• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فورم کے شرکاء سے ایک سوال

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
حدیث نمبر: 965 --- حکم البانی: صحيح ، الروض النضير ( 819 ) ... ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” مومن کو کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے ، یا اس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند اور اس کے بدلے اس کا ایک گناہ معاف کر دیتا ہے “ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- عائشہ ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- اس باب میں سعد بن ابی وقاص ، ابوعبیدہ بن جراح ، ابوہریرہ ، ابوامامہ ، ابو سعید خدری ، انس ، عبداللہ بن عمرو بن العاص ، اسد بن کرز ، جابر بن عبداللہ ، عبدالرحمٰن بن ازہر اور ابوموسیٰ اشعری ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں ۔ ... (ص/ح)

محترم شرکاء محدث فورم
السلام علیکم

میرا اس فورم کے شرکاء سے یہ سوال ہے کہ اس حدیث کے مطابق ہمیں پہنچی والی کوئی بھی تکلیف ہمارے اعمال کے تحت پہنچتی ہے یا ہمارے درجات میں بلند ی کا سبب بنتی ہے۔
اس ضمن میں میرے کچھ سوال ہیں۔
1-بچوں کو پہنچی والی تکالیف کس زمرے میں آئیں گی کیوں کہ وہ تو معصوم ہوتے ہیں۔
2-کیا ہمارے نامہ اعمال سے وہ گناہ حذف کر دئیے جائیں گے۔
3-قران کی ایک آیت جس کا حوالہ مجھے نہیں مل سکا اس آیت کا مفہوم اس طرح ہے "کہ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ تمہیں جو تکلیف پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے اعمال کے سبب پہنچتی ہے " ۔ ہمیشہ سے یہی سنا ہے کہ یہ دنیا دارالعمل ہے تو پھر عمل پر سزا یا تکلیف کیوں جب اس کے لئے ایک دن معین کر دیا گیا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی تکلیفیں ہمیں پہنچ رہی ہیں وہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ پھر انبیاء اکرام اور ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی والی تکلیفوں کی کیا وضاحت ہوگی۔
4- ایک بات یہ بھی اکثر سنی ہے کہ جو بھی تکلیف پہنچتی ہے وہ یا تو آزمائش ہوتی ہے یا گناہوں کی سزا کیا بات درست ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
كيا بيمارى، يا كوئى حادثہ وغيرہ كي بنا پر جو تكليف بھي آتى ہے بندى كو اس كا اجروثواب حاصل ہوتا ہے؟

جادو اور نظر بد اللہ تعالى كي طرف سے ابتلاء اور آزمائش ہے، تو كيا جب بندے كواس ميں سے كوئي ايك كا سامنا كرنا پڑے تو اسے اجر حاص ہوتا ہے؟

اور كيا بيمارى ياا حادثہ وغيرہ كي بنا پر جو بھي تكليف آتي ہے اس پر بندے كو اجر حاصل ہوتا ہے يا اسلام نے كوئي ايسے امور بيان كئے ہيں جن پر عمل كرنے سے يہ اجر حاصل ہوگا ؟


Published Date: 2010-11-21

الحمد للہ :

سوال نمبر ( 10936 ) كے جواب ميں شيخ محمد صالح ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كا فتوى گزر چكا ہے، اور اس ميں يہ بيان كيا گيا ہے كہ جن مصائب اور تكليفوں پر مسلمان كو اجروثواب حاصل ہوتا ہے وہ ہيں جن پر وہ صبر و تحمل كا مظاہرہ كرے اور اس پر اللہ تعالى سے اجروثواب كےحصول كي نيت ركھے تو اسے اجر حاصل ہوتا ہے.

اس ميں كوئي شك نہيں كہ نظر بد اور جادو مسلمان شخص كو پہنچنے والى مصيبتوں ميں سب سے بڑى مصيبت ہے، اور اس ميں مبتلا ہونے والے كي عقل اور دل وجان اور اعضاء پر اس كا بہت بڑا اثر ہوتا ہے، لھذا اگر وہ اس پر صبر كرتا ہے تو اللہ تعالى كي جانب سے اسے اجروثواب حاصل ہوگا.

ابن عباس رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كے ايك سياہ رنگ كي عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور كہنے لگى:

مجھ پر دورہ پڑتا اور ميں بے لباس ہو جاتى ہوں لھذا آپ اللہ تعالى سے ميرے لئے دعا كريں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر تم چاہو تو صبر كرو تو تجھے جنت ملے گي، اور اگر چاہو تو ميں اللہ تعالى سے دعا كرديتا ہوں كہ وہ تجھے اس سے عافيت دے"

تو وہ عورت كہنے لگي: ميں صبر كرتى ہوں، وہ كہنےلگى ميں بے لباس ہو جاتى ہوں لھذا آپ ميرے لئے اللہ تعالى سے دعا كريں كہ ميں بے لباس نہ ہوا كروں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے لئے دعا فرمائي.

صحيح بخاري حديث نمبر ( 5652 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2576 ) .


انسان كو اس كي جان اور مال يا اس كے خاندان ميں جو بھي مصيبت اور تكليف آتى ہے وہ خالصتا شر نہيں، بلكہ اس كي بنا پر بعض اوقات بندے كو بہت زيادہ خير اور بھلائى حاصل ہوتى ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنى كتاب قرآن مجيد ميں ايسا علاج ذكر كيا ہے جس سے نفس كي تكليفوں ميں تخفيف ہو جاتى اور اور اس پر جو اجر حاصل ہوتا ہے اس كا بھي ذكر كيا ہے، اور وہ علاج اس مصيبت اور تكليف پر صبر كرنا اور انا للہ وانا اليہ راجعون كہنا، اور يہ اللہ تعالى كا وعدہ ہے جو اس نے پورا كرنا ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا:

{اور صبر كرنے والوں كو خوشخبري دے دو، وہ لوگ كہ جب انہيں كوئى مصيبت پہنچتى ہے تو وہ يہى كہتے ہيں كہ بلاشبہ ہم اللہ تعالى كے لئے ہي ہيں اور يقينا ہم اس كي جانب ہي لوٹنے والے ہيں، انہى لوگوں پر اللہ تعالى كي نوازشيں اور رحمتيں ہيں، اور يہى لوگ ہدايت يافتہ ہيں} البقرۃ ( 155-157 ) .

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يہ كلمہ مصيبت زدہ كے لئے سب سے زيادہ جلدي يا بدير پہنچا ہوا علاج ہے، كيونكہ يہ دو عظيم اصولوں پر مشتمل ہے جب بندے ميں يہ دونوں اصول پائے جائيں اور ان دونوں اصولوں كي معرفت حاصل كر لے تو اس كي مصيبت ہلكى ہو جاتى ہے:

پہلا اصول:

كہ بندہ اور اس كا مال و دولت يہ سب كچھ حقيقتا اللہ تعالى كي ملكيت ہيں، اور بندے كو يہ سب كچھ عاريتا اور عارضي ملي ہيں، لھذا جب اللہ تعالى اس سے يہ اشياء لے ليتا ہے كہ وہ اس شخص كي طرح ہے جس كے پاس كوئي چيز عاريتا ركھ گئى ہو اور عاريت ركھنے والا شخص اس سے وہ چيز واپس لے لے.

دوسرا اصول:

بندے كا مرجع اور اس كا اصل ٹھكانہ اس كے حقيقى مولا و آقا كي جانب ہي بالآخر اس نے اللہ تعالى كي جانب واپس جانا ہے، اور يہ ضرورى چيز ہے كہ وہ اس فانى دنيا كو اپنے پيچھے چھوڑ دے اور اپنے رب كے پاس اسى طرح اكيلا جائے جس اسے پيدا كيا تھا نہ تو اس كا كوئي اہل اولاد تھي اور نہ مال ودولت اور كنبہ قبيلہ، اور نہ ہي كوئي نيكياں اور برائي، لھذا جب بندے كي ابتدا بھي يہ ہے اور اس كي انتھاء بھي: تو پھر وہ موجودہ پر كس طرح خوش ہوتا اور كسي مفقود اور چھن جانے والى چيز كا افسوس كس طرح كرتا ہے؟ اور اس بيماري كا سب سے بڑا علاج اس ابتداء اور اس كے حشر و نشر كي فكر اور سوچ ہے.

ديكھيں: زاد المعاد ( 4 / 189 ) اختصار كےساتھ ذكر كيا گيا ہے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تنگى اور تكاليف و مصائب پر صبر تو صرف مومن شخص ہي كرتا ہے اس كےعلاوہ كوئي نہيں .

صہيب رومى رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مومن كا معاملہ بہت ہي عجيب ہے كہ اس كے اس كا سارے معاملات ميں ہي خير وبھلائي ہے، اورمومن كےعلاوہ يہ كسي اور كے لئے نہيں، اگر اسے آسانى اور خوشى حاص ہوتى ہے تو وہ اللہ كا شكر كرتا ہے اسے اس كا اجر ملتا ہے، اور اگر اسے كوئي تنگي اور مصيبت پہنچتى ہے تواس پر وہ صبر كرتا ہے تو اسے پھر بھي اجروثواب حاصل ہوتا ہے، لھذا مسلمان كے لئے اللہ تعالى كے ہر فيصلے ميں خيرو بھلائي ہے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2999 ) .


مصائب اور تنگياں يقينا اللہ تعالى كي طرف سے بندے كي آزمائش اورامتحان ہے، اور اللہ تعالى كي جانب سے اس كے ساتھ محبت كي علامت ہے؛ جبكہ يہ ايك دوائي كي مانند ہے اگر چہ وہ دوائي كڑوي ہے، ليكن يہ دوائي آپ كڑوي ہونے كےباوجود اسے دينگے جس سے تمہيں محبت ہے - اور اچھي اچھي مثاليں اللہ تعالى كے لئے ہيں - لھذا حديث ميں ہے كہ:

" عظيم بدلہ امتحان اور آزمائش بڑي ہونے كے اعتبار سے ملتا ہے، اور بلا شبہ اللہ تعالى جب كسى قوم سے محبت كرنے لگتا ہے تو انہيں آزمائش ميں مبتلا كرتا ہے، لھذا جواس پر راضى ہو جائے اسے رضامندى اور خو شنودى حاصل ہو جاتى ہے، اور جو ناراض ہو اسے ناراضگي ملتى ہے"

جامع ترمذى حديث نمبر ( 2396 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 4031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح قرار ديا ہے.


لھذا كسي بھي مسلمان كےلائق اور اس كےشايان شان نہيں كہ وہ اللہ تعالى كي جانب سے مقدر كردا آزمائش كو ناپسند كرتا پھرے،

حسن بصري رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

پہنچنے والى مصيبتوں اور تكليفوں اور حادثات كو ناپسند نہ كرو، ہو سكتا ہے جسے تم ناپسند كرتے ہو اس ميں تمہارى نجات اور كاميابى ہو، اور ہو سكتا ہے جس معاملے كو تم ترجيح ديتے ہو اس ميں تمہارى ہلاكت ہو.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

https://islamqa.info/ur/34604
 
Last edited:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آزمایش سے دوچار ہونا ہر کلمہ گو کا مقدر ہے ۔۔۔ ا حسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا و ھم لا یفتنون الخ
کبھی گناہوں کے پاداش
تو کبھی اللہ تعالی نے مسلمان کو اس کا مقدر عطا کرنا ہوتا ہے
تو کبھی کھوٹ ختم کرنا مقصود ہوتی ہے
تو کبھی خیر کی عطا کی سبب بنتی ہے
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

تقدیر اور قضا پر ایمان :

http://forum.mohaddis.com/threads/تقدیر-اور-قضا-پر-ایمان.28316/
محترم

میرا سوال تقدیر کے متعلق نہیں تھا۔ بلکہ یہ تھا جب دنیا دارلجزا نہیں تو یہاں گناہ پر تکلیف کیوں۔ اسی کے ساتھ ایک اور سوال شامل کر رہاہوں۔
روز محشر ایک شخص کا ذکر ہے جو اپنی ایک نیکی کسی دوسرے شخص کو دے گا جس کو جنت میں جانے کے لئے صرف ایک نیکی کی ضرورت ہوگی اور اللہ تعالی اس کے اس عمل سے خوش ہوکر نیکی دینے والے شخص کو بھی جنت میں بھیج دیں گے۔ یہاں پھر یہی سوال ہے کہ مرنے کے بعد اعمال نامہ بند پھر کسی نیکی یا بدی کا کیا سوال؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
میرا سوال تقدیر کے متعلق نہیں تھا۔ بلکہ یہ تھا جب دنیا دارلجزا نہیں تو یہاں گناہ پر تکلیف کیوں۔ اسی کے ساتھ ایک اور سوال شامل کر رہاہوں۔
دار الجزاء نہیں ہے یعنی یہاں سب کے اعمال کا بدلہ نہیں دیا جاۓ گا. لیکن آخرت میں سب کا بدلہ دیا جاۓ گا. اسی لۓ دارلجزاء قرار دیا ہے.
روز محشر ایک شخص کا ذکر ہے جو اپنی ایک نیکی کسی دوسرے شخص کو دے گا جس کو جنت میں جانے کے لئے صرف ایک نیکی کی ضرورت ہوگی اور اللہ تعالی اس کے اس عمل سے خوش ہوکر نیکی دینے والے شخص کو بھی جنت میں بھیج دیں گے۔ یہاں پھر یہی سوال ہے کہ مرنے کے بعد اعمال نامہ بند پھر کسی نیکی یا بدی کا کیا سوال؟
یہ سوال سمجھ میں نہیں آیا. شاید پوری حدیث پڑھنے پر کچھ معلوم ہو. یا اسکے طرق دیکھنے پر کسی طریق میں کوئی بات ہو
 
Top