محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
السلام و علیکم و رحمت الله -
آج کل بعض لوگ رسول کریم محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آ له وسلم کی قبرمبارک کی شبیہ دکھاتے ہیں یا اس کی طباعت، اشاعت اور تشہیر کرتے ہیں۔ بعض اوقات اخبارات بھی پوری نیک نیتی سے، یہ تصاویر چھاپ دیتے ہیں۔ عقیدت مند مسلمان یہ تصاویر احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں دیدہ زیب فریموں میں لگا کر کسی اونچی یا مرکزی جگہ پر رکھا، یا لٹکایا جاتا ہے۔ بعض عقیدت مند، جن میں بعض بہت تعلیم یافتہ اشخاص بھی شامل ہوتے ہیں، ان تصاویر کا عقیدت سے بوسہ لیتے ہیں، انہیں آنکھوں سے لگاتے اور سر پر رکھتے ہیں۔ اب تک یہ کام خاموشی سے اور محدود پیمانے پر ہوتا رہا۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد کے ان تصاویر کی تشہیر و اشاعت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا ہے اور اب تو یہ کروڑوں گھروں میں ایک ساتھ ایک لمحے میں پہنچ جاتی ہیں۔ ۔ اکثر لوگ روضہ رسول سے متعلق ان تصاویر پر آسانی سے یقین کرلیتے ہیں ۔ ان جعلی تصاویر یا نقاشی کے شاہکاروں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر سطح زمین سے کافی اونچی دکھائی دیتی ہے۔ اس پر ایک چادر تنی ہوئی ہے۔ اور سرہانے عمامہ نظر آتا ہے۔ دیکھیے یہ تصویر -
http://i45.tinypic.com/xmlkyd.jpg
حقیت یہ ہے کہ جس روضۂ رسول کی تصاویر کو دیکھ کرعوام الناس کو گمراہ کیا جاتا ہے وہ غالباً "مولانا جلال الدین رومی رح کے مزار کی تصویر ہے- نہ کہ نبی مکرم محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آ له وسلم کی قبر مبارک ہے -
http://i1077.photobucket.com/albums/w474/Haseeb_Razzaq/Roza e Rasool/mausoleum-rumi-500-copy_zps90a4ba78.jpg
روضۂ رسول آنحضور محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آ له وسلم کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ ۸۸۱ھ (مطابق۷۶،۱۴۷۷ء) میں، حضرت عائشہ رضی کے حجرے کی چار دیواری اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رح کی بنوائی ہوئی ”پانچ دیواری“ دونوں کی ازسر نو تعمیر کی ضرورت پڑ گئی۔ تاریخِ مدینہ ”وفا الوفاء“ کے مصنف علامہ سمہودی کو تعمیر نو کے اس کام میں رضا کارانہ طور پر حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں: ۱۴ شعبان ۸۸۱ھ (مطابق ۲ دسمبر ۷۶،۱۴۷۷ء) کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چناں چہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں پچھلی طرف (یعنی شمالی سمت سے جو قبلے کے مخالف سمت ہے) سے داخل ہوا۔خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول الله اورآپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہٴ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں قبریں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ حضرت عمر رضی الله عنہ کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ میں تعمیر نو کے کام میں مشغول ہوگیا جو (سات ہفتوں میں) سات شوال ۸۸۱ھ (مطابق۲۳ جنوری۱۴۷۷ء) کو مکمل ہوا۔ (”وفا الوفاء)-
اب اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، اس دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا سکا- جو سعودی شرتے روضہ رسول کی صفائی پر مامور ہیں وہ بھی قبرمبارک تک نہیں پہنچ سکتے (چار دیواری کے باہر تک محدود ہیں) تو کوئی ایرا غیرا وہاں کیسے پہنچ سکتا ہے؟؟ -
دوسری سوچنے کی بات ہے کہ جن مہر بند دیواروں کے اندر کوئی انسان پانچ صدیوں سے داخل نہ ہوا ہو، وہاں کسی قبر کا فوٹو کیسے لیا جاسکتا ہے؟ علاوہ ازیں کیمرے کی ایجاد ۱۸۲۰ء سے ۱۸۳۰ء کے عشرے میں دو فرانسیسی موجدوں نے کی، گویا کیمرہ ایجاد ہوئے ابھی پوری دو صدیاں بھی نہیں گزریں۔ جہاں تک مصوری کا تعلق ہے تو اولاً نقاشی کے ان شاہکاروں پر نہ مصور کا نام درج ہوتا ہے اور نہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی شبیہ ہے۔ ثانیا خواہ پہلی صدی ہجری ہو یا نویں صدی ہجری، ان قبروں کو جب بھی دیکھا گیا، وہ سطح زمین سے بلند تھیں، نہ پکی تھیں، نہ ان کے گرد کوئی کٹہرا تھا، نہ ان کے اوپر کوئی چادر تھی اور نہ ان کے سرہانے کوئی عمامہ تھا۔ اکیسویں صدی عیسویں میں، جہاں ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اسے سچائی کا علم ہو، وہاں اس کا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ وہ جھوٹ کو رد کرے۔ غلط فہمی دور کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنی غلط بیانی۔ اگر فہم یا بیان کی ان غلطیوں کا تعلق اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ہو تو ہر مسلمان کا، انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے، یہ دہرا فرض بنتا ہے کہ وہ سچ کا بلا تاخیر اظہار کرے اور اس کی حسب توفیق تشہیر و اشاعت کرے۔
آج کل بعض لوگ رسول کریم محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آ له وسلم کی قبرمبارک کی شبیہ دکھاتے ہیں یا اس کی طباعت، اشاعت اور تشہیر کرتے ہیں۔ بعض اوقات اخبارات بھی پوری نیک نیتی سے، یہ تصاویر چھاپ دیتے ہیں۔ عقیدت مند مسلمان یہ تصاویر احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں دیدہ زیب فریموں میں لگا کر کسی اونچی یا مرکزی جگہ پر رکھا، یا لٹکایا جاتا ہے۔ بعض عقیدت مند، جن میں بعض بہت تعلیم یافتہ اشخاص بھی شامل ہوتے ہیں، ان تصاویر کا عقیدت سے بوسہ لیتے ہیں، انہیں آنکھوں سے لگاتے اور سر پر رکھتے ہیں۔ اب تک یہ کام خاموشی سے اور محدود پیمانے پر ہوتا رہا۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد کے ان تصاویر کی تشہیر و اشاعت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا ہے اور اب تو یہ کروڑوں گھروں میں ایک ساتھ ایک لمحے میں پہنچ جاتی ہیں۔ ۔ اکثر لوگ روضہ رسول سے متعلق ان تصاویر پر آسانی سے یقین کرلیتے ہیں ۔ ان جعلی تصاویر یا نقاشی کے شاہکاروں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر سطح زمین سے کافی اونچی دکھائی دیتی ہے۔ اس پر ایک چادر تنی ہوئی ہے۔ اور سرہانے عمامہ نظر آتا ہے۔ دیکھیے یہ تصویر -
http://i45.tinypic.com/xmlkyd.jpg
حقیت یہ ہے کہ جس روضۂ رسول کی تصاویر کو دیکھ کرعوام الناس کو گمراہ کیا جاتا ہے وہ غالباً "مولانا جلال الدین رومی رح کے مزار کی تصویر ہے- نہ کہ نبی مکرم محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آ له وسلم کی قبر مبارک ہے -
http://i1077.photobucket.com/albums/w474/Haseeb_Razzaq/Roza e Rasool/mausoleum-rumi-500-copy_zps90a4ba78.jpg
روضۂ رسول آنحضور محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آ له وسلم کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ ۸۸۱ھ (مطابق۷۶،۱۴۷۷ء) میں، حضرت عائشہ رضی کے حجرے کی چار دیواری اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رح کی بنوائی ہوئی ”پانچ دیواری“ دونوں کی ازسر نو تعمیر کی ضرورت پڑ گئی۔ تاریخِ مدینہ ”وفا الوفاء“ کے مصنف علامہ سمہودی کو تعمیر نو کے اس کام میں رضا کارانہ طور پر حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں: ۱۴ شعبان ۸۸۱ھ (مطابق ۲ دسمبر ۷۶،۱۴۷۷ء) کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چناں چہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں پچھلی طرف (یعنی شمالی سمت سے جو قبلے کے مخالف سمت ہے) سے داخل ہوا۔خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول الله اورآپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہٴ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں قبریں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ حضرت عمر رضی الله عنہ کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ میں تعمیر نو کے کام میں مشغول ہوگیا جو (سات ہفتوں میں) سات شوال ۸۸۱ھ (مطابق۲۳ جنوری۱۴۷۷ء) کو مکمل ہوا۔ (”وفا الوفاء)-
اب اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، اس دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا سکا- جو سعودی شرتے روضہ رسول کی صفائی پر مامور ہیں وہ بھی قبرمبارک تک نہیں پہنچ سکتے (چار دیواری کے باہر تک محدود ہیں) تو کوئی ایرا غیرا وہاں کیسے پہنچ سکتا ہے؟؟ -
دوسری سوچنے کی بات ہے کہ جن مہر بند دیواروں کے اندر کوئی انسان پانچ صدیوں سے داخل نہ ہوا ہو، وہاں کسی قبر کا فوٹو کیسے لیا جاسکتا ہے؟ علاوہ ازیں کیمرے کی ایجاد ۱۸۲۰ء سے ۱۸۳۰ء کے عشرے میں دو فرانسیسی موجدوں نے کی، گویا کیمرہ ایجاد ہوئے ابھی پوری دو صدیاں بھی نہیں گزریں۔ جہاں تک مصوری کا تعلق ہے تو اولاً نقاشی کے ان شاہکاروں پر نہ مصور کا نام درج ہوتا ہے اور نہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی شبیہ ہے۔ ثانیا خواہ پہلی صدی ہجری ہو یا نویں صدی ہجری، ان قبروں کو جب بھی دیکھا گیا، وہ سطح زمین سے بلند تھیں، نہ پکی تھیں، نہ ان کے گرد کوئی کٹہرا تھا، نہ ان کے اوپر کوئی چادر تھی اور نہ ان کے سرہانے کوئی عمامہ تھا۔ اکیسویں صدی عیسویں میں، جہاں ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اسے سچائی کا علم ہو، وہاں اس کا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ وہ جھوٹ کو رد کرے۔ غلط فہمی دور کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنی غلط بیانی۔ اگر فہم یا بیان کی ان غلطیوں کا تعلق اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ہو تو ہر مسلمان کا، انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے، یہ دہرا فرض بنتا ہے کہ وہ سچ کا بلا تاخیر اظہار کرے اور اس کی حسب توفیق تشہیر و اشاعت کرے۔