السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، وَابْنُ حُجْرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ هُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے) : صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے
صحيح مسلم: كِتَابُ الْوَصِيَّةِ (بَابُ مَا يَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِهِ)
صحیح مسلم: کتاب: وصیت کے احکام ومسائل (باب: انسان کو اس کی وفات کے بعد جو ثواب پہنچتا ہے)
عمل کا منقطع ہونا عام حکم ہے اس حکم میں وہی تخصیص ہے جس کا حکم وحی سے ثابت ہو، یعنی قرآن وحدیث سے
وفات کے بعد میت کے لئے صدقہ کرنا احادیث سے ثابت ہے، اسی طرح میت کے ذمہ کو روزے ہوں ان کا ادا کرنا بھی ثابت ہے!
مزید اس فتوی کو ملاحظہ فرمائیں:
سوال: کیا یہ میرے لئے جائز ہے کہ میں 100 بار سبحان اللہ ، یا کوئی اور ورد کرنے کے بعد یہ دعا کروں کہ اسکا ثواب میرے والدین کو ملے؟ واضح رہے کہ میرے والد صاحب فوت ہوچکے ہیں، جبکہ میری والدہ ابھی زندہ ہیں۔
Published Date: 2014-10-23
الحمد للہ:
علمائے کرام کے فوت شدگان کو ایصال ثواب کے بارے میں دو اقوال ہیں:
1- جو بھی نیک عمل میت کیلئے ہدیہ کیا جائے تو وہ میت کو پہنچ جاتا ہے، اس میں تلاوت قرآن، روزہ، نماز، وغیرہ دیگر عبادات شامل ہیں۔
2- میت تک کسی بھی نیک عمل کا ثواب نہیں پہنچتا، صرف انہی اعمال کا ثواب پہنچ سکتا ہے، جن کے بارے میں دلیل موجود ہے، یہی موقف راجح ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
( وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى ) اور انسان کیلئے وہی ہے جس کیلئے اس نے خود جد و جہد کی۔[النجم:39]
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب انسان مر جائے تو اسکے تین اعمال کے علاوہ سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں: صدقہ جاریہ، علم جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، یا نیک اولاد جو اسکے لئے دعا کرتی ہو) مسلم: (1631)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپکے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ، آپکی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا، اور آپکی تین بیٹیاں رضی اللہ عنہن فوت ہوئیں، لیکن یہ کہیں بھی وارد نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کی طرف سے قرآن پڑھا ہو، یا خاص انکی طرف سے قربانی ، روزہ، یا نماز پڑھی ہو، ایسے ہی صحابہ کرام کی طرف سے بھی کوئی ایسا عمل منقول نہیں ہے، اور اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ کرام ہم سے پہلے یہ کام کر چکے ہوتے۔
اور جن اعمال کے بارے میں میت تک ثواب پہنچنے کا استثناء دلائل میں موجود ہے ان میں حج، عمرہ، واجب روزہ، صدقہ، اور دعا شامل ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرمان باری تعالی:
( وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"اسی آیت سے امام شافعی اور انکے موقف کی تائید کرنے والوں نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ فوت شدگان تک تلاوت قرآن کا ثواب نہیں پہنچتا؛ کیونکہ تلاوت انہوں نے خود نہیں کی، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کام کیلئے ترغیب نہیں دلائی، اور نہ انکے کیلئے اسے اچھا قرار دیا، اور نہ ہی اس کام کیلئے واضح یا اشارۃً لفظوں میں رہنمائی فرمائی ، آپ کے کسی صحابی سے بھی ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے، اگر یہ کام خیر کا ہوتا تو وہ ہم سے پہلے کر گزرتے۔
عبادات کے معاملے میں شرعی نصوص کی پابندی کی جاتی ہے، اسی لئے عبادات کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی، جبکہ دعا اور صدقہ کے بارے میں یہ ہے کہ یہ میت کو پہنچ جاتا ہے، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح لفظوں میں بیان کیا ہے"
( تفسير ابن كثير: 4/ 258 )
اور اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ تمام نیک اعمال کا ثواب میت کو پہنچ جاتا ہے تو میت کیلئے مفید ترین عبادت "دعا" ہے، تو ہم ایسے اعمال جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی ہے، انہیں چھوڑ کر ایسے اعمال کے پیچھے کیوں جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کئے، آپکے کسی صحابی نے نہیں کئے!؟ حالانکہ ہر قسم کی خیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے صحابہ کرام کے راستے پر چلنے میں ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے تلاوتِ قران، اور صدقہ کا ثواب زندہ یا فوت شدہ ماں کو ہدیہ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
"تلاوت قرآن کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، کہ تلاوت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں دو قول ہیں، راجح یہی ہے کہ تلاوت کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا، کیونکہ اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے؛ ہمارے علم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ میں سے آپکی زندگی میں فوت ہونے والی بیٹیوں کی طرف سے ایسا نہیں کیا، اور نہ ہی صحابہ کرام نے ایسا کیا، اس لئے بہتر یہ ہے کہ مؤمن ان امور میں مشغول نہ ہو، اور زندہ ہوں یا فوت شدہ کسی کیلئے تلاوت ، اور نماز مت پڑھے، ایسے ہی انکی طرف سے نفل روزے مت رکھے؛ کیونکہ ان تمام امور کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
اور عبادات کے بارے میں اصول یہ ہے کہ جو اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے ثابت ہوچکا ہے اسی پر عمل کیا جائے وگرنہ توقف اختیار کریں۔
جبکہ صدقہ کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس سے زندہ ہوں یا مردہ سب کو فائدہ ہوتا ہے، اسی طرح دعا سے بھی ، مسلمانوں کا اس پر بھی اجماع ہے، زندہ کے بارے میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ وہ صدقہ سے مستفید ہوگاچاہے وہ اپنی طرف سے کرے یا کسی کی طرف سے، اسی طرح دعا کرنے سے بھی فائدہ ہوگا، چنانچہ جو شخص اپنے والدین کیلئے انکی زندگی میں دعا کرے تو دعا سے اسکے والدین کو فائدہ ہوگا، اسی طرح انکی طرف سے انکی زندگی میں صدقہ کرنا بھی مفید ہوگا، اسی طرح اگر والدین نہایت بوڑھے ہوچکے ہیں، یا اتنے بیمار ہیں کہ انکی شفایابی کی امید نہیں ہے، تو ایسی صورت میں انکی طرف سے حج کرنا بھی انکے لئے مفید ہوگا، کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے: ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: "فریضہ حج میرے والد پر انتہائی بڑھاپے کی حالت میں فرض ہوچکا ہے، لیکن وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے، تو کیا میں انکی طرف سے حج کر لو؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انکی طرف سے تم حج کرو) ، ایک اور واقعے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھا ہے، حج نہیں کرسکتا ، اور نہ سفر کی مشقت برداشت کر سکتا ہے، تو کیا میں انکی طرف سے حج اور عمرہ کر سکتا ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو)، اس سے پتہ چلتا ہے کہ فوت شدگان، یا انتہائی بوڑھے عاجز افراد کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔
چنانچہ صدقہ ،دعا، میت کی طرف سے حج یا عمرہ، اور اسی طرح میت کے ذمہ واجب روزے بھی رکھے جاسکتے ہیں چاہے یہ واجب روزے نذر، کفارہ ، یا رمضان کے روزے ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عام ہے: (جو شخص مر گیا اور اس کے ذمہ واجب روزے تھے اسکی طرف سے اسکا ولی روزے رکھے گا)اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔ اس معنی اور مفہوم کی دیگر احادیث بھی موجود ہیں۔
لیکن جس شخص نے رمضان کے روزے سفر، یابیماری کی وجہ سے چھوڑے، اور وہ انکی قضا دینے سے پہلے ہی فوت ہوگیا تو اسکی طرف سے قضائی نہیں دی جائے گی، اور نہ ہی کھانا کھلایا جائے گا؛ کیونکہ وہ معذور ہے"انتہی
"مجموع فتاوى ومقالات شيح ابن باز" (4/348)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا کوئی آدمی مالی صدقہ کرتے ہوئے کسی دوسرے کو اجر میں شریک بنا سکتا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"یہ جائز ہے کہ ایک شخص مالی صدقہ اپنے والد، ماں، بھائی یا کسی بھی مسلمان کی طرف سے نیت کرتے ہوئے کرے، کیونکہ [اللہ کے ہاں]اجر بہت زیادہ ہے، چنانچہ صرف اللہ کیلئے پاک مال سے دئے جانے والے صدقہ کا اجر بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ )
ترجمہ: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے لوگوں کی مثال اس بیج کی طرح ہے جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں، اور ہر بالی میں 100، 100 دانے ہوتے ہیں، اور اللہ تعالی جسے چاہتا ہے بڑھا چڑھا کر نوازتا ہے، اور اللہ تعالی وسعت والا، اور جاننے والا ہے۔ [البقرة:261]
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک بکری کو اپنی اور اپنے تمام اہل خانہ کی طرف سے عید پر قربان کیا کرتے تھے"
"فتاوى شيخ ابن عثيمين" (18/249)
مندرجہ بالا وضاحت کے بعد یہ عیاں ہوگیا ہے کہ آپکی طرف سے والدین کو ذکر کا ثواب ہدیہ کرنا راجح موقف کے مطابق درست نہیں ہے، چاہے آپکے والدین زندہ ہوں یا وفات پا گئے ہوں، آپکے لئے نصیحت یہ ہے کہ آپ انکے لئے کثرت سے دعا کریں، صدقہ کریں، کیونکہ خیر و بھلائی تو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے صحابہ کی اتباع ہی میں ہے۔
واللہ اعلم .