• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبر پرستی کیسے پھیلی

شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
قبر پرستی کیسے پھیلی۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلے اس پر غور کرنا چاہیے کہ دنیا میں قبر پرستی کیسے پھیلی ؟ اس کے اسباب و وجوہ کیا ہیں اور ان کا انسداد کیسے کی جاسکتا ہے، سب سے پہلے یہ فتنہ نوح علیہ اسلام کی قوم میں پیدا ہوا، جیسا کہ قرآن کریم میں نوح علیہ اسلام کی مساعی تبلیغ توحید کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
ترجمہ۔ نوح علیہ اسلام نےکہا اے میرے رب میری قوم نے میری نافرمانی کی اور اس شخص کی پیروی کی جس کو اس کے مال و اولاد نے سوائے خسارہ کےکچھ فائدہ نہیں پہنچایا ﴿ یعنی اپنے مال داروں کا کہامانا﴾ اور انہوں نے بڑے مکرو فریب سے کام کیا اور کہا کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ہی ود، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر کو چھوڑنا ﴿ یہ نوح علیہ اسلام کی قوم کے بتوں کے نام ہیں﴾
سورة نوح ، آیت 23 ۔
ابن عباس اور بہت سے صحابہ کرام اور تابعین رحمہ اللہ سے روایت ہےکہ یہ نوح علیہ اسلام کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں ۔ جب وہ فوت ہوگئے تو لوگوں نے ان کی قبروں پر بیٹھنا شروع کردیا اور دعا و عبادت کےلیے ان کو بہتر ین مقام سمجھنا شروع کر دیا،کچھ عرصہ بعد ان کی تصویریں بنائی گئیں ، پھر فرط عقیدت میں تصویروں کی جگہ ان کا مجسمہ اور بت بنانے شروع کر دیئے ، حتی کہ اس حد سے بڑھی ہوئی عقیدت مندی نے ان کو بتوں مجسموں کی عبادت پرآمادہ کر لیا۔
صحیحین میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ نے ملک شام کے ایک گرجہ اور اس میں جو تصاویر تھیں ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا ان سب میں جب کوئی صالح اور نیک فوت ہوجاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس کی تصویر وہاں رکھتے اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بد ترین مخلوق ہیں
﴿ بخاری شریف﴾
صحیح مسلم میں سیدنا جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ آپ نے فرمایا۔
دیکھو تم سے پہلی امتون نے انبیاء اور صلحاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا تھا۔ تم قبروں کو عبادت گاہ نہ بناو میں تم کو اس سبات سے سختی کے ساتھ منع کرتا ہوں ۔ ﴿ مسلم شریف﴾
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس فتنے سے بچنے کی تاکید فرمائی ۔ اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی طریقوں سے امت کو اس فتنہ سے بچانے کی کو شش کی۔
شیطانی تعلیم کے درجہ بدرجہ اسباق۔
اس سے پہلے کہ ان طریقوں کو بیان کیا جائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنہ سے محفوظ رہنے کےلیے فرمائے ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس بات کا تذکرہ ہو جائے کہ شیطان یا شیطانی جماعتیں کس طرح لوگوں کو آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ اس فتنہ میں مبتلا کرتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جیسے جیسے امت کتاب و سنت سے محروم ہوتی چلی گئ ایسے ہی شیطانا اور اس کے متبعین کا اقتدار و تسلط بڑھتا گیا اور اس کے مکرو فریب میں نادان اور بے خبر لوگ مبتلا ہوتے گئے ۔ شیطان کی فریب کارانہ چالیں یا اس کی درجہ بدرجہ تعلیم پہلے بیان کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد وہ تمام طریقے بیان کیے جائیں گے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنہ سے بچنے کے لیے ارشاد فرمائے ہیں۔
پہلا سبق۔
سب سے پہلے شیطان اپنے مرید کو یہ سکھاتا ہے کہ قبر کے پاس دعا کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ شیطان کا مرید قبر کے پاس جا کر عاجزی اور دل سوزی سے دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ قبر کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی عاجزی اور ذلت کی وجہ سے اس کی دعا قبول کرلیتا ہے ۔ کیونکہ اگر وہ اس سوزو گداز سے دکان ، شراب خانہ ، حمام ، یا بازار میں بھی دعا کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرلیتا ہے۔جبکہ جاہل آدمی تو یہی سمجھتا ہے کہ اس کی دعا کی قبولیت میں قبر کا بڑا دخل ہے۔ حلانکہ اللہ تعالیٰ ہر لا چار شخص کی دعا قبول کرتا ہے اگر چہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کی دعا قبول کرتا ہے اس سے راضی ہوتا اور اس کو دوست رکھتا ہے یا اس کے فعل کو پسند کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو نیک و بد، مومن و کافر ، ہرایک کی دعا قبول کرتا ہے۔
بہت سے لوگ ایسی دعا مانگتے ہیں جس میں وہ حد شریعت سے تجاوز کر جاتے ہیں یا شرک کرتے ہیں یا دعا میں ایسے سوال کرتے ہیں جو ناجائز ہیں اور ان کی ساری یا بعض مرادیں پوری ہو جاتی ہیں اور وہ یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ ان کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی پسندیدہ ہے اور ان کی حالت اس شخص کی سی ہوجاتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ مال اور اولاد سے ڈھیل دیتا ہے اور وہ یہ سمجھتا رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو کر اس کو ہر طرح کی بھلائی پہنچا تا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ترجمہ۔ جب ان نافرمانوں نے نصیحت الٰہی کو فراموش کر دیا تو ہم نے ان پر ہر نعمت کے دروازے کھول دیئے۔
﴿سورةانعام ، رکوع 5 ، آیت 44 ﴾
دعا دو قسم کی ہے ایک تو عبادت ہےجس پر دعا کرنے والا ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔دوسری کسی حاجت کا سوال ہے جو پوری تو ہو جاتی ہے لیکن وہ دعا کرنے والے کے لیے باعث تکلیف بن جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرلیتا ہے لیکن جو اس نے اللہ تعالیٰ کے حقوق ضائع کرنے اور اس کی حدود کو توڑنے کی جرات کی ہوتی ہے اس کے بدلہ میں اس کو عذاب بھی کرتا ہے۔
الغرض شیطان آہستہ آہستہ اپنے مکر کے جال میں انسان کو پھنساتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ قبر کے پاس بہت اچھی طرح دعا کرنا چاہیئے اور یہ بھی کہ اس جگہ دعا کرنا مسجد میں اور سحر کے وقت ﴿ جس وقت میں دعا کی قبولیت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے ﴾ دعا کرنے سے بہتر ہے، جب شیطان یہ سبق ازبر کرا لیتا ہے تو پھر دوسرا سبق شروع ہوتا ہے۔
دوسرا سبق۔
اب وہ اس کو کہتا ہے کہ جو کچھ مانگنا ہے اس قبر والے بزرگ کے طفیل مانگو اور اللہ تعالیٰ کو اس مقرب بندہ کی قسم دو تو تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی۔اور یہ پہلے سبق کے مقابلہ میں زیادہ برا فعل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بلند ہے کہ اس کو کسی بندہ کی قسم دی جائے یا کسی بندہ کے طفیل اس سے مانگا جائے۔
تیسرا سبق۔
جب اس شخص کے دل میں یہ بات ذہن نشین ہوجاتی ہے کہ اس بزرگ کی قسم اللہ تعالٰی کو دینے اور اس کے طفیل یا اس کے حق سے دعا مانگنے میں اس کی بہت عزت اور تعظیم ہے اور حاجات کے پورا کرنے میں یہ زیادہ موثر ہے تو پھر شیطان اس کو تیسرا سبق پڑھاتا ہے اور وہ یہ کہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اب اسی بزرگ سے مانگو اور اسی کو نذرو نیاز دیا کرو۔
چوتھا سبق۔
پھر اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس بزرگ کی قبر کو بت بنایا جائے اور اس پر بیٹھا جائے اس پر قندیل اور شمع جلائے اور اس پر پردے لٹکائے جائیں اور اس پر مسجد بنائی جائے اور سجدہ اور طواف اور بوسہ دینے اور ہاتھ لگانے اور اس کا قصد کرنے اور اس کے پاس جانور ذبح کرنے سے اس کی عبادت کی جائے۔
پانچواں سبق۔
پھر صرف ایک درجہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگوں کو اس کی عبادت کی طرف بلایا جائے، اس پر میلے لگائے جائیں اور اعمال حج اس جگہ اس قبر والے لے لیے ادا کئے جائیں ﴿ بلکہ حج بیت اللہ سے اس کے میلے کو بہتر سمجھا جائے، چنانچہ بہت جاہل کہتے ہیں کہ خواجہ اجمیر شریف کے ایک میلہ کے کرنے سے سات حج کا ثواب ملتا ہے۔ وغیرہ، وغیرہ نعوذ باللہ ﴾ اور ان کو یہ سمجھایا جائے کہ یہ سب امور ان کےلیے دنیا اور آخرت میں بہت مفید ہیں۔
شیخ ابن قیم رحمتہ اللہ،، اغاثہ ،، میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں ۔
قبروں کے پاس جو بدعات کی جاتی ہیں ان کے کئی درجات ہیں ۔ سو شریعت سے بہت دور یہ ہے کہ انسان مردہ سے اپنی حاجت طلب کرے اور اس سے فریاد رسی چاہے جیسا کہ بہت لوگ کرتے ہیں اور یہ لوگ بت پرستوں کی جنس سے ہیں ، اس لیے بعض اوقات شیطان اس مردہ کی شکل میں ان کے سامنے آتا ہے جیسا کہ بت پرست اپنے معبود کو جس کی وہ تعظیم کرتا ہے ، بلائے تو شیطان اس کی شکل اختیار کر کے اس کے سامنے موجود ہوتا ہے اور یہ بعض غائب امور کے متعلق ان سے کلام کرتا ہے کیونکہ شیطان بنی آدم کے گمراہ کرنے میں مقدور بھر کوشش کرتا ہے ۔ اس طرح جو لوگ سورج اور چاند اور ستاروں کی پوجا کرتے ہیں اور ان کو پکارتے ہیں ، ان کے سامنے بھی شیطان انسانی شکل میں آکر کلام کرتا ہے اور بعض باتیں بتا جاتا ہے اور وہ لوگ اس کو ستاروں کی روحانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔
درحقیقت وہ شیطان ہوتا ہے اگر وہ بعض مقاصد میں انسان کی مدد بھی کرتا ہے لیکن اس کو اس سے کئی گنا نقصان بھی پہنچا دیتا ہے۔
اس طور پر قبروں کےپاس قبر پرستوں پر بھی کئی حالات ظاہر ہوتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کرامات ہیں اور د رحقیقت وہ شیطان کا فریب ہوتا ہے مثلا جس مردہ کی کرامت کا لوگون کو گمان ہوتا ہے جب کوئی مرگی والا مریض اس کی قبر کےپاس لا کر ڈالا جاتا ہے توجن ﴿ شیطان ﴾ اس سے اتر جاتا ہے تا کہ لوگوں کو گمراہ کرے۔
فتنہ قبر پرستی کے انسداد کیلئے وسائل و ذرائع۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنہ عظیمہ سے اپنی امت کو بچانے کےلیے جو وسائل و ذرائع بیان فرمائے ہیں اب انہیں بیان کیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ آج امت مسلمہ کو اس طوفان سے بچانے کےلیے اگر کوئی ذریعہ ہو سکتا ہے تو وہ ہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔
پہلا ذریعہ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو مساجد بنانے سے روکنے کے متعلق صحیح مسلم میں سیدنا جندب بن عبداللہ الجلبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی وفات سے پانچ روز پیشتر سنا کہ آپ فرماتے تھے خبردار جو لوگ تم سے پہلے تھے وہ اپنےانبیاء علیہ السلام کی قبروں کو مساجد بناتے تھے۔ خبر دار قبروں کو مسجدیں نہ بنانا میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں۔
صحیحین ﴿ بخاری و مسلم ﴾ میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرض میں جس میں آپ عہدہ براء نہ ہوئے فرمایا، یہود اور نصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو انہوں نے اپنے ابنیاء علیہم السلام کی قبروں کو مساجد بنا دیا۔ اس سے آپ اپنی امت کو ان افعال سے ڈراتے تھے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اگر اس بات کا خطرہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر کھلی جگہ بنائی جاتی ، لیکن اس بات کا خطرہ تھا کہ وہ بھی مسجد نہ بنائی جائے، یہ خطرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے کھلے میدان میں بنائے جانے سے روکنے کی وجہ سے ہے، کیونکہ آپ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں موضع دفن کی نسبت اختلاف ہوا۔ حتی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا کہ انبیاء کرام علیہم اسلام اسی جگہ دفن کیے جاتے ہیں جہاں وہ وفات پائیں ، چونکہ یہ انبیاء علیہم اسلام کا خاصہ ہے اس لیے آپ کو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں دفن کیاگیا اور جیسے کہ رواج تھا صحرا میں دفن نہ کئے گئے ، تا کہ آپ کی قبر پر نماز نہ پڑھی جائے اور لوگ اس کو مسجد نہ بنالیں ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےآخری عمر میں قبروں کو مساجد بنانے سے روکا ، پھر اہل کتاب میں سے ان لوگوں پر جنہوں نے ایسا کیا لعنت کی تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ان افعال سے باز رہے۔
اسی صحیح اور صریح سنت کی متابعت کی بناء پر عامہ طوائف نے قبروں پر بنائے مسجد سے صریح طور پر اور صاف الفاظ میں روکا ہے ۔ اور امام احمد امام مالک اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہم کے اصحاب نے اس کی حرمت پر تصریح کی ہے اور بعض علماء نے اس کو مطلقا مکروہ کہا ہے ۔ لیکن ان علما ء پر حسن ظن کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی اس کراہت کو کراہت تحریمی ہی سمجھا جائے۔ کیونکہ ہم پر ان یہ گمان نہیں کر سکتے کہ و ہ ایسے فعل کو جس کی نہی اور اس کے فاعل کے ملعون ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم حد تواتر کو پہنچ گیا ہو، جائز قرار دیں۔


فتنہ قبر پرستی کے انسداد کیلئے وسائل و ذرائع۔

دوسرا ذریعہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں پر چراغ جلانے سے روکنا ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ اور اہل سنن نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور ان پر مساجد بنانے والوں اور ان پر چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے ، پس جس فعل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعنت کریں ، تو وہ کبیرہ گناہ ہوتا ہے اور فقہا نے ایسے فعل کو صراحتہ حرام کہا ہے۔
ابو محمد مقدسی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر قبروں پر چراغ جلانا مباح ہوتا تو اس کے فاعل پر لعنت نہ کی جاتی ، حالا نکہ اس پر لعنت کی گئی ہے ، پس اس میں ایک تو مال بے فائدہ ضائع ہوتا ہے ، دوسرا تعظیم قبور میں افراط ہے جو بتوں کی تعظیم کے مشابہ ہے۔ اسی لیے علماء نے کہا کہ قبروں پر شمع یا چراغ جلانے یا تیل دینے کی نذر جائز نہیں، کیونکہ یہ نذر معصیت ہے اور بالاتفاق اس نذ ر کا پورا کرنا جائز نہیں۔ نیز کہا کہ اس غرض سے کسی چیز کو قبروں پروقف کر دینا بھی جائز نہیں ، کیونکہ یہ وقف صحیح نہیں اور اس کو نافذ کرنا حلال نہیں


فتنہ قبر پرستی کے انسداد کیلئے وسائل و ذرائع۔

تیسرا ذریعہ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاقبروں کو پختہ بنانے اور اس پر عمارت بنانے سے روکا ہے ۔ صحیح مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے اور ان پر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے۔علماء نے کہا ہے کہ اس میں دو صورتوں کی ممانعت کا احتمال ہے۔ ایک یہ کہ ان پر پتھروں یا ان کی مانند اور چیزوں سے بنا کرنا ۔ دوسرا یہ کہ ان پر خیمہ و غیرہ نصب کرنا ۔ ان دونوں صورتوں سےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، کیونکہ ان میں کوئی فائدہ نہیں۔ اس کا مال بھی بے فائدہ ضائع ہوتا ہے اور نیز یہ اہل جاہلیت کا فعل ہے۔
چوتھا ذریعہ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں پر کتابت کرنے ﴿ لکھنے ﴾ سے منع کرنا۔
سنن ابی داود میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے اور ان پر لکھنے سے منع فرمایا ہے۔
پانچواں ذریعہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں پر ان کی کھدائی سے نکلی ہوئی سے ذائد مٹی ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔
سنن ابو داود میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پکا کرنے ، ان پر لکھنے اور ان پر زائد مٹی ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔


فتنہ قبر پرستی کے انسداد کیلئے وسائل و ذرائع۔

چھٹا ذریعہ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر کے پاس نماز پڑھنے سے منع فرمانا۔
صحیح مسلم میں سیدنا مرثد الغنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبروں کے اوپر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف نماز پڑھو اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام زمین مسجد ہے ، سوائے مقبرہ اور حمام کے، اس حدیث کو امام احمد رحمتہ اللہ علیہ اور اہل سنن نے روایت کیا ہے۔
اس بارہ میں نہی اور سخت ممانعت کی رویت کثرت سے آئی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قبروں کو نماز کےلیے مخصوص کرنے میں بت پرستوں کے ساتھ مشابہت ہے جو بتوں کی تعظیم کے لیے ان کے آگے سجدہ کرتے اور ان کا قرب حاصل کرتے ہیں ۔ اور ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ بت پرستی کی ابتداء اسی فتنہ قبور سے ہوئی تھی۔ اور اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب پر لعنت کی۔ کیونکہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہم اسلام کی قبروں کو مساجد بنایا ۔
شیخ ابن القیم رحمتہ اللہ اغاثة الاہفان میں اپنے استا د شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے شارع علیہ الصلوٰة و اسلام نے قبروں پر مساجد بنانے سے منع فرمایا یہ وہ علت ہے جس نے بہت سی امتوں کو یا تو شرک اکبر یا اس سے کم درجہ کے شرک میں مبتلا کیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے شخص کی قبر کے ساتھ شرک کرنا جس کی نسبت انسان کا خیال صلاحیت اور نیکی کا ہو انسان کو زیادہ مائل کرتا ہے بہ نسبت اس کے شرک کے کسی درخت یا پتھر کے ساتھ ، اسی لیے تم دیکھو گے کہ بہت سے لوگ قبروں کے پاس خشوع اور خصوع اور گریہ زاری کرتے ہیں اور دل سے ایسی عبادت کرتے ہیں جو مسجد میں نہیں کرتے اور نہ پچھلی رات میں ایسی عبادت کرتے ہیں ، بعض ان میں سے قبروں کے آگے سجدہ کرتے ہیں اور اکثر قبروں کے پاس نماز ادا کرنے میں ایسی برکت کے امیدوار ہوتے ہیں ، جس کی امید نہیں مسجد میں ادا کی ہوئی نماز سے نہیں ہوتی۔ اسی خرابی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدہ کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا اور قبرستان میں مطلقا نماز ادا کرنے سے روک دیا ۔ خواہ وہاں نماز پڑھنے والے قصد قبر کے پاس نماز ادا کرنے کا نہ ہو اور نیز آپ نے طلوع اور غروب اور استوائے شمس کے وقت نماز ادا کرنے سے منع فرمایا ، کیونکہ یہ ایسے اوقات ہیں جن میں مشرکین سورج کی عبادت کرتے ہیں پس اپنی امت کو ان اوقات میں نماز سے بالکل منع کر دیا اگرچہ ان کا ارادہ مشرکین کا سانہ ہو۔
اگر کوئی شخص قبر کے پاس اس نیت سے نماز ادا کرے کہ اس جگہ میں نماز ادا کرنے میں برکت ہوگی تو یہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سر ا سر دشمنی اور آپ کے دین کی مخالفت اور ایسے دین کا گھڑنا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا، کیونکہ عبادات کی بنا موافقت سنت اور اتباع رسول ہے ۔ ابتداع اور خواہش نفسانی پر نہیں ، سو بلاشک تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے اور یہ انہوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے بدیہی اور ضروری طور سے معلوم کیا ہےکہ مقبرہ کے پاس نماز منع ہے ، چہ جائیکہ اس کو زیادہ باعث تبریک و بہبودی سمجھا جائے۔


فتنہ قبر پرستی کے انسداد کیلئے وسائل و ذرائع۔


ساتواں ذریعہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں کا ہموار کرنے کا حکم دینا۔ صحیح مسلم میں ابو الہیاج اسدی رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہےکہ مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نےکہا کیا میں تجھے اس کا م پر نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بھیجا تھا اور وہ یہ تھا کہ جو تصویر دیکھے اسے مٹا دے اور جو اونچی قبر دیکھے اسے ہموار کر دے۔


فتنہ قبر پرستی کے انسداد کیلئے وسائل و ذرائع۔
آٹھواں ذریعہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں کو عید ﴿ میلہ کی جگہ ﴾ بنانے سے منع فرمانا۔
سنن ابی داود میں اسنا حسن سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ تم اپنے گھروں کو قبریں مت بناو ﴿ یعنی ان میں نوافل پڑھا کرو﴾ اور میری قبر کو عید ﴿ میلہ کی جگہ ﴾ نہ بنانا اور مجھ پر درود بھیجتے رہنا ، کیونکہ تمہار ا درود مجھ کو پہنچ جائے گا ، تم جہاں کہیں بھی ہو گے۔
اور مسند یعلیٰ موصلی میں علی بن حسین ﴿ زین العابدین ﴾ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس ایک دریچہ کے پاس آتا اس میں داخل ہوتا اور دعا کرتا ہے تو آپ نے اسے منع فرماما اور کہا کیا میں تمہیں ایک حدیث سناوں جو میں نے اپنے والد ﴿ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ﴾ سے سنی اور انہوں نے میرے دادا سیدن علی رضی اللہ عنہ سے سنی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، آپ نے فرمایا میری قبر کو عید نہ بنانا اور نہ اپنے گھروں کو قبریں ، تمہار اسلام جہاں کہیں تم ہو ، مجھے پہنچ جاتا ہے۔
اور کہا سعید بن منصور نے خبر دی ہم کو سیدنا عبدالعزیز بن محمد نے ، انہوں نے کہا ہم کو خبر دی سہیل بن ابی سہیل نے کہا کہ حسن بن حسن علی بن ابی طالب ﴿ رضی اللہ عنہم﴾ نے قبر شریف کے پاس دیکھا ۔ انہوں نے مجھے سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے بلایا اور وہ رات کا کھاتا کھا رہے تھے اور فرمایاآو کھانا کھاو ، میں نے کہا مجھے خواہش نہیں، پھر انہوں نے فرمایا میں نے تمہیں قبر کے پاس کیوں دیکھا ؟ میں نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ نے فرمایا کیا تو اسی لیے مسجد میں داخل ہوا تھا پھر فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے گھر کو عید اور اپنے گھروں کو قبریں نہ بناو اور مجھ پر درود بھیجو ، تمہار درود مجھ کو پہنچتا ہے تم جہاں کہیں ہو۔ سو تم اور اندلس کے رہنے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس اعتبار سے بلکل برابر قرب رکھتے ہیں ۔
پس جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سیدالقبور ہے اور روئے زمین کی تمام قبروں سے افضل ہے اور آپ نے اس کو عید ﴿ میلہ کی جگہ ﴾ بنانے سے منع فرمایا ہے تو کسی اور قبر کے متعلق نہی بطریق اولیٰ ہوگی ، خواہ کسی ولی کی شہید کی یا کسی اور نبی کی ہی کیوں نہ ہو۔
پھر اس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور نہی ملادی اور فرمایا کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بناو اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے اس بات پر کہ اپنے گھروں میں نفل نمازیں اہتمام سے پڑھا کرو تا کہ وہ بمنز لہ قبورنہ بن جائیں اور ساتھ ہی قبروں کے پاس نماز پڑھنے سے بھی منع فرمایا اور اس امر کے ساتھ یہ حکم دیا کہ مجھ پر درود بھیجا کرو کیونکہ تمہار درود جس جگہ تم ہو مجھے پہنچ جاتا ہے اور یہ حکم دے کر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ تمہارا درود و سلام نزدیک و دور سے مجھے پہنچ جاتا ہے ۔ پس تمہیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم قبر کو عید ﴿ میلہ گاہ ﴾ بناو۔
 
Top