اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 37پر اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک روایت ذکر کرتاہے کہ :
''ادرکت ثلثین من أصحاب النبی ﷺ کلھم یخاف النفاق علی نفسہ''
( بخاری 79/1)
''کہ میں نے تیس(30)اصحاب رسول ﷺ کو ایسی حالت میں پایا ہے کہ تمام کے تمام اس سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں ہم منافق نہ ہوں۔۔۔۔۔
''ادرکت ثلثین من أصحاب النبی ﷺ کلھم یخاف النفاق علی نفسہ''
( بخاری 79/1)
''کہ میں نے تیس(30)اصحاب رسول ﷺ کو ایسی حالت میں پایا ہے کہ تمام کے تمام اس سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں ہم منافق نہ ہوں۔۔۔۔۔
جواب:۔
یہاں مصنف نے انتہائی درجہ کی علمی خیانت کی ہے اور اس نے ترجمہ کو اتنے غلط انداز میں بیان کیاہے کہ بات کہیںسے کہیںچلی گئی اس کی اصل وجہ مصنف کی عربی سے ناواقفیت ہے ۔ صحیح ترجمہ میں ذیل میں بیان کردیتا ہوں :
''میں نے تیس صحابہ رضی اللہ عنہم کو پایا کہ وہ اپنے آپ میں نفاق سے ڈرتے تھے ''۔
یعنی ان کو اپنے ایمان کی حفاظت کا ڈر تھا اور منافقت سے بیزاری تھی یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ جماعت ہر وقت اپنے ایمان کا جائزہ لیتی تھی اگر اپنے آپ کو منافقت سے ڈرانا غلط ہے تو اس کی دلیل قرآن کی کس آیت میں ہے ۔بلکہ قرآن کریم ہی میں ذکر ہے :
'' وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا آتَوا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ أَنَّہُمْ إِلٰی رَبِّہِمْ رَاجِعُونَ''(مؤمنون 60/23)
'' اور وہ اللہ کی راہ میں جو بھی دیں مگر ان کے دلوں کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ''۔
آیت مبارکہ پر غور فرمائیں کہ ایمان والے جب بھی خرچ کرتے ہیں تو ان کے دل دھڑکتے ہیں (کہ اللہ کے ہاںمقبول ہوگا کہ نہیں )بتائیے دل کادھڑکنا کیوں؟ یہ دھڑکنا صرف اور صرف تقوی ہے اور اس کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جیساکہ بخاری میں ام حارثہ رضی اللہ عنہما کا قصہ موجود ہے :
''کہ حارثہ رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں شہید ہوگئے تو ان کی والدہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں کہنے لگیں یارسول اللہ ﷺ آپ حارثہ رضی اللہ عنہ کا مجھ سے تعلق جانتے ہیں اگر وہ جنت میں ہوا تو میں صبر کرونگی اور اجر کی امید رکھونگی اگر دوسری جگہ ہوا تو آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں (یعنی رونا پیٹنا) فرمایا : بربادی ہو تیرے لئے (یہاں کلمۃ ویحکاستعمال ہوا ہے جو عام طور پر اپنے اصل معنی کے لئے نہیں بولا جاتا ) کیا تو نے بچہ گم کردیا ہے ؟کیا وہ ایک جنت ہے ؟ وہ تو کئی ساری جنتیں ہیں اور وہ (حارثہ ) جنت الفردوس میں ہے ''۔
(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب صفۃ الجنۃ والنار رقم الحدیث 6550)
اسی وجہ سے اماں عائشہ رضی اللہ عنہانے نبی ﷺ سے پوچھا :
''کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں چوریاں کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں اے صدیق کی بیٹی بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں صلوۃقائم کرتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں اور وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ نامقبول نہ ہوجائیں'' ۔ (ترمذی کتاب التفسیرباب ومن سورۃ المؤمنین 3175)
لہٰذا صحابہ کا نفاق سے ڈرنا یہ محض تقوی کی علامت ہے ۔مثلاً''حنظلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے ابو بکر رضی اللہ عنہ ملے اور فرمایا :کیا حال ہے حنظلہ؟ میں نے کہا : حنظلہ کے دل میں نفاق آگیا ۔ (تعجب سے)فرمایا سبحان اللہ کیا کہہ رہے ہو ؟میں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوتے ہیں وہ جنت اور جہنم یاد دلاتے ہیں یہاں تک کہ گویا کہ ہم (جنت وجہنم کو) دیکھ رہے ہوتے ہیں پھر جب ہم نبی کریم ﷺ کے پاس سے نکل جاتے اور گھر بار اور مال واولاد میں گھل مل جاتے تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے پھر میں اور ابو بکر گئے حتی کہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئے میں نے کہا : حنظلہ کے دل میں نفاق آگیا یارسول اللہ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کس بات پر ؟میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں آپ ہمیں جنت وجہنم یاد دلاتے ہیں گویا کہ ہم جنت وجہنم دیکھ رہے ہوتے ہیں پھر جب ہم آپ کے پاس سے نکل جاتے ہیں اور گھر بار اور مال واولاد میں گھل مل جاتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جا ن ہے اگر تم ہمیشہ اسی حالت میں رہو جس حالت میں میرے پاس ہوتے ہو اور ذکر میں تو فرشتے تم سے تمہارے بستروں اور تمہارے راستوں میں مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ کبھی اسطرح اور کبھی اسطرح یعنی ایک گھڑی میں آخرت کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور ایک گھڑی میں دنیاوی معاملات میں مشغول ہو۔ آپ ﷺ نے یہ جملہ تین دفعہ ارشاد فرمایا ۔
(صحیح مسلم کتاب التوبۃ باب فضل دوام الذکر۔۔۔۔2750)
لہٰذا صحابہ رضی اللہ عنہم پر بہتان اور امام بخاری رحمہ اللہ کو صحابہ دشمن کہنا یہ محض گمراہی اور ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ۔