محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
فرقہ واریت ہے کیا؟
ایک چیز کے معنی ومفہوم کی تحدید ہوئے بغیر اس کی تعریف یا مذمت کی گردان ہونے لگ جائے تو عموماً یہ کسی فکری واردات کا سبب بن جاتی ہے۔ ’فرقہ واریت‘ ایسی ہی ایک اصطلاح ہے جس کی مذمت کا ڈھنڈورا بہت پیٹا جاتا ہے مگر اس کا مطلب بہت کم لوگ بتا سکتے ہیں۔ یا یوں کہیے جس کی مذمت کرنے پر سب کو لگا دیا گیا ہے مگر اس کے مفہوم کا تعین چند لوگوں کا کام ہے!
’فرقہ واریت‘ کو آج تک کوئی شخص اچھا کہتے نہیں سنا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کا معنی کون متعین کرے؟
تفرقہ کی مذمت قرآن میں کی گئی ہے۔ احادیث میں اس کی شناعت بیان ہوئی ہے۔ مگر قرآن اور احادیث کے اندر کیا یہ اسی معنی میں مذموم ہے جس معنی میں اس کی مذمت ہمارا میڈیا کرتا ہے اور جس معنی میں اس کی مذمت ہمارے عوام اور خواص کے یہاں ہوتی ہے یا پھر تفرقہ سے قرآن اور احادیث کی مراد اس سے مختلف ہے جو تفرقہ کے لفظ سے یہاں ہمارا معاشرہ مراد لیتا ہے؟
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ”تفرقہ“ سے متعلق ہم کچھ ایسے علمی مصادر سے رجوع کر لیں جو اُمت کے ہاں تاریخی طور پر معتبر جانے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہوکہ مفسرین امت ’تفرقہ‘ کی کیا تفسیر کرتے ہیں اور آپ کا میڈیا اس کی تفسیر کیا کرتا ہے“۔
”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو خیر کی طرف بلائیں، امر بالمعروف کریں اور نہی عن المنکر۔ یہی لوگ فلاح پائیں گے۔
”کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلے کھلے دلائل آجانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ یہی لوگ ہیں جن کیلئے ایک بڑا عذاب ہے جس دن کچھ چہرے روشن وشاداب ہوں گے اور کچھ کا منہ کالا ہوگا۔ جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا) کیا نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ روش اختیار کی؟ اب اس کفر کے صلہ میں عذاب کا مزہ چکھو۔”رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوںگے تو وہ ﷲ کے سایہء رحمت میں ہوں گے اور (پھر) ہمیشہ ہمیشہ اسی حالت میں رہیں گے“۔[(آل عمران: ١٠٤۔١٠٧)]
آئیے دیکھتے ہیں ان آیات کی تفسیر میں امت کے مشہور ترین مفسر امام ابن کثیر کیا کہتے ہیں:
”ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں ضرور ایک ایسا گروہ ہونا چاہیے جو دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے معاملے کو لے کر کھڑا ہونے پر متعین ہو جائے ]واولئک ھم المفلحون ”یہی لوگ فلاح پائیں گے[ ضحاک کہتے ہیں: ”یہ صحابہ اور رواہ حدیث میں سے خواص ہیں جو جہاد اور علم کا حق ادا کرتے رہے“۔ ابوجعفر باقر کہتے ہیں: رسول ﷲ نے آیت ]ولتکن منکم امت یدعون الی الخیر ”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو خیر کی طرف بلائیں“[ پڑھی پھر فرمایا: (یہاں) خیر (سے مراد) ہے قرآن اور میری سنت کی اتباع۔ اس کو ابن مردویہ نے روایت کیا۔
”اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ اس اُمت کا ایک گروہ اس (دعوت الی الخیر وامر بالمعروف ونہی عن المنکر کی) ذمہ داری کو اٹھائے رہے اگرچہ یہ بات اُمت کے ہر فرد پر ہی حسب استطاعت فرض ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے اسے چاہیے کہ اُسے ہاتھ سے روکے۔ اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے۔ اس کی استطاعت نہ ہو تو دل سے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے جبکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں: اس کے بعد رائی برابر بھی ایمان نہیں۔
”امام احمد حضرت حذیفہ بن الیمان سے روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ضرور تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرو گے یا پھر ضرور ﷲ تعالیٰ تم پر اپنے ہاں سے ایک سزا بھیجے گا پھر تم اس کو پکارو گے مگر تمہاری سنی نہ جائے گی“ بروایت مسند احمد، ترمذی وابن ماجہ۔
]ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ما جاءھم البینات ”کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلے کھلے دلائل آجانے کے بعد پھر اختلاف میں مبتلا ہوئے“[ یہاں ﷲ تعالیٰ اس امت کو ممانعت فرما رہا ہے کہ یہ بھی پچھلی امتوں کی طرح ہو جائے جو کہ افتراق اور اختلاف کا شکار ہوئیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھیں۔ جبکہ ان پر حجت قائم ہو چکی تھی۔ امام احمد عبدﷲ بن یحیی سے روایت کرتے ہیں، کہا: ہم نے معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ حج کیا۔ جب مکہ آئے تو (معاویہ) نماز ظہر ادا کرنے کے بعد کھڑے ہوئے اور کہا: رسول ﷲ نے فرمایا: دونوں اہل کتاب اپنے دین کے اندر بہتر بہتر فرقوں میں بٹے۔ یہ اُمت تہتر راستوں ___ یعنی اھوائ___ میں بٹ جائے گی۔ سب کے سب دوزخ میں جائیں گے۔ سوائے ایک کے جو کہ (اصل) جماعت ہوگی۔ اور میری اُمت میں بہت سے ایسے گروہ ہوں گے جن میں (مبنی بر بدعت) اھواءوخواہشات یوں سرایت کر جائیں گی جیسے باؤلے کتے کے کاٹے میں اس کا زہر سرایت کر جاتا ہے۔ اس کی کوئی رگ کوئی جوڑ اس کے اثر سے سلامت نہیں رہتا۔ اے عرب کے لوگو! ﷲ کی قسم اگر تم اس وقت اپنے نبی کے لائے ہوئے (دین) کو لے کر کھڑے نہ ہوئے تو دوسرے لوگ بالاُولیٰ یہ کام کرنے والے نہ ہوں گے“ ]یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ فاما الذین اسودت وجوھہم اکفرتم بعد ایمانکم فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون ”جس دن کچھ چہرے روشن وشاداب ہوں گے اور کچھ کا منہ کالا ہوگا۔ جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا) کیا نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ روش اختیار کی؟ اب اس کفر کے صلہ میں عذاب چکھو“[ یعنی روز قیامت اہل سنت وجماعت کے چہرے روشن ہوں گے اور اہل بدعت وتفرقہ کے چہرے سیاہ ہونگے۔ یہ تفسیر حضرت عبدﷲ بن عباس نے کی ہے“۔
تفسیر ابن کثیر کی عبارت ختم ہوئی۔
[دیکھیے مختصر تفسیر ابن کثیر۔ اختصار الشیخ محمد کریم راجح۔ مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت۔ لبنان، جزو اول ص ١٥٠، ١٥١]
آیت ؛ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ما جاءھم البینات واولئک لہم عذاب عظیم ”کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلے کھلے دلائل آجانے کے بعد پھر اختلاف میں مبتلا ہوئے۔ یہی لوگ ہیں جن کیلئے ایک بڑا عذاب ہے“[ کے تحت تفسیر قرطبی میں آیا ہے:
”یعنی یہود ونصاری کی طرح مت ہو۔ یہ جمہور مفسرین کا قول ہے۔ ان میں سے بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس سے مراد اس اُمت میں سے اہل بدعت ہیں“۔
[دیکھیے تفسیر قرطبی جلد چہارم صفحہ ١٧٤ مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ]
سورہ بقرہ کی آیت ٢١٣ کی تفسیر میں امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
”اسی لئے ﷲ تعالیٰ نے گزشتہ آیت میں فرمایا ہے ]وانزل معہم الکتاب لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ وما اختلف فیہ الا الذین اوتوہ من بعد ما جاءھم العلم بغیا بینہم ”ﷲ نے ان (انبیاء) کے ساتھ کتاب نازل کی کہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافات کا فیصلہ فرما دے۔ اس میں اختلاف دراصل انہی لوگوں نے، باہم سرکشی کرتے ہوئے، کیا جن کو یہ کتاب ملی تھی جبکہ علم ان کے پاس آچکا تھا“[ .... یعنی ان پر حجتیں قائم ہو چکنے کے بعد، جس کا سبب ان کی باہم زیادتی وسرکشی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ]فھدی ﷲ الذین آمنوا لما اختلف فیہ من الحق باذنہ ”چنانچہ ﷲ عزوجل نے اپنے حکم سے ایمان والوں کو اختلافات میں سے ہدایت نصیب فرما دی“[ یعنی بوقت اختلاف وہ لوگ اسی مذہب پر قائم رہے جو اختلاف پیدا ہونے سے پہلے (انکے) انبیاءلے کر آئے تھے، ایک ﷲ کیلئے دین کو خالص کئے رہے، بلاشرکت غیرے اس کی عبادت پر کاربند رہے، نمازوں کو قائم اور زکوٰت ادا کرتے رہے اور اس طریقے سے اس پہلے والے منہج پر ہی قائم رہے جو اختلاف وتفرقہ ہونے سے قبل موجود تھا اور اختلاف سے دور اور کنارہ کش رہے اور قیامت کے روز لوگوں پر گواہ ٹھہرے“۔
تفسیر ابن کثیر کی عبارت ختم ہوئی۔ {دیکھیے تفسیر ابن کثیر بسلسلہ آیت ٢١٣ سورہ البقرہ}
سورہ الانعام کی آیت {ان الذین فرقوا دینہم وکانوا شیعاً لست منھم فی شیءانما امرھم الی ﷲ ثم ینبئھم بما کانوا یفعلون ”جن لوگوں نے اپنے دین کو فرقوں میں بانٹ دیا اور ٹولوں میں منقسم ہو گئے تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں، ان کا معاملہ ﷲ ہی کے سپرد ہے پھر وہی ان کو بتائے گا کہ یہ کیا کرتے رہے ہیں“} کی تفسیر میں امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
”{وکانوا شیعاً ”اور ٹولے فرقے بن گئے“} یہ لوگ خوارج ہیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے یہ اہل بدعت ہیں۔ جبکہ ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت ان سبھی لوگوں کو شامل ہے جو دین کو چھوڑتے اور اس میں اختلاف کرتے ہیں“۔
[دیکھیے تفسیر ابن کثیر بسلسلہ آیت ١٥٩ سورہ الانعام]
چنانچہ تفرقہ سے مراد، متقدمین اہل علم کے نزدیک، اس راستے کو ترک کرنا ہے جس پر رسول ﷲ اور صحابہ کرام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل تفرقہ سے مراد مفسرین ومحدثین کے نزدیک اہل بدعت ہیں اور اہل اھوائ۔ کیونکہ دین میں ایک نیا راستہ ایجاد کرکے آدمی رسول ﷲ اور صحابہ کے راستہ سے خودبخود علیحدگی اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ تفرقہ بنیادی طور پر حق سے علیحدگی ہے۔
مگر واضح رہے کہ اہل بدعت سے مراد یہاں ہر وہ شخص نہیں جو کسی عملی بدعت کا شکار ہے۔ گو عملی بدعات بھی بُری ہیں مگر اہل تفرقہ سے مراد وہ اہل بدعت ہیں جو ایک ایسی اعتقادی بدعت کو اختیار کرتے ہیں جس کا صحابہ وسلف کے راستے سے متصادم ہونا اہل حق کے نزدیک واضح اور معلوم ہو۔ جیسے خوارج، روافض، مرجئہ، جہمیہ، معتزلہ، شرکیہ تصوف [تصوف کی وہ صورتیں یہاں مقصود نہیں جن کے حامل شرک سے اجتناب کرتے ہیں اور شریعت کا التزام۔] وغیرہ۔ یہ تو ہوئے پرانے دور کے گمراہ بدعتی فرقے۔ موجودہ دور کے فتنوں میں اُمت کے بہت سے معتبر علماءمثلاً مصر کے مشہور محدث علامہ احمد شاکر، مفتی حجاز شیخ محمد بن ابراہیم، علامہ حمود العقلا، شیخ سفرالحوالی، شیخ علی الخضیری اور محمد قطب وغیرہ ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں مگر سماجی علوم اور نظامہائے مملکت کے معاملے میں سیکولر نظریات کے پیروکار ہیں، بدعتی ٹولوں میں شمار کرتے ہیں۔ ’مسلم سوشلسٹوں‘ کو بھی اسی زمرے میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ مزید برآں موجودہ دور کے بدعتی ٹولوںمیں نیچریت، عقل پرستی، قوم پرستی، ادب پرستی اور انسان پرستی ایسے نظریات قبول کرنے والوں کو بھی شمار کیا گیا ہے اور اُمت کے اہل علم میں سے ایک معتدبہ تعداد اس اعتبار کو درست سمجھتی ہے۔
یہ سب ٹولے اہل تفرقہ ہیں کیونکہ حق سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ ان سب کو جس حال میں وہ ہیں اکٹھا ہو جانے کیلئے کہنا اور اپنے ’اختلافات‘ پر مٹی ڈالنے کی تلقین کرنا وحدت اُمت نہیں۔ ہاں البتہ ان کو حق پر لے آنے کی کوشش کرنا، ان کو احسن انداز میں دین کی حقیقت سکھانا اور پھر حق کی بنیاد پر ان کو مجتمع کرنا اور اس معنی میں اُمت کی شیرازہ بندی کرنا ضرور دین میں مطلوب ہے۔ خاص طور پر اس لئے کہ حق سے جہالت اس وقت معاشرے میں عام ہے اورکوئی شخص اگر کسی گمراہی پر ہے تو اس کو سب سے پہلے علم کے حقائق سے روشناس کرانا ضروری ہے نہ کہ اس پر بدعتی ہونے کا فتوی لگانا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے راستے کو بہرحال گمراہی سمجھا جائے گا گو اس شخص سے، اس کی لاعلمی یا ان شبہات کے پیش نظر جن کا وہ شکار ہے، نرمی برتی جائے گی۔
رسول ﷲ کی اُمت کا بے شمار بدعتی فرقوں میں بٹ جانا اور ہلاکت کا شکار ہونا احادیث کی ایک کثیر تعداد میں وارد ہوا ہے۔ ان احادیث کو یونہی نظر انداز کر دینا یا ان روایات کے ذکر کو تفرقہ بازی کا سبب جاننا نہ تو علم کا تقاضا ہے اور نہ ہی دانش کا۔
(تہتر) فرقوں والی حدیث کی بابت امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
یہ حدیث صحیح مشہور ہے اور سنن و مسانید کی کتابوں ابوداؤد، نسائی اور ترمذی میں روایت ہوئی ہے (فتاوی ابن تیمیہ ج ٣ ص ٣٤٥) مزید برآں ان احادیث کے صحیح ہونے کی تصریح امام حاکم، امام ذھبی، امام ابن حجر، امام شاطبی، مناوی، ابن ابی عاصم، سیوطی اور البانی رحمہم اللہ ایسے ائمہ حدیث نے کی ہے۔
ان سب احادیث میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود یہ صراحت فرمائی ہے کہ یہ سب فرقے دوزخ کی راہ پر ہوں گے۔ یعنی ان کی راہ پر چلنا مستوجب عذاب ہوگا قطع نظر اس امکان سے کہ یہ عذاب وقتی ہو نہ کہ ہمیشگی کا، اور قطع نظر اس احتمال سے کہ کوئی شخص اپنی لاعلمی یا اپنے شبہات وتاویلات کے باعث اس راستے پر ہونے کے باوجود معذور بھی ہو سکتا ہے .... البتہ ان کی راہ وہ راہ ہوگی جو آدمی کو جہنم میں پہنچا دے۔
پھر ان احادیث میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ نجات کا مستحق گروہ صرف ایک ہوگا۔ سوال کیا جانے پر آپ نے اس کا کوئی نام بتانے کی بجائے ایک وصف بیان فرما دیا:
من انا علیہ واصحابی یعنی ”وہ جو میرے راستہ پر ہوں اورمیرے صحابہ کے راستے پر“۔
تفرقہ یہ ہوگا کہ آدمی اس فرقہء ناجیہ کے راستے سے مختلف راستہ اختیار کرلے۔
’تفرقہ‘ اور ’تنازع‘ کی بابت آپ متقدمین علماءومحدثین اور فقہاءومفسرین اُمت کی نصوص کا تتبع فرمائیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ تفرقہ، جو کہ اسلام میں بہت بڑا گناہ ہے، دو صورتوں میں پایا جا سکتا ہے: ایک یہ کہ جہاں شریعت ہرگز اختلاف کی کوئی گنجائش نہ رکھے وہاں لوگوں کو اختلاف کرنے دیا جائے اور دوسری صورت یہ کہ جہاں شریعت اختلاف کی گنجائش رکھے وہاں اختلاف کی اجازت نہ دی جائے اور وہاں ہر آدمی دوسرے کو اپنی یا اپنے امام کی راہ پر لے آنے پر ہی ضد کرے۔ تفرقہ کی یہ دونوں صورتیں مہلک ہیں۔ بلکہ یہ دو انتہائیں ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد تفرقہ کی پہلی صورت میں ملوث ہے اور ایک خاصی بڑی تعداد اس کے بالمقابل تفرقہ کی دوسری صورت کا شکار ہے۔ یہاں ہم ان دونوں صورتوں کی کچھ وضاحت کریں گے۔
Last edited: