محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
فقہی اختلاف کیوں؟
آج کل امت اسلامیہ کے درمیان کافی اختلافات پائے جاتے ہیں ذیل میں ان کے اسباب پر روشنی ڈالی جارہی ہے، غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف کرنے والے دو طرح کے ہیں ایک قسم علماء دین کی ہے جو خلوص نیت کے ساتھ حق کی تلاش میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں جس کے اسباب علمی ہیں: دوسری قسم عام ہے جس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اسباب علمی نہیں ہیں ؛ بلکہ کچھ اور ہیں جنہیں اپنے مقام پر بیان کیا جائے گا:
پہلی قسم: علماء دین کے درمیان اختلاف کے اسباب:
یہ کئی طرح کے ہیں ذیل میں اختصار کے ساتھ ان پر روشنی ڈالی گئی ہے:
۱۔ دلیل کا نہ پہنچنا:
مطلب یہ ہے کہ جب دیکھا جاتا ہے کہ کوئی عالم دین ایسی بات کہتا ہے جوصحیح دلیل کے خلاف ہوتی ہے تو یہاں پر یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ اس کے پاس صحیح دلیل نہیں پہنچی ہوگی ، بہت سارے لوگوں کو یہ گوارا نہیں ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن بن سکتا ہے کہ ایک بڑے إمام کے پاس یہ دلیل نہیں پہنچی ہوگی اور آج کل کے لوگوں تک پہنچ گئی ہے؟!
اگر غور کیا جائے تو ایسا ممکن ہے کیو نکہ کسی بھی إمام کے بارے میںیہ دعوی ہرگز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس تمام علم دین تھا، اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ائمہ دین بعض اوقات اپنے سابقہ فتوی سے رجوع کرتے ہیں۔
پہلی مثال:
یہاں پر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ایک ایسا ہی واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات کوئی دلیل کسی بڑے صحابی کو بھی معلوم نہیں ہوتی تھی جیسے کہ صحیح بخاری (۵۷۲۹) میں ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ شام کا سفر کیا اور راستے میں معلوم ہو کہ وہاں طاعون پھوٹ پڑا ہے تو یہاں پر عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو بعض نے شام جانے کا مشورہ دیا اور بعض نے واپس لوٹنے کا مشورہ دیا، اس بارے میں صحابہ میں اختلاف ہوا تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ (جو کہیں گئے تھے) آگئے تو آپ نے کہا کہ میرے پاس اس کے بارے میں علم ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ’’إذا سمعتم بہ فی أرض فلا تقدموا علیہ، وإن وقع وأنتم فیھا فلا تخرجو فرارًا منہ ‘‘ (بخاری ۔کتاب الطب۔۵۷۲۹)۔
دوسری مثال :
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دادی کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے (پوچھنے والی صحابیہ)سے کہا: میں آپ کے لئے قرآن میں کچھ نہیں پاتا اور نہ ہی میں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا کچھ جانتا ہوں ، لہذا لوگوں سے دریافت کرو، تو مغیرۃ بن شعبۃ اور محمد بن مسلمۃ رضی اللہ عنہماکھڑے ہوئے اور گواہی دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دادی کو چھٹاحصہ دے دیا۔
تیسری مثال:
عمر بن الخطاب کو استئذان (گھر وغیرہ میں داخل ہونے سے قبل اجازت طلب کرنے) کی حدیث معلوم نہ تھی تو ابو موسی رضی اللہ عنہ نے اس کو اس کی خبر دی اور انصارمیں سے گواہ بھی پیش کیا۔
چوتھی مثال:
عثمان رضی اللہ عنہ کو اس عورت کی عدت کے بارے میں معلوم نہ تھا جس کا شوہر فوت ہوا ہو کہ وہ شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارے گی، پھر آپ کو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن فریعۃ بنت مالک نے خبردی کہ جب اس کا شوہر مرگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو فرمایا : ’’ امکثي في بیتک حتی یبلغ کتاب أجلہ‘‘ تو پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو قبول کیا ۔
پانچویں مثال:
علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ جس حاملہ عورت کا شوہر فوت ہوجائے تو وہ دو بعید مدتوں کی عدت گزارے گی یعنی: وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو بھی زیادہ ہو۔
جب کہ حدیث اس کے برعکس ہے سبیعۃ الأسلمیۃ کی حدیث میں ہے کہ اس کے شوہر کی وفات کے چند دن بعد اس کا وضع حمل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شادی کی اجازت دی (بخاری ۔کتاب الطلاق ۔ ۵۳۱۸۔۵۳۲۰)۔
چھٹی مثال :
إمام مالک رحمہ اللہ سے پاؤں کی انگلیوں کے خلال کے بارے میں پوچھا گیا تو إمام مالک رحمہ اللہ نے کہا: ایسا نہیں کرنا چاہیے، تو جب لوگ مجلس سے چلے گئے تو ابن وہب نے إمام مالک رحمہ اللہ سے کہا : میرے پاس اس کے بارے میں حدیث ہے، پھر سند بیان کی تو إمام مالک نے کہا: آج تک میں نے اس کو ہر گز بھی نہ سنا تھا، پھر آپ خلال کرنے کا فتوی دیتے تھے - (صفۃ الصلاۃ ، ص:۴۹)۔
ساتویں مثال:
إمام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ تم حدیث اور رواۃ کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہو جب صحیح حدیث ہو تو مجھے سکھاؤ چاہئے وہ کوفی سے مروی ہو یا بصری سے یا شامی سے ،اگر وہ صحیح ہو تو اس پر عمل کروں گا ‘‘ اس میں خطاب إمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ سے تھا۔
آٹھویں مثال:
ابو یوسف رحمہ اللہ إمام مالک رحمہ اللہ سے ملے تواس سے صاع اور صدقۃ الخضروات اور صدقۃ الأجناس کے بارے میں پوچھاتو إمام مالک نے ان امور کے بارے میں سنت سے دلائل پیش کئے تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے ان کو قبول کیا اور کہا: میں تمہاری بات کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اے ابو عبد اللہ! اگر میرا امام وہ (دلائل) دیکھتا جو آپ نے دیکھی تو ضرور وہ (ابو حنیفہ)بھی اسی طرح رجوع کرتا جس طرح میں نے کیا (بحوالہ :التقلید للراجحی ص۳۵)