• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن و حدیث

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
قرآن و حدیث
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاد رہے کہ بغیر حدیث کی تشریح و تتبع کے قرآن ایک موم کی ناک بن جاتا ہے جس کو "قرآن سے محبت کا دعوی کرنے والے اصحاب" جدھر چاہیں اپنے مقاصد کے زیر اثر موڑ سکتے ہیں اور موڑتے رہے ہیں۔ عموما عوام کو یہ پرفریب و دلربا دھوکا دیا جاتا ہے کہ قرآن، حدیث پر حاکم ہے سو جو حدیث قرآن کے خلاف ہو اسکو رد کردو۔ دراصل یہ مغالطہ بڑا ہی حسین لیکن اپنے اندر کئی تسامحات رکھتا ہے، جن کی تفصیل کا فی الحال یہ موقع نہیں۔ البتہ دین کے طالبعلم کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیئے کہ نہ تو قرآن مطلق حدیث پر حاکم ہے اور نہ ہی حدیث مطلق قرآن پر، بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے شارح ہیں کیونکہ دونوں ہی وحی الہی کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان میں فرق صرف متلو و غیر متلو کا ہے۔

قرآن و حدیث دونوں ایک دوسرے پر حاکم ہیں۔ کئی مواقع پر قرآن کے تحت حدیث کی تاویل و تشریح کی ضرورت پڑتی ہے تو کئی جگہوں پر حدیث قرآن کے معانی و مطالب کی درست تفہیم کی طرف رہنمائی کررہی ہوتی ہے۔ اس بابت ہمارے علمی طبقات میں افراط و تفریط دیکھنے کو ملتی ہے کہ کئی احباب "حسبنا کتاب اللہ" کا نعرہ لگا کر ہر وہ حدیث جو ان کی ناقص عقل کے تحت قرآن کے خلاف ہوتی ہے، اسکو رد کردینے کی جسارت کررہے ہوتے ہیں تو کئی احباب ردعمل کی نفسیات میں مبتلا ہوکر قرآن کے مقابلے حدیث کو مطلق حاکمیت کا درجہ دیکر قرآن کی محکم آیات کو منسوخ کررہے ہوتے ہیں۔

ہمارے اس طور کے احباب کبھی قلیب بدر میں سیدہ عائشہ رض و سیدنا عبداللہ بن عمر رض کے واقعہ کو بطور استدلال پیش کررہے ہوتے ہیں تو کبھی سیدنا عمر رض اور فاطمہ بن قیس رض کے واقعے کو دلیل بنا رہے ہوتے ہیں، جبکہ درست بات یہ ہے کہ ان دونوں اور اس طرح کے تمام واقعات کا تعلق قرآن و حدیث سے ثابت اصول الدرایت کی تطبیق و تنفیذ سے ہے یعنی سیدہ عائشہ رض یا سیدنا عمر رض کا استدلال محض اپنی عقل کے تحت نہیں بلکہ قرآن و دیگر صحیح احادیث سے ثابت شدہ احکام کے ضمن میں تھا جس کے لئے انہوں نے بطور استدلال اس وقت کسی قرآنی آیت کا حوالہ دیدیا۔ ان مواقع پر کوئی مناظرہ یا مذاکرہ تو چل نہیں رہا تھا کہ یہ حضرات اپنے موقف کے دلائل میں قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث بھی استدلال میں پیش فرماتے۔ البتہ جہاں تفصیل و مذاکرے کا موقع ملا وہاں ان حضرات نے قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث کا حوالہ بھی دیا جیسا کہ سیدنا عمر رض کا شام کے علاقے میں طاعون کی وبا کا واقعہ یا مجاہدین کے درمیان ایسی زمین کی تقسیم کا معاملہ جو بزور شمشیر فتح کی گئی ہو سے متعلق اجتہاد کی تفاصیل سے ثابت ہے۔

سو اس بابت درست طرزعمل یہی ہے کہ قرآن و حدیث دونوں کو ساتھ لیکر دینی احکام اخذ کئے جائیں۔ نہ ہی اصول الروایتہ پر اتنا زور دیا جائے کہ اصول الدرایتہ بالکل نظر انداز ہوجائے اور نہ ہی اصول الدرایتہ کو اتنی اہمیت دی جائے کہ صحیح السند حدیث جس کو تلقی بالقبول بھی حاصل رہا ہو، اسکو مطلق رد کردیا جائے۔

قرآن و حدیث احکام احذ کرنے میں کس طور سے ایک دوسرے کے معاون بنتے ہیں اور اس بابت اصول روایت و درایت کی تنفیذ کے تحت علماء میں جائز و مباح اختلاف کس طور سے پنپتے ہیں، اس کے لئے ڈاکٹر مصطفی سعید الخن کی کتاب "قواعد اصولیہ میں فقہاء کا اختلاف اور فقہی مسائل پر اس کا اثر" لائق مطالعہ ہے۔

تحریر: محمد فھد حارث
 
Top