• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہی اختلاف کیوں؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
فقہی اختلاف کیوں؟

آج کل امت اسلامیہ کے درمیان کافی اختلافات پائے جاتے ہیں ذیل میں ان کے اسباب پر روشنی ڈالی جارہی ہے، غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف کرنے والے دو طرح کے ہیں ایک قسم علماء دین کی ہے جو خلوص نیت کے ساتھ حق کی تلاش میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں جس کے اسباب علمی ہیں: دوسری قسم عام ہے جس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اسباب علمی نہیں ہیں ؛ بلکہ کچھ اور ہیں جنہیں اپنے مقام پر بیان کیا جائے گا:


پہلی قسم: علماء دین کے درمیان اختلاف کے اسباب:

یہ کئی طرح کے ہیں ذیل میں اختصار کے ساتھ ان پر روشنی ڈالی گئی ہے:

۱۔ دلیل کا نہ پہنچنا:

مطلب یہ ہے کہ جب دیکھا جاتا ہے کہ کوئی عالم دین ایسی بات کہتا ہے جوصحیح دلیل کے خلاف ہوتی ہے تو یہاں پر یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ اس کے پاس صحیح دلیل نہیں پہنچی ہوگی ، بہت سارے لوگوں کو یہ گوارا نہیں ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن بن سکتا ہے کہ ایک بڑے إمام کے پاس یہ دلیل نہیں پہنچی ہوگی اور آج کل کے لوگوں تک پہنچ گئی ہے؟!

اگر غور کیا جائے تو ایسا ممکن ہے کیو نکہ کسی بھی إمام کے بارے میںیہ دعوی ہرگز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس تمام علم دین تھا، اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ائمہ دین بعض اوقات اپنے سابقہ فتوی سے رجوع کرتے ہیں۔

پہلی مثال:

یہاں پر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ایک ایسا ہی واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات کوئی دلیل کسی بڑے صحابی کو بھی معلوم نہیں ہوتی تھی جیسے کہ صحیح بخاری (۵۷۲۹) میں ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ شام کا سفر کیا اور راستے میں معلوم ہو کہ وہاں طاعون پھوٹ پڑا ہے تو یہاں پر عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو بعض نے شام جانے کا مشورہ دیا اور بعض نے واپس لوٹنے کا مشورہ دیا، اس بارے میں صحابہ میں اختلاف ہوا تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ (جو کہیں گئے تھے) آگئے تو آپ نے کہا کہ میرے پاس اس کے بارے میں علم ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ’’إذا سمعتم بہ فی أرض فلا تقدموا علیہ، وإن وقع وأنتم فیھا فلا تخرجو فرارًا منہ ‘‘ (بخاری ۔کتاب الطب۔۵۷۲۹)۔

دوسری مثال :

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دادی کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے (پوچھنے والی صحابیہ)سے کہا: میں آپ کے لئے قرآن میں کچھ نہیں پاتا اور نہ ہی میں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا کچھ جانتا ہوں ، لہذا لوگوں سے دریافت کرو، تو مغیرۃ بن شعبۃ اور محمد بن مسلمۃ رضی اللہ عنہماکھڑے ہوئے اور گواہی دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دادی کو چھٹاحصہ دے دیا۔

تیسری مثال:

عمر بن الخطاب کو استئذان (گھر وغیرہ میں داخل ہونے سے قبل اجازت طلب کرنے) کی حدیث معلوم نہ تھی تو ابو موسی رضی اللہ عنہ نے اس کو اس کی خبر دی اور انصارمیں سے گواہ بھی پیش کیا۔

چوتھی مثال:

عثمان رضی اللہ عنہ کو اس عورت کی عدت کے بارے میں معلوم نہ تھا جس کا شوہر فوت ہوا ہو کہ وہ شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارے گی، پھر آپ کو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن فریعۃ بنت مالک نے خبردی کہ جب اس کا شوہر مرگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو فرمایا : ’’ امکثي في بیتک حتی یبلغ کتاب أجلہ‘‘ تو پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو قبول کیا ۔

پانچویں مثال:

علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ جس حاملہ عورت کا شوہر فوت ہوجائے تو وہ دو بعید مدتوں کی عدت گزارے گی یعنی: وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو بھی زیادہ ہو۔

جب کہ حدیث اس کے برعکس ہے سبیعۃ الأسلمیۃ کی حدیث میں ہے کہ اس کے شوہر کی وفات کے چند دن بعد اس کا وضع حمل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شادی کی اجازت دی (بخاری ۔کتاب الطلاق ۔ ۵۳۱۸۔۵۳۲۰)۔

چھٹی مثال :

إمام مالک رحمہ اللہ سے پاؤں کی انگلیوں کے خلال کے بارے میں پوچھا گیا تو إمام مالک رحمہ اللہ نے کہا: ایسا نہیں کرنا چاہیے، تو جب لوگ مجلس سے چلے گئے تو ابن وہب نے إمام مالک رحمہ اللہ سے کہا : میرے پاس اس کے بارے میں حدیث ہے، پھر سند بیان کی تو إمام مالک نے کہا: آج تک میں نے اس کو ہر گز بھی نہ سنا تھا، پھر آپ خلال کرنے کا فتوی دیتے تھے - (صفۃ الصلاۃ ، ص:۴۹)۔

ساتویں مثال:

إمام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ تم حدیث اور رواۃ کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہو جب صحیح حدیث ہو تو مجھے سکھاؤ چاہئے وہ کوفی سے مروی ہو یا بصری سے یا شامی سے ،اگر وہ صحیح ہو تو اس پر عمل کروں گا ‘‘ اس میں خطاب إمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ سے تھا۔

آٹھویں مثال:

ابو یوسف رحمہ اللہ إمام مالک رحمہ اللہ سے ملے تواس سے صاع اور صدقۃ الخضروات اور صدقۃ الأجناس کے بارے میں پوچھاتو إمام مالک نے ان امور کے بارے میں سنت سے دلائل پیش کئے تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے ان کو قبول کیا اور کہا: میں تمہاری بات کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اے ابو عبد اللہ! اگر میرا امام وہ (دلائل) دیکھتا جو آپ نے دیکھی تو ضرور وہ (ابو حنیفہ)بھی اسی طرح رجوع کرتا جس طرح میں نے کیا (بحوالہ :التقلید للراجحی ص۳۵)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
دوسرا سبب: غیر مقبول سند کے ساتھ حدیث پہنچنا:


کبھی کسی عالم کے ساتھ ایسا ہوتا تھا کہ جو حدیث اس تک پہنچ گئی اس کی سند ضعیف تھی لہذا اس نے اس پر اعتبار نہیں کیا جب کہ وہی حدیث دوسرے عالم کے پاس دوسری سند کے ساتھ پہنچ جاتی لیکن اس کی سند صحیح ہوتی ہے لہذا وہ اس پر اعتبار کرتا ہے اس طرح کی مثالیں بہت ہیں تفصیل کے لئے إمام ألبانی رحمہ اللہ کی سلسلۃ الصحیحۃ اور سلسلۃ الضعیفۃ کو دیکھا جا سکتا ہے ان میں ایسی مثالیں کافی موجود ہیں۔


تیسرا سبب:

کبھی حدیث کسی عالم کو پہنچی ہو مگر وہ بھول گیا۔ آج کل جب کسی کو ایسا کہا جاتا ہے تو مزاق اڑاکر کہتا ہے کہ اچھا اتنے بڑے اماموں کو بھول جاتاتھا او ر تم کو یاد رہتا ہے! لیکن مثالیں دیکھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ ایسا ہوتا تھا:

پہلی مثال:

ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک آیت بھول گئے ان کے ساتھ أبی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی تھے تو آپ نے فرمایا: ’’ھلا أَذکر تَنِیھا‘‘ (آپ نے وہ مجھے یاد کیوں نہیں دلایا)
(أبو داؤد ۔۹۰۷)۔

دوسری مثال:

ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر اور عمار رضی اللہ عنہما کو کسی کام کے لئے بھیجا، تو وہ دونوں جنبی ہوگئے تو عمار نے اجتہاد کیا اور سمجھا کہ اسے پاکی اسی طرح حاصل ہوگی جس طرح پانی سے حاصل کی جاتی ہے تو پھر اپنے آپ کو مٹی میں چوپائی کی طرح لڑھک دیا تاکہ تمام بدن پر مٹی پہنچ جائے جیسے کہ تمام بدن پر پانی کا پہنچنا لازمی ہے، پھر نماز پڑھی ، البتہ عمر رضی اللہ عنہ نے نماز ہی نہیں پڑھی ... پھر دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عمار سے فرمایا: ’’ إنما کان یکفیک أن تقول بیدیک ھکذا‘‘ پھر دونوں ہاتھ ایک ساتھ زمین پر مارے پھر بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ کو مسح کیا اور دونوں ہاتھوں کو اوپر سے اور چہرے کو مسح کیا۔

عمار رضی اللہ عنہ یہ حدیث عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے قبل اور اس کے زمانہ میں بیان کرتے تھے تو ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بلایا اورپوچھا: یہ کیا حدیث تم بیان کرتے ہو؟ تو عمار نے کہا: کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب ہم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام کے لئے بھیجا تھا تو ہم دونوں جنبی ہوئے ، آپ نے نماز نہیں پڑھی، اور میں زمین پر لڑھک دیا تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ إنما یکفیک أن تقول کذا وکذا‘‘لیکن عمر رضی اللہ عنہ کو یاد نہ آیا اور کہا: اے عمار: اللہ سے ڈرو :

عمارنے کہا مجھ پر اللہ نے آپ کی فرمانبرداری واجب کردی اگر آپ چاہیں تو میں یہ بیان نہ کروں تو عمر نے کہا: اس کو بیان کرو...

(بخاری: ۳۳۸/۳۴۵/۳۴۶)۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
چوتھا سبب: نص سے کبھی خلافِ مراد سمجھنا:
یعنی قرآنی آیت یا حدیث سے وہ سمجھنا جو أصل میں مقصود نہ ہو، جیسے :

پہلی مثال:

اللہ کا ارشادہے:

’’وإن کنتم مریضًا أوعلی سفر أوجاء أحد منکم من الغائط أو لامستم النساء فلم تجدوا ماءً فتیمّموا صعید طیبًا ‘‘ (النساء / ۴۳)۔

علماء دین نے ’’ أو لامستم النساء ‘‘کے معنی میں اختلاف کیا:

۱۔ بعض نے کہا: اس سے مراد مطلقا مس( چھونا ) مراد ہے لہذا جب کوئی مرد کسی عورت کے جسم کی جلد(Skin)کو چھوئے گا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

ب۔ بعض نے کہا: اس سے مراد ایسا چھونا ہے جس سے شہوت ابھرے لہذا ایسے چھونے سے وضو ٹوٹ جائے گا اوراگر شہوت کے ساتھ سے چھوئے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔

ج۔ دیگر علماء نے کہا: اس سے مراد جماع ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رای ہے ، اور یہی بات راجح ہے۔

اگر غور کیا جائے تو قرآن میں پانی سے پاکی حاصل کرنے کے سلسلہ میں دوقسم کے احکام ہیں ، حدث أصغر کے بارے میں ’’فاغسلوا وجوھکم ... ‘‘ (المائدۃ / ۶)ہے اور حدث أکبرکے بارے میں ’’وإن کنتم جنباً فاطّھّروا ...‘‘(المائدۃ / ۶)ہے لہذا بلاغت وبیان کا تقاضی ہے کہ یتیم میں بھی دونوں کے حکم کا ذکر ہو لہذا ’’ أوجاء أحد منکم من الغائط ‘‘ میں حدث أصغر سے پاکی کی طرف ارشارہ ہے اور ’’ أو لامستم النساء‘‘ میں حدث أکبرکی طرف اشارہ ہے ، اور اگر اس سے مطلقا چھونا مرادلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو اکہ حدث أصغر کا دوبار ذکر ہوا اور حدث أکبر کا ذکر ہی نہیں ہے ایسا تو قرآن کی بلاغت کے خلاف ہے ۔

’’أو لامستم النساء‘‘سے جماع مراد لینے والوں کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کو بوسہ لیا پھر نماز کے لئے نکلے مگر ( نیا )وضو نہ کیا (أبو داود / ۱۷۹)۔

معلوم ہوا کہ اگر عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور وضوکرتے ۔

تیسری مثال:

غزوہ احزاب کے بعد جب فوراً جبریل علیہ السلام آیا اور کہا ہم نے ابھی تک ہتھیار نہیں چھوڑے لہذا بنی قریظہ چلو، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نکلنے کا حکم دیااور فرمایا: ’’لا یصلینَّ أحدٌ العصر إلا في بني قریظۃ‘ ‘ ان میں سے کچھ نے سمجھا کہ اس کا مطلب جلدی کرنا ہے یہاں تک کہ عصر سے پہلے ہی پہنچ جائیں، راستہ میں عصر کا وقت آگیا ان صحابہ نے راستہ میں ہی عصر نماز پڑھ لی، اور کچھ صحابہ نے سمجھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر گز نماز عصر نہ پڑھیں جب تک نہ بنی قریظہ پہنچیں تو انہوں نے نماز کو اپنے وقت پر ادانہ کیا
(صحیح مسلم /کتاب المساجد/۵۳۴)۔

یہاں پر درست وہ ہیں جنہوں نے نماز اپنے وقت پر ادا کی کیونکہ نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا محکّم نصوص سے ثابت ہے جب کہ مذکورہ بالانص متشابہ ہے کیونکہ اس میں دو معنی پائے جاتے ہیں لہذا محکّم کو متشابہ پر فوقیت حاصل ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
پانچواں سبب: کسی حدیث کے منسوخ ہونے کا علم نہ ہونا:
کبھی حدیث صحیح ہوگی لیکن وہ منسوخ ہوچکی ہوگی اور کسی عالم تک اس کے منسوخ ہونے کی اطلاع نہ پہنچی ہو۔اس کی مثال یوں ہے کہ ابتداء اسلام میں نماز میں (تطبیق) رکوع میں دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھا جاتا تھا پھر یہ منسوخ ہوا اور مشروع یہ ہوا کہ دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں کے اوپر رکھا جائے (بخاری/کتاب الأذان /۷۹۰) ۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس نسخ کے بارے میں علم نہ تھا ، اس کے ساتھ علقمۃ اور الأسود(رضي اللہ عنھما)نے نماز پڑھی اور ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھا لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کو اس سے منع کیا اور تطبیق کاحکم دیا(مسلم/کتاب المساجد/۵۳۴)۔

ایسا اس لئے ہوا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو تطبیق کے منسوخ ہونے کاعلم نہ تھا۔

اس کو ربا الفضل کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إنما الربا فی النسیءۃ ))
[مسلم /کتاب المساقاۃ/۱۵۹۶]۔

ابن عباس کی روایت ہے کہ ربا صرف النسیءۃ میں ہے کیونکہ ’’إنما‘‘ حصر کا معنی دیتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے بغیر کسی اور میں ربا نہیں ہوگا لہذا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک ربا الفصل ممنوع نہیں۔

لیکن حقیقت اس کے بر خلاف ہے:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من زاد أو استزاد فقد أربی)) [مسلم /کتاب المساقاۃ/۱۵۸۸] ۔

علماء کا اجماع ہے کہ ربا کی دو قسمیں ہیں : ربا الفضل اور ربا النسیءۃ ۔

جس حدیث سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے استدلال کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جاہلیت میں جو ربا تھا جس کی تردید اس آیت سے ہوئی (یا أیھا الذین اٰمنوا لا تأکلوا الربا أضعافا مضاعفۃ) [آل عمران /۱۳۰]

اس سے ربا النسیءۃ مراد ہے کیونکہ یہ بہت زیادہ سخت سود تھا اسی کا بیان اس حدیث میں آیا ((إنا الربا النسیءۃ)) یعنی زیادہ سخت سود النسیءۃ ہے ، البتہ رِبا تو دونوں ہی ہیں ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
ساتواں سبب: ضعیف حدیث سے استدلال کرنا:

اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔


آٹھواں سبب: صحیح دلیل سے ضعیف استدلال کرنا :

یعنی کبھی حدیث صحیح ہو لیکن اس سے جو استدلال کیا جاتا ہے وہ ضعیف ہوتا ہے مثال:

حدیث ’’ ذکاۃ الجنین ذکا ۃ أمہ ‘‘(بخاری /۵۴۹۸) کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر مثال کے طور پر گائے ذبح کی جائے تو اس کی پیٹ سے ذبح کے بعد بچہ نکلے جو ذبح کی وجہ سے مرچکا ہوگا اس کو اپنی ماں کے ذبح کی وجہ سے مذبوح مان جائے گا۔

بعض نے اس حدیث کا مطلب یہ بتایا کہ بچہ کو بھی اس طرح ذبح کیا جائے جس طرح اس کی ماں کو ذبح کیا گیا تھا یعنی شہہ رگ وغیرہ کاٹ کر،حالانکہ ایسا استدلال ضعیف ہے حدیث میں ہے ((ما أنھر الدم وذکر اسم اللہ علیہ فکل )) یہ بات معلوم ہے کہ مرنے کے بعد تمام خون کا بہنا ممکن نہیں ہے لہذا بچہ ماں کی پیٹ میں ذبح کی وجہ سے مر چکا ہے پھر اس سے کس طرح خون بہایا جاسکتا ہے۔

( اس مضمون کو تیار کرنے میں میرا مرجع رئیسی علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ’’ الخلاف بین العلماء ‘‘ نامی کتابچہ رہا ہے )
تياركرده سرپرست اعلى مسلم سٹوڈنٹ بورڈ الشيخ هارون رشيد خواجه خريج من كلية التربية بجامعة الملك سعود رياض تخصص / الفقه واصوله

ناشر/ محمد يوسف بٹ طالبعم جامعة الملك سعود رياض الفقه واصوله
 
Top