• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قانونِ توہین رسالت ؐمیں تبدیلی:محرکات و مضمرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
قانونِ توہین رسالت ؐمیں تبدیلی:محرکات و مضمرات

محمد عطاء اللہ صدیقی
مؤرخہ ۱۴ ؍جون ۹۹ء کو قومی اخبارات میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے توہین رسالت ؐکے تحت ایف ۔آئی ۔آر کے اند راج کے قانون میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے … نوائے وقت میںچھپنے والی خبر کا متن ملاحظہ ہو :
’’وزیرا عظم میاں نواز شریف نے وفاقی وزیرمذہبی واقلیتی امور سینیٹر راجہ ظفر الحق کی رپورٹ پر توہین رسالتؐ کے مبینہ واقعات میں ایف ۔آئی ۔آر کے اندراج کے قانون میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے ۔ یہ انکشاف قومی اسمبلی کے رکن اور سابق وزیر مملکت ڈاکٹر روفن جولیس نے سینیٹر راجہ ظفر الحق کی زیر صدارت اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے بات چیت کے دوران کیا ۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے مختلف علاقوں میں جا کر ذاتی طور پر جو سروے کیا ہے، اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جہاں جائیداد کا مسئلہ ہے یاکسی بچی سے زیادتی کا واقعہ ہو وہاں غریب مسیحیوں کو انڈر پریشر کرنے کے لیے پولیس کی ملی بھگت سے ان کے خلاف توہین رسالتؐ کا جھوٹا پرچہ دے دیا جاتاہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ جہاں توہین رسالت ؐ کا مبینہ واقعہ پیش آئے ،اس علاقے کے اچھی شہرت کے حامل دوایمان دار اور سچے مسلمان اوردو عیسائی منتخب کیے جائیں ۔ ڈپٹی کمشنر ، ایس ۔ایس پی اور ان چار افراد سمیت چھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی اس واقعہ کی تحقیقات کرے گی اور اگر تفتیش کے دوران جرم ثابت ہوگیا تو کمیٹی کی رپورٹ پر FIRدرج کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی صالح اور پرہیز گار مسیحی توہین رسالتؐ کاسوچ بھی نہیں سکتا ۔‘‘
یہی خبر دس پندرہ روز پہلے بھی چھپی تھی ، مگر ناموسِ رسالت کے پروانوں نے اسے محض ’’افواہ ‘‘ سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ایوانِ اقتدار میں اب حالات ۱۹۹۴ء کے حالات سے یکسر مختلف ہیں ۔۱۹۹۴ء میں جب پہلی مرتبہ اس قانون میں تبدیلی کی خبر منظر عام پر آئی تھی ،تو اس وقت پاکستان کے صدر جناب فاروق احمد خان لغاری ، وزیر اعظم بے نظیر بھٹو صاحبہ اور وزیر قانون اقبال حیدر صاحب تھے۔ مگر اب ان کی جگہ صدرِ مملکت جناب رفیق احمدتارڑ صاحب ہیں ۔کونسے تارڑ صاحب ؟ یہ وہی تارڑ صاحب ہیں جن کے پیٹ میں ایک گستاخِ رسول قادیانی نے چھر گھونپ کر انہیں شدید گھائل کر دیا تھا۔عشق رسول ﷺ میں ’’گھائل‘‘ تحفظ ِناموسِ رسالت کے پرجوش مبلغ تارڑ صاحب نے خوشی سے یہ گھاؤ برداشت کیا ۔ انکے عشق رسول کا قائل ہو کر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا تھا
۱۹۹۴ء میں اس ملک کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو تھیں جنہوں نے اسلامی سزاؤں کو علیٰ الاعلان وحشیانہ کہا تھا۔ جن کی مغرب پسندی اورمغرب سے مرعوبیت ایک کھلا راز ہے۔ جنہوں نے قانونِ توہین رسالتؐ ۲۹۵سی کو امتیازی قانون قرارد یتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے اقلیتوں سے ہر سطح پر تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ (روزنامہ پاکستان :۳۱؍ مئی ۱۹۹۸ء) یہ بے نظیر بھٹو ہی تھیں جنہوں نے ۱۹۹۴ء میں گوجرانوالہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قانونِ توہین رسالتؐ کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا تھا۔ مؤرخہ ۵؍اپریل ۱۹۹۴ء کو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹوکی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ توہین رسالتﷺ کے مرتکب کی سزا میں کمی کر کے زیادہ سے زیادہ دس سال سزائے قید رکھی جائے ۔
(روزنامہ جسارت ودیگر اخبارات ۶؍اپریل ۱۹۹۴ء) …مگر اب بے نظیر بھٹو جیسا سیکولرمزاج شخص اس ملک کاوزیر اعظم بھی نہیں ہے ۔ اس وقت میاں نواز شریف وزارتِ عظمی کے منصب پر فائز ہیں ۔
یہ وہی وزیر اعظم ہیں جو لادین عناصر کے شدید احتجاج کے باوجود حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی سے آئین کی پندرھویں ترمیم المعروف شریعت بل پاس کر وا چکے ہیں اور جو سینٹ میں اس قانون کو منظورکروانے کے لیے مطلوبہ اکثریت کے حصول کی سر توڑ کوشش میں لگے رہے ہیں ۔ یہ وہی وزیر اعظم ہیں جن کا گھرانہ صنعت کاری کے ساتھ ساتھ دینداری میں بھی معروف ومحترم ہے۔ میاں نواز شریف سے شخصی تعارف رکھنے والے افراد گواہی دیتے ہیں کہ وہ صوم وصلوٰۃ کے پابند ہیں
…اور پھر آج وفاقی وزیر برائے مذہبی واقلیت امور و ہ شخصیت ہے کہ جس کی شرافت ، دینداری اورحب ِرسول ﷺ کا ایک زمانہ معترف ہے ۔ جو ماضی قریب میں قانونِ تو ہین رسالت کے دفاع میں بیانات ہی نہیں، مضامین بھی تحریر فرماتے رہے ہیں ۔ یہ وہی راجہ ظفر الحق صاحب جو ۱۹۸۹ء میں میاں نواز شریف کے دور میں پنجاب میں بننے والے نفاذ ِشریعت کمیشن کے وائس چیئر مین تھے ۔یہ جب مصر میں سفیرتھے ، تو ان کی اسلام سے محبت پر عرب ممالک کے سفارت کار بھی رشک کیا کرتے تھے ۔ راجہ صاحب کے ایک قریبی تعلق دار نے راقم الحروف کوایک دفعہ بتایا تھا کہ وہ تہجد کی نماز اپنے والد صاحب کی امامت میں ادا کرتے ہیں اور نمازِپنجگانہ ہمیشہ اپنے محلے کی مسجد میں باجماعت ادا کرتے ہیں ۔ جنا ب رفیق احمد تارڑ ،میاں نواز شر یف اور راجہ ظفر الحق کے ہاتھوں قانونِ توہین رسالت ؐ میں تبدیلی کے بل پر اگر دستخط ہوں ، تو اس سے زیادہ پریشان کن اورتعجب انگیزخبر اور کیا ہوگی …؟؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانونِ توہین رسالت ؐ میں مذکورہ تبدیلی کی فی الواقع ضرورت ہے ؟ فرض کریں اگر اس کی ضرورت اب محسوس کی گئی ہے تو پھر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس ’’ضرورت ‘‘ کاتعین کن امور کو پیش نظر رکھ کر کیاگیا ہے ؟…
ناموسِ رسالتؐ مسلمانوں کے لیے اساسِ دین کی حیثیت رکھتا ہے ۔ علامہ قرطبی ؒکے بقول ’’نبی کریم ؐ کی تعظیم وتکریم ہی مذہب کی بنیا دہے اوریوں اس سے محرومی مذہب سے انحراف ہے ۔‘‘ اتنے اہم قانون میںمسلمانوں کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے محض اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بعض شر پسندوں کی مبالغہ آمیز داستانوں ،بے بنیاد الزامات اور بے جا تنقید کی بنیاد پر تبدیلی ہر اعتبار سے بلا جواز ہے ۔مسلمانوں کے عقائد سے متعلقہ قوانین میں محض معدودے چند اقلیتی راہنماؤں کے اشتعال انگیز بیانات یا امریکہ اوردیگر ممالک کے اس ضمن میں ناروا دباؤ کے زیر اثر اس طرح کی تبدیلی کامتعارف کرانا اس اعتبار سے بھی خطرناک ہے کہ اسلام دشمنوں کی خواہشات کی پیروی بالآخر اسلام سے انحراف پر ہی منتج ہوا کرتی ہے ۔ اسلامی دنیا کے سیکولرممالک بالخصوص ترکی میں اسلام کے ساتھ جوسلوک روا رکھا جا رہا ہے ، وہ محتاجِ وضاحت نہیں ۔
قانونِ توہین رسالت ؐمیں تبدیلی کا مطالبہ کن حلقوں کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے ؟ مسیحی اقلیت کی کثیر تعداد تو ۱۹۹۴ء تک اس قانون کے وجود کے متعلق ہی بے خبر تھی اورجوجانتے تھے وہ اس کے متعلق اس قدر شدید ردّ عمل کا شکار نہیں تھے۔ اس قانون کی منظم طریقے سے مخالفت سب سے پہلے قادیانیوں کی طرف سے کی گئی ۔ انہوں نے منظم پروپیگنڈہ کے زورپر بالآخر اسے قومی اور عالمی سطح پر مجنونانہ مہم جوئی میں تبدیلی کر دیا۔ یورپ وامریکہ آج کل انسانی حقوق کے ’’بخار‘‘ میں مبتلا ہیں۔ قادیانیوں نے بڑی مہارت اورچالاکی سے مغرب میں مہم چلائی کہ یہ قانون انسانی حقوق کی پامالی ہے ۔
اہل مغرب مسلمانوں اوران کے پیغمبر ﷺ کے خلاف صلیبی جنگوں والے بغض اورتعصب سے باہر نہیں نکلے۔ وہ ان کی توہین کے ہر موقع کو نہ صرف خوش آمدید کہتے ہیں بلکہ اسے اپنے اس نفسیاتی مرض کی تسکین کے لیے استعمال بھی کرتے ہیں۔
سلمان رشدی جیسے ملعون شاتم رسولﷺ کی حمایت میں خم ٹھونک کر کھڑے ہونا،مغرب کے اسی تعصب کا شاخسانہ ہے ۔قادیانیت جو خود مرزا غلام احمد کے بقول انگریز کا کاشت کیاہو ا پودا ہے، پر ان کی عنایات ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ وہ اپنے کاشت کیے ہوئے پودے کوہر صورت میں تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔لہٰذا اہل مغرب نے قادیانیوں کی قانونِ توہین رسالتؐ کے خلاف دہائی کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے اس سے مسئلہ کو اپنی خارجہ پالیسی کے اہم اہداف سے منسلک کر دیا۔
جنیوا میں پاکستان کی نمائندگی کرنے و الے ایک قادیانی منصور احمد کی کوششوں سے قادیانیوں کی درخواست کوانسانی حقوق کمیشن میں پذیرائی ملی۔امریکہ میںقادیانیوں کی طرف سے لابنگ کی گئی۔بالآخر قادیانیوں کی کوششوں کے نتیجے میں ۱۹۸۷ء میں امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے قرار داد پاس کی کہ پاکستان کی امداد کے لیے ضروری ہوگا کہ امریکی صدر ہر سال ایک سرٹیفکیٹ جاری کرے جس میں یہ درج ہوگا کہ حکومت ِپاکستان نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تدارک میں نمایاں ترقی کی ہے ۔ (جنگ۵مئی ۱۹۸۷ء)
پاکستان میں مغربی صیہونی لابی کے سرمائے سے چلنے والی NGOsکی سرگرمیوں اورقانونِ توہین رسالت ؐ کے خلاف مجنونانہ مہم جوئی میں اضافہ ساتھ ساتھ ہوا ہے ۔ قادیانیت اور یہودیت کے درمیان عالمی سطح پر گٹھ جوڑ پاکستان میں انسانی حقوق کی علمبردار NGOsکے نیٹ ورک کی صورت میں ظہور پذیر ہوا ہے ۔اسی لیے غالباً ڈاکٹر اسرا ر احمد صاحب نے قادیانیت کوپاکستان میں ’’دیسی یہودیت ‘‘ کانام دیاہے ۔
۱۹۸۸ء میں پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن قائم کیاگیا جس کی روح رواں عاصمہ جہانگیر، آئی ۔ اے رحمن ودیگر قادیانی ہیں ۔ اس کمیشن نے روزِ اوّل ہی سے قانونِ توہین رسالتؐ کے خلاف زہر افشانی کابازار گرم کیا ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ اس سازش میں لگے رہے کہ کسی طریقہ سے عیسائی اقلیت کواس قانون کے خلاف بھڑکاکر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کریں۔ ۱۹۹۴ء تک تو یہ صورتحال تھی کہ عیسائیوں کی اکثریت اس قانون کے بارے میں جارحانہ رویہ نہ رکھتی تھی ۔پاکستان میں ۱۹۹۴ء میں حکومت نے قومی اسمبلی میں ’قانونِ توہین رسالتؐ کمیٹی ‘کے عنوان سے ایک کمیٹی بنائی جس کاپہلا اجلاس وزیر داخلہ کی صدارت اوروزیر قانون کی موجودگی میں ہوا۔ اس میں چار مسلمان اورچار ہی اقلیتی نمائندے تھے ۔اس اجلاس میں چار میں سے ایک بھی اقلیتی نمائندے نے مطالبہ نہیں کیا کہ سزائے موت کے قانون میں کمی یا ترمیم کی جائے ۔ انہیں البتہ یہ شکایت تھی کہ بعض اوقات اس کو غلط استعمال کیا جاتا ہے ۔
مسیحی مغرب سے زیادہ سے زیادہ فنڈز کی وصولیابی کے لیے انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں نے قانونِ توہین رسالتؐ کے خلاف بعض جذباتی عیسائی نوجوانوں کے ذریعے مسیحی NGOs کا ایک گروہ بھی قائم کیاجس کا ایک نکاتی ایجنڈا قانونِ توہین رسالتؐ کے خلاف شرانگیز پراپیگنڈہ کرنا تھا ۔ ۱۹۹۵ء میں جب سلامت مسیح ، رحمت مسیح کیس سامنے آیا تو عاصمہ جہانگیر اورحناجیلانی نے اسے نادرموقع سمجھتے ہوئے عیسائی اقلیت میں اپنا اعتبار قائم کیا اور مسیحی تنظیموں کو ۲۹۵ سی کے خلاف تحریک چلانے کے لیے منظم کیا۔
جرمن آمر ہٹلر کا معروف قول ہے کہ ایک جھوٹ کی تکرار اس قدر شدت سے کی جائے کہ وہ بالآخر سچ دکھائی دے ۔ انسانی حواسِ سامعہ اورذہنی ڈھانچہ کچھ اس طرح استوار ہوا ہے کہ کسی چیز کوبار بار سننے سے اس کا تا ٔثر ضرور قبول کرتا ہے ۔ انسانی نفسیات اورحواس کی اس کمزوری کو مغربی ذرائع ابلاغ نے بھر پور طریقے سے Exploit(استحصال )کیا ہے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے قانونِ توہین رسالت ؐ میں تبدیلی بھی غالباً اسی بے بنیاد ،اشتعال انگیز اور جارحانہ پراپیگنڈہ مہم کے اثرات کا نتیجہ ہے جوگذشتہ چند برسوں سے بعض مسیحی تنظیموں ،انسانی حقوق کی علمبردار NGOs نے شروع کر رکھی ہے ۔ اس کے علاوہ امریکی دفتر خارجہ ، جرمن حکومت اورمغربی پادریوں کے تواتر سے تنقیدی بیانات نے بھی ہماری قیادت کومتاثر کیا ہے ۔ حکومت ِپاکستان پرگذشتہ کئی برسوں سے امریکہ کی طرف سے دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے کہ و ہ قانونِ توہین رسالتﷺ کو واپس لے، معلوم ہوتا ہے اس دباؤ کے خلاف مؤثر مزاحمت میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے ۔
قانونِ توہین رسالتؐ میں مذکورہ تبدیلی کے درج ذیل مضمرات سے اغماض نہیں برتنا چاہیے :
(۱) یہ درست ہے کہ فی الحال توہین رسالتﷺ کے واقعات میں ایف آئی آر کے اندراج کے قانون میں تبدیلی لائی جارہی ہے لیکن بات محض اس تبدیلی تک نہیں رکے گی۔اس تبدیلی کو قانونِ توہین رسالت ؐ کے نامعقول جنونی مخالفین کی طرف سے، منزل کی طرف ’’پہلا قدم ‘‘ اور جدوجہد میں کامیابی کے ’آغاز‘ سے تعبیر کیاجائے گا۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جذباتی تشنج میں مبتلا حقوقیے کبھی ایک حق کی بازیابی تک اکتفا نہیں کرتے، ان کا جنون انہیں مسلسل آگے بڑھنے کی تحریک دیتا رہتا ہے۔ بعض جذباتی مسیحی رہنماؤں نے قانونِ توہین رسالت کواپنی زندگی اورموت کامسئلہ بنایا ہوا ہے،ان میں سرفہرست ۷؍مئی کو خود کشی (یا قتل ) کاارتکاب کرنے والے آنجہانی ڈاکٹر جان جوزف اورلاہور کے بشپ ڈاکٹر الیگزینڈر ملک ہیں۔ بشپ الیگزینڈر بارہا ۲۹۵ سی کو مسیحیوں کو ’’قتل کرے کا لائسنس ‘‘قرار دے چکے ہیں ۔مؤرخہ ۱۲ ؍مئی ۱۹۹۸ء کوایک پریس کانفرنس میں انہوں نے اس قانون کو ’’مذہبی صفائی ‘‘ (Religious Cleansing)کانام دیا ۔ اسی پریس کانفرنس میں انہوں نے اپنی مذہبی جنونیت کااظہار اس طرح بھی کیا کہ ’’مسیحی طالبان‘‘ کے نام سے تنظیم بنانے کی دھمکی بھی دی۔ ڈاکٹر جان جوزف کی خودکشی کے بعد نکالے جانے والے مسیحی جلوس میں ایک بینر ’’توہین رسالت ؐ کاقانون مسیحیوں کے قتل کے مترادف ہے ‘‘ تھا جس کی تصویر دوسرے دن اخبارات میں شائع ہوئی ۔ وہ مسیحی NGOs جن کو مغرب سے فنڈ ہی محض اس مقصد کے لیے دئیے جاتے ہیں کہ وہ قانونِ توہین رسالت کے خاتمے کے لیے جدوجہد کریں ، وہ بھی چین سے نہیں بیٹھیں گی۔ حکومت ان کے غلط مطالبے کے سامنے جھک کر مستقبل میں اپنے لیے مزید مشکلات بھی پیدا کر رہی ہے ۔
(۲) قانونِ توہین رسالتﷺ کے متعلق اقلیتوں کے اعتراضات بے بنیاد ، سطحی اورشرانگیز ہیں ۔بشپ ڈاکٹر فادر روفن جولیس جیسے انتہا پسند مسیحی راہنماؤں کے اس دعویٰ میں ہرگز کوئی صداقت نہیں ہے کہ مسیحیوں کے خلاف تمام پرچے جھوٹے درج کیے جاتے ہیں ۔ وہ ایسا محض اس لیے کہتے ہیں تاکہ ان کے اعتراضات میں جان ڈالی جاسکے ورنہ دل ہی دل میں انہیں بھی معلوم ہے کہ ایسے مسیحی جنونیوں کی کمی نہیں ہے جو فی الواقع جا ن بوجھ کر جناب رسالت مآبؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ۔ فادر جولیس کا یہ دعویٰ بھی تاریخی حقائق کے برعکس ہے کہ کوئی بھی صالح او ر پرہیز گار مسیحی توہین رسالت ؐ کاسوچ بھی نہیں سکتا۔ تاریخ تو ایسے واقعات سے بھر ی پڑی ہے جب مسیحی پادریوں نے پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف نہ صرف زبان دارازیاں کیں بلکہ اس سلسلے میں باقاعدہ مہمات چلائیں ۔ فلپ کے ہٹی نے اپنی تالیف ’’اسلام اور مغرب ‘‘ میں ایک مفصل باب ایسے سینکڑوں مسیحی گستاخان کے متعلق تحریر کیا ہے ۔
قانونِ توہین رسالت ؐ میں کسی قسم کی تبدیلی کا بالواسطہ مطلب یہی ہوگا کہ حکومت بعض مسیحی راہنماؤں کے ان الزامات کو درست سمجھتی ہے ۔
غیر ملکی میڈیا پر یہی پراپیگنڈہ کیا جائے گاکہ پاکستان میں مسیحیوں کے خلاف ہمیشہ جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے رہے ہیں۔ اس طرح پاکستانی مسلمانوں کو بحیثیت ِمجموعی ایک ’’جھوٹی قوم ‘‘ کے فرد کے طور پر پیش کیاجائے گا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ چند ایک اِکا دُکا واقعات کے علاوہ اکثر واقعات میں مسیحیوں کی طرف سے گستاخی کا ارتکاب کیا جاتا ہے ۔پاکستانی عدالتیں تمام شواہد کو جمع کرنے کے بعد ہی فیصلہ صادر کرتی ہیں۔ اگر یہ تبدیلی کی جاتی ہے تو پاکستانی عدالتوں کے سابقہ فیصلہ جات کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرکے پاکستان کے پورے عدالتی نظام کو متعصبانہ ،غیر عادلانہ اورجانبدارانہ ثابت کرنے کی مذموم مہم چلائی جائے گی۔
(۳) اس قانون میں مذکورہ تبدیلی لانے کے بعد پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کی حیثیت Credibility بھی شدید مجروح ہوگی ۔ پاکستان مسلم لیگ کو ہمیشہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اسلام پسند سیاسی جماعت سمجھا جاتا رہا ہے ۔اس کا یہی تاثر اس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ کاباعث بھی بنا ہے ۔لیکن اس مسئلہ میں جب مسلم لیگ یہ قدم اٹھائے گی تو یہ سمجھاجائے گاکہ اس نے قانونِ رسالتؐ کے متعلق پیپلز پارٹی کے ایجنڈا کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی اگر چھٹی نہ کرائی جاتی تو وہ یہ ’’کارنامہ ‘‘بہت پہلے سے سرانجام دے کر اپنی مغرب پسندی کااظہار کر چکی ہوتی ۔خاتون وزیر اعظم اوران کی کابینہ کے معزز ارکان اورخود سابق صدر فاروق احمد لغاری بارہا اپنے بیانات میں ان عزائم کااظہار کر چکے تھے ۔جولائی ۱۹۹۴ء کو پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر قانون نے مغربی آقاؤں کو اس قانون کے بارے میں تسلی دینے کے لیے یورپ کادورہ کیا ۔انہوں نے آئر لینڈ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’وفاقی کابینہ نے تو ہین رسالت قانون میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے اوراس ترمیم سے اب پریس کو اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کرنے اور جیل بھیجنے کا اختیار حاصل نہیں رہا ۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان ایک جدید اسلامی ریاست ہے اورموجودہ حکومت ملک میں ’مذہبی انتہا پسندی‘ نہیں چاہتی ‘‘(روزنامہ جنگ ،نوائے وقت ، ۳؍ جولائی ۱۹۹۴ء)…انہی اقبال حیدر صاحب نے کہا ’’توہین رسالت کے قانون میں مناسب تبدیلیاں کرنا حکومت کے انتخابی منشور کا حصہ ہے ‘‘ اقتدار سے باہر آنے کے بعد بھی بے نظیر بھٹو بارہا اس قانون میں تبدیلی کامطالبہ دہر اچکی ہیں ۔
۲۳ ؍مئی ۱۹۹۸ کو ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ حکومت انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مشورہ کر کے توہین رسالت قانون میں ترمیم کرے ۔(نوائے وقت ) معلوم ہوتا ہے کہ غیر محسوس طریقے سے میاں نواز شریف کا تاثر ایک ’’سیکولر‘‘ سیاسی راہنما کے طو ر پر ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ان کے اس طرح کے اقدامات ان کی عوامی پذیرائی میں کمی لانے کاباعث بن سکتے ہیں ۔
(۴) قانونِ توہین رسالت کے ساتھ ہی یہ ’’خصوصی سلوک‘‘ آخر کیوں کیا جارہا ہے کہ اس کے مرتکب افراد کے خلاف FIR کے اندراج سے پہلے ایک مخصوص کمیٹی کی سفارشات کا پیش کیا جانا ضروری ہے؟ اگر اس قانون کے مبینہ غلط استعمال کو بنیاد بناتے ہوئے یہ تبدیلی کی جارہی ہے تو پھر دیگر گھنائونے جرائم کے ضمن میں بھی یہ تبدیلی لائی جائے کیونکہ دیگر قوانین کے معاملے میں بھی غلط استعمال کے احتمالات کو ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ کیا پاکستان میں قتل، چوری، زنا کے غلط مقدمات درج نہیں کئے جاتے؟ لیکن ان گھنائونے جرائم کے متعلق FIRدرج کرانے کی پیشگی شرائط وضع نہیں کی گئی ہیں۔ قانونِ توہین رسالت کے متعلق مذکورہ کمیٹی کی سفارشات کا طریقہ کار اس قدر پیچیدہ اور گنجلک ہوگا کہ رفتہ رفتہ ایسے مقدمات کی FIR کا مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا اور اس کے نتائج بھیانک بھی ہوسکتے ہیں۔ لوگ ڈپٹی کمشنر اور ایس۔ پی پر مشتمل کمیٹی کے سامنے مقدمے لے جانے کی بجائے قانون کو خود ہاتھ میں لینا شروع ہوجائیں گے۔ توہین رسالتؐ کے مرتکب افراد کے خلاف اگر فوری قانونی کارروائی کا آغاز نہ کیا جائے تو اس سے شمع رسالتؐ کے پروانوں میں اشتعال پیدا ہونے کے امکان کو ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری طرف اس نئے طریقہ کا رکی وجہ سے گستاخانِ رسولؐ کی جسارتوں میں بھی اضافہ ہونے کا احتمال ہے کیونکہ جب وہ دیکھیں گے کہ توہین رسالت کے مرتکب افراد کے خلاف FIR نہیں کاٹی جارہی تو یہ امر ان کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گا۔
(۵) اگر آج مسلم لیگ کی حکومت توہین رسالت کے قانون میں یہ تبدیلی لاتی ہے تو کل کلاں پیپلزپارٹی کی بدرجہاسیکولر حکومت اصل قانون کو ہی تبدیل کرسکتی ہے اور مسلم لیگی حکومت کا موجودہ اقدام اس کے لئے بنیا دکا کام دے گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ تو کہہ چکی ہیں کہ یہ قانون’’ ملک کو بنیاد پرست بنانے اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ گواہوں اور شہادتوں کی بنا پر شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے کو سزا دینا اس لئے معنی نہیں رکھتا کہ ہمارے ملک میں تو ارکانِ پارلیمنٹ کو خرید لیا جاتا ہے۔ اس صورت میں کرایہ کے گواہوں کی موجودگی میں انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی‘‘ …وہ تو سرے سے اس قانون کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتیں۔ اسی لئے تو ایک دفعہ انہوں نے کہا ’’ملک کے بارہ کروڑ عوام ناموسِ رسالت کی حفاظت خود کرسکتے ہیں‘‘ (جنگ: ۱۰؍ اگست ۱۹۹۲ء)
اب ذرا غور فرمائیے تمام دنیا کے عدالتی نظام شہادتوں کی بنیاد پر جرائم کے ارتکاب کا تعین کرکے سزا تجویز کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی دیگر جرائم کے بارے میں یہی اصول کارفرما ہے لیکن محترمہ قانونِ توہین رسالت کے بارے میں پارلیمنٹ کے ارکان تک کی شہادت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
اپریل ۱۹۹۴ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے قانونِ توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کرنے کا مسودہ تیار کرلیا تھا، جس کے تحت توہین رسالت کے مرتکب کی سزا، سزائے موت سے کم کرکے دس سال قید تجویز کی گئی تھی (روزنامہ جسارت: ۴؍ اپریل۱۹۹۴ء) مسلم لیگی حکومت کو مستقبل کے ان مضمرات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔
(۶) اس قانون میں تبدیلی لانے کا ایک مفہوم یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ پاکستانی حکومت نے امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کا خالصتاً مسلمانوں کے ایک مذہبی معاملے یعنی ناموسِ رسالت کے تحفظ کے متعلق بے جا اور ناروا دبائو کو قبول کر لیا ہے۔ ایسے فیصلے ترقی پذیر اقوام کی فروغ پاتی قومی خود داری کے لئے سم قاتل کا درجہ رکھتے ہیں۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کرکے جس طرح ا مریکہ کے دباؤ کا مقابلہ کیا ،اس سے پاکستانی قوم میں خودداری کے جذبات فروغ پانا شروع ہوگئے ہیں۔قانونِ توہین رسالت کے متعلق مجوزہ تبدیلی کے بعد پاکستان کے بیرونی اقتدار اعلیٰ کے متعلق نئے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو بھی حکومت پرامریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا الزام عائد کرنے کا ایک بنا بنایا موقع ہاتھ آجائے گا اور حکومت کے لئے اس اقدام کا دفاع کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ بدطینت دشمن سرحدوں پر مسلح افواج کو جمع کرکے پاکستان کی سالمیت کے خلاف جارحانہ کارروائی کے لئے بالکل تیار کھڑا ہے، حکومت کو ایسے متنازع فیہ امور کھڑے کرنے کی بجائے قومی اتحاد و یکجہتی کی پالیسیوں کو آگے بڑھانا چاہئے۔
(۷) ’’تحفظ ِپاکستان‘‘ اور ’’تحفظ ِناموسِ رسالتﷺ‘‘ دراصل ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ ا س پاک دھرتی کا وجود ناموسِ رسالت کے سائے کے بغیر بے معنی ہے۔ پاکستان ’’دھرتی ماں‘‘ ہے اور حضور اکرمﷺ کی تعلیمات پاکستان کے قیام کی حقیقی اور فکر ی بنیاد ہیں۔ ’’دھرتی ماں‘‘ کے خلاف دریدۂ دہنی کرنے والوں پر غداری کے مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ اگر پاکستان کی سالمیت جیسے حساس معاملات میں FIRکے اندراج سے پہلے ڈپٹی کمشنر یا کسی اور افسر کی سفارشات کا انتظار کیا جائے تو دشمن ملک کی سرزمین پر پاکستان کے خلاف زبان درازی کرنے والے نجم سیٹھی جیسے افراد کو کبھی بھی قانون کی گرفت میں نہیں لایا جاسکتا۔ کیونکہ انہیں اس دوران بیرون ملک فرار ہونے کا موقع مل جائے گا۔ اسی طرح توہین رسالتؐ کے مرتکب افراد کے لئے FIRکے اندراج کا تازہ مجوزہ طریقہ کارانہیں قانون کی گرفت سے بچ کر بیرونِ ملک فرار ہونے کا موقع فراہم کرے گا۔جس برق رفتاری سے توہین رسالت ؐکے مرتکب سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو بیرونِ ملک فرار کرایا گیا وہ ہمارے لئے چشم کشا ہے۔
ایک ایسا قانون جو توہین ر سالتؐ کے مرتکب بدبخت مجرموں کے فرار میں اعانت کا باعث بنتا ہو، اسے کسی بھی صورت نافذ نہیں کرنا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جناب ِرسالت مآبﷺ کی توہین جو فی الحقیقت انسانیت کے خلاف جرم کا درجہ رکھتی ہے، کی سنگینی اور شدت کا صحیح ادراک اور احساس کیا جائے۔
(۸) ۲۹۵۔سی، جس کی رو سے توہین رسالت کے مرتکب افراد کی سزا موت قرار دی گئی ہے، کا اصل ہدف قادیانی ہیں۔ اس اضافی قانون کے نفاذ کا اصل سبب ۱۷؍مئی ۱۹۸۶ء کو اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں عاصمہ جہانگیر کی طرف سے حضور اکرمﷺ کو ’’اَن پڑھ‘‘ کہنے کے ہفواتی کلمات تھے، جس پر شدید احتجاج کیا گیا تھا۔ محترمہ نثار فاطمہMNA اور دیگر محبانِ رسولؐ نے اس گستاخی کا سخت نوٹس لیا اور قومی اسمبلی میں ۲۹۵۔سی پیش کرنے کے لئے تحریک چلائی۔ ۲۹۵ـسی چونکہ عاصمہ جہانگیر کی گستاخی کے خلاف ردّعمل کے نتیجے میں منظور ہوا، اس لئے عاصمہ جہانگیر نے ہمیشہ اس قانون کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے۔ اس کی دریدہ دہنی کی سطح ملاحظہ ہو کہ یہ بدبخت عورت اس قانون کو ’’فتنہ‘‘ بھی کہہ چکی ہے۔ اس قانون کا اصل ہدف دراصل قادیانیوں کی گستاخانہ سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔
عاصمہ جہانگیر کے انسانی حقوق کمیشن کی ۱۹۹۶ء کی رپورٹ کے مطابق قانونِ توہین رسالت کے تحت قادیانیوں کے خلاف ۱۴۴، جبکہ عیسائیوں کے خلاف ۱۰ ؍مقدمات زیر سماعت تھے۔ قادیانیوں نے پاکستانی پارلیمنٹ کی طرف سے اس فرقہ کو ’کافر‘ قرار دیئے جانے کے فیصلے کو آج تک ہضم نہیں کیا۔ وہ اپنی خفیہ اور پرفریب سازشوں کے ذریعے پاکستان کی ۹۷فیصد مسلم اکثریت سے اس ’زیادتی‘ کا انتقام لینے کی کوشش میں مسلسل مصروف رہتے ہیں۔ قانونِ توہین رسالت ؐمیں مذکورہ تبدیلی قادیانیوں کے لئے روحانی خوشی کا باعث ہوگی اور ان کی گستاخانہ کاروائیوں اور امت ِمسلمہ کے خلاف سازشوں میں اضافہ کا باعث بنے گی۔
(۹) اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کے دلوں سے پیغمبر اسلامﷺ کی محبت کو نکالنے کے لئے مذموم سازشوں میں مصروف ہیں۔ پیغمبر اسلامؐ کے خلاف توہین آمیز سازشوں کی نئی تحریک ننگ ِملت بے دین ’مسلمانوں‘ کے ذریعے سے برپا کی جارہی ہے جس کے مہرے سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور عاصمہ جہانگیر جیسے لوگ ہیں۔ ان کی تمام تر شیطانی ہرزہ سرائیوں کو ’انسانی حقوق‘ کا نام دے کر تحفظ دیا جارہا ہے۔مسلمانوں کو اپنے فکری تشخص سے محروم کرنا اور انہیں مغرب کے سیکولر فکری دھارے میں شامل کرنا مغرب کا اہم ترین ایجنڈا ہے لیکن وہ اس مقصد میں اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ مسلمانوں کے دلوں میں حب ِرسولؐ موجود ہے۔ سیکولر مغرب مسلمانوں کے اپنے پیغمبر ؐ کے ساتھ تعلق کو بھی اس سطح تک لانا چاہتا ہے، جس سطح پر اہل مغرب عیسائی ہونے کے باوجود اپنے نبی حضرت مسیح علیہ السلام کی ’تعظیم‘ کرتے ہیں۔ ان کے ذرائع اَبلاغ کھلم کھلا حضرتعیسیٰ ؑ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں مگر عیسائیوں میں حمیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ ۱۹۹۴ء میں برطانیہ میں ایسٹر کے مقدس ہفتے کے موقع پر جیکی لیوں کا گایا ہوا مشہور گیت فروخت کیا گیا جس میں حضرت مریم ؑ، حضرت مسیح ؑ اور حضرت یوسف ؑ کو گالیاں دی گئی تھیں۔ ۱۹۸۸ء میں لندن کے سینما گھروں میں ایک یہودی فلم ساز مارٹن کی ایک انتہائی شرمناک فلم "The Last Temptation of Christ" یعنی ’’مسیح کی آخری جنسی ترغیب‘‘ نمائش کے لئے پیش کرنے کے لئے اشتہار بازی کی گئی جس میں نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ ؑ کو ایک طوائف کے ساتھ جنسی اختلاط کرتے دکھایا گیا۔ عیسائیوں کے لئے یہ مقامِ تاسف ہونا چاہئے کہ اس توہین آمیز فلم کے خلاف انگلینڈ کے مسلمانوں نے سب سے پہلے غم و غصہ کا اظہار کیا اور اس فلم کی نمائش پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ عیسائی بے حسی سے یہ سب دیکھتے رہے۔ توہین رسالت ؐ کے خلاف مسلمانوں کے دلوں میں جذبات کو موجزن رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ضابطوں کو مزید سخت کیا جائے۔ قانونِ توہین رسالت میں مذکورہ تبدیلی ان ضابطوں میں نرمی پیدا کرنے کا باعث بنے گی جس سے مسلمانوں میں رسالت مآبﷺ کی ناموس کے متعلق جذبات میں کمی واقع ہوگی۔
(۱۰) قانون توہین رسالت ؐ میں مجوزہ تبدیلی کی روسے جو کمیٹی تشکیل دی جائیگی اس میں دو مسلمان اور دو عیسائیوں کا ہونا ضروری ہے۔ یہ تجویز اس وقت ناقابل عمل بن جائے گی جب ایک عیسائی مسلمانوں کی ایسی بستی میں توہین رسالت ؐ کا ارتکاب کرتا ہے جہاں عیسائی خاندان آباد ہی نہ ہوں، مثلاً بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بعض عیسائی شر پسند کسی نوجوان کو مسلمانوں کی قریبی بستی کی مسجد میں قرآن پاک کی حرمت کے لیے بھیجتے ہیں او روہ وہاں رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے ۔ دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عیسائی توہین رسالت ؐکا ارتکاب ایسی جگہ کریں جہاں صرف انہیں کی آبادی ہوجیسا کہ شانتی نگر کے واقعہ میں ہوا ۔ تو اسی جگہ پر ’’ اچھی شہر ت کے حامل اور صالح ‘‘ مسلمانوں کا انتخاب کیسے کیا جائے گا؟ …قانون سازوں کو ایسے حالات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے ۔
(۱۱) پاکستان میں ایک معمولی درجے کے تھانیدار تک رسائی بھی مشکل ہے ۔ تھانہ کا ا یک ادنیٰ سامحرر بھی عام آدمی کے لیے ایک ’’بہت بڑا افسر ‘‘ہے ۔ڈپٹی کمشنر جو عملاً ضلع کا ’’بادشاہ ‘‘ ہوتا ہے ، اس تک رسائی کس قدر مشکل ہے ، یہ محتاجِ وضاحت نہیں ہے ۔ عام آدمی تو ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر سے ملاقات کے تصو رسے ہی دہشت زدہ ہو جاتا ہے۔مزید برآں تھانہ تو چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے ، ڈپٹی کمشنر صاحب کو دفتر ی اوقات کے بعد ملانا بے حد مشکل ہوتاہے ،پھر یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ایک ضلع کے کسی دور دراز دیہات میں یا سب ڈویژن میں توہین رسالت ؐ کاکوئی واقعہ ر ونما ہو ، تو اس کے لیے بعض اوقات سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر میں پہنچنا انتہائی مشکل ہوگا۔ اس کے مقابلے میں ایک تھانے کی حدود محدود ہوتی ہیں۔یہ عملی دشواریاں بالآخر توہین رسالت ؐکے مقدمات کے عدمِ اندراج پر منتج ہوں گی ۔
 
Top