• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ السیرۃ النبویہ: (( افراد سازی اور نبوی منہج ))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
309
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
فقہ السیرۃ النبویہ: سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تربیتی ، تنظیمی اور سیاسی رہنمائی

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))

افراد سازی اور نبوی منہج

♻ رسالت مآب ﷺ نے صرف دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا نہیں فرمایا بلکہ آپ نے ایسے مثالی افراد تیار کیے جنھوں نے اسلامی ریاست کے قیام میں شاندار خدمات انجام دیں۔ انھوں نے عالم کفر کو للکارا اور دعوت ایمان و عقیدے کو زمین کے کونے کونے تک پہنچایا۔ ایسے فدائیان اسلام اور پاسداران ملت میں سے زیادہ طر کی تربیت عہد مکی کے پرخطر حالات میں ہوئی۔ آنحضرت ﷺ کے اصحاب ذی شان کی کردار سازی اور مثالی تربیت و تعلیم کے کئی ایک اسباب تھے۔


♻ افراد سازی میں سب سے اہم کردار مربی کا ہوتا ہے۔ امام الانبیاء ﷺ اپنے اصحاب کے مربی تھے۔ آپ کے اخلاق و کردار پر سب متفق تھے۔ آپ صدق و وفا کے پیکر تھے۔ جود و سخا آپ کی فطرت ثانیہ تھی۔ دنیا سے بے نیازی اور طلب آخرت میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ آپ کے گرد جمع ہونے والے آپ کے اسی شاندار کردار و گفتار کی وجہ سے آپ کی بات پر فی الفور عمل کرتے۔ آپ کے حکم کی تعمیل میں دنیا و آخرت کی کامرانی ان کا ایمان و عقیدہ تھا۔ آپ کے اشارے پر جان قربان کرنے کو تیار رہتے اور آپ کی رضا کو تمام چیزوں سے بڑھ کر عزیز مانتے۔ آپ مسلمانوں کو جو بھی تعلیم فرماتے اس لیے مثالی اسوہ پیش کرتے اور اپنی ذات گرامی کو ان کے لیے بطور مثال ظاہر فرماتے۔

♻ مربی کے بعد اہم ترین چیز نصاب تربیت ہوتا ہے۔ رہبر انسانیت ﷺ نے اپنے رفقا کی تربیت ربانی ہدایات کے مطابق فرمائی۔ آپ کا نصاب تربیت رب تعالیٰ کا قرآن تھا۔ آپ انھیں قرآن پڑھ کر سناتے اور اپنے قول و عمل سے قرآن کی تفہیم فرماتے۔ آپ قرآن ناطق بھی تھے اور صاحب قرآن بھی۔ آپ کی حیات طیبہ قرآن کی عملی تعبیر و تفسیر تھی۔ آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کا قرآن سے بلا واسطہ مضبوط رشتہ قائم کیا۔ قرآن میں بیان ہونے والے اسلامی عقائد و نظریات ان کے ذہنوں میں راسخ کیے۔ باطل افکار و تصورات کی واشگاف الفاظ میں تردید فرمائی۔ اﷲ تعالیٰ کی قدرت و طاقت، حساب و کتاب، جنت و جہنم، بعثت و نشور اور عقیدہ توحید مکی سورتوں کا بنیادی موضوع ہے اور یہی آ پ کے اصحاب کا نصاب تربیت تھا۔

♻ مقصد حیات بھی افراد سازی میں غیر معمولی کردار کا حامل ہوتا ہے۔ جس قدر مقصد عظیم ہو تا ہے، اسی قدر قائدین اور کارکنان عظیم کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ محسن انسانیت ﷺ نے اپنے جانثاروں کو جس عظیم الشان مقصد کی دعوت دی، وہ حصول جنت اور رضائے الٰہی تھا۔ اسی مقصد کے لیے مشرکین کا ظلم و تشدد برداشت کیا۔ جان و مال کی قربانیاں دیں۔ اخلاق کی بہتری، حقوق و فرائض کی ادائیگی، حلال و حرام کی تمیز، اﷲ عزوجل کی عبادت و بندگی اور عمدہ آداب و کردار کی پاسداری، ان تمام امور کی بجا آوری کا مقصد رب کی رضا اور حصول جنت ہی ہوتا ہے۔

♻ یہی بندئہ مومن کا مقصد حیات ہے۔ انفرادی و اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات کی اتباع۔ معاشرتی، معاشی اور سیاسی امور میں الٰہی ہدایات کی پاسداری اسی وقت ہو پاتی ہے، جب انسان اپنے مقصد تخلیق و حیات سے نہ صرف واقف ہو ، بلکہ اس پر ایمانِ کامل ہو۔ اسلامی ریاست کے قیام کا بنیادی مقصد بھی انسانیت کو ایسا ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے ، جس میں وہ رب تعالیٰ کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرکے اپنے پروردگار کی رحمت و جنت کا حقدار قرار پا سکیں۔ اس مقصد کے تحت عہد نبوی کے لوگوں کی افراد سازی ہوئی۔ وہ اخلاق و کردار میں بھی مثالی تھے اور رب تعالیٰ کی جنت کے حقدار بھی قرار پائے۔

♻ عصر حاضر میں امت مسلمہ کی زبوں حالی کی بڑی وجہ افراد سازی کا فقدان بھی ہے۔ اس حوالے سے کئی طرح کی کوتاہیاں جنم لے چکی ہیں۔ ایسے مربی اور رہبر و رہنما بہت کم ہیں ، جو مثالی اخلاق و آداب کے حامل ہوں۔ جن کی عملی زندگی دیگر کے لیے نمونہ اور مثال ہو۔ اسی طرح نصاب تعلیم و تربیت میں بھی کئی طرح کے نقائص در آئے ہیں۔ قران سے تعلق کمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ایمان و عقیدے اور دینی علوم کے بجائے دنیوی علوم و فنون توجہ کا مرکز قرار پا رہے ہیں۔ مقصد حیات میں بھی امت مسلمہ زوال پذیر ہے۔ حقیقی مقصد سے مسلمان دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اخروی نجات و کامیابی سے زیادہ دنیوی ترقی مطلوب و مقصود بنتی جا رہی ہے۔ اسلامی ممالک میں بھی مغربی افکار و نظریات اور تہذیب و تمدن رواج پانے لگے ہیں۔

♻ عہد مکی کے منہج افراد سازی کو اپنا کر باطل نظاموں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ نبوی نظام تعلیم و تربیت کے بغیر نہ تو امت کسمپرسی کی حالت سے چھٹکارا پا سکتی ہے اور نہ ہی باکردار اور غیرت مند قیادت نصیب ہو سکتی ہے۔عہد مکی اسلام کا بہت اہم دور ہے۔ اسی میں مسلمانوں کو انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بننا پڑا۔ خود رحمت دو جہاں ﷺ کو مخالفین نے روحانی و جسمانی اذیت سے دو چار کیا۔ ایمان و عقیدے کی دعوت و حفاظت اور مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کے لے آپ نے مثالی حکمت عملی اختیار کی۔ تیرہ سالہ جہد مسلسل کے بعد مدینہ کی سر زمین کی طرف آپ نے ہجرت فرمائی۔ آپ کے جانثار بھی سب کچھ چھوڑ کر وہاں قیام پذیر ہوئے۔ اس کے بعد اسلام کے سنہرے دور کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں کو اذن جہاد ہوا۔ اس کے نتیجے میں کفر و شر کی قوت پاش پاش ہوئی اور اسلام کی اولین مثالی ریاست قائم ہوئی۔

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top