ابوطلحہ بابر
مشہور رکن
- شمولیت
- فروری 03، 2013
- پیغامات
- 674
- ری ایکشن اسکور
- 843
- پوائنٹ
- 195
سنن ابن ماجہ
فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
حدیث نمبر: 3969
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا محمد بن عمرو ، حدثني ابي ، عن ابيه علقمة بن وقاص ، قال: مر به رجل له شرف ، فقال له علقمة: إن لك رحما وإن لك حقا ، وإني رايتك تدخل على هؤلاء الامراء ، وتتكلم عندهم بما شاء الله ان تتكلم به ، وإني سمعت بلال بن الحارث المزني صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إن احدكم ليتكلم بالكلمة من رضوان الله ، ما يظن ان تبلغ ما بلغت ، فيكتب الله عز وجل له بها رضوانه إلى يوم القيامة ، وإن احدكم ليتكلم بالكلمة من سخط الله ، ما يظن ان تبلغ ما بلغت ، فيكتب الله عز وجل عليه بها سخطه إلى يوم يلقاه"، قال علقمة: فانظر ويحك ماذا تقول ، وماذا تكلم به ، فرب كلام قد منعني ان اتكلم به ، ما سمعت من بلال بن الحارث.
علقمہ بن وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے سامنے سے ایک معزز شخص کا گزر ہوا، تو انہوں نے اس سے عرض کیا: آپ کا مجھ سے (دہرا رشتہ ہے)ایک تو قرابت کا، دوسرے مسلمان ہونے کا، میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ ان امراء کے پاس آتے جاتے اور ان سے حسب منشا باتیں کرتے ہیں، میں نے صحابی رسول بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ایسی بات بولتا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس بات کا اثر کیا ہو گا، لیکن اس بات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے حق میں قیامت تک کے لیے اپنی خوشنودی اور رضا مندی لکھ دیتا ہے، اور تم میں سے کوئی ایسی بات بولتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہوتی ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا کیا اثر ہو گا، لیکن اللہ تعالیٰ اس کے حق میں اپنی ناراضگی اس دن تک کے لیے لکھ دیتا ہے جس دن وہ اس سے ملے گا“۔ علقمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: دیکھو افسوس ہے تم پر! تم کیا کہتے اور کیا بولتے ہو، بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کی حدیث نے بعض باتوں کے کہنے سے مجھے روک دیا ہے، خاموش ہو جاتا ہوں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ۲۰۲۸، ومصباح الزجاجة : ۱۳۹۸)، وقد أخر جہ : سنن الترمذی/الزہد ۱۲ (۲۳۱۹)، موطا امام مالک/الکلام ۲ (۵)، مسند احمد (۳/۴۶۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: علقمہ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ بات کہنے میں احتیاط اور غور لازم ہے، یہ نہیں کہ جو منہ میں آیا کہہ دیا، غیر محتاط لوگوں کی زبان سے اکثر ایسی بات نکل جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوتی ہے، پس وہ ایک بات کی وجہ سے جہنمی ہو جاتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح