کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
حدیث علی ، تفسیر{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}تحریف شدہ روایت
ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
ذكر الأثرم قال حدثنا أبو الوليد الطيالسي قال حدثنا حماد بن سلمة عن عاصم الجحدري عن عقبة بن صهبان سمع عليا يقول في قول الله عز وجل {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}قال وضع اليمنى على اليسرى تحت السرة
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اللہ عزوجل کے قول {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:اس سے (نمازمیں) دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پررکھ کر ناف کے نیچے رکھنا مراد ہے۔[التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 20/ 78]
عرض ہے کہ تمہید کے اس نسخہ میں ’’السرۃ‘‘ (ناف) کالفظ کتاب کے محقق نے اپنی طرف سے بنادیا ہے ۔ اور اصل قلمی نسخہ جس سے نقل کرکے یہ کتاب چھاپی گئی ہے اس میں اس روایت کے اخیر میں ’’السرہ‘‘ (ناف) کا لفظ ہرگز نہیں ہیں۔بلکہ ’’الثندوۃ‘‘ (چھاتی) کا لفظ ہے۔
''الثندوۃ''کے معانی چھاتی ہوتے ہیں۔ لسان العرب میں ہے:
والثندوة للرجل: بمنزلة الثدي للمرأة
''ثندوہ'' مرد کی چھاتی کو کہا جاتا ہے جس طرح عورت کی چھاتی کو ''ثدی'' کہا جاتا ہے[لسان العرب : 1/ 41].
دیوبندیوں کی ڈکشنری القاموس الوحید میں ہے:
الثندوہ : مرد کا پستان[القاموس الوحید: 224]
اور ''تحت الثندوہ'' کا مطلب ’’چھاتی کے نیچے‘‘ ہوتا ہے۔
اور چھاتی کے نیچے سینہ ہی ہوتا ہے چنانچہ احناف عورت کے لئے نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا حکم دیتے ہیں اور ان کی مشہور کتاب ’’الدر المختار‘‘ میں ہے:
وتضع المرأة والخنثى الكف على الكف تحت ثديها
اورعورت اور مخنث ہتھیلی کو ہتھیلی پررکھ کر اپنی چھاتی کے نیچے رکھے گی[الدر المختار وحاشية ابن عابدين :1/ 487 نیز دیکھیں: ]
اسی طرح احناف کی ایک اور کتاب میں ہے:
وتضع يمينها على شمالها تحت ثدييها
عورت اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر اپنی چھاتیوں کے نیچے رکھے گی[البحر الرائق شرح كنز الدقائق :1/ 339 ]
احناف کی درج بالا کتابوں میں عورت کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ وہ اپنی چھاتی کے نیچے ہاتھ باندھے جب کی احناف کی کی بعض کتابوں میں یوں کہا گیا ہے کہ عورت اپنے سینے پر ہاتھ باندھے چنانچہ:
احناف کی مشہور کتاب ’’البحر الرائق‘‘ ہے:
فإنها تضع على صدرها
کیونکہ عورت اپنے سینے پر ہاتھ باندھے گی [البحر الرائق شرح كنز الدقائق :1/ 320].
اسی طرح احناف کی ایک اور کتاب میں ہے:
وإذا كبر وضع يمينه على يساره تحت سرته والمرأة تضع على صدرها
اورتکبیرکہنے کے بعد اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنے ناف کے نیچے رکھے گا اور عورت اپنے سینے پر رکھے گی [تحفة الملوك ص: 69۔ نیزدیکھیں:تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق:1/ 107،البناية شرح الهداية:2/ 183]۔
احناف کی ان کتابوں میں یہ کہا گیا ہے کہ عورت اپنے سینے پر ہاتھ باندھے ، جب کہ اس سے قبل مذکورہ کتابوں میں یہ کہا گیا ہے کہ عورت اپنی چھاتی کے نیچے ہاتھ باندھے۔
ظاہر ہے کہ احناف یہی کہیں گے کہ ان دنوں الفاظ میں معنوی طور پر ایک ہی بات ہے یعنی دونوں کا مطلب یہی ہے کہ عورت اپنے سینے پر ہاتھ باندھے۔
ہم بھی یہاں پر یہی کہتے ہیں کہ اس روایت میں جو چھاتی کے نیچے ہاتھ باندھنے کے الفاظ ہیں اور دوسری روایات میں جو سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے ان دنوں میں معنوی طور پر ایک ہی بات ہے یعنی دونوں کا مطلب سینے پر ہاتھ باندھنا ہی ہے۔
الغرض یہ کہ علی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی دلیل نہیں ہے بلکہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل ہے کیونکہ اس روایت کے اخیر میں ’’السرۃ‘‘(ناف) کا لفظ موجود ہی نہیں ہے بلکہ صحیح لفظ ’’الثندوۃ‘‘ (چھاتی ) ہی ہے۔ اس بات پر دس دلائل ملاحظہ ہوں: