خواجہ خرم
رکن
- شمولیت
- دسمبر 02، 2012
- پیغامات
- 477
- ری ایکشن اسکور
- 46
- پوائنٹ
- 86
فضائل ماہِ رجب سے متعلقہ احادیث کی تحقیق
تحریر:حافظ محمد یونس اثری ؔ
مراجعه و توضيح: حافظ حماد چاؤلہ
ایک کتابچہ بنام’’کفن کی واپسی‘‘مؤلفہ جناب الیاس قادری (امیردعوت اسلامی) پڑھنے کا موقعہ ملا،جس میں ماہ رجب کے فضائل اور اس کے مخصوص اعمال کے متعلق احادیث ذکرکی گئیں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ رسالہ میں تحریر کردہ تمام احادیث شدیدضعیف یاپھر موضوع و من گھڑت ہیں، عبادات اور دیگر اعمالِ صالحہ کی طرف عوام الناس کی ترغیب اچھی بات ہے لیکن اس کیلئے ضعیف وموضوع روایات کا سہارالینا انتہائی غلط بلکہ مجرمانہ فعل ہے، مؤلف کی دیگرکتب بھی اس کی طرح اسی باطل روش کا آئینہ دار ہیں، مذکورہ کتابچہ کے متعلق کچھ گذارشات پیشِ خدمت ہیں۔
موصوف لکھتے ہیں :
’’رجب المرجب کے قدر دانو! تعلیم و تعلم اور کسب حلال میں رکاوٹ نہ ہو ،ماں باپ بھی منع نہ کریں تو جلدی جلدی اور بہت جلدی مسلسل تین ماہ کے یا جس سے جتنے بن پڑیں اتنے روزوں کیلئے کمربستہ ہوجائے۔‘‘ (کفن کی واپسی :صفحہ :2)
تبصرہ:
اس عبارت میں موصوف نے بہت زیادہ غلو سے کام لیا ہے، مسلسل تین ماہ کے روزے رکھنے کی ترغیب دلائی ہے ،جو کئی وجوہ سے غلط ہے :
اولاً:نبی ﷺ نے روزوں میں وصال کرنے سےمنع فرمایا۔(یعنی بغیر فاصلہ دئے روزانہ ،پےدرپہ روزے رکھنا)
(صحیح بخاری :1961 ،صحیح مسلم :1102 )
بلکہ نبی مکرّمﷺنے بھی کبھی تین مہینے کے روزے مسلسل نہیں رکھے، دلیل یہ ہے کہ سیدہ ام سلمۃ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : کہ نبی ﷺ نے کبھی کسی پورے مہینے کے روزے نہیں رکھے ،البتہ رمضان کے ساتھ شعبان کو ملا لیا کرتے تھے ۔
(سنن ابوداؤد :2336 ،سنن نسائی: 2353، مسند احمد :26653 ،سنن دارمی : 1780 ،سنن الکبری :7966 )
اسی طرح سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺنے جب سے ہجرت کی آپ نے سوائے رمضان کے کسی مہینے کے مکمل روزے نہیں رکھے ۔ (سنن نسائی :2183 ،مسند احمد :1998 ،شرح السنۃ :1809)
خلاصہ یہ ہےکہ نبی مکرّم ﷺکا اپنا معمول بھی یہی تھا کہ آپ نے کبھی تین مہینے کے اکٹھے روزے نہیں رکھے ۔
ثانیاً:نبی مکرّمﷺنے تو شعبان کے بھی آخری ایام کے روزے رکھنے سےمنع فرمایا ہے یعنی شعبان و رمضان دو مہینوں کے لگاتارروزے رکھنے سے منع فرمایاہے۔
(سنن ابو داؤد :2337 ،ترمذی :738 ،مصنف عبدالرزق :7316،7325،مصنف ابن ابی شیبۃ :9026)
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رمضان کے روزوں میں کسی قسم کی سستی یا ضعف(کمزوری) نہ آجائے۔
ثالثاً:اس کی کوئی صحیح صریح دلیل بھی نہیں ملتی ۔اور عبادات کی تعیین بغیر کسی صحیح صریح روایت کے کرنا، بالخصوص اس وقت کہ جب وہ دیگر نصوص کے بھی خلاف ہو، یہ بہت بڑی جرأت ہوگی ،اسے نیکی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ چیز مستقبل میں بدعت کا روپ دھار سکتی ہے۔
ماہِ رجب کی فضيلت کے حوالہ سے موصوف نے ایک روایت نقل کی :
’’رجب کے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کفارہ ہے ،اور دوسرے دن کا روزہ دوسالوں کا اور تیسرے دن کا ایک سال کا کفارہ ہے ،پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفارہ ہے ۔‘‘(کفن کی واپسی :صفحہ :2 ،بحوالہ الجامع الصغیر :5051)
تبصرہ:
موصوف نے اسے الجامع الصغیر کے حوالے سے روایت کیا ہے، اس روایت کو الخلال نے فضائل شھر رجب میں بالسند روایت کیا ہے، وہاں یہ روایت کچھ یوں درج ہے :
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ التَّمَّارُ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطلالاينوسِيُّ أَبُو بَكْرٍ الصَّيْدَلانِيُّ ثنا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ الْمُقْرِئُ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ثنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْعُقَيْلانِيُّ عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانٍ مَوْلَى عُثْمَانَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِي اللَّه عَنْهُمَا قَالَ:قَالَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْمُ أَوَّلِ يَوْمٍ في رجب كفارة ثلاث سِنِينَ وَالثَّانِي كَفَّارَةُ سَنَتَيْنِ وَالثَّالِثُ كَفَّارَةُ سنةٍ ثُمَّ كُلُّ يومٍ شَهْرٍ.
(فضائل شھر رجب للخلال: 10)
اس کی سند میں محمد بن عبداللہ سے لے کر ابو عبداللہ العسقلانی تک روایت کرنے والے مجھول ہیں ۔جس روایت میں ایک راوی مجہول ہو وہ روایت محدّثین کے اصول کے مطابق درست قرار نہیں پاتی تو جس روایت میں کئی ایک راوی مجھول ہوں ایسی روایت درست و قابلِ عمل کیسے ہوسکتی ہے ؟ لہٰذا یہ روایت شدید ضعیف ہے اوررسول اللہ ﷺسے ثابت نہیں،اس لئے یہ قابلِ عمل نہیں ہے۔
ایک اور روایت شعب الایمان کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :
’’سیدنابلال رضی اللہ عنہ نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت نبی ﷺناشتہ کررہے تھے ۔فرمایا :اے بلال ! ناشتہ کرلو ، عرض کی ، یا رسول اللہ عز و جل و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم !میں روزہ دار ہوں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نےفرمایا :ہم اپنی روزی کھارہےہیں اور بلال کا رزق جنت میں بڑھ رہا ہے ۔ اے بلال ! کیاتمہیں خبر ہےکہ جب تک روزے دار کے سامنے کچھ کھایا جائے تب تک اس کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں ، اسے فرشتے دعائیں دیتے ہیں ۔‘‘(کفن کی واپسی :4)
تبصرہ:
اس روایت کی سند میں محمدبن عبدالرحمن ،نامی راوی ہے جس کے بارے میں اقوال علماء ملاحظہ فرمائیں :
امام ابن عدی کہتے ہیں :یہ بقیہ کے مجہول اساتذہ میں سے ہے اور منکر الحدیث ہے ۔
امام ابو حاتم کہتے ہیں:متروک الحدیث ،جھوٹ بولتا تھاااور حدیث گھڑتا تھا۔
امام خلیلی کہتے ہیں:منکر روایات بیان کرتا تھا ۔
امام عقیلی کہتے ہیں :اس کی حدیث منکر ہے اس کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی متابعت ہے اور یہ مجہول بالنقل ہے ۔
امام مزی کہتے ہیں:یہ ضعیف و متروک راویوں میں سے ہے ۔
امام حافظ ابن حجر کہتے ہیں:محدثین نے اس کو جھوٹا قرار دیا ہے ۔
امام دارقطنی کہتے ہیں:متروک الحدیث ہے ۔
امام ذهبي نے فرمایا:تالف(ہلاک شدہ)۔
امام ابو الفتح الازدي کہتے ہیں: جھوٹا ہے اور متروک الحدیث ہے ۔
[دیکھئے:تہذیب الکمال :6/410، تقریب التھذیب :2/195، میزان العتدال : 3/592، کتاب الضعفاء :4/1260، الجرح والتعدیل للذھبی :2/439، لسان المیزان :6/281 ]
یہی اس روایت کی اصل آفت ہے، لہذا یہ روایت موضوع ہے ۔
اب روایت کا درجہ واضح ہوتے ہی اس فضیلت کی شرعی حیثیت واضح ہوگئی ۔
v موصوف کی تحریر کردہ ایک حکایت :
’’بصرہ کی ایک نیک بی بی نے بوقتِ وفات اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ مجھے اس کپڑے کا کفن پہنانا جسے پہن کر میں رجب المرجب میں عبادت کیا کرتی تھی ۔ بعد از انتقال بیٹے نے کسی اور کپڑے میں کفنا کر دفنا دیا ۔ جب قبرستان سے گھر آیا تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس نے جو کفن دیا تھا وہ گھر میں موجود اور وصیت کردہ کپڑے اپنی جگہ سے غائب تھے ۔ اتنے میں غیب سے آواز آئی ، اپنا کفن واپس لے لو ہم نے اس کو اسی کفن میں کفنایا ہے (جس کی اس نے وصیت کی تھی) جو رجب کے روزے رکھتا ہے ہم اس کو اس کی قبر میں غمگین نہیں رہنے دیتے ۔‘‘(کفن کی واپسی :9)
اسی واقعے کی بناء پر موصوف نے اپنے اس رسالے کا نام کفن کی واپسی رکھا ہے اوریہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ موصوف کی اکثر کتب کے نام اسی طرز کے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ موصوف قصے، کہانیوں اور ناولوں سے خاصا لگاؤ رکھتے ہیں ، اگر وہ اس لگاؤ کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھیں تو الگ مسئلہ ہے، لیکن پوری شریعت کو ناول ہی بنا کے رکھ دینا اور لوگوں کو بھی اس میں مشغول کرکے رکھ دینا انتہائی غلط کاری ہے۔
اور جہاں تک اس مذکورہ واقعہ کا معاملہ ہے ، یہ میزان ِشرعیہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ اس لئے کہ :
اولاً :یہ کوئی حدیث نہیں ۔
ثانیاً :یہ نصوص ِشرعیہ کے خلاف ہے ۔کیوں کہ نصوصِ شرعیہ میں رجب کے روزوں کی کوئی فضیلت ثابت ہی نہیں۔
ثالثاً:یہ ایک بلا سند حکایت ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ،محض سنی سنائی کہانیوں میں سےایک کہانی ہے جس کی بنیاد پر کسی شرعی عمل کو جاری نہیں کیاجاسکتا ۔
رابعا ً:یہ روایت موصوف نے " نزھۃ المجالس " نامی کتاب سے نقل کی ہے جس کی حیثیت کا ذکر آگے آرہا ہے ۔
شعب الایمان کے حوالے سے پیش کردہ ایک اور روایت:
’’ جنت میں ایک نہر ہے جس کا نام رجب ہے اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جو ماہ رجب میں ایک روزہ رکھے اللہ عز و جل اسے اس نہر سے سیراب فرمائے گا ۔‘‘(بحوالہ شعب الایمان ،کفن کی واپسی :12)
تبصرہ:
اس روایت کی سند میں دو راوی مجھول ہیں ، ایک منصور بن زید اور دوسرا موسی بن عمران مجھول ہیں ،بعض نے اس روایت کو موضوع تک قرار دیا ہے،تفصیل کے لئے دیکھئے:الآثار الموضوعۃ :(59) ،سلسلۃ الضعیفۃ : (4/1898) ،میزان : (4/189) ،المتناھیۃ : (2/912) ،فوائد حدیثیۃ :(161) ،
اس حدیث کے حوالے سے اقوال علماء بھی ملاحظہ فرمائیے :
امام ابن الجوزی : لا یصح و فیہ مجاھیل لا ندری من ھم ،(العلل المتناھیۃ :2/912)یعنی : یہ روایت صحیح نہیں اس میں کئی مجھول راوی ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں ؟
امام ذھبی: منصور بن یزید حدث عنہ محمد بن المغیرۃفی فضل رجب لا یعرف ، والخبر باطل ۔۔(میزان الاعتدال :1284)یعنی :منصور بن یزید سے محمد بن المغیرۃ رجب کی فضیلت میں غیر معروف باتین بیان کرتا ہے ۔اور یہ خبر باطل ہے ۔اسی طرح محمد بن مغیرہ بن بسام کے ترجمے میں اس روایت کو باطل قرار دیا ۔(میزان الاعتدال :8664)
تنبیہ : امام ذھبی کی جرح منصور بن یزید پر ہے ،جبکہ سند میں راوی منصور بن زید ہے ،اسی طرح اس سند کے حوالے سے بعض مزید وھم بھی ہیں ،مثلاً یہاں شعب الایمان میں موسی بن عمران ہے، جبکہ فضائل شھر رجب میں موسی بن عمرہے ،ابن حبان رحمہ اللہ اس روایت کو المجروحین میں موسی بن عمیر العنبری کے ترجمے کے تحت لائے ہیں ،جس پر تعلیقات میں امام دارقطنی نے اس پر جو کلام کیا ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے:
ابو حاتم (ابن حبان ) سے یہاںموسی بن عمیر کے بارے میں غلطی ہوئی ہے ۔ موسی بن عمیر تین ہیں ،ان میں سے جو عمرمیں سب سے بڑا اور پہلے ہے،وہ موسی بن عمیر العنبری ہے، یہ ثقہ ہے۔
دوسرا موسی بن عمیر، جو انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے یہ ضعیف و مجھول شیخ ہے۔
تیسرا موسی بن عمیر الجعدی ہے ۔۔۔ (تعلیقات الدارقطنی :230)
الغرض یہ روایت ضعیف ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس کے بعض طرق کی نشاندہی کرتے ہوئے یہی فیصلہ دیا۔ (تبیین العجب :80)