمارے مخاطب حاقد و کینہ پرور دشمن نہیں نہ کوئی بکا ہوا ایجنٹ ہے ـ بلکہ ھمارا خطاب تو اس مسلمان سے ہے جو کہ غفلت شعار اور بھولا بھالا ہے ، خوبصورت و قوی ہے ، نیک نیت ہے اپنی قوم و ملک کیلئے بڑا ہی مخلص بلکہ انپے ملک و قوم کا بہی خواہ ہے وہ بڑا اچھا اور نیک نیت ہے لیکن وہ افواہ کے پس پردہ غیروں کے کیا کیا مقاصد پنہاں ہیں انھیں نہیں جانتا اور نہ ہی وہ ان خطرات کو ذھن میں رکھتا ہے جو ان افواھوں سے لوگوں کو مطلوب ہو تے ہیں ، ایسے نیک اور صالح لوگوں کو اللہ توفیق مزید سے نوازے ـ نیکی و اچھائی کے ساتھ ساتھ ہی انھیں سخت ہوشیاری کی صفت بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہیئے اور مہم و رائے میں پختگی لانی چاہیئے اور افواھوں کے بارےمیں صحیح موقف اختارکرنے کے سلسلہ میں ان مخلص مومنوں کی راہ اختیار کرنی چاہیئے جنکا ذکر کرتےھوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
{ ( جب ) ان سے لوگوں نے آ کر بیان کیا کہ کفار نے تمھارے ( مقابلے کے ) لئے ( لشکر کثیر ) جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو، تو ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا اور کہنے لگے کہ ھمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے ، پھر وہ اللہ کی نعمتوں اوراس کے فضل و کرم کے ساتھ ( خوش و خرم ) واپس آئے ، انھیں کسی طر ح کا ضرر و نقصان نہ پہنچا اور وہ اللہ کی خوشنودی کے تابع رہے اور بہت ہی بڑے فضل والا ہے ـ } ( آل عمران : 173 ــ 174 )
قرآن ھدایات :
ان اچھے اور نیک لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ان دقیق ھدایات پر غور کریں اور افواھوں کے بارے میں اور فتنوں کی آگ لگانے والی باتوں کے سلسلہ میں وہی موقف اختیار کریں جو قرآن کریم نے واضح طور پر بیان کئے ہیں ـ
پہلی قرآنی ھدایت :
جن افراد و جماعتوں کے بارے میں افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں انکے بارے میں اپنے دل میں حسن ظن رکھیں جیساکہ ارشاد الہی ہے :
{ جب تم نے وہ بات ( افواہ ) سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہ کیا ؟ اوریہ کیوں نہ کہا کہ یہ صریح بہتان و تہمت ہے } ( النور : 12)
اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ اس قرآنی ھدایت کو عملی طور پر کس طرح اختیار و نافذ کیا گیا ، اس کی بہترین مثال ھمارے سلف صالحین امت کے یہاں موجود ہیں چنانچہ حضرت ابوایوب انصاری اور انکی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالی عنہما کے بار ے میں مروی ہے کہ جب لوگوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا پر لگی تہمت پر چہ مہہ گوئیاں کر رہے تھے تو ان دونوں نیک میاں بیوی نے آپس میں ایک دوسرے سے سوال کیا : حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیوی سے کہا :
" دیکھو ! اگر صفوان بن معطل رضی اللہ تعالی عنہ کی جگہ پر میں ہوتا تو کیا میں اس فعل کا ارتکاب کرتا ؟ یا پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی جگہ پر تم ہوتیں تو کیا تم سے یہ فعل سرزد ہو جاتا ؟ اور دونوں نے ہی ایک دوسرے کو یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہ ہوتا ، پھر حضرت ابو ایوب انصاری نے رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :
" حضرت صفوان رضی اللہ تعالی عنہ تو مجھ سے بھی اچھے اور بہترین ـ " اور انکی زوجۂ محترمہ کہنے لگیں :
" ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ تو مجھ سے بدرجہا بہتر و اچھی ہیں ـ " یہ تھا مسلم کا مسلمانوں کےبارے میں حسن ظن ـ اور یہی صحیح و صریح ، آسان و سھل ، زیادہ سلامتی والا اور زیادہ صادق و سچا طریق کار ہے ـ
دوسری قرآن ھدایت :
ان افواھوں کی تحقیق و ثبوت کی ضرورت کے سلسلہ میں انتہائی حکیمانہ و دانشمندانہ اور پورے حزم و احتیاط پر مبنی موقف اختیار کرنا چاہیئے جیساکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :
{ یہ ( افتراء پرداز ) اپنی بات ( کی تصدیق ) کیلئے چارگواہ کیوں نہ لائے ـ } ( النور : 13)
اللہ تعالی کے اس ارشاد اور اس ھدایت کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرے کے افراد کسی بات پر کان نہ دھریں اور نہ ہی اسے قبول کریں جب تک اسکے صحیح ہونے کا کوئی واضح قرینہ و ثبوت موجود نہ ہو ، اگر کوئی شہادت نہ ہو تو اس افواہ کو بھی جھوٹ اور کذاب لوگوں کی کارستانیوں کے کھاتے میں ڈال دیا جائے جیسا کہ خود اللہ تعالی نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے :
" جب یہ گواہ نہ لا سکے تو اللہ کے نزدیک یہی (افواہ ساز و تمہت طراز ) جھوٹے ہیں ـ "( النور : 13)
تیسری قرآنی ھدایت :
معاشرے کو چاہیئے کہ افواھوں کو رد کرنے ، ان پر گفتگو نہ کرنے اور اسکی ترویج و اشاعت کو روکنے کے سلسلہ میں ایک مضبوط و دلیرانہ موقف اختیار کرے جیسا کہ اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے :
{اور جب تم نے اس ( بہتان و افواہ ) کو سنا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ھمارے شایان شان نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں ـ ( اے اللہ ) تو پاک ہے ، یہ بہت بڑا بہتان ہے ـ } ( النور : 16)
صحیح طرز عمل :
مسلمانو ! ھمارے لئے ضروری ہے کہ صرف ثقہ و معتبر اور عادل و صادق لوگوں کی دی ہوئی اخبار پر ہی اعتماد کریں اور جلد بازوں ، نادانوں اور فسق و فجور میں لت پت لوگوں کی باتیں سننے اور ماننے سے دور رہیں اور نہ ان لوگوں کی سنیں جو بلا ثبوت بکثرت خبریں نشر کرتے یا ہوائیاں اڑاتے رہتے ہیں اور نہ ہی انکی باتون کا یقین کریں جو بعید از فہم و قیاس باتیں کرتے ، تبصرے اور تجزیئے کرتے تاویلیں کرنےمیں مبالغہ آمیزی سے کام لینے والے معروف ہیں ، اسی طرح فتنوں کے زمانے میں اور ان فضاؤں میں جہاں افواہیں اڑانے اور لڑائی جھگڑوں کی آگ بھڑکانے والے اپنی باتوں کو رواج دینے میں کوشاں ہوں ، ایسے اوقات و فضاؤں میں اپنی زبان پر کنٹرول رکھیں بلکہ عقل و ایمان دونوں ہی بندے کو بات کہنے یا خاموشی اختیار کرنے کی مصلحتوں میں موازنہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں ھمیشہ بات کرنا ہی اچھا نہیں ہوتا اور خاموشی اختیار کئے رہنا بھی ھمیشہ نیکی نہیں ہوتا ـ صحیح حدیث میں ارشاد نبوی ہے :
{ جو شخص اللہ تعالی اور روز آخرت پرایمان رکھتا ہے اسے چاہیئے کہ صرف بھلائی کی بات کہے ورنہ خاموش رھے ـ }
اے اللہ کے بندے صرف دو ہی راستے ہیں : (1) صرف اچھی بات کہو ـ (2) یا پھر اپنے لئے خاموش کو لازم پکڑو ـ
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
" بھلا یہ قرآن پر غور کیوں نہیں کرتے ، اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں ( بہت سا ) اختلاف پاتے ، اور جب انکے پاس امن و خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کر دیتے ہیں، اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اسکی تحقیق کر لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اسکی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیروکار ہو جاتے ـ}(النساء:82 ــ93)
بقاء امت کا راز :
کلمہ توحید اسلام کی اصل اور بنیاد ہے اور اتحاد و اتفاق امت اسلامیہ کی بقاء کا راز ہے ، مسلمانوں کی فرقہ بندی و انتشار کے نتیجہ میں امت کو بہت سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ، ھلاکتیں ہوئیں ، فقر و فاقہ آیا اور بھوک کا دور پہنچا اور کئ ایسے مواقع امت کے ہاتھ سے نکل گئے جن کا کوئی بدل ہی نہیں ہے قلموں اور ذرائع ابلاغ نے غلط بیانی کی اور تصویر ہی بڑی بھیانک کر کے پیش کی حتی کہ اپنے آپ پر اعتماد کا پیمانہ ، ڈول گیا اور خود اعتمادی بھی جاتی رہی اور قوم خاب و خاسر ہوئی گھاٹے پہ گھاٹا اٹھانا پڑا جبکہ قوم نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا ، نہ حالات سے عبر ت و درس لیا ، ذلت و رسوائی ، بے دست و پائی اور بے یار و مددگاری کی حد ہو گئ ہے اور ضیاع کی انتہاء ہو چکی ہے ـ
درس عبرت :
اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ان مصائب و مشکلات سے عبرتیں اور سبق حاصل کئے جائيں جن کی وجہ سے تفرقہ بازی ختم ہو ، مسلمانوں کی اپنی صفوں میں وحدت و اتفاق پیدا ہو اور دوسروں کا رعب و ھیبت دلوں سے نکلے اور ھمیں اس وقت تک قیادت و سیادت ، شرف و عزت اور اپنے دفاع کی بھر پور قوت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ ھمیں عزت نفس حاصل نہ ہو گی ھم خود عزت و تکریم والے ، عدل و انصاف کے پرچارک ، علم و فضل کے مالک اور تقوی و پرہیزگاری والے نہ ہوں ـ اور اگر علم و فضل ، عدل و انصاف کی سنت و طریقہ اور اسکا نظام غالب ہے ـ اور افواھوں کا پھیلانا ، انھیں رواج دینا اور انھیں قبول کرنا ، علم و فضل ، عدل وانصاف ، عزت و کرامت اور تقوی و پرہیزگاری کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے یعنی وہ ہیں تو یہ نہیں اور یہ ہونگے تو وہ نہ رھیں گے ، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ افواھوں کو قبول کرنا اور انکی ترویج کرنا ناکافی اور ناکام لوگوں کی متعدد صورتوں میں سے ہی ایک صورت ہے ، آپ دیکھتے ہیں کہ ایک ناکام شخص کہیں سے کوئی افواہ اٹھاتا ہے پھر اپنے آپ کو اسکے ذریعے نمایاں کرنے ، مجلسوں کے دولہا یا (چہرہ مہرہ) مہرہ بننے اور جھوٹی تعریفیں حاصل کرنے کیلئے بڑی سعی نامشکور کرتا ہے بلکہ کبھی کبھی وہ امت پر غیرت کھانے اور اصلاح کی رغبت رکھنے کی ظاھری ایکٹنگ بھی کرتا ہے ـ
ایک اھم وضاحت :
یہاں موجودہ بحرانوں کے دور ميں اور ایسی افواھوں کے سلسلہ میں ایک اھم امر کی وضاحت ضروری اور مناسب لگتی ہے کہ قوم و ملت کے اھل عقل و دانش ، ارباب مناصب و ذمہ داریاں اور وہ لوگ کہ جن کو یہ افواھیں مس کرتی ہیں ، انھیں چاہیئے کہ وہ سٹڈی کئے بغیر انکا رد نہ کریں بلکہ آرام و سکون سے اور صلاح و مشورہ کرکے انکے بارے میں کوئی انتہائی مناسب موقف اختیار کیا جائے اور انتہائی باریک بینی سے کام لیتے ہوئے پوری قوت کےساتھ عقل و صدق کی راہ اپنائی جائے جو کہ اعتماد و وثوق کا بیج بوتی اور مصداقیت و حقیقت کو راسخ کرتی ہےـ
ایسے ہی اس بات کا بھی خیال رہے کہ غیر ضروری و لایعنی قسم کی افواھوں پر توجہ نہ دی جائے کیونکہ ہر افواہ جواب دینے کے لائق نہیں ہوتی ، اللہ آپ پر رحم فرمائے ، اللہ سے ڈرو ، اپنی زبانوں پر کنٹرول رکھو اور باھمی اختلافات کی اصلاح کر لو اور اگر مومن ہو تو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و پیروی کرو ـ
{ سبحان ربك رب العزة عما یصفون و سلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین }
بشکریہ اسلام فورٹ ڈاٹ کام
حمد و ثناء کے بعد: سفر آخرت کے لئے زاد راہ :
لوگو ! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہوں ، اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے اللہ کا تقوی و پرہیزگاری اختیار کرو ـ سمجھدار وہ ہوتا ہے جو انجام کے بارے میں فکر کرے اور محتاط دانشمند وہ ہے جو اپنے سفر کیلئے زاد راہ تیار کر کے رکھے اور کوتاہی سے اجتناب کرے ، دنیاوی ساز و سامان کا پیچھا کرنا ترک کر دے اور حرام سے مکمل طور پر باز رہے ـ اللہ آپ پر رحم فرمائے ، اپنے معاملات میں مکمل حزم و احتیاط سے کام لیں۔
ـ آپ کے سامنے ایک ایسا دن آ رہا ہے جب کوئی ندامت و شرمندگی کام نہ دے گی اور اگر یہاں پر قدم پھسل گیا تو وہاں پر افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ـ اور وہ دن روز قیامت ہے جب آپ سب کو حیات آخروی کیلئے دوبارہ اٹھایا جائیگا ، جسکے بارے میں ارشاد الہی ہے :
{ اس دن نہ مال ہی کچھ کام دے گا اور نہ بیٹے ہی کوئی فائدہ پہنچائیں گے ، ہاں جو شخص اللہ کے پاس پاک دل لے کر آیا ( وہ بچ جائیگا ) ـ } ( الشعراء : 88 ــ 89 )
مصائب و مشکلات کا دور :
مسلمانو ! دور حاضر انتہائی حزین و غمگین دنوں اور مشکل اوقات کا زمانہ ہے ، تاریخ کے سیاہ صفحات ہیں ، پوری انسانیت اس وقت حق و باطل کے باھمی اختلاط و گڈ مڈ ہو جانے سے دو چار ہے ـ عدل و انصاف کے پیمانے بے کار ہو چکے ہیں اور حکمرانی کے معیار سب الٹ پلٹ ہو چکے ہیں ، یوں لگتا ہے جیسے ساری انسانیت ایک سیاہ رات یا تاریک سرنگ میں پھنس چکی ہے یا پھر میدان تیہہ یا کھلے صحراء میں بھٹک رہی ہے ، پوچھنے والا پوچھتا ہے مگر حالات رواں کی حقیقت تک پہچنے سے عاقل بھی قاصر ہے ـ
عدل و انصاف :
آج قومیں بہت بڑے امتحان سے گزر رہی ہیں ـ آج کے دور جسے مھذب و متمدن دور کہا جاتا ہے اور یہی ترقی کی راہیں طے کر رہا ہے اس دور پر واجب ہے کہ احساس و شعور میں ترقی کرے اور اپنی انسانی نظرکو اس درجے تک ترقی دے جو کہ اسکے لائق ہے ، جو تہذیب و تمدن کے شایان شان ہے عدل و انصاف کی آواز بلند ہونی چاہیئے ، عدل و انصاف کے میزان کو فیصلوں میں استعمال کریں اور انصاف کی راہ چلیں ـ
عادلانہ معاھدے :
جی ہاں ! آج دنیا عدل و انصاف پر مبنی عہد معاھدوں اور واضح قسم کے ایگریمنٹ چاہتی ہے اور یہ آج ہرکسی کا بھرپور مطالبہ ہے جس سے دنیا کا کوئی ملک بھی مستثنی نہیں ہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، طاقتور ہو یا کمزور ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ ـ اسی طرح ہی آج دنیا کو باھمی خیر سگالی کے جذبات اور باھمی سنجیدہ و صادق تعاون کی ضرورت ہے تاکہ تمام اھل دنیا خوشحالی کی زندگی گزار سکیں ، بھوکوں کو کھانا کھلانا ، بیماروں کاعلاج کرنا ، امن و امان مہیا کرنا ، علم کو پھیلانا ، جہالت و ناخواندگی کا انسداد و خاتمہ ، عدل گستری کرنا اور حق کو ثابت کرنا بھی انتہائی ضروری واجب ہے ارشاد الہی ہے:
{اے لوگو ! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کی شناخت کرو اور اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقوی والا ( پرہیزگار ) ہے ، بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا (اور ) ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے ـ } ( الحجرات :13)
یہ نداء و صدا تو ساری دنیا کیلئے ہے ـ
اپنوں سے خطاب و اپیل :
البتہ اپنی امت اسلامیہ کیلئے ھماری نداء اور اپیل یہ ہے کہ اس پر واجب ہے کہ اختلافات کو ختم کر دیں ، اپنی رائے مشورہ میں وحدت پیدا کریں ، عالمی تغیرات کا مقابلہ کرنے کیلئے صف واحد بن جائیں ـ عقیدہ توحید کی بنیاد پر قائم وحدت امت کے طرز عمل پر ثابت قدم ہو جائیں ـ اللہ رب العالمین کیلئے عبودیت و بندگی کو خالص کر کے حقیقی حریت و آزادی حاصل کریں ـ شر ھمیشہ امت اسلامیہ کی صفوں میں پھوٹ پیدا کرتا رہا ہے ـ اسکی وحدت کو پارہ پارہ کرنے میں بھی شب و روز مصروف ہے اور وہ اپنے اس کرتوت پر مسلسل قائم رہے گا لیکن امت اسلامیہ کو اسکے رب نے یہ حکم فرمایا ہے :
{ آپس میں تنازعہ و جھگڑا نہ کرنا ورنہ تم بزدل ( ناکام ) ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ، اور صبر سے کام لو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ـ}(الانفال :46 )
وحدت کی برکات :
اتحاد و اتفاق اور وحدت امت کی برکت یہ ہے کہ اس سے منسلک کوئی شخص ظلم کا شکا ہو کر چلاّتا نہیں ، اسکے ساتھ رہتے ہوئے کوئی شخص محروم و نامراد نہیں رہتا اور نہ ہی انکے ممالک میں کوئی باغی و سرکش سخص اسکے امن و امان سے کھیل سکتا ہے ، نہ ہی ان لوگوں کے حقوق کو کوئی غصب کر سکتا ہے ـ
وحدت ایک قربانی اور ایک دوسرے کیلئے سہارا ہے ـ اس سے روابط و تعلقات میں گہرائی آتی ہے ، وحدت ہے مواقف میں صدق و سچائی اور امیدوں اور آلام میں باہم مواقفت میسر آتی سے چاہے اس میں کتنی ہی مشکلیں کیوں نہ آئيں نتائج سب خوش آئند ہوتے ہیں ـ
اپنوں ہی کا کیا دھرا :
مسلمانو !اکثر اختلافات جنھوں نے امت میں تفرقہ و انتشار پیدا کر رکھا ہے ان سب کا تعلق خود افراد امت سے ہی ہے ـ ان میں سے بکثرت اختلافات تو صرف خواہشات نفس کی طغیانی و سرکشی کا نتیجہ ہیں یا حب غلبہ و ہوس اقتدار ، جبر واستبداد کی رغبت ، لوگوں کے عیوب تلاش کرنے والی عادت اور ہفوات کو مشہور کرنے کی وجہ سے بھی اختلافات در آتے ہیں ، ان امور کے ساتھ ہی اختلافات کو جنم دینے میں یہ چیزیں بھی شامل ہیں کہ لوگ گفتگو اور مذاکرات میں بے ادبی سے کام لیتے ہیں ، طعن آمیز اشارے اور غیبت و چغلی کھاتے ہیں ــــ اللہ تعالی ان امور سے اپنی پناہ میں رکھے ــ یہ چيزیں اس بدترین غفلت کو جنم دیتی ہیں جسکا نتیجہ پہلے چھوٹی چھوٹی تقسیمات و تنازعات کی شکل میں سامنے آتا ہے اور پھر وہ بڑھتے بڑھتے بڑے بڑے اختلافات و تفرقہ بازی کا رنگ اختیار کر جاتے ہیں ـ یہی باعث ھلاکت اورسبب تباہی ہیں۔
برادارن اسلام ! امت اسلامیہ پر مصائب باہر سے نہیں آتے اور نہ ہی اس وقت تک یہ مشکلات اور بڑے بڑے حادثات میں مبتلا ہوتی ہے جب تک کہ اسے اسکے اندر سے نقصان نہ پہنچے ـ موجودہ بحران میں یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے گردابوں سے بچنے کیلئے سب سے مضبوط ترین قلعہ اس بات میں پوشیدہ ہے کہ اللہ وحدہ پر مضبوط ایمان ہو ، اسی پر سچا توکل اور مکمل اعتماد و بھروسہ ہو ، اپنے تمام کاموں کو اسی کے سپرد اور اسکی شریعت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ـ اسی طرح معاشرے کے افراد کا باہم کندھے سے کندھا ملا کر چلنا اور ایک دوسرے کا ساتھ دینا بھی امت کے لئے ایک مظبوط قلعے کی حیثیت رکھتا ہے ـ
بحرانوں میں وحدت امت کی ضروت
بحرانوں اور انقلابات کے دوران سب سے پہلی ضرورت ہی یہ ہوتی ہے کہ اپنی صفوں کو مضبوط و متحد کیا جائے ، صادق و سچا موقف اپنایا جائے اور باھمی اتحاد و اتفاق کا اس حد تک مظاھرہ کیا جائے کہ دشمنوں اور انکے بہی خواہ ایجنٹوں کے ہاتھ سے شور مچانے ، تفرقہ پیدا کرنے اور امت کی ہوا اکھڑنے اور اسکا اقبال جاتے رہنے کا موقع نکل جائے ـ
یہ افواہیں :
برادران گرامی ! موجودہ حالات کی تاریک فضاؤں اور ذرائع ابلاغ کی اس انتہائی ترقی کے دور میں ان امور و اشیاء سے خوب بچ کر رہنا چاہیئے جنھیں جنگ کی آگ کو ہوا دینے اور بھڑکانے والے پھیلاتے ہیں اور انھیں پھیلانے میں موجودہ تیز تر ذرائع ابلاغ اھم کردار اداکر رہے ہیں اور ٹیلفون ، سیٹلائیٹ اور انٹرنیٹ بھی انھیں رواج دینے میں پیش پیش ہیں اور وہ بے سروپا افواہیں اور نفرتوں کو بھڑکانے والی باتیں ہیں ـ اور دور بھی کونسا ہے جبکہ آسمان کھلا ہے اور اسکی فضائیں ( مصنوعی سیاروں سے ) دھڑا دھڑ خبریں برساتی جاتی ہیں ـ باتیں اور تبصرے یوں چلتے ہیں کہ وہ کسی حد و قید پر رکتے ہی نہیں ،ان حالات میں غلط و صحیح میں تمیز کرنا انتہائی ضروری ہے ـ
افواھوں کے نتائج :
یہ افواہیں اور جنگ کی آگ بھڑکانے والی باتیں ، جو مختلف مصادر سے سامنے آتی ہیں ، یہ پیار و محبت اور کندھے سے کندھا ملا کر چلنے یا وحدت امت کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں ، وہ لوگوں کے دلوں میں حقد و بغض اور کینہ و کدورت پیدا کرتی ہیں ،ان کا کام بدظنیاں پھیلانا بھی ہے اور یہ منفی و سلبی پہلوؤں کی ترویج کرتی ہیں ـ اگر کسی سے کہیں کوئی معمولی سی غلطی سرزد ہو جائے تو یہ ذرائع اسے رائی کا پہاڑ بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی سعی نامشکور سر انجام دیتے ہیں ـ یہ افواہ سازی اور جنگ و جدال کی آگ بھڑکانے والی باتیں خود غرض لوگوں ، خواہشات نفس کے پیروکاروں دشمنان دین اور انکے ریزہ خوار مسلمان ایجنٹوں کے ہاتھ کا خوفناک ہتھیار ہیں ـ یہ لوگ دین کے قواعد و ضوابط کو لرزہ بر اندام کر دینا چاہتے ہیں ، مسلمانوں کے صفوں میں تفریق اور اسلام سے انکے تعلق کو کمزور کرنے کی ٹھانے ہوئے ہیں ـ
اللہ کے بندو ! اس وقت امت بحرانوں اور شکستوں سے دوچار ہے اور یہ چمـگادڑ ہستے گاتے پھرتے ہیں ـ گریہ انکے قریب بھی نہیں آتا وہ اپنی مجلسوں اور کلبوں میں رتجگے کرتے ہیں ، بے سود و لایعنی بحث مباحثوں میں فقاہت جھاڑتے پھرتے ہیں اور افواھوں کو پھیلانے فتنوں کو ہوا دینے اور فضول تبصرے اور تجزیئے کرنے میں لگے رہتے ہیں ـ ان سب کی ایک ہی دھن ہے کہ اپنے گروپوں ، اپنے چینلز اور سائیٹس ، اپنے صفحات اور اپنی تحریروں میں جادو جگاتے جائيں اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ان کا شعور مردہ ہوتا جا رہا ہے ، وہ امت کے غموں پر پریشانیوں ، حالات اور انجام کی کوئی پرواہ ہی نہیں کرتے وہ عوام الناس میں افواھیں اور فتنوں کو بھڑکانے والی باتیں اگلتے چلے جاتے ہیں ، اور یہی باتیں اپنے کلبوں کی کھلی فضاؤں میں بھی اڑاتے چلے جاتے ہیں جبکہ انکی چھوڑی یا اڑائی ہوئی ہواہیوں میں سے کوئی چیز بھی بحث و تحقیق کے میدان میں پائیہ ثبوت کو نہیں پہنچ پاتی ـ
افواھوں کے اثرات بد
افواہیں فتنوں کے زمانے میں لوگوں کو دھشت زدہ کرتی ہیں ان کے دلوں میں نفرت کے کانٹے بوتی ہیں اور معنوں و اخلاقی اسپرٹ کو برباد کر کے رکھ دیتی ہیں ـ اسی طرح یہ افواہیں لوگوں کے دلوں سے پیار و محبت کے جذبات کا خاتمہ کرتی ، افکار میں انتشار پیدا کرتی ، اپنی ذات ، امت اور قیادت پر اعتماد کو ضایع کرتی، امت کے ڈھانچے کو زنگ آلود کرتی اور افراد امت کے دلوں میں بغض و حقد اور نفرت کے جذبات کو جنم دیتی ہیں ـ انھیں افواھوں کے نتیجہ میں کتنے ابریاء و نیک طینت لوگ پریشان ہوئے ، تعلقات ٹوٹے ہیں ، جرائم کا ارتکاب ہوا ہے ، علاقات منقطع ہوئے ہیں ، قومیں پسماندگی میں چلی گئ ہیں اور کتنی فوجیں تباہ ہوئی ہیں ـ
افواہ ساز کون ؟
مسلمانو ! یہ افواہیں عموما کسی بھی فرد یا جماعت سے صادر ہوں ، ہوتی انہی سے ہیں جو ناپسندیدہ اور دھتکارے ہوئے ہوں ، جس کا دل حقد و بغض سے برا ہوا ہو ، جس کا سینہ نفرت سے تنگ ہو چکا ہو اور جس کا نفس غیض و غضب اور غصے سے جل بھن چکا ہو ، وہ افواہ پھیلا کر اپنے غصے کا زھر نکالتا ، اپنے حقد و بغض کو پھیلاتا ہے اور اپنے سینے سے نفرت کو نکالتا ہے اور لوگوں میں اگلتا ہے ـ فتنے کو ہوا دیکر بھڑکانے والی بات صرف حاقد دشمن ، چھپے ایجنٹ یا برے جاھل سے ہی صادر ہوتی ہے ـ
نیکی و خلوص بجا مگر ہوشیاری بھی :
پیارے بھائیو ! ھمارے مخاطب حاقد و کینہ پرور دشمن نہیں نہ کوئی بکا ہوا ایجنٹ ہے ـ بلکہ ھمارا خطاب تو اس مسلمان سے ہے جو کہ غفلت شعار اور بھولا بھالا ہے ، خوبصورت و قوی ہے ، نیک نیت ہے اپنی قوم و ملک کیلئے بڑا ہی مخلص بلکہ انپے ملک و قوم کا بہی خواہ ہے وہ بڑا اچھا اور نیک نیت ہے لیکن وہ افواہ کے پس پردہ غیروں کے کیا کیا مقاصد پنہاں ہیں انھیں نہیں جانتا اور نہ ہی وہ ان خطرات کو ذھن میں رکھتا ہے جو ان افواھوں سے لوگوں کو مطلوب ہو تے ہیں ، ایسے نیک اور صالح لوگوں کو اللہ توفیق مزید سے نوازے ـ نیکی و اچھائی کے ساتھ ساتھ ہی انھیں سخت ہوشیاری کی صفت بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہیئے اور مہم و رائے میں پختگی لانی چاہیئے اور افواھوں کے بارےمیں صحیح موقف اختارکرنے کے سلسلہ میں ان مخلص مومنوں کی راہ اختیار کرنی چاہیئے جنکا ذکر کرتےھوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
{ ( جب ) ان سے لوگوں نے آ کر بیان کیا کہ کفار نے تمھارے ( مقابلے کے ) لئے ( لشکر کثیر ) جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو، تو ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا اور کہنے لگے کہ ھمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے ، پھر وہ اللہ کی نعمتوں اوراس کے فضل و کرم کے ساتھ ( خوش و خرم ) واپس آئے ، انھیں کسی طر ح کا ضرر و نقصان نہ پہنچا اور وہ اللہ کی خوشنودی کے تابع رہے اور بہت ہی بڑے فضل والا ہے ـ } ( آل عمران : 173 ــ 174 )
قرآن ھدایات :
ان اچھے اور نیک لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ان دقیق ھدایات پر غور کریں اور افواھوں کے بارے میں اور فتنوں کی آگ لگانے والی باتوں کے سلسلہ میں وہی موقف اختیار کریں جو قرآن کریم نے واضح طور پر بیان کئے ہیں ـ
پہلی قرآنی ھدایت :
جن افراد و جماعتوں کے بارے میں افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں انکے بارے میں اپنے دل میں حسن ظن رکھیں جیساکہ ارشاد الہی ہے :
{ جب تم نے وہ بات ( افواہ ) سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہ کیا ؟ اوریہ کیوں نہ کہا کہ یہ صریح بہتان و تہمت ہے } ( النور : 12)
اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ اس قرآنی ھدایت کو عملی طور پر کس طرح اختیار و نافذ کیا گیا ، اس کی بہترین مثال ھمارے سلف صالحین امت کے یہاں موجود ہیں چنانچہ حضرت ابوایوب انصاری اور انکی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالی عنہما کے بار ے میں مروی ہے کہ جب لوگوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا پر لگی تہمت پر چہ مہہ گوئیاں کر رہے تھے تو ان دونوں نیک میاں بیوی نے آپس میں ایک دوسرے سے سوال کیا : حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیوی سے کہا :
" دیکھو ! اگر صفوان بن معطل رضی اللہ تعالی عنہ کی جگہ پر میں ہوتا تو کیا میں اس فعل کا ارتکاب کرتا ؟ یا پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی جگہ پر تم ہوتیں تو کیا تم سے یہ فعل سرزد ہو جاتا ؟ اور دونوں نے ہی ایک دوسرے کو یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہ ہوتا ، پھر حضرت ابو ایوب انصاری نے رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :
" حضرت صفوان رضی اللہ تعالی عنہ تو مجھ سے بھی اچھے اور بہترین ـ " اور انکی زوجۂ محترمہ کہنے لگیں :
" ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ تو مجھ سے بدرجہا بہتر و اچھی ہیں ـ " یہ تھا مسلم کا مسلمانوں کےبارے میں حسن ظن ـ اور یہی صحیح و صریح ، آسان و سھل ، زیادہ سلامتی والا اور زیادہ صادق و سچا طریق کار ہے ـ
دوسری قرآن ھدایت :
ان افواھوں کی تحقیق و ثبوت کی ضرورت کے سلسلہ میں انتہائی حکیمانہ و دانشمندانہ اور پورے حزم و احتیاط پر مبنی موقف اختیار کرنا چاہیئے جیساکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :
{ یہ ( افتراء پرداز ) اپنی بات ( کی تصدیق ) کیلئے چارگواہ کیوں نہ لائے ـ } ( النور : 13)
اللہ تعالی کے اس ارشاد اور اس ھدایت کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرے کے افراد کسی بات پر کان نہ دھریں اور نہ ہی اسے قبول کریں جب تک اسکے صحیح ہونے کا کوئی واضح قرینہ و ثبوت موجود نہ ہو ، اگر کوئی شہادت نہ ہو تو اس افواہ کو بھی جھوٹ اور کذاب لوگوں کی کارستانیوں کے کھاتے میں ڈال دیا جائے جیسا کہ خود اللہ تعالی نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے :
" جب یہ گواہ نہ لا سکے تو اللہ کے نزدیک یہی (افواہ ساز و تمہت طراز ) جھوٹے ہیں ـ "( النور : 13)
تیسری قرآنی ھدایت :
معاشرے کو چاہیئے کہ افواھوں کو رد کرنے ، ان پر گفتگو نہ کرنے اور اسکی ترویج و اشاعت کو روکنے کے سلسلہ میں ایک مضبوط و دلیرانہ موقف اختیار کرے جیسا کہ اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے :
{اور جب تم نے اس ( بہتان و افواہ ) کو سنا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ھمارے شایان شان نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں ـ ( اے اللہ ) تو پاک ہے ، یہ بہت بڑا بہتان ہے ـ } ( النور : 16)
صحیح طرز عمل :
مسلمانو ! ھمارے لئے ضروری ہے کہ صرف ثقہ و معتبر اور عادل و صادق لوگوں کی دی ہوئی اخبار پر ہی اعتماد کریں اور جلد بازوں ، نادانوں اور فسق و فجور میں لت پت لوگوں کی باتیں سننے اور ماننے سے دور رہیں اور نہ ان لوگوں کی سنیں جو بلا ثبوت بکثرت خبریں نشر کرتے یا ہوائیاں اڑاتے رہتے ہیں اور نہ ہی انکی باتون کا یقین کریں جو بعید از فہم و قیاس باتیں کرتے ، تبصرے اور تجزیئے کرتے تاویلیں کرنےمیں مبالغہ آمیزی سے کام لینے والے معروف ہیں ، اسی طرح فتنوں کے زمانے میں اور ان فضاؤں میں جہاں افواہیں اڑانے اور لڑائی جھگڑوں کی آگ بھڑکانے والے اپنی باتوں کو رواج دینے میں کوشاں ہوں ، ایسے اوقات و فضاؤں میں اپنی زبان پر کنٹرول رکھیں بلکہ عقل و ایمان دونوں ہی بندے کو بات کہنے یا خاموشی اختیار کرنے کی مصلحتوں میں موازنہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں ھمیشہ بات کرنا ہی اچھا نہیں ہوتا اور خاموشی اختیار کئے رہنا بھی ھمیشہ نیکی نہیں ہوتا ـ صحیح حدیث میں ارشاد نبوی ہے :
{ جو شخص اللہ تعالی اور روز آخرت پرایمان رکھتا ہے اسے چاہیئے کہ صرف بھلائی کی بات کہے ورنہ خاموش رھے ـ }
اے اللہ کے بندے صرف دو ہی راستے ہیں : (1) صرف اچھی بات کہو ـ (2) یا پھر اپنے لئے خاموش کو لازم پکڑو ـ
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
" بھلا یہ قرآن پر غور کیوں نہیں کرتے ، اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں ( بہت سا ) اختلاف پاتے ، اور جب انکے پاس امن و خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کر دیتے ہیں، اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اسکی تحقیق کر لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اسکی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیروکار ہو جاتے ـ}(النساء:82 ــ93)
بقاء امت کا راز :
کلمہ توحید اسلام کی اصل اور بنیاد ہے اور اتحاد و اتفاق امت اسلامیہ کی بقاء کا راز ہے ، مسلمانوں کی فرقہ بندی و انتشار کے نتیجہ میں امت کو بہت سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ، ھلاکتیں ہوئیں ، فقر و فاقہ آیا اور بھوک کا دور پہنچا اور کئ ایسے مواقع امت کے ہاتھ سے نکل گئے جن کا کوئی بدل ہی نہیں ہے قلموں اور ذرائع ابلاغ نے غلط بیانی کی اور تصویر ہی بڑی بھیانک کر کے پیش کی حتی کہ اپنے آپ پر اعتماد کا پیمانہ ، ڈول گیا اور خود اعتمادی بھی جاتی رہی اور قوم خاب و خاسر ہوئی گھاٹے پہ گھاٹا اٹھانا پڑا جبکہ قوم نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا ، نہ حالات سے عبر ت و درس لیا ، ذلت و رسوائی ، بے دست و پائی اور بے یار و مددگاری کی حد ہو گئ ہے اور ضیاع کی انتہاء ہو چکی ہے ـ
درس عبرت :
اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ان مصائب و مشکلات سے عبرتیں اور سبق حاصل کئے جائيں جن کی وجہ سے تفرقہ بازی ختم ہو ، مسلمانوں کی اپنی صفوں میں وحدت و اتفاق پیدا ہو اور دوسروں کا رعب و ھیبت دلوں سے نکلے اور ھمیں اس وقت تک قیادت و سیادت ، شرف و عزت اور اپنے دفاع کی بھر پور قوت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ ھمیں عزت نفس حاصل نہ ہو گی ھم خود عزت و تکریم والے ، عدل و انصاف کے پرچارک ، علم و فضل کے مالک اور تقوی و پرہیزگاری والے نہ ہوں ـ اور اگر علم و فضل ، عدل و انصاف کی سنت و طریقہ اور اسکا نظام غالب ہے ـ اور افواھوں کا پھیلانا ، انھیں رواج دینا اور انھیں قبول کرنا ، علم و فضل ، عدل وانصاف ، عزت و کرامت اور تقوی و پرہیزگاری کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے یعنی وہ ہیں تو یہ نہیں اور یہ ہونگے تو وہ نہ رھیں گے ، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ افواھوں کو قبول کرنا اور انکی ترویج کرنا ناکافی اور ناکام لوگوں کی متعدد صورتوں میں سے ہی ایک صورت ہے ، آپ دیکھتے ہیں کہ ایک ناکام شخص کہیں سے کوئی افواہ اٹھاتا ہے پھر اپنے آپ کو اسکے ذریعے نمایاں کرنے ، مجلسوں کے دولہا یا (چہرہ مہرہ) مہرہ بننے اور جھوٹی تعریفیں حاصل کرنے کیلئے بڑی سعی نامشکور کرتا ہے بلکہ کبھی کبھی وہ امت پر غیرت کھانے اور اصلاح کی رغبت رکھنے کی ظاھری ایکٹنگ بھی کرتا ہے ـ
ایک اھم وضاحت :
یہاں موجودہ بحرانوں کے دور ميں اور ایسی افواھوں کے سلسلہ میں ایک اھم امر کی وضاحت ضروری اور مناسب لگتی ہے کہ قوم و ملت کے اھل عقل و دانش ، ارباب مناصب و ذمہ داریاں اور وہ لوگ کہ جن کو یہ افواھیں مس کرتی ہیں ، انھیں چاہیئے کہ وہ سٹڈی کئے بغیر انکا رد نہ کریں بلکہ آرام و سکون سے اور صلاح و مشورہ کرکے انکے بارے میں کوئی انتہائی مناسب موقف اختیار کیا جائے اور انتہائی باریک بینی سے کام لیتے ہوئے پوری قوت کےساتھ عقل و صدق کی راہ اپنائی جائے جو کہ اعتماد و وثوق کا بیج بوتی اور مصداقیت و حقیقت کو راسخ کرتی ہےـ
ایسے ہی اس بات کا بھی خیال رہے کہ غیر ضروری و لایعنی قسم کی افواھوں پر توجہ نہ دی جائے کیونکہ ہر افواہ جواب دینے کے لائق نہیں ہوتی ، اللہ آپ پر رحم فرمائے ، اللہ سے ڈرو ، اپنی زبانوں پر کنٹرول رکھو اور باھمی اختلافات کی اصلاح کر لو اور اگر مومن ہو تو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و پیروی کرو ـ
{ سبحان ربك رب العزة عما یصفون و سلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین }
بشکریہ اسلام فورٹ ڈاٹ کام