پاکستان میں حکومت اور پارلیمان کو اسلامی قوانین سے متعلق سفارشات دینے والی اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین نے دو روزہ مشاورتی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اسلامی تعلیمات کے تحت کسی بچے یا بچی کے نکاح کے لیے عمر کی قید نہیں اور والدین یا سرپرست کی رضا مندی پر نابالغ بچوں کا نکاح ہو سکتا ہے۔
تاہم اراکین کا کہنا تھا کہ اس صورت میں لڑکی کی رخصتی نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے بتایا کہ بلوغت کے فوری بعد لڑکا یا لڑکی اس فیصلے پر اعتراض کی صورت میں نکاح ختم بھی کر سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کونسل کے رکن علامہ امین شہیدی نے اس فیصلے کی وضاحت کرنے ہوئے کہا۔
’’نکاح اور ہے رخصتی اور ہے۔ رخصتی بلوغت سے پہلے درست نہیں کسی بھی قیمت پر۔ نکاح میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نکاح بچپن میں بھی ہو سکتا ہے لیکن نکاح کا مطلب رخصتی نہیں ہے۔ جب اعتراض ہوتا ہے تو اس زاویے سے ہوتا ہے کہ بچی شادی کے لائق ہے ہی نہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ جب قانون کی زبان میں بات کی جاتی ہے تو ہر ایک کا حکم الگ سے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
امین شہیدی کا کہنا تھا کہ نابالغ بچی کی رخصتی پر کونسل کی طرف سے سزا اور جرمانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔
حال ہی میں سندھ کی قانون ساز اسمبلی نے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جس میں کم عمر بچوں کی شادیوں کو مسترد کیا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظمیں ایسی شادیوں کی مسلسل مخالفت کرتی آئی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات اکثر جائیداد یا خاندانی تنازعات کے حل کے وقت پیش آتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کا موقف رہا ہے کہ کم عمری کی شادی بچیوں کے لیے صحت، جسمانی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا سبب بنتی ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف وومن کی سربراہ خاور ممتاز کا کہنا ہے کہ اسلام میں ایک معاہدہ ہوتا ہے ’’اور معاہدہ دو بالغ لوگوں میں ہی ہو سکتا ہے۔‘‘
’’یہ تو دیکھے نا کہ ہمارے معاشرے میں اس مقام تک کسی بچی کو لانا جب وہ منکوحہ کہلائے جب بلوغت بھی ہوجائے گی تو اس کے لیے مشکل ہو جائے گی اپنے والدین کی مرضی کے خلاف جانا۔"
ان کا کہنا تھا کہ اس سے معاشرے میں مزید ابہام پیدا ہوگا کیونکہ ’’ایک طرف آئین میں شادی کی عمر 16 سال ہے اور سندھ اسمبلی نے وہ عمر 18 کر دی ہے‘‘۔
خاور ممتاز کا کہنا تھا کہ کونسل کا ایسے مشورے دینے سے پہلے بین الاقوامی اسلامی مشائخ کی تحقیقات سے بھی مستفید ہونا انتہائی اہم ہے جس سے دنیا بھر میں ان کے بقول پاکستان اور اسلام کی ساکھ کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
کونسل کے اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ اسلام تمام مذہبی اقلیتیوں کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق شادیوں سے متعلق معاہدے کرنے کی اجازت دیتا ہے اس لئے پاکستان میں بھی اس پر کوئی قدغن نہیں ہو سکتی۔
لنک