- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
فن تعمیر کی شرعی حیثیت
تعمیر میں اصل اباحت ہے کہ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ عزوجل نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو سکونت کی جگہ بنایا اور ا س نے تمہارے لیے چوپایوں کی کھالوں سے گھر بنائے کہ جنہیں تمام سفر اور قیام میں ہلکا پھلکا پاتے ہو۔ [النحل] لیکن فن تعمیر اپنے عرفی معنی میں، تو دین اسلام میں یہ اصلا ممنوع ہے کہ جس دین کا مزاج یہ ہو کہ ضرورت سے زائد بستر بنانے کو ناپسند جانا گیا ہو وہاں ضرورت سے زائد عمارت بنانا کیسے پسندیدہ ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک بستر تمہارے لیے، ایک تمہاری بیوی کے لیے، تیسرا مہمان کے لیے، اور چوتھا شیطان کے لیے ہے۔ [صحیح مسلم]
اُس دین میں تاج محل یا اہرام مصر بنانے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے کہ جس دین کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہو کہ ہر عمارت اس کے بنانے والے پر وبال ہے، سوائے اس عمارت کے کہ جس کے بنائے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔ [سنن ابو داود] اور اللہ کی کتاب میں اس کی مذمت قوم عاد کے جرائم کی فہرست بیان کرتے ہوئے یوں کی گئی ہے: اتبنون بکل ریع آیۃ تعبثون۔ کہ تم ہر اونچے ٹیلے پر ایک یادگار عمارت تعمیر کرتے ہوئے بے کار کام کرتے ہو۔ [الشعراء] اور خود ازواج مطہرات کے حجرات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گھر اس کے شاہد ہیں کہ مومن ایک مسافر کی طرح گھر بناتا ہے نہ کہ بادشاہوں کی طرح محلات۔
حدیث جبرئیل علیہ السلام میں قیامت کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی کے طور اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ چرواہے [یعنی اہل دوبئی] بڑِی بڑی عمارتیں تعمیر کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے۔ [صحیح بخاری] پس ہر وہ عمارت کہ جو ضرورت سے زائد ہو اوراسراف اور فضول خرچی ہو یا ہر وہ عمارت کہ جس کا مقصد فخر اور ریا ہو، اس کا بنانا اصلا ممنوع ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ انسان کو اس کے ہر قسم کے خرچ کا ثواب ملے گا سوائے اس خرچ کے کہ جو اس نے مٹی میں لگا دیا یعنی عمارت بنانے میں۔ [سنن الترمذی] اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر عمارت بنانے سے منع فرمایا۔ [صحیح مسلم]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دن باہر نکلے تو آپ نے ایک بلند گنبد دیکھا۔ آپ نے فرمایا کہ اس قسم کی ہر عمارت قیامت والے دن اس کے بنانے والے پر وبال ہو گی۔ یہ بات ان انصاری صحابی تک پہنچی کہ جنہوں نے وہ گنبد بنایا تھا تو انہوں نے اسے گرا دیا۔ کچھ دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوبارہ اس رستے سے گزر ہوا تو وہاں وہ گنبد موجود نہ تھا تو آپ نے صحابہ سے پوچھا تو صحابہ نے سارا قصہ بیان کر دیا۔ آپ نے یہ سن کر ان صحابی کو دعا دی کہ اللہ ان پر رحم فرمائے، اللہ ان پر رحم فرمائے۔۔۔۔ [سنن ابن ماجہ]
بشکریہ محترم شیخ @ابوالحسن علوی