محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
قرآن سے تعلق
خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی دورِ خلافت میں نافع بن عبد الحارث رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مکہ کا گورنر مقرر کر رکھا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ مکہ کے قریب عسفان نامی نامی وادی پہنچے اور نافع کو ملاقات کیلئے بلایا۔ جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے نافع سے پوچھا:
اہل وادی یعنی مکہ والوں پر اپنی عدم موجودگی میں کسے حاکم مقرر کرکے آئے ہو؟
تو حضرت نافعؓ نے عرض کی: ابن ابزی کو۔
عمرؓ نے سوال کیا: ابن ابزی کون ہے؟
نافعؓ نے جواب دیا: وہ ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک غلام ہے۔
حضرت عمرؓ نے تعجب سے پوچھا: تم اہل مکہ کو ایک غلام کے سپرد کر آئے ہو؟
حضرت نافعؓ نے عرض کیا: وہ قرآن کا قاری ہے (یعنی قرآن کا علم رکھتا ہے، اس کے احکامات پر عمل بھی کرتا ہے) اور اسلامی قانون وراثت کا ماہر ہے۔
جواب بڑا معقول اور مناسب تھا۔ مسلمانوں کی سربراہ ہونے کیلئے قرآن کریم کا حافظ، قاری اور باعمل عالم دین ہونا بہت بڑی اہلیت ہے۔ لیکن ایک غلام کا ایک نہایت اہم عہدہ پر فائزہونا ایک غیر معمولی کامیابی تھی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس بات کو سراہتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث بیان فرما دی۔
آپؓ نے ارشاد فرمایا:
’’تمہارے نبی نے (سچ) کہا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کی بدولت بعض لوگوں (اقوام) کو عروج عطا فرمائے گا اور بعض کو (قرآن سے تعلق چھوڑنے کے باعث) ذلت و پستی میں گرادے گا‘‘۔ (صحيح مسلم، حدیث نمبر: 1897۔ ترقیم فوادعبدالباقی: 817)
ان کا پورا نام عبدالرحمٰن بن ابزی خزاعی تھا۔ وہ ایک غلام تھے۔ نہ جاہ نہ مال نہ حسب نہ نسب اور نہ ہی معاشرے میں کوئی مقام و مرتبہ۔ مگر قرآن پاک سے تعلق کی بدولت انہیں اہل مکہ پر حکمران مقرر کیا گیا۔ ان کا مقام و مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نگاہ میں یہ تھا کہ انہوں نے اپنی عہد خلافت میں انہیں خراسان کا گورنر مقرر کیا تھا۔
جب قرآن سے تعلق اور تقویٰ کی بنیاد پر حکمران مقرر کئے جاتے تھے تب امت عروج پر تھی۔
ذرا غور فرمائیے، آج امت کہاں کھڑی ہے؟
آج امت کے افراد مل کر اپنے میں کا سب سے زیادہ ذلیل، کمینہ اور کرپٹ شخص کو امت کا حکمران بناتے ہیں، کسی شریف قرآن و سنت کے باعمل عالم کو سربراہ نہیں چنتے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ امت ہر نئے دن کے ساتھ ذلالت کے دلدل میں مزید نیچے گرتی جا رہی ہے۔
ایک وقت تھا جب امت اسی کو حکمران بناتی تھی جو اہنے سینے کے اندر اور سینے کے باہر قرآن کو سجائے رکھتا تھا جس کے قول و عمل سے قرآن جھلکتا تھا، تب قرآن سے اس تعلق کی وجہ کر امت مسلمہ کو ساری دنیا کی خلافت عروج ملی تھی۔
قرآن تو اقوام کو عروج پر پہنچانے کیلئے نازل کیا گیا ہے۔ چاہے کوئی قوم ہو یا فرد ہو جو بھی قرآن سے اپنی تعلق استوار کرے گا اسے عروج نصیب ہوگا۔
آج بھی قرآن وہی ہے اور اسی قرآن کو ماننے والی امت ہے لیکن اس امت کا تعلق قرآن کے ساتھ پہلے جیسا نہیں رہا بلکہ قرآن کو مسلمانوں نے بالکل ہی چھوڑ رکھا ہے۔ جس کی سزا امت اس دنیا میں تو بھگت ہی رہی ہے، اب ذرا آخرت کے اس وقت کا تصور کیجئے
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (30) سورة الفرقان
’’جب رسولِ ﷺ (اللہ تعالیٰ سے) شکایت کریں گے: اے رب! بیشک میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘(30) سورة الفرقان
تب ہمارا کیا بنے گا۔
نزول قرآن کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ آئیے ہم اس بابرکت مہینے میں قرآن سے اپنا تعلق جوڑیں، قرآن کو اپنی دل و جان میں بسا لیں اور قرآن سے اپنا تعلق اور اپنا رشتہ مضبوط بنائیں۔ تاکہ نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ سے ہماری شکایت نہ کریں۔
نزول قرآن کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ آئیے ہم قرآن کریم کو صرف ثواب کیلئے نہیں بلکہ اس سے ہدایت حاصل کرنے کیلئے، اپنے اعمال و افعال اس کے مطابق بنانے کیلئے اور اپنی خیالات و افکار کودرست کرنے کیلئے اور اس کی ہدایت و رہنمائی کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں اپنانے کیلئے پڑھیں اور دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی اور فلاح حاصل کر سکیں۔
قرآن کریم عمل کی کتاب ہے، ھدایت کی کتاب ہے اور انقلاب کی کتاب ہے۔ اگر امت مسلمہ آج بھی اسے تھام لے اور اس کا حق ادا کرنے لگے تو یہ آج بھی ساری دنیا میں انقلاب برپا کرنے کی وہی تاثیر رکھتی جو نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اور اس کے بعد صحابہ کرامؓ کے زمانے میں رکھتی تھی۔
کیونکہ قرآن آج بھی وہی ہے، فرق صرف یہ ہے صحابہ کرامؓ نے قرآن کو اپنایا اور چلتے پھرتے قرآن کا نمونہ بن گئے اور ہم آج کے مسلمانوں نے قرآن کو اپنی زندگی سے نکال دیا۔ لہذا ذلت و رسوائی اس امت کی مقدر بن گئی۔
نزول قرآن کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ آئیے ہم قرآن کریم کو اس طرح پڑھیں جس طرح اس کو پڑھنے کا حق ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ چا ہتے ہیں پھر یہ ہماری زندگی میں انقلاب برپا کرے گا اور ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں گے، ان شاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
تمام دوستوں کو ماہ رمضان مبارک ہو۔
تحریر: محمد اجمل خان
خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی دورِ خلافت میں نافع بن عبد الحارث رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مکہ کا گورنر مقرر کر رکھا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ مکہ کے قریب عسفان نامی نامی وادی پہنچے اور نافع کو ملاقات کیلئے بلایا۔ جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے نافع سے پوچھا:
اہل وادی یعنی مکہ والوں پر اپنی عدم موجودگی میں کسے حاکم مقرر کرکے آئے ہو؟
تو حضرت نافعؓ نے عرض کی: ابن ابزی کو۔
عمرؓ نے سوال کیا: ابن ابزی کون ہے؟
نافعؓ نے جواب دیا: وہ ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک غلام ہے۔
حضرت عمرؓ نے تعجب سے پوچھا: تم اہل مکہ کو ایک غلام کے سپرد کر آئے ہو؟
حضرت نافعؓ نے عرض کیا: وہ قرآن کا قاری ہے (یعنی قرآن کا علم رکھتا ہے، اس کے احکامات پر عمل بھی کرتا ہے) اور اسلامی قانون وراثت کا ماہر ہے۔
جواب بڑا معقول اور مناسب تھا۔ مسلمانوں کی سربراہ ہونے کیلئے قرآن کریم کا حافظ، قاری اور باعمل عالم دین ہونا بہت بڑی اہلیت ہے۔ لیکن ایک غلام کا ایک نہایت اہم عہدہ پر فائزہونا ایک غیر معمولی کامیابی تھی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس بات کو سراہتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث بیان فرما دی۔
آپؓ نے ارشاد فرمایا:
’’تمہارے نبی نے (سچ) کہا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کی بدولت بعض لوگوں (اقوام) کو عروج عطا فرمائے گا اور بعض کو (قرآن سے تعلق چھوڑنے کے باعث) ذلت و پستی میں گرادے گا‘‘۔ (صحيح مسلم، حدیث نمبر: 1897۔ ترقیم فوادعبدالباقی: 817)
ان کا پورا نام عبدالرحمٰن بن ابزی خزاعی تھا۔ وہ ایک غلام تھے۔ نہ جاہ نہ مال نہ حسب نہ نسب اور نہ ہی معاشرے میں کوئی مقام و مرتبہ۔ مگر قرآن پاک سے تعلق کی بدولت انہیں اہل مکہ پر حکمران مقرر کیا گیا۔ ان کا مقام و مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نگاہ میں یہ تھا کہ انہوں نے اپنی عہد خلافت میں انہیں خراسان کا گورنر مقرر کیا تھا۔
جب قرآن سے تعلق اور تقویٰ کی بنیاد پر حکمران مقرر کئے جاتے تھے تب امت عروج پر تھی۔
ذرا غور فرمائیے، آج امت کہاں کھڑی ہے؟
آج امت کے افراد مل کر اپنے میں کا سب سے زیادہ ذلیل، کمینہ اور کرپٹ شخص کو امت کا حکمران بناتے ہیں، کسی شریف قرآن و سنت کے باعمل عالم کو سربراہ نہیں چنتے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ امت ہر نئے دن کے ساتھ ذلالت کے دلدل میں مزید نیچے گرتی جا رہی ہے۔
ایک وقت تھا جب امت اسی کو حکمران بناتی تھی جو اہنے سینے کے اندر اور سینے کے باہر قرآن کو سجائے رکھتا تھا جس کے قول و عمل سے قرآن جھلکتا تھا، تب قرآن سے اس تعلق کی وجہ کر امت مسلمہ کو ساری دنیا کی خلافت عروج ملی تھی۔
قرآن تو اقوام کو عروج پر پہنچانے کیلئے نازل کیا گیا ہے۔ چاہے کوئی قوم ہو یا فرد ہو جو بھی قرآن سے اپنی تعلق استوار کرے گا اسے عروج نصیب ہوگا۔
آج بھی قرآن وہی ہے اور اسی قرآن کو ماننے والی امت ہے لیکن اس امت کا تعلق قرآن کے ساتھ پہلے جیسا نہیں رہا بلکہ قرآن کو مسلمانوں نے بالکل ہی چھوڑ رکھا ہے۔ جس کی سزا امت اس دنیا میں تو بھگت ہی رہی ہے، اب ذرا آخرت کے اس وقت کا تصور کیجئے
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (30) سورة الفرقان
’’جب رسولِ ﷺ (اللہ تعالیٰ سے) شکایت کریں گے: اے رب! بیشک میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘(30) سورة الفرقان
تب ہمارا کیا بنے گا۔
نزول قرآن کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ آئیے ہم اس بابرکت مہینے میں قرآن سے اپنا تعلق جوڑیں، قرآن کو اپنی دل و جان میں بسا لیں اور قرآن سے اپنا تعلق اور اپنا رشتہ مضبوط بنائیں۔ تاکہ نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ سے ہماری شکایت نہ کریں۔
نزول قرآن کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ آئیے ہم قرآن کریم کو صرف ثواب کیلئے نہیں بلکہ اس سے ہدایت حاصل کرنے کیلئے، اپنے اعمال و افعال اس کے مطابق بنانے کیلئے اور اپنی خیالات و افکار کودرست کرنے کیلئے اور اس کی ہدایت و رہنمائی کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں اپنانے کیلئے پڑھیں اور دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی اور فلاح حاصل کر سکیں۔
قرآن کریم عمل کی کتاب ہے، ھدایت کی کتاب ہے اور انقلاب کی کتاب ہے۔ اگر امت مسلمہ آج بھی اسے تھام لے اور اس کا حق ادا کرنے لگے تو یہ آج بھی ساری دنیا میں انقلاب برپا کرنے کی وہی تاثیر رکھتی جو نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اور اس کے بعد صحابہ کرامؓ کے زمانے میں رکھتی تھی۔
کیونکہ قرآن آج بھی وہی ہے، فرق صرف یہ ہے صحابہ کرامؓ نے قرآن کو اپنایا اور چلتے پھرتے قرآن کا نمونہ بن گئے اور ہم آج کے مسلمانوں نے قرآن کو اپنی زندگی سے نکال دیا۔ لہذا ذلت و رسوائی اس امت کی مقدر بن گئی۔
نزول قرآن کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ آئیے ہم قرآن کریم کو اس طرح پڑھیں جس طرح اس کو پڑھنے کا حق ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ چا ہتے ہیں پھر یہ ہماری زندگی میں انقلاب برپا کرے گا اور ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں گے، ان شاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
تمام دوستوں کو ماہ رمضان مبارک ہو۔
تحریر: محمد اجمل خان