makki pakistani
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 25، 2011
- پیغامات
- 1,323
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 282
رواز رحمانی
ایڈیٹر دعوت دہلی
فرانس کي وہ دس سالہ بچي
تھائي لين لينا روز ايک دس سالہ فرانسيسي بچي تھي، دوسري بچيوں کي طرح معصوم اور نادان، مگر آٹھ ماہ قبل ايک ماڈلنگ ايجنسي نے اسے انتہائي اشتعال انگيزلباس اور ميک اپ سے آراستہ کرکے بالغ العمر بنا ديا اور اس طرح پيش کيا کہ پورے فرانس، برطانيہ اور امريکا ميں دھوم مچ گئي ۔ايک فيشن ميگزين ميں اس کي يہ جنس انگيز تصويريں چھپتے ہي خود ماڈلنگ کرنے والي عورتوں ميں تشويش کي لہر دوڑ گئي ۔فيس بک پر اس کا ايک پيج بھي لانچ ہوگياجس پر روزانہ اس کے پرستاروں کے پيغامات آنے لگے ۔ليکن اس کے ساتھ ہي فرانس اور برطانيہ ميں اس ماڈلنگ ايجنسي اور فيشن ميگزين کے خلاف شديد غم وغصہ پھيل گيا ۔چاروں طرف سے ان کي مذمت ہونے لگي ۔يہاں تک کہ خود نوعمر لڑکيوں اور جوان العمر عورتوں نے احتجاج شروع کرديا ۔ان سب کا کہنا تھاکہ ماڈلنگ ايجنسي اور ميگزين نے ايک معصوم بچي سے اس کا بچھن چھين ليا ہے ۔يہ سب ديکھ کر اس بچي کي 34 سالہ ماں ،جو خود بھي فرانسيسي فلم اداکارہ ہے، گھبراگئي اور اس نے فيس بک پيج في الفور بند کرديا ۔پيج بند کرتے ہوئے اس نے بچي کے پرستاروں کو لکھا ’’ افسوس کہ ميں تھائي لين کي ماں ہوں ۔ ۔ ۔ وہ ابھي بچي ہے اور نہيں جانتي کہ اس کے ساتھ کيا ہورہا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘(ميل ٹوڈے، 7 اگست2011ء)
ايک حيرت انگيز بات
يہاں تعجب لڑکي کے پرستاروں کے جوش وخروش پر نہيں کہ يہ تو مغربي تہذيب کا خاصہ ہے ۔عريانيت ،فحاشي ،شہوت پرستي اور جنسي انارکي اہل مغرب کا مزاج بن چکي ہے لہذا ان کي نوجوان نسل اگر ايک دس سالہ بچي کو مکمل جنسي ماڈل بنائے جانے پر اتاؤلي ہورہي ہے تو يہ کوئي خاص بات نہيں ہے۔حيرت اور خوشي اس بات پر ہے کہ اس پورنوگرافي کے خلاف خود فرانس اور برطانيہ ميں احتجاج ہورہا ہے۔ جہاں بدقماش اور آوارہ مزاج لوگ لڑکي پر فدا ہورہے ہيں وہيں اس بيہودگي پر زبردست غم وغصہ بھي ظاہر کياجارہاہے ۔ڈيلي ميل ،ميل آن لائن اور ديگر جرائد اور ويب سائٹس پر اس کے خلاف بيانات آرہے ہيں۔ايک اخبار نے لکھاہے ’’ماڈلنگ ايجنسي اور فيشن ميگزين کو يہي شعور نہيں کہ وہ ايک معصوم بچي سے ماڈلنگ کروارہے ہيں يا جوان عورت سے۔‘‘ايک پندرہ سالہ لڑکي نے لکھا ’’دس سال تو کيا ، ميں تو پندرہ سال کي لڑکيوں کے ليے بھي پسند نہيں کروں گي کہ خود کو اس انداز ميں پيش کريں ۔‘‘کرسٹينا پريلو نامي ايک خاتون نے کہا ’’مجھے يقين نہيں آرہا ہے کہ ووگ ميگزين اس حد تک گرچکا ہے۔‘‘ ايک اور بيان ميں کہا گيا ’’يہ معصوم بچيوں کا بدترين استحصال ہے۔‘‘
اور يہ وہي فرانس ہے
دلچسپ امر يہ ہے کہ بيہودگي اور پورنوگرافي پر يہ احتجاج اسي فرانس ميں ہورہا ہے جہاں کي حکومت اپني کچھ خواتين کے سرپر کپڑے کا ايک ٹکڑا بھي برداشت کرنے کو تيار نہيں اور جہاں کا صدر مملکت پہلے تو ايک ماڈل گرل کے ساتھ بغير شادي کے گھومتا رہا، بعد ميں اس سے شادي کرکے اسے جديد فيشن ميں رکھتا ہے ۔ اب اگر کوئي مسلم ادارہ فرانس کے ان شہريوں سے، جو دس سالہ بچي کي پورنوگرافي پراعتراض کررہے ہيں، رابطہ کرکے انہيں بتائے کہ بات يہاں تک کيوں اور کيسے پہنچي؟ تو کيااچھا ہو۔ چونکہ انہوں نے آزادي کے نام پر عورت کي شرم وحيا کو کچل کر رکھ ديا اوراسے زيادہ سے زيادہ فيشن پرست بناديا ہے تو اس کا انجام يہي ہونا تھا۔ فرانس کے يہ شہري اسلامي حجاب کي حکمت پر بھي غور کريں کہ يہ چيز کس طرح عورتوں کي تباہي وبربادي کے راستوں پر بند باندھتي ہے ۔ فرانسيسيوں کے اس احتجاج سے يہ خيال بھي درست ثابت ہوتا ہے کہ اسلامي حجاب پر پابندي کي مہم محض حکومت اور ارباب سياست کي ضرورت ہے، فرانس کے عام شہريوں کو حجاب پر کوئي اعتراض نہيں ہے الاّ يہ کہ سياسي عناصر انہيں اس کے خلاف ورغلائيں۔ فرانس کي مسلم خواتين کے لئے بھي اپنا موقف پيش کرنے کا يہ اچھا موقع ہے
2011-08-19
ایڈیٹر دعوت دہلی
فرانس کي وہ دس سالہ بچي
تھائي لين لينا روز ايک دس سالہ فرانسيسي بچي تھي، دوسري بچيوں کي طرح معصوم اور نادان، مگر آٹھ ماہ قبل ايک ماڈلنگ ايجنسي نے اسے انتہائي اشتعال انگيزلباس اور ميک اپ سے آراستہ کرکے بالغ العمر بنا ديا اور اس طرح پيش کيا کہ پورے فرانس، برطانيہ اور امريکا ميں دھوم مچ گئي ۔ايک فيشن ميگزين ميں اس کي يہ جنس انگيز تصويريں چھپتے ہي خود ماڈلنگ کرنے والي عورتوں ميں تشويش کي لہر دوڑ گئي ۔فيس بک پر اس کا ايک پيج بھي لانچ ہوگياجس پر روزانہ اس کے پرستاروں کے پيغامات آنے لگے ۔ليکن اس کے ساتھ ہي فرانس اور برطانيہ ميں اس ماڈلنگ ايجنسي اور فيشن ميگزين کے خلاف شديد غم وغصہ پھيل گيا ۔چاروں طرف سے ان کي مذمت ہونے لگي ۔يہاں تک کہ خود نوعمر لڑکيوں اور جوان العمر عورتوں نے احتجاج شروع کرديا ۔ان سب کا کہنا تھاکہ ماڈلنگ ايجنسي اور ميگزين نے ايک معصوم بچي سے اس کا بچھن چھين ليا ہے ۔يہ سب ديکھ کر اس بچي کي 34 سالہ ماں ،جو خود بھي فرانسيسي فلم اداکارہ ہے، گھبراگئي اور اس نے فيس بک پيج في الفور بند کرديا ۔پيج بند کرتے ہوئے اس نے بچي کے پرستاروں کو لکھا ’’ افسوس کہ ميں تھائي لين کي ماں ہوں ۔ ۔ ۔ وہ ابھي بچي ہے اور نہيں جانتي کہ اس کے ساتھ کيا ہورہا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘(ميل ٹوڈے، 7 اگست2011ء)
ايک حيرت انگيز بات
يہاں تعجب لڑکي کے پرستاروں کے جوش وخروش پر نہيں کہ يہ تو مغربي تہذيب کا خاصہ ہے ۔عريانيت ،فحاشي ،شہوت پرستي اور جنسي انارکي اہل مغرب کا مزاج بن چکي ہے لہذا ان کي نوجوان نسل اگر ايک دس سالہ بچي کو مکمل جنسي ماڈل بنائے جانے پر اتاؤلي ہورہي ہے تو يہ کوئي خاص بات نہيں ہے۔حيرت اور خوشي اس بات پر ہے کہ اس پورنوگرافي کے خلاف خود فرانس اور برطانيہ ميں احتجاج ہورہا ہے۔ جہاں بدقماش اور آوارہ مزاج لوگ لڑکي پر فدا ہورہے ہيں وہيں اس بيہودگي پر زبردست غم وغصہ بھي ظاہر کياجارہاہے ۔ڈيلي ميل ،ميل آن لائن اور ديگر جرائد اور ويب سائٹس پر اس کے خلاف بيانات آرہے ہيں۔ايک اخبار نے لکھاہے ’’ماڈلنگ ايجنسي اور فيشن ميگزين کو يہي شعور نہيں کہ وہ ايک معصوم بچي سے ماڈلنگ کروارہے ہيں يا جوان عورت سے۔‘‘ايک پندرہ سالہ لڑکي نے لکھا ’’دس سال تو کيا ، ميں تو پندرہ سال کي لڑکيوں کے ليے بھي پسند نہيں کروں گي کہ خود کو اس انداز ميں پيش کريں ۔‘‘کرسٹينا پريلو نامي ايک خاتون نے کہا ’’مجھے يقين نہيں آرہا ہے کہ ووگ ميگزين اس حد تک گرچکا ہے۔‘‘ ايک اور بيان ميں کہا گيا ’’يہ معصوم بچيوں کا بدترين استحصال ہے۔‘‘
اور يہ وہي فرانس ہے
دلچسپ امر يہ ہے کہ بيہودگي اور پورنوگرافي پر يہ احتجاج اسي فرانس ميں ہورہا ہے جہاں کي حکومت اپني کچھ خواتين کے سرپر کپڑے کا ايک ٹکڑا بھي برداشت کرنے کو تيار نہيں اور جہاں کا صدر مملکت پہلے تو ايک ماڈل گرل کے ساتھ بغير شادي کے گھومتا رہا، بعد ميں اس سے شادي کرکے اسے جديد فيشن ميں رکھتا ہے ۔ اب اگر کوئي مسلم ادارہ فرانس کے ان شہريوں سے، جو دس سالہ بچي کي پورنوگرافي پراعتراض کررہے ہيں، رابطہ کرکے انہيں بتائے کہ بات يہاں تک کيوں اور کيسے پہنچي؟ تو کيااچھا ہو۔ چونکہ انہوں نے آزادي کے نام پر عورت کي شرم وحيا کو کچل کر رکھ ديا اوراسے زيادہ سے زيادہ فيشن پرست بناديا ہے تو اس کا انجام يہي ہونا تھا۔ فرانس کے يہ شہري اسلامي حجاب کي حکمت پر بھي غور کريں کہ يہ چيز کس طرح عورتوں کي تباہي وبربادي کے راستوں پر بند باندھتي ہے ۔ فرانسيسيوں کے اس احتجاج سے يہ خيال بھي درست ثابت ہوتا ہے کہ اسلامي حجاب پر پابندي کي مہم محض حکومت اور ارباب سياست کي ضرورت ہے، فرانس کے عام شہريوں کو حجاب پر کوئي اعتراض نہيں ہے الاّ يہ کہ سياسي عناصر انہيں اس کے خلاف ورغلائيں۔ فرانس کي مسلم خواتين کے لئے بھي اپنا موقف پيش کرنے کا يہ اچھا موقع ہے
2011-08-19