سید مزمل حسین
مبتدی
- شمولیت
- اکتوبر 31، 2013
- پیغامات
- 85
- ری ایکشن اسکور
- 54
- پوائنٹ
- 28
فضائل صحابہ:
از سید ابو بکر غزنوی رحمہ اللہ
صحا بہ کرا م کے سینوں پر انوار رسالت براہ راست پڑ ے تھے انہوں نے اپنا گھر بار اپنا مال و منال اپنا سب کچھ نبی محترم کی خاطر لٹا دیا ۔
سیدناصدیق اکبر صدیق کو دیکھئے ابھی اسلام کا آغاز تھا ۔ مکے کی بستی کافروں سے بھری ہوئی تھی حضرت ابو بکر ص ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت سے سرشار تھے ۔ آپ ا۔سے التجا کی کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں لوگون کو علانیہ آپ ا کی رسالت کی اطلاع دوں اور آپ سے فیضیاب ہونے کی دعوت دوں آپ نے فرمایا اے ابوبکر ص ! ذرا صبر سے کام لو ابھی ہم تعداد میں کم ہیں حضرت ابو بکرصپر غلبہ حال طاری تھا انہوں نے پھر اصرار کیا حتیٰ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اجازت دے دی حضرت ابو بکر نے بے خوف و خطر لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف دعوت دی ۔ البدایہ والنہایہ میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔
فَکَانَ اَوَّلُ خَطِیبٍ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَالِیَ رَسُولِہ ۔
(حضورا کی بعثت کے بعد حضرت ابو بکر ص پہلے خطیب ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ا کی طرف بلایا۔)
مشرکین مکہ آپ ص پر ٹوٹ پڑ ے آپ کو سخت پیٹا اور روندا ، عتبہ بن ربیعہ نے آپ صکے چہرے پر بے تحاشا تھپڑ مارے ۔ آپ ص قبیلہ بنو تمیم سے تھے آپ کے قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہ دوڑ ے ہوئے آئے مشرکین سے انہیں چھڑ ا کر ان کے گھر چھوڑ آئے حضرت ابو بکرصبے ہوش تھے اور لوگوں کا خیال تھا کہ وہ جانبر نہ ہو سکیں گے وہ دن بھر بے ہوش رہے جب شام ہوئی تو آپ کو ہوش آیا آپ کے والد ابو قحافہ اور آپ کے قبیلے کے لوگ آپ کے پاس کھڑ ے تھے ہوش آتے ہی پہلی بات انہوں نے یہ کہی کہ رسول اللہا کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں انکے قبیلے کے لوگ سخت برہم ہوئے اور انہیں ملامت کی کہ جس کی وجہ سے یہ ذلت و رسوائی اٹھانی پڑ ی اور یہ مار پیٹ تمہیں برداشت کرنی پڑ ی ہوش میں آتے ہی تم پھر اسی کا حال پوچھتے ہو ان اندھوں کو کیا خبر تھی کہ ان کی خاطر سختیاں جھیلنے میں جو لذت ہے وہ دنیا داروں کو پھولوں کی سیج پر اور بستر سنجاب پر بھی حاصل نہیں ہوتی ہے ۔
اے جفا ہائے تو خوشتر زوفائے دیگراں
ان کے قبیلے کے لوگ مایوس ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور ان کی ماں ام الخیر سے کہہ گئے کہ جب تک محمد( ) کی محبت سے یہ باز نہ آجائے اس کا بائیکاٹ کرو اور اسے کھانے پینے کو کچھ نہ دو ماں کی مامتا تھی جی بھر آیا کھانا لا کر سامنے رکھ دیا اور کہا کہ دن بھرکے بھوکے ہو کچھ کھا لو ، سیدنا ابو بکر صدیق ص نے کہا: ماں ! اللہ کی قسم میں کھانا نہیں چکھوں گا اور پانی کا گھونٹ تک نہ پیوں گا جب تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نہ کر لوں ۔
حضرت عمرص کی بہن ام جمیل آ گئیں اور بتایا کہ حضورا بخیریت ہیں اور دار ارقم میں تشریف فرما ہیں ۔ سیدنا ابو بکرص زخموں سے چور تھے چلنے کے قابل نہ تھے اپنی ماں کے سہارے سے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے حضور ان پر جھک پڑ ے اور انہیں چوما حضور اپر سخت گریہ طاری تھا۔ آپ انے دیکھا کہ صدیق اکبرص حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت میں اپنے جسم اور اپنی جان کی سب کلفتیں بھول گئے ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کو ترستے تھے آپ نے مرض الموت میں جب پردہ اٹھا کر دیکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز کی حالت میں دیکھ کر مسکرائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ حضرت انس ص فرماتے ہیں : ہم نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مکھڑ ے سے زیادہ حسین منظر نہیں دیکھا ہے ۔ کچھ محبانِ رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے بھی تھے جن کو اپنی آنکھیں محض اس لیے عزیز تھیں کہ ان سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت ہو تی ہے ۔
نازم بچشم خود کہ جمال تو دیدہ است
ایک صحابی کی آنکھیں جاتی رہی لوگ عیادت کو آئے تو کہنے لگے یہ آنکھیں تو مجھے اس لیے عزیز تھیں ان سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت ہوتی تھی جب وہی نہ رہے تو اب ان آنکھوں کے جانے کا غم کیا ہے ۔
کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم ایسے بھی تھے جنہوں نے روز روز کا جھگڑ ا ہی چکا دیا تھا ۔ زندگی کا سب کاروبار چھوڑ کر آپ ا کی خدمت کے لیے وقف ہو گئے تھے ۔
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت نصیب ہوئی آپ ا کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا آپ کے گھر کا سب کام کا ج حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی کیا کرتے تھے دنیا کے سب دھندوں کو خیر آباد کہ چکے تھے ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب بھی آپ ا سفر کے لیے تشریف لے جاتے آپ ا کے ساتھ ہو لیتے ، آپ کو جوتیاں پہناتے آپ اکی جوتیاں اتارتے سفر میں آپ کو بچھونا، مسواک، جوتا اور وضو کا پانی ان کے ہی پاس ہوتا تھا ۔ اسی لیے آپ کو صحابہ کرام سواد رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کہتے تھے یعنی حضورا کے میر ساماں تھے ۔
سیدناربیعہ ص اسلمی سارا دن آپ ہی کی خدمت میں رہتے تھے جب آپ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کرکاشانہ نبوت میں تشریف لے جاتے تو آپ باہر دروازے پر بیٹھے رہتے کہ شاید آپ کو کوئی کام پڑ جائے اور میرے بھاگ جاگ اٹھیں اور حضور ا کی خدمت کی سعادت نصیب ہوجائے ۔ ایک دن حضور انے ربیعہ ص سے فرمایا: ربیعہ تم شادی کیوں نہیں کرتے ۔ کہنے لگے ، شادی کی تو یارسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ! آپ کا آستانہ مجھ سے چھوٹ جائے گا ، مگر حضور نے بار بار اصرار سے کہا اور وہ مجبور ہو گئے ۔
سیدناعقبہ بن عامر ص آپ کے مسلسل خدمت گزار تھے آپ سفر پر جاتے تو پید ل آپ کے ساتھ چلتے اور آپ کی اونٹنی ہانکتے تھے ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو ان کی والدہ حضور اقدس کی خدمت کے لیے بچپن ہی میں وقف کر گئی تھیں ۔ حضرت ابو ہریرہ ص بھی بارگاہِ رسالت میں ہمیشہ حاضر رہتے ۔
محبت و شیفتگی کی یہی کیفیت تھی جس کی وجہ سے وہ اللہ اور اس کے رسول ا کی خاطر سخت سے سخت مصیبت جھیلتے رہے وہ صرف مصیبت جھیلتے ہی نہ تھے بلکہ ان مصیبتوں میں ایک لذت اور سرور حاصل کرتے تھے محبت کا یہ جذ بہ ان میں ایسی سرشاری پیدا کرتا تھاکہ جسم کی کوئی کلفت اور ذہن کی کوئی اذیت انہیں محسوس ہی نہیں ہوتی تھی ۔صحابہ رضی اللہ عنہم میں بڑ ی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جن کی عمر اتنی نہ ہوئی کہ وہ اسلام کی غربت کے ساتھ اسلام کے عروج و اقبال کا زمانہ بھی دیکھتے اور عدی صبن حاتم کی طرح کہہ سکتے ۔ کنت فی من فتح کنوز کسری۔ میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے کسریٰ کے خزانوں کو کھول تاہم جب دنیا سے گئے تو اس عالم میں گئے کہ ان سے زیادہ عیش و خوشحالی میں شاید ہی کسی نے دنیا چھوڑ ی ہو۔
بدر واحد کے شہیدوں کا حال پڑ ھو۔ ایمان لانے کے بعد جو کچھ بھی ان کے حصے میں آیا وہ دن رات کی کاوشوں اور مصیبتوں کے سوا کیا تھا۔ ؟ وہ اسلام کی فتح یابیوں اور کامرانیوں سے پہلے ہی دشمنوں کی تیغ و سناں سے چور میدان جنگ میں دم توڑ رہے تھے مگر دیکھو کہ پھر بھی ان کے دل کی شادمانیوں کا کیا حال تھا۔
جنگ احد میں سیدناسعدبن ربیع رضی اللہ عنہ کو لوگوں نے دیکھا کہ زخمیوں میں پڑ ے دم توڑ رہے ہیں ۔ پوچھا : کوئی وصیت اگر کرنی چاہتے ہو تو کر دو۔ کہا ، اللہ کے رسول اکو میر اسلام پہنچا دینا اور میری قوم سے کہہ دینا کہ راہ خدا میں اپنی جانیں نثار کرتے رہیں ۔ عمارہ صبن زیاد زخموں سے چور جانکنی کی حالت میں تھے کہ خود حضورا سرہانے پہنچ گئے اور عمارہ صکے بھاگ جاگ اٹھے ۔ فرمایا: عمارہ کوئی آرزو ہو تو کہو ، عمارہ نے اپنا زخمی جسم گھسیٹ کر آپ کے قدموں کے قریب کر دیا اور درد بھر ی آواز میں بولے میری یہ آرزو ہے کہ جان نکلتے وقت آپ ا کے چہرے پر میری نظریں جمی ہوئی ہوں اور میری نظروں میں آپ کے سوا کچھ نہ ہو عورتوں تک کا یہ حال تھا کہ بیک وقت انہیں ان کے شوہر، بھائی اور باپ کے شہید ہو جانے کی خبر سنائی جاتی تھی اور وہ کہتی تھیں یہ تو ہوا ، مگر بتلاو اللہ کے رسول کا کیا حال ہے ۔
مسند امام احمد میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ جو شخص اقتداء کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اصحاب رسول کی اقتداء کرے ۔ اس لیے کہ ان کے دل ساری امت سے زیادہ نیک اور پاک تھے ان کے علم میں سب سے زیادہ گہرائی تھی ۔ وہ سب سے کم تکلف کرنے والے تھے ۔ وہ سب سے زیادہ سیدھی راہ پر تھے ۔ ان کے حالا ت سب سے بہتر تھے یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی صحبت کے لیے چن لیا تھا، پس تم ان کی قدر و منزلت کو پہنچانواور ان کے نقش قدم پر چلو اس لیے کہ سیدھی راہ پر گامزن یہی لوگ تھے ۔
صحابہ کرام وہ نفوس قدسیہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سید الاولین والآخرین کی صحبت کے لیے چن لیا تھا اور جن کے بارے میں اللہ کی یہ مشیت ہوئی کہ وہ خاتم النبیین سے براہ راست فیض حاصل کریں اور حضور ا خود ان کا روحانی تزکیہ کریں ، اور خود کتاب و حکمت کی انہیں تعلیم دیں ۔ ان کی شان میں گستاخی سراسر موجب حرمان ہے ۔ ان کے بارے میں دل میں بغض رکھنا سراسر باعث خسراں ہے ، آخر میں اختصار کے ساتھ عرض یہ ہے کہ صحابہ کرام ثکا ادب و احترام ملحوظ رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے ۔
1۔ اس لیے کہ آفتاب نبوت کی شعاعیں براہ راست ان کے سینوں پر پڑ ی تھیں اور اس سعادت عظمے ٰ میں کوئی طبقہ امت ان کا سہیم و شریک نہیں ہے ۔
2۔ صحابہ کرام نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خاطر اپنا مال اپنا گھر بار اپنی جانیں ، اپنی اولاد سب کچھ نچھاور کر دیا۔
3۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور امت کے درمیان صحابہ کرام ہی وہ واسطہ اور رابطہ ہیں جن کے ذریعے اطراف عالم میں کتاب و سنت کی تمام تعلیمات کا ابلاغ ہو اگر ان کی ثقاہت بے داغ نہ ہوتی تو دین کی حفاظت کا کوئی امکان نہ تھا