• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فیس بوک پہ لڑکی کے نام سے ID چلانا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
سوشل میڈیا اس وقت بہت ترقی کر گیا ہے، بایں سبب اکثروبیشتر مرد و خاتوں اس سے جڑے ہوئے ہیں. اس میڈیا نے جہاں کچه اچهے اثرات چهوڑے وہیں اس کے منفی اثرات بهی سماج پہ بہت مرتب ہوئے.

سوشل میڈیا میں فیس بوک کافی مقبول خاص و عام ہے ، اس سے ہر ایرا غیرا جڑ گیا ہے جس کی وجہ سے خصوصا خواتیں کو بہت دقت کا سامنا ہے .

فیس بوک پہ موجود بدقماشوں نے خواتین سے اس لئے رابطہ بنایا کہ ان سے لذت اندوز ہوا جائے.

اس خطرہ کے علاوہ فیس بوک پہ ایک خطرناک پہلو لڑکوں کا لڑکی کے نام سے آئی چلانا ہے.

اس پہ کئی پہلو سے بات کروں گا.

(1) لڑکی کے نام سے آئی ڈی چلانے کی وجہ؟
اس کے چند وجوہات ہیں.
▪ مرکزی وجہ لڑکیوں اور فحش اشیاء سے لطف اندوز ہونا ہے.
▪ایک وجہ اپنی پوسٹ پہ زیادہ سے زیادہ تعریف،کمنٹ اور لائک جمع کرناہے.
▪چونکہ لڑکی کی آئی ڈی کو فیس بوک لوگ کافی اہمیت دیتے ہیں، بنابریں کچه لوگ خاص ہدف کے لئے لڑکی کا نام استعمال کرتے ہیں یہاں تک کہ دین کا کام بهی کرتے ہیں.
▪اور کچه لوگ اپنے رشتے دار خواتین کے نام سے آئی ڈی چلاتے ہیں مثلا شوہر بیوی کے نام سے، عاشق معشوقہ کے نام سے وغیرہ.

(2) مثبت یا منفی اثرات:
اس طرح کی آئی ڈی سے مجهے کوئی مثبت اثر تو نظر نہیں آتا مگر منفی اثرات نے ہزاروں لڑکی کی زندگی تباہ و برباد کرڈالے. چند مثالیں.
▪کسی لڑکی سے گہری دوستی کرکے برہنہ تصویر کا مطالبہ
▪ کهلم کهلا بات چیت
▪پیار اور شادی کا جهانسہ دیکر عزت سے کهلواڑ
▪یہاں تک کہ قتل غیر فطری موت یعنی خود کشی تک معاملہ پہنچ گیا.

(3) شرعی موقف:
اسلامی اعتبار سے کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ایک لڑکا کسی لڑکی کے نام سے آئی ڈی بنائے کیونکہ اس میں کئی ایسی باتیں ہیں جو شرعا ممنوع ہیں.
▪دوسروں کے نام کا غلط استعمال
▪وجوہات سے واضح ہے کہ اس کی اصل وجہ لڑکیوں سے لطف اندوز ہونا ہے جو کہ حرام ہے.
▪یہ مکمل فراڈ ، دهوکہ اور جهوٹ کا پلندہ ہے.
▪اگر کسی نے مجبوری ، خاص مقصد یا دینی غرض کے تحت بهی ایسا کیا تو یہ ناجائز ہے.
یعنی اس کے جواز کی کوئی صورت نہیں ہے.

(4) حرف آخر:
جنہوں نے بهی اس قسم کی آئی ڈی بنائی ہے وہ فورا اپنی آئی ڈی ڈیلیٹ کرے اور اپنے سابقہ گناہوں سے اللہ تعالی سے معافی مانگے ، اگر کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو اس سے معافی طلب کرے.
اور خصوصا میری نصیحت ہے خواتین حضرات کے لئے کہ ایسے پرفتن دور میں آپ کا فیس بوک سے الگ رہنا ہی بہترہے، پهر بهی اگر آپ فیس بوک استعمال کرتی ہیں تو احتیاطی تدابیر اپنائیں.
▪انجان کو دوست نہ بنائیں
▪اپنی تصویر کبهی بهی اپ لوڈ نہ کریں،پروفائل میں بهی نہیں.
▪بلکہ اپنے گهر والوں کی بهی تصویر سے گریز کریں.
▪کسی اجنبی سے چیٹ یا انجان کال پہ بات نہ کریں.
▪شرعی حدود میں رہ کر ہی فیس بوک کا استعمال کریں.
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
▪اگر کسی نے مجبوری ، خاص مقصد یا دینی غرض کے تحت بهی ایسا کیا تو یہ ناجائز ہے.
یعنی اس کے جواز کی کوئی صورت نہیں ہے.
اگر گستاخ رسول صلی علیہ وسلم ملحد کی ذاتی معلومات اس ے ذریعے اکٹھی کرنی مقصود ہو تاکہ ان کی گستاخی کو بند کروایا جاسکے ۔اس صورت میں یہ جائز ہے یا نہیں
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
اگر گستاخ رسول صلی علیہ وسلم ملحد کی ذاتی معلومات اس ے ذریعے اکٹھی کرنی مقصود ہو تاکہ ان کی گستاخی کو بند کروایا جاسکے ۔اس صورت میں یہ جائز ہے یا نہیں
اسلام نے دھوکہ دے کر کسی قسم کا کام کرنے سے منع کیا ہے ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اسلام نے دھوکہ دے کر کسی قسم کا کام کرنے سے منع کیا ہے ۔
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:
" جنگ دھوكہ ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3029 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 58 )
اسماء بنت يزيد رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين جگہوں كے علاوہ كہيں جھوٹ بولنا حلال نہيں: خاوند اپنى بيوى كو راضى كرنے كے ليے بات كرے، اور جنگ ميں جھوٹ، اور لوگوں ميں صلح كرانے كے ليے جھوٹ بولنا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1939 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4921 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

صحیح بخاری: کتاب: جہاد کا بیان (باب : جنگ میں جھوٹ بولنا (مصلحت کیلئے) درست ہے)
3031 . حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ، فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ»، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ: أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا - يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَدْ عَنَّانَا وَسَأَلَنَا الصَّدَقَةَ، قَالَ: وَأَيْضًا، وَاللَّهِ لَتَمَلُّنَّهُ، قَالَ: فَإِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاهُ فَنَكْرَهُ أَنْ نَدَعَهُ، حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى مَا يَصِيرُ أَمْرُهُ، قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ يُكَلِّمُهُ حَتَّى اسْتَمْكَنَ مِنْهُ فَقَتَلَهُ
حکم : صحیح
3031 . ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا ؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت اذیتیں پہنچا چکا ہے ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسو ل اللہ ! کیا آپ مجھے اجازت بخش دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر محمد بن مسلمہ کعب یہودی کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں تھکا دیا‘ اور ہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ مانگتے ہیں ۔ کعب نے کہا کہ قسم اللہ کی ! ابھی کیا ہے ابھی اور مصیبت میں پڑو گے ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ ہم نے ان کی پیروی کر لی ہے ۔ اس لئے اس وقت تک اس کا ساتھ چھوڑنا ہم مناسب بھی نہیں سمجھتے جب تک ان کی دعوت کا کوئی انجام ہمارے سامنے نہ آ جائے ۔ غرض محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس سے اسی طرح باتیں کرتے رہے ۔ آخر موقع پا کر اسے قتل کردیا ۔
 
Last edited:

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:
" جنگ دھوكہ ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3029 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 58 )
اسماء بنت يزيد رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين جگہوں كے علاوہ كہيں جھوٹ بولنا حلال نہيں: خاوند اپنى بيوى كو راضى كرنے كے ليے بات كرے، اور جنگ ميں جھوٹ، اور لوگوں ميں صلح كرانے كے ليے جھوٹ بولنا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1939 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4921 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

صحیح بخاری: کتاب: جہاد کا بیان (باب : جنگ میں جھوٹ بولنا (مصلحت کیلئے) درست ہے)
3031 . حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ، فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ»، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ: أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا - يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَدْ عَنَّانَا وَسَأَلَنَا الصَّدَقَةَ، قَالَ: وَأَيْضًا، وَاللَّهِ لَتَمَلُّنَّهُ، قَالَ: فَإِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاهُ فَنَكْرَهُ أَنْ نَدَعَهُ، حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى مَا يَصِيرُ أَمْرُهُ، قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ يُكَلِّمُهُ حَتَّى اسْتَمْكَنَ مِنْهُ فَقَتَلَهُ
حکم : صحیح
3031 . ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا ؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت اذیتیں پہنچا چکا ہے ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسو ل اللہ ! کیا آپ مجھے اجازت بخش دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر محمد بن مسلمہ کعب یہودی کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں تھکا دیا‘ اور ہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ مانگتے ہیں ۔ کعب نے کہا کہ قسم اللہ کی ! ابھی کیا ہے ابھی اور مصیبت میں پڑو گے ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ ہم نے ان کی پیروی کر لی ہے ۔ اس لئے اس وقت تک اس کا ساتھ چھوڑنا ہم مناسب بھی نہیں سمجھتے جب تک ان کی دعوت کا کوئی انجام ہمارے سامنے نہ آ جائے ۔ غرض محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس سے اسی طرح باتیں کرتے رہے ۔ آخر موقع پا کر اسے قتل کردیا ۔
تین موقعوں پہ جھوٹ بولنے کی اجازت ہے۔

اگر گستاخ رسول صلی علیہ وسلم ملحد کی ذاتی معلومات اس ے ذریعے اکٹھی کرنی مقصود ہو تاکہ ان کی گستاخی کو بند کروایا جاسکے ۔اس صورت میں یہ جائز ہے یا نہیں
یہ تین مواقع میں سے کون سا موقع ہے ؟ ۔
 
Top