• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن حکیم کی روشنی میں رؤیت کا مفہوم

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
قرآن حکیم کی روشنی میں رؤیت کا مفہوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اب اس بات کی وضاحت قرآن پاک سے کرنا چاہتا ہوں۔

سورۃ الفیل میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ

(الفيل، 105 : 1)

بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ کیا :

’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں (یعنی ابرہہ کے لشکر) کے ساتھ کیا کیا‘‘۔

یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے پہلے کا ہے۔ لہذا آنکھ سے دیکھنے کا تو سوال ہی ختم ہوگیا اس لئے بعض مترجمین اس کا معنی کرتے ہیں۔

’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا‘‘۔

کوئی ترجمہ کرتا ہے۔ ’’کیا آپ نے نہیں سنا‘‘۔

کوئی ترجمہ کرتا ہے ’’کیا آپ نے نہیں جانا‘‘۔

آیت مبارکہ میں لفظِ تری ’’دیکھنا‘‘ استعمال ھوا مگر آنکھ سے دیکھنے کا معاملہ ہی نہیں ہے کیونکہ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے بھی پہلے کا ہے۔ اس لئے مترجمین نے مختلف تراجم کئے۔

اس طرح سورۃ الملک میں ارشاد فرمایا :

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَّا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِن فُطُورٍ

(الملک، 67 : 3)

’’جس نے سات (یا متعدّد) آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ (طبق دَر طبق) پیدا فرمائے، تم (خدائے) رحمان کے نظامِ تخلیق میں کوئی بے ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں دیکھو گے، سو تم نگاہِ (غور و فکر) پھیر کر دیکھو، کیا تم اس (تخلیق) میں کوئی شگاف یا خلل (یعنی شکستگی یا اِنقطاع) دیکھتے ہو‘‘۔

اب یہاں جن سات آسمانوں کے دیکھنے کی بات ہورہی ہے، اللہ تعالیٰ دکھانا چاہ رہا ہے کہ تم سات آسمانوں کے اندر ساری کائنات کو دیکھو کوئی عدم توازن نظر نہیں آئے گا۔ اب بتائیے کہ کون سی آنکھ ہے جو سات آسمانوں کے توازن اور عدم توازن کو دیکھ سکتی ہے۔ کون بندہ ہے جو یہ دیکھ کر بتاسکتا ہے۔ ایک چیز جب ننگی آنکھ سے نظر آنے والی ہی نہیں ہے تو کیا اللہ تعالیٰ اس چیز کو دیکھنے کی دعوت دے رہے ہیں جسے مکمل طور پر آنکھ دیکھ ہی نہیں سکتی، معاذاللہ اگر ننگی آنکھ سے دیکھنے کے ساتھ یہ معنی محصور کرلیں تو یہ انسانوں کے ساتھ مذاق بن جائے اور اللہ تعالیٰ تو مذاق سے پاک ہے۔ اس نے ماتری کہہ کر اشارہ دیا کہ تم غور کرو، عقل سے دیکھو، علم الہیت، سائنس، علم الحساب اور تحقیق، علم، تدبر، فکر سے دیکھو تمہیں ساری کائنات میں میری تخلیق میں کوئی تفاوت نظر نہ آئے گا۔ پس یہاں ننگی آنکھ کی بحث ہی نہیں، ننگی آنکھ تو ایک میل تک نہیں دیکھ سکتی، تو یہ اربوں، کھربوں میلوں سے بھی زیادہ پھیلی ہوئی کائنات کے تفاوت اور عدم تفاوت کو کون دیکھے گا، پس اس سے مراد جاننا ہے۔

آیت مبارکہ میں فَارْجِعِ الْبَصَرَ فرما کر لفظ آنکھ بھی استعمال کیا تو اس سے مراد بھی آنکھ سے دیکھنا نہیں ہے بلکہ دماغ مراد ہے، یعنی تحقیق، غوروفکر مراد ہے کہ بار بار پلٹ کر غور کرو، پلٹ کر تحقیق کرلو، پلٹ کر سوچ لو، کہیں کوئی عدم توازن نظر نہیں آئے گا۔ گویا بصر کہہ کر بھی مراد غوروفکر لیا گیا ہے۔

اسی طرح سورہ الحج میں فرمایا :

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ.

’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے ساری مخلوق اللہ کو سجدہ ریز ہوتی ہے‘‘۔

(الحج، 22 : 18)

کیا ننگی آنکھ سے زمین و آسمان کی ساری مخلوق، ساتوں آسمانوں پر رہنے والی مخلوق فرشتوں کو دیکھ سکتے ہیں کہ وہ سجدہ ریز ہیں یا نہیں۔

پس اللہ تعالیٰ نے دعوت دی ہے کہ دیکھ لیں اللہ ہی کے لئے ساری مخلوق سجدہ ریز ہے اس میں دیکھنے سے مراد غور فکر ہے اور یہ رؤیت بالعلم ہے، رؤیت بالعقل، بالتفکر ہے۔

سورۃ البقرہ میں ارشاد فرمایا :

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَآجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ..

’’اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑا کرنے لگا‘‘۔

(الْبَقَرَة ، 2 : 258)

یہاں نمرود کی بات ہورہی ہے۔ اب نمرود، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے ہزارہا سال پہلے ہوگزرا تھا اور یہ نمرود اور حضرت ابراہیم کے درمیان توحید باری تعالیٰ پر ہونے والے مناظرہ کی طرف اشارہ ہے۔ یہ واقعہ ہزارہا سال پہلے کا ہے اور قرآن الم تر ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا‘‘ رؤیت کا لفظ استعمال کررہا ہے۔ پس اس سے ننگی آنکھ سے دیکھنا تو کوئی مراد نہیں لے سکتا۔ یہاں مراد ہوگا کہ ’’کیا آپ نے نہیں جانا‘‘، ’’کیا یہ بات آپ کے علم میں نہیں آئی‘‘، ’’کیا یہ بات آپ تک نہیں پہنچی‘‘، پس مراد خبر ہے، اطلاع ہے، علم ہے، جاننا ہے۔

اس طرح سورۃ کہف میں ارشاد فرمایا :

وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ.

’’اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو ان سے بائیں جانب کترا جاتا ہے‘‘۔

(الکهف، 18 : 17)

اصحاب کہف کا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس سے کئی سال پہلے کا ہے۔ جب ان اصحاب کے غار میں قیام فرما ہونے کے دوران اس وقت سورج دائیں اور بائیں ہٹ کر گزرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے ’’آپ دیکھتے ہیں‘‘ کہ کسی طرح سورج ہٹ جاتا ہے۔ پس یہاں ننگی آنکھ کی بحث نہیں ہے بلکہ یہاں ’’تری‘‘ کا معنی علم ہے، علم بالوحی، علم بالعقل، علم بالکشف، اطلاع اور خبر ہے، انبیاء کو جو بھی ذریعۂ علم حاصل ہوتا ہے وہ سارے ذرائع اس میں شامل ہیں۔ پس علم جس ذریعے کے ساتھ بھی پہنچے تو اس کو رؤیت کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔

آج سے کھرب ہا سال قبل جب کائنات کی ابتداء ہوئی اور کائنات کو ایک Unit سے پیدا کیا گیا اور فتق کا عمل شروع ہوا، جب زمین و آسمان کا وجود بھی نہ تھا expansion & creation (تخلیق و کشادگی) کا عمل شروع ہوا تھا۔ اس وقت کا ذکر اس طرح سورۃ الانبیاء میں کیا جارہا ہے :

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا.

’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا‘‘۔

(سوره الانبياء، 21 : 30)

کھرب ہا سال پہلے وقوع پذیرہونے والے واقعہ کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ اس میں غور کریں اور یہ معاملہ Cosmology کا ہے، یہ معاملہ کائنات کی تخلیق اور اس کی توسیع Expansion سے متعلق ہے، سائنس کا مسئلہ ہے، مگر اس کو بیان کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا کہ کیا ان کافروں نے نہیں دیکھا مراد یہ کہ کیا انہوں نے غوروفکر نہیں کیا، کیا ان کے علم میں یہ بات نہیں آئی، اگر آج نہیں آئی تو صدیوں بعد آجائے گی کہ کائنات کس طرح ایک اکائی تھی اور اللہ نے اسے پھاڑ کر جدا کیا اور پھر اسے بڑھادیا۔

میں نے چند آیات اس لئے کوڈ کی ہیں تاکہ یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہوجائے کہ لفظ رؤیت کا معنی ہر گز ہرگز آنکھ سے دیکھنے پر محصور نہیں ہے۔ علم، خبرو اطلاع کسی بھی ذریعے سے میسر آجائے تو اس کو رؤیت کہتے ہیں۔

لہذا اس تمام تفصیل اور شرح کی روشنی میں ان احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غور کریں تو مفہوم واضح ہوجاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جب تمہیں چاند کے ہونے کا علم ہو تو اس علم پر روزہ رکھو اور چاند کے ہونے کے علم پر افطار کرو‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کا معنی یہ ہے کہ جب تمہیں چاند کے ہونے کا علم ہوجائے، اطلاع ہوجائے، جب جان لو کہ چاند ہوگیا تو روزہ رکھو اور جب جان لو کہ چاند ہوگیا تو افطار کرلو۔ (منقول)
 
Top