قرآن مجید میں قراء توں کا اختلاف
ماخذ: ماہنامہ رشد: قراءت نمبر حصہ دوم
عصر حاضر کے متجدِّدین نے یہ طے کررکھا ہے کہ اسلام کا ہر وہ حکم جو مغرب کے لئے باعث تشویش ہے، اسے کسی نہ کسی طرح منسوخ اور ناقابل عمل قرار دے دیا جائے۔ ان کا یہ رویہ نہ جانے مغرب سے مرعوبیت کی وجہ سے ہے یا پھر مستشرقین کی ذمہ داری وہ اسلامی معاشروں میں بیٹھ کر نبھا رہے ہیں، کیونکہ ان کا ہر کام اسلامی تعلیمات کی تشریح و توضیح کے بجائے ان کی تعطیل و تضحیک اور مستشرقین کے گمراہ کن افکار کی تثبیت و توثیق پر مبنی نظرآتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہے کہ ایسے افراد کے کار ہائے غلط کی تردید کے لیے ایسی عظیم ہستیوں کوپیدا فرما دیتے ہیں، جو انہی کا سا پس منظر رکھنے کے باوجود اِس قسم کے آوارہ منش مفکرین کے خلاف برسرپیکار ہوجاتے ہیں۔ ہماری رائے میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیa بھی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں، جنہوں نے بیسویں صدی میں فکر اسلامی کے دفاع کی ذمہ داری بڑ ے احسن انداز سے نبھائی ہے او راسلامی تعلیمات کو دقیانوسی قرار دینے کے بجائے دور جدید کے مطابق ان کی بہترین توجیہہ پیش کی ہے۔ دیگر اُمور کی طرح جب ان سے اختلافِ قراء ات کے بارے میںدریافت کیاگیا تو انہوں نے متجدِّدین کے برعکس اِن کی بھرپور انداز میں توثیق کی او ر انہیں منزل من اللہ قرار دیا۔ ان کا یہ فتویٰ ماہنامہ ترجمان القرآن کے شمارہ بابت جون ۱۹۵۹ء میں شائع ہوا ہے، جسے اتمام فائدہ کے لیے فتوی کے بجائے مضمون کی صورت میں شائع کیا جارہا ہے۔ [ادارہ]
سوال: ذیل میں درج شدہ مسئلہ کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں ۔اُمید ہے تفصیلی دلائل سے واضح فرمائیں گے۔
قرآن مجیدکے متعلق ایک طرف تویہ کہا جاتا ہے کہ یہ بعینہٖ اُسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہواتھا۔ حتیٰ کہ اس میں ایک شوشے یا کسی زیر، زبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن دوسری طرف بعض معتبر کتب میں یہ درج ہے کہ کسی خاص آیت کی قراء ت مختلف طریقوں سے مروی ہے جن میں اعراب کا فرق عام ہے۔بلکہ بعض جگہ تو بعض عبارات کے اختلاف کاذکر تک کیا گیا ہے۔
اگر پہلی بات صحیح ہو تواختلاف قراء ت ایک مہمل سی بات نظر آتی ہے، لیکن اس صورت میں علماء کا اختلاف قراء ت کی تائید کرناسمجھ میں نہیں آتا اور اگر دوسری بات کوصحیح مانا جائے تو قرآن کی صحت مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اِعراب کے فرق سے عربی کے معانی میں کتنافرق ہوجاتا ہے۔یہاں میں یہ عرض کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ منکرین حدیث کی طرف میرا ذرہ بھر بھی میلان نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کررہاہوں ۔
جواب:یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہواتھا اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قراء توں کا اختلاف تھا اور ہے۔ جن لوگوں نے اس مسئلے کا باقاعدہ علمی طریقے پرمطالعہ نہیں کیا ہے وہ محض سطحی نظر سے دیکھ کر بے تکلف فیصلہ کردیتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں اور ان میں سے لازماً کوئی ایک ہی بات صحیح ہوسکتی ہے،یعنی اگر قرآن صحیح طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل ہوا ہے تو اختلافاتِ قراء ت کی بات غلط ہے اور اگر اختلافِ قراء ت صحیح ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن ہم تک صحیح طریقے سے منتقل نہیں ہوا ہے، حالانکہ فیصلے صادر کرنے سے پہلے یہ لوگ کچھ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں تو خود بھی غلط فہمی سے بچ جائیں اور دوسروں کوغلط فہمیوں میں مبتلاکرنے کاوبال بھی اپنے سر نہ لیں ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جس رسم الخط میں ابتداءً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی کتابت کرائی تھی اور جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلا مصحف مرتب کرایا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جس کی نقل بعد میں شائع کرائی، اس کے اندر نہ صرف یہ کہ اعراب نہ تھے بلکہ نقطے بھی نہ تھے، کیونکہ اس وقت تک یہ علامات ایجاد نہ ہوئی تھیں ۔اس رسم الخط میں پورے قرآن کی عبارت یوں لکھی گئی تھی:
کتاب احکمت ایتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر
اس طرز تحریر کی عبارتوں کو اہل زبان اٹکل سے پڑھ لیتے تھے اور بہرحال بامعنی بناکر ہی پڑھا کرتے تھے، لیکن جہاں مفہوم کے اعتبار سے متشابہ الفاظ آجاتے ہیں ، یا زبان کے قواعد و محاورہ کی رو سے ایک ہی لفظ کے کئی تلفظ یا اِعراب ممکن ہوتے وہاں خود اہل زبان کو بھی بکثرت اقتباسات پیش آجاتے ہیں اور یہ تعین کرنا مشکل ہوجاتا تھاکہ لکھنے والے کا اصل منشا کیا ہے۔مثلاً ایک فقرہ اگریوں لکھا ہو کہ ربنا بعد بین اسفارنا تو اسے رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارٍِنَابھی پڑھا جاسکتا تھا اور رَبُّنَا بَعَّدَ بَیْنَ اَسْفَارِنَا بھی۔ اسی طرح اگر ایک عبارت یوں لکھی ہو کہ انظر الی العظام کیف ننشزھا تو اسے اُنْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا بھی پڑھاجاسکتا تھا اور کَیْفَ نُنْشِرُھَا بھی۔
یہ اختلافات تو اس رسم الخط کے پڑھنے میں اہل زبان کے درمیان ہوسکتے تھے، لیکن ایک عربی تحریر اگر اسی رسم الخط میں غیر اہل زبان کو پڑھنی پڑ جاتی تو وہ اس میں ایسی سخت غلطیاں کرجاتے جو قائل کے منشا کے بالکل برعکس معنی دیتی تھیں ۔مثلاً ایک دفعہ ایک عجمی نے آیت إنَّ اﷲَ بَرِیٌٔ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہُ میں لفظ وَرَسُوْلُہُ کا اعراب وَرَسُوْلِہِ پڑھا جس سے معنی یہ بن گئے کہ ’’اللہ بری الذمہ ہے مشرکین سے اور اپنے رسول سے۔ـ‘‘ معاذ اﷲ
پھر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن میں اعراب لگانے کی ضرورت سب سے پہلے بصرے کے گورنر زیاد رحمہ اللہ نے محسوس کی جو ۴۵ھ سے ۵۳ ھ تک وہاں کا گورنر رہا تھا۔ اس نے ابوالاسود دؤلی رحمہ اللہ سے فرمائش کی کہ وہ اعراب کے لیے علامات تجویز کریں اور انہوں نے یہ تجویز کیا کہ مفتح حرف کے اوپر، مکسور حرف کے نیچے اورمضموم حرف کے بیچ میں ایک ایک نقطہ لگا دیا جائے۔اس کے بعد عبدالملک بن مروان رحمہ اللہ ۶۵ھ تا ۸۶ ھ کے عہد حکومت میں حجاج بن یوسف رحمہ اللہ والی عراق نے دو علماء کو اس کام پرمامور کیا کہ وہ قرآن کے متشابہ حروف میں تمیز کرنے کی کوئی صورت تجویز کریں ۔چنانچہ انہوں نے پہلی مرتبہ عربی زبان کے حروف میں بعض کو منقوط اور بعض کو غیرمنقوط کرکے اورمنقوط حروف کے اوپر یانیچے ایک سے لے کر تین تک نقطے لگاکر فرق پیدا کیا اور ابوالاسود رحمہ اللہ کے طریقے کو بدل کر اعراب کے لیے نقطوں کے بجائے زیر، زبر، پیش کی وہ حرکات تجویز کیں جو آج مستعمل ہیں ۔
ان دو تاریخی حقیقتوں کونگاہ میں رکھ کر دیکھئے کہ اگر قرآن کی اشاعت کا دار ومدار صرف تحریر پر ہوتا توجس رسم الخط میں اُمت کو یہ کتاب ملی تھی اس کو پڑھنے میں تلفظ اور اعراب ہی کے نہیں متشابہ حروف کے بھی کتنے بے شمار اختلافات ہوگئے ہوتے۔ محض زبان اور اس کے قواعد کی بناپر خود اہل زبان بھی اگر نقطے اور اعراب لگانے بیٹھتے تو قرآن کی ایک ایک سطر میں بیسیوں اختلافات کی گنجائش نکل سکتی تھی اور کسی ذریعہ سے یہ فیصلہ نہ کیا جاسکتاتھا کہ اصل عبارت جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی وہ کیا تھی۔ اس کااندازہ آپ خود اس طرح کرسکتے ہیں کہ اُردو زبان کی کوئی عبارت بے نقطہ لکھ کر دس بیس زبان داں اصحاب کے سامنے رکھ دیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے کسی کی قراء ت بھی کسی دوسرے کی قراء ت کے مطابق نہ ہوگی۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن میں نقطے اور اعراب لگانے کا کام محض لغت اور قواعد زبان کی مہارت کے بل بوتے پرنہیں کیا جاسکتاتھا، کیونکہ اس طرح ایک مصحف نہیں ،بے شمار مصاحف تیار ہوجاتے جن میں الفاظ اور اعراب کے اَن گنت اختلافات ہوتے اور کسی نسخے کے متعلق بھی یہ دعویٰ نہ کیاجاسکتا کہ یہ ٹھیک اس تنزیل کے مطابق ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی۔
جاری ہے۔۔۔