عابد قائم خانی
مبتدی
- شمولیت
- مارچ 05، 2012
- پیغامات
- 34
- ری ایکشن اسکور
- 54
- پوائنٹ
- 16
قرآں حکیم سے عربی زبان کی فرضیت
[حصّہ اوّل]
تحریر : عابد قائم خانی
[اَ عُوْ ذُ بِرَ بِّ النَّا سِ ہمَلِکِ النَّا سِ ہ اِ لٰہِ النَّا سِ ہ مِنْ شَرِّ الْوَ سْوَا سِ الْخَنَّا سِ ہ الَّذِیْ یُوَ سْوِ سُ فِیْ صُدُوْ رِ النَّا سِ ہ مِنَ الْجِنّۃِ وَ النَّا سِ ہ ](۱۱۶: سُوْ رَ ۃُ ا لنَّا س)
[ترجمہ: میں انسانوں کے رب، انسانوں کے بادشاہ ، انسانوں کے معبود کی تعویذ( یعنی پناہ) میں آتا ہوں۔وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والے (خناسی) شر سے جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے. وہ جن ( یعنی چھپے ہوئے)اور ناس( یعنی مانوس انسانوں) میں سے ہیں]
پیش الفاظ :
عربی زبان کے بارے میں لکھنے کا خیال سب سے پہلے اُس وقت آیا جب میں نے پہلی بار اپنے اُستادمحترم جناب علامہ الیاس ستارحفظہ اللہ تعالیٰ سے یہ سُنا کہ ’’اللہ تعالیٰ گرامر میں غلطی نہیں کرسکتا ہے ۔‘‘ اور قرآن عربی زبان کی گرامر میں نازل ہوا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ بہت سے تعلیم یافتہ اشخاص اور علماء کرام بغیر عربی زبان کو جانے صرف تراجم اور قاموسDictionary/کے سہارے قرآن حکیم کی غلط تشریحات کررہے ہیں جو عربی لسان اور اسکی گرامر کے سراسر برخلاف ہیں کیونکہ کچھ لوگ قرآن کی تشریح حدیث اور فقہ کی بُنیاد پرکرتے ہیں اور کچھ لوگ عقل اوراپنی خواہشات پر بُنیاد کرتے ہیں۔ عربی زبان اور اُسکی گرامر اُن دونوں کیلئے حجت نہیں ہیں جس کی وجہ سے ایک اللہ اور ایک قرآن کی حامل ’’اُمۃ مسلمۃ‘‘ تفرقے کے نا ختم ہونے والے سلسلے کا شکار ہے اوراس کا واحد حل صرف عربی لسان و گرامر سے مکمل واقفیت ہے۔ قرآن حکیم سے عربی لسان کی فرضیت پر دنیائے عرب و اسلام کے کئی ممتاز علماء کرام متفق ہیں جس میں سب سے بڑا نام فقہ شافعی کے امام شافعیؒ کاہے۔ اُردو میں یہ پہلا مضمون ہے جو عربی زبان کی فرضیت کے سلسلے میں لکھا گیا ہے کیونکہ رب العالمین کا ارشاد ہے کہ[ ا تَّبِعُوْ ا مَنْ لَّا یَسْءَلُکُمْ اَ جْرً ا وَّ ھُمْ مُّھْتَدُ وْ نَ ہ (۳۶: یاسین:۲۱) ایسے لوگوں کی اتباع کرؤ جو تم سے کسی اجر کے سوالی نہیں اور وہ ہدایت پر ہوں ۔ ]اور بغیر علم عربی کے کوئی کیسے صحیح ہدایت دے سکتا ہے ؟ وہ تو خود محتاجِ ہدایت ہے اسی لئے اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے کہ[ وَ مِنَ النَّا سِ مَنْ یُّجَا دِلُ فِیْ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍٍ وَّ یَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطٰنٍٍ مَّرِیْدٍٍ ہ(۲۲:حج:۳) بعض لوگ اللہ (کے کلام ) میں جدال کرتے ہیں اور وہ بھی بغیرعلم کے اوروہ ہر سرکش شیطان کی اتباع کرتے ہیں۔] کیونکہ قرآن فہمی کا زیادہ تر دار ومدار عربی لسان و قواعد پر ہوتا ہے جس کی طرف بہت سے لوگوں نے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ ان کی آنکھیں کھولنے کیلئے میں قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ عقلی اور سائنسی دلائل بھی عربی کی فرضیت کے سلسلے میں پیش کررہا ہوں تاکہ جو لوگ صرف عربی زبان کا احترام کرتے ہیں وہ خود بھی عربی سیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی بچپن سے عربی زبان سکھائیں اور اس کی فرضیت کے بارے میں لوگوں کو بھی تبلیغ کریں تاکہ دین کے ٹھیکیدار چند لوگ ہی نہ بنیں کیونکہ الٰہی فرمان کے مطابق اللہ کی واحد لاریب کتاب’’ القرآن‘‘ کا سیکھنا ہر مسلم پر فرض ہے ۔
(1) قرآن عربی زبان میں ہے:
جیسے کہ قرآن میں لکھا ہے ۔ [اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ہ (۱۲:یوسف :۲) ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم عقل حاصل کرسکو ۔]
[نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ ہ عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذرِیْنَ ہ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ ہ(۲۶:شعراء :۱۹۵) اس (اللہ ) نے اس (قرآن) کے ساتھ روح الامین کو نازل کیا، آپ (محمدرسول اللہ) کے قلب پر تاکہ آپ لوگوں کو نصیحت کرتے رہو۔ بیان کرنے والی (واضح) عربی زبان کے ساتھ۔ ] [ھٰذَا لِسَا نُٗ عَرَبِیُّٗ مُّبِیْنُٗ ہ(۱۶:نحل:۱۰۳) یہ (قرآن تو) صاف عربی زبان میں ہے۔] اللہ کی آخری کتاب القرآن عربی زبان میں نازل ہوئی ہے اس لئے اب ایک سچے مسلم کے نزدیک سوائے عربی کے کوئی دوسری زبان اس کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کی حامل کبھی نہیں بن سکتی ہے لہٰذا عربی کا سیکھنا بھی ہر مسلم پر فرض ہوجاتا ہے تاکہ پتا چلے کہ کون قرآن کی زبان کو اہمیت دیتا ہے اور کون نہیں ۔ عربی لسان سے واقف شخص کی بانسبت ناواقف شخص غلط فہمی اور فرقے واریت کا جلد شکار ہوجاتاہے کیونکہ عربی زبان قرآن کی روح ہے اور بغیر روح کے ہر جسد مردہ ہوتا ہے !!!
(2) قرآنی ترجمیں انسانی تقلید ہیں:
جب کسی شخص کو قرآن سے اس کے عقائد اور ترجمے کی غلطیاں بتائی جاتی ہے تو ان کے جواب بالکل ایسا ہی ہوتے ہیں [قَالُوْا بَلْ نَتَّبَعُ مَا اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ آبَاءَ نَا اَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُھُمْ لاَ یَعْقِلُونَ شَیْئاً وَلاَ یَھْتَدُوْنَ ہ (۲:بقرہ:۱۷۰)تو کہتے ہیں کہ (نہیں) بلکہ ہم تو اسی چیز کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے ابا اجداد کو چلتے پایا بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل استعمال کرتے ہوں اور نہ ہدایت پر ہوں۔ ] ترجمے چونکہ ا لٰہی تقلید نہیں بلکہ مکمل انسانی تقلید ہے اور اندھی انسانی تقلید اللہ اس آیت میں منع فرما رہے ہیں ہے اور عربی زبان مسلمین کو اندھی انسانی تقلید سے بچاتی ہے۔ عربی سے ناواقفی اور تراجم کی وجہ سے بھی فرقہ واریت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اللہ فرماتا ہے: ’’مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوْا شِیَعاً کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ ہ‘‘ (۳۰:روم:۳۲) ’’ ان لوگوں میں (نہ ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو فرقے فرقے کردیا اور شیعہ (یعنی جماعت) بن گئے ہر فرقہ اسی میں خوش ہے جو ان کے پاس ہے۔‘‘ کیونکہ ہر فرقے کے قرآنی ترجمے، تشریح اور تاویل ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں اس لئے کہ عوام کے ساتھ علماء نے بھی پچھلے ادیان میں تحریف کے مفہوم کو صحیح طور پر نہیں سمجھا۔ تحریف حرف الہامی صرف کو بدلنا ہی نہیں ہوتی بلکہ معنوی تحریف یعنی آیا ت کے حرف کی من مانی تفسیر کرکے آیات کے حروف کے معنی کو بدلنے کو بھی تحریف کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی بہت سے علماء نے تراجم کے ذریعے ’’کتاب الفرقان‘‘ میں بھی پچھلے ادیان کے علماء کی طرح معنوی تحریف کرلی ہے کیونکہ لفظی تحریف کبھی بھی پکڑ میں آجاتی ہے لیکن معنوی تحریف ہر زمانے میں کامیاب رہی ہے۔ کیا اب بھی ہم عربی لسان کو سیکھنے کی کوشش کے بجائے انسانی زہن سے لکھے ہوئے اچھے ترجمہ شدہ قرآن پڑھیں گے؟؟؟
(3) قرآنی احکام صرف عربی زبان میں ہے:
قرآن مجید کے اس وقت اُردو میں (162) ترجمے، ترکی میں (۵۰)، فارسی میں (۵۷)، انگریزی میں(۴۲) ، بنگالی میں (۳۳)، پنجابی میں (۱۴)، سندھی میں (۱۳)، پشتو میں (۱۱) اور اِسپرانتو میں (۳) ترجمے ہیں۔ یاد رہے کہ ہر مترجم انسان ہوتا ہے اور کسی بھی لسان میں ایک سے زیادہ تراجم اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ ہر مترجم نے اپنے سے پہلے ترجمے کو اپنے عقائد اور عقل کے لحاظ سے ناقص سمجھا ہوگا اسی لئے ہر روز ایک نئے فرقے کے ساتھ ایک نیا ترجمہ والا قرآن بازار میں آجاتا ہے۔ یہ سلسلہ دنیا کی ہر زبان میں جاری و ساری ہے۔ لیکن کوئی بھی بہترین ترجمہ قرآن حکیم کا نعم البدل نہیں بن سکا ۔ اگر آپ ترجموں کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو آپ قرآن مجید کا عربی متن کا ترجمہ چار پانچ مترجمین سے لیجئے۔ آپ کو بہت کچھ مختلف ملے گا، سب صحیح ہوں گے مگر ان میں فرق ہوگا مثال کے طور پر انگریزی اور اردو کے نو مختلف ترجموں میں سورۃ فاتحہ کی آیت ’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن‘‘ دیکھیں:
(1) Lord of day of Judgement. (2) Owner of the day of Judgement. (3) Master of the day of Judgement. (4) Master of day of Dome. (5) Ruler on day of repayment. (6) Sovereign of the Day of Recompense. (7) King of day of Reckoning. (8) The King of Judgement day. (9)The only owner (and only Ruling Judge) of the day of Recompense(i.e. the Day of Resurrection)
(ا) یوم الدین کا مالک (۲) بدلے کے دن مالک (۳) مالک ہے یوم حساب کا (۴) فیصلے کے دن کا بادشاہ (۵) قانون کے دن کا مالک (۶) جو سردار ہے روز جزا کا (۷) دینی امور کے وقت کا حاکم (۸) انصاف کے دن کا آقا (۹) یوم انصاف (یعنی قیامت کادن) کا حاکم ۔ وغیرہ وغیرہ انگریزی ا ور اُردو کے ان دونوں تراجم میں سے اگر کسی مترجم نے کسی بھی آیت کو سمجھنے میں کوئی بھی غلطی کردی ہے تو کیا ہم اللہ کی بات صحیح طور پر سمجھ سکتے ہیں؟ تراجم کی بنیاد پر فرقہ وارانہ فسادات بھی ہوتے ہیں اور کفر کے فتوے بھی صادر ہوتے ہیں اور کئی ممالک میں بعض تراجم پر پابندی بھی لگی ہے۔ تو کئی ترجموں پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی مل جاتی ہے۔ لیکن کوئی بھی ترجمہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے الفاظ کی جگہ نہیں لے سکتا! [وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنَاہُ حُکْماً عَرَبِیّاً ہ(۱۳:رعد:۳۷) اور ہم نے اس (قرآن) کو عربی (لسان) کا حکم بنا کر نازل کیا ہے ۔]یعنی اللہ کے تمام احکام صرف عربی زبان میں ہیں اسی لئے پوری دنیا میں ترجمے والے قرآن کے بجائے صرف عربی والا ’’قرآنِ نور‘‘ہی حفظ ہوتا ہے کیونکہ یہ قرآن نہیں بلکہ قرآن کا وہ مفہوم ہے جو انسان سمجھتا ہے جس میں خطا کا امکان ہے ۔ قرآن صرف عربی کا وہ متن ہے جو محمد رسول اللہؐ پر نازل ہواہے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ[لَا تُشْرِِکُوْا بِہِ شَیْءًا ہ(۴: نساء: ۳۶) اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔] تو اللہ کے کلام کی زبان کے ساتھ زبردستی کسی دوسری زبان کو شریک کرنا بھی کیاکوئی پسندیدہ عمل ہے؟؟؟
(4) ۱۱۰۰سال کے بعد قرآنی ترجمے:
قرآن حکیم محمد رسول اللہ پر نازل ہوا۔ رسول اللہ نے یہ قرآن عربوں کے ساتھ ساتھ غیر عربوں تک بھی پہنچایا ۔ لیکن اس مبارک زمانے میں کسی بھی زبان میں قرآن مجید کا مکمل ترجمہ نہیں کرایا گیااور نہ ہی چاروں خلفاءِ راشدین کے زمانے میں قرآن حکیم کا ترجمہ ہوا۔حتیٰ کہ محدثین کے زمانے میں بھی کسی ترجمے کی کوئی تاریخ نہیں ہے جبکہ اکثر محدثین مثلاً امام بخاری،مسلم،نسائی،ترمذی وغیرہ سب تعلیم یافتہ غیر عرب تھے۔ قرآن حکیم کے ترجمے کی ابتداء سب سے پہلے غیر مسلم یورپی اسکالرز کی طرف سے ہوئی۱۱۴۳ء میں میں لاطینی زبان میں اور۱۵۴۷ء میں اطالوی میں،۱۶۱۶ء میں جرمن میں،۱۶۴۷ء میں فرانچ میں اور ۱۶۴۹ء میں انگریزی میں قرآن کے ترجمے ہوئے۔ تاریخ میں سب سے پہلے مسلمانوں کی طرف سے قرآن کے ترجمہ کا ذکر ۸۸۳ ہجری میں الوار (سندھ) میں ایک ہندو راجہ مہروک کی درخوراست پرعبداللہ بن عُمر بن عبدالعزیزنے قرآن کا سندھی ترجمہ کرایا۔لیکن آج یہ ترجمہ کہیں دستیاب نہیں۔ ہوسکتا ہے ترجمہ کی یہ کہانی جھوٹی ہو۔مسلمانوں کی طرف سے پہلا مستند ترجمہ ہندوستان میں فارسی زبان میں شاہ ولی اللہ صاحب نے(۱۷۰۳ء تا ۱۷۶۲ء ) میں کیا۔ جب پچاس سے زیادہ ترجمے غیر مسلم اسکالرز اپنی اپنی زبانوں میں کرچکے تھے۔ترجمہ کرنے پر اُس زمانے میں عام مسلمین اور علماء کرام کی طرف سے اُنکی زبرداست مخالفت کی گئی لیکن آج یہ کام فیشن بن گیا ہے ۔قرآن کے تراجم ایک ایسی خوفناک بدعت ثابت ہوئے ہیں جس کی وجہ سے لوگ اصل عربی قرآن سے بہت دور ہو گئے ہیں بلکہ عربی کی فرضیت کے بھی مُنکر بن گئے ہیں۔ اگرشروع کے زمانے میں عربی زبان سیکھنا فرض نہیں تھی تو کس وجہ سے اور کیو ں قرآن کے ترجمے اتنی دیر سے ہوئے؟ گیارہ سو سال کے بعد مسلمانوں میں قرآن کے مکمل تراجم کا آغاز کیا اس بات کو ثابت نہیں کرتا ہے کہ شروع کے مسلمانوں کے نزدیک عربی سیکھنا فرض تھی جس کی وجہ سے اُن کو ترجمے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔
(5) ہر زبان کا مختلف احساسِ بیان:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ زبان (لغۃ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک الٰہی عطیہ ہے۔ [وَمِنْ آیَاتِہِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ اِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّلْعَالِمِیْنَ ہ(۳۰: روم:۲۲)اور اسی کی آیات میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا خلق کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا، اہلِ عالم کے لئے ان باتوں میں (بہت سی) آیات (یعنی نشانیاں) ہیں۔ ] یعنی ہر زبان اللہ کی آیت ہے اور تمام زبانیں اللہ نے خلق کی ہیں۔ ’’زبان‘‘ جو بڑی اہمیت رکھتی ہے یہ وہ خاص صفت ہے جو انسان کو دوسرے زندہ عالم سے نمایاں بھی کرتی ہے۔ آج انسان جس ترقی پر پہنچا ہے اس میں زبان اور کتاب کا ایک بڑا حصہ ہے۔ ترقی انسانی میں زبان انسان کی ایسی حاجت اور ضرورت ہے کہ کوئی اور حاجت اس کے برابر نہیں زبان کی مختصر ترین تعریف بھی یہ ہے کہ زبان ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے ایک انسان دوسرے انسان سے ہمکلام ہوکر اپنے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس لئے جو شخص کسی زبان میں بات کرتا ہے، اس کے ذریعے سوچتا ہے۔ یہ زبان انکے اندر اس زبان کی ایک روحانی اور اجتماعی احساس و محبت کے جذبہ کو پیدا کردیتی ہے اور اس زبان کے الفاظ و جملے، خوشی، غمی، سکون اور بے قراری کی حالت میں ان کے دلوں کی عکاسی کرتی ہے۔[وَکَذَلِکَ اَنْزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً وَصَرَّفْنَا فِیْہِ مِنَ الْوَعِیْدِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ اَوْ یُحْدِثُ لَھُمْ ذِکْراً ہ(۲۰:طٰہٰ:۱۱۳) اور ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے اور اس میں طرح طرح کے ڈراوے بیان کردیئے ہیں تاکہ لوگ پرہیز گار بنیں یا اللہ ان کیلئے نصیحت پیدا کردے۔] جس طرح اللہ نے تمام زبانیں خلق کی ہیں اسی طرح ہر لسان کے ساتھ کچھ احساسات وجذبات بھی پیدا کئے اسی لئے ہر زبان کے ہر لفظ کے ساتھ ایک مختلف ذائقہ، جذبہ اور ایک خوبصورتی چھپی ہوئی ہوتی ہے جو ترجمے سے بھی مکمل طور پر ادا نہیں ہوسکتی ہے مثلاً کوئی غنا (یعنی گانا) کسی بھی لسان میں سننے میں تو بہت خوبصورت لگتا ہے لیکن ترجمے کے بعد اس کی تمام اصل خوبصورتی و رعنائی ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کوئی لطیفہ اور کوئی اچھی خوفناک کہانی ترجمہ کے بعد وہ پہلا والا اثر نہیں رکھتی۔ اسی طرح قرآن مجید بھی ترجمے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اندازِ کتابت کے وہ اندازِ جذبات و محسوسات کے وہ تاثرات نہیں دکھا سکتا جو اس کی اصل زبان عربی میں موجود ہے!!!
(6) شاعری ،نثر، نظم وغیرہ کا ترجمۃ نہیں ہوتا:
قرآن میں کل ایک سوچودہ (۱۱۴) سورتیں ہیں۔ ہر سورۃ ایک خاص ترتیب سے جوڑی ہوئی ہے۔ ہر سورۃ کی ہر آیت کا آخری لفظ ایک جیسی آواز کے حرفوں کا ہوتا ہے۔ مثلاً سورۃ الکوثر، العصر اور القدر کی ہر آیت کے آخر میں (ر) کا آنا، سورۃ الاخلاص میں (د) کا آنا، سورۃ الناس میں (س) کا آنا، سورۃ الفیل میں (ل) کا آنا اور سورۃ الشمس میں (الف) کا آنا کوئی اتفاق نہیں جیسے قرآن میں ہے : [وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً کَذَلِکَ لِنُثِّبتَ بِہِ فُوَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلاً ہ(۲۵:فرقان:۳۲)اور کافروں نے کہا کہ اس پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتارا گیا؟ اس طرح (اس لئے اتارا گیا کہ ) اس سے تمہارے دل کو ہم ثابت رکھیں اور ہم اُس (القرآن) کو نہایت عمدہ ترتیب و نظم کے ساتھ پڑھتے رہیں۔] کیونکہ ’’الرَتَّلُ‘‘ کے معنی کسی چیز کا حسنِ تناسب اور حسن نظم کے مربوط و مراتب ہونا ہے۔ قرآن یوں تو نثر ہے، نظم نہیں،لیکن اس کے فقرے نظم کے اصول کے مطابق متوازن اجراء میں تقسیم ہے۔ کیونکہ یہ نہایت اعلیٰ درجے کی نثر ہے جو ہر انسانی تصنیف سے بہت بالاتر ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام عرب علماء کو مخاطب کرکے یہ دعویٰ کیا: [وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدنَا فَاْتُوا بِسُوْرَۃٍ مِِنْ مِّثْلِہِ وَادْعُوْا شُھَدَاءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صاَدِقِیْنَ ہ(۲:بقرۃ:۲۳) اور اگر تم کو اس (کتاب) میں جو ہم نے اپنے بندے (محمد رسول اللہ) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی کی مثل ایک سورۃ تم بھی بنالاؤ اور پُکارو اپنے گواہوں کو اللہ کے سواء اگر تم سچے ہو ۔] قال تعالی: [اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْراً ہ(۴:نساء:۸۲) بھلا یہ قرآن میں تدبر کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں کثیر اختلاف موجود ہوتا ہے۔]اسی لئے آج تک کوئی انسان بغیر تضاد کے قرآن جیسا فصیح و بلیغ کلام بنانے سے بالکل عاجز رہا ہے۔ قرآن مجید لسان کی ایسی صنف میں ہے جس کا ترجمہ نہیں ہوتا بلکہ صرف مفہوم نکالا جاتا ہے۔ قرآن کریم چونکہ عربی لسان کا بہترین نمونہ ہے تو اس کے الفاظ کا تلفظ، تعبیر اور اس کے معانی کے انتخاب کے لئے اشعار عربی بھی ایک معیار ہے۔ لوگ گوئٹے کے اشعار کو سمجھنے کے لئے جرمن سیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں بقول ان کے شاعری کا ترجمہ نہیں ہوسکتا مگر ایسے کلام جس کا متکلم اللہ خود ہو اس کے فصیح و بلیغ کلام کو سمجھنے کیلئے عربی سیکھنے کو ضروری نہیں سمجھنے والے ہماری سمجھ سے باہر ہیں !!!
(7) مکہ کی عربی زبان حجت ہے:
قرآن مجید عرب کی مشہور بستی اُمّ القریٰ میں نازل ہوا۔ [وَکَذَلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُرْآنً عَرَبِیّاً لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَھَا ہ(۴۲: شوریٰ:۷)اور اسی طرح آپ کے پاس یہ قرآنی عربی وحی کی تاکہ آپ اُم القریٰ (یعنی مکہ) کو اور جو اس کے اردگرد ہیں، ان کو راستہ دکھائیں۔] یہ قرآنی عربی اس وقت کے عرب معاشرے کی عین بول چال کے مطابق تھی۔ جیسے ارشاد ہوا: [فَوَرَبِّ السَّمَاء وَالْاَرْض اِنَّہُ لَحَقُّ‘ مِّثْلَ مَا اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَ ہ(۵۱: الذاریات:۲۳)پس آسمان اور زمین کے مالک کی قسم! بیشک وہ (قرآن) برحق ہے (تمہاری زبان) کی مثل، جس طرح تم (آپس میں) بات چیت کرتے ہو۔] یعنی مکہ اور مدینہ کی عربی بھی ایک معیار ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہوا: [اَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلَّمُہُ بَشَرُ‘ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیُّ‘ وَھَذَا لِسَانُ‘ عَرَبِیُّ‘ مُّبِیْنَ ہ(۱۶:نحل:۱۰۳)وہ کہتے ہیں ہیں کہ کیا وہ اس بشر کو تعلیم دیتا ہے؟ جس کی زبان وہ ٹیڑھاپن اختیار کرتے ہوئے اشارہ سے ا عجمی (یعنی غیر عربی) بیان کرتے ہیں اور یہ صاف عربی زبان ہے۔] یعنی بعض عربوں کے نزدیک غیرعرب کو عربی نہیں سکھانا چاہیے کیونکہ یہ دوسری زبانوں کی نسبت مبین (یعنی واضح اور مکمل) زبان ہے جس کو کوئی اعجمی لسان کا فرد آسانی سے نہیں سیکھ سکتا اور قرآنی عربی وہاں کی مرکزی شہروں میں استعمال ہونے والی واضح علمی زبان میں ہے کیونکہ دیہاتی زبان کو عربی میں لسانِ مبین نہیں کہا جاتا اس لئے کہ دیہاتی زبان میں شستگی کے بجائے اکھڑپن پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے کافر قوم پرست عربوں نے یہ اعتراض کیا کہ رسول ؐ ان غیر عربوں کو اس لسان عربی مبین کی تعلیم دیتا ہے جو عربوں کو بھی مشکل سے سمجھ میں آتی ہے، آج بھی عربوں کو کوئی قرآن کی صحیح بات بتائے تو اکثر اسی طرح گھمنڈیا انداز میں کہتے ہیں کہ تم اعجمی ہم عربوں کو قرآن سکھاؤ گے؟ اور بعض غیر عربی لوگ کسی بات کو نہ سمجھنے کے لئے ’’زبان‘‘ کو مسئلہ بناتے ہیں جبکہ اللہ فرماتا ہے: [وَ لَوْ نَذَّ لْنٰہُ عَلٰی بَعْضِ الْاَ عْجَمِیْنَ ہ فَقَرَ اَ ہٗ عَلَیْہِمْ مَّا کَا نُوْ ا بِہٖ مُءْو مِنِیْنَط ہ(۲۶: شعراء: ۱۹۸) اور اگر ہم اسے بعض اعجمیوں( یعنی غیر عربی زبانوں) پر نازل کردیتے، پھر وہ اسے ان کے سامنے پڑھتا( پھر بھی) وہ ایمان نہیں لاتے ۔]
(8) عالمگیر دین کی عالمگیر زبان :
[آمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلَی مُحَمَّد ہ(۴۷: محمد:۲)اے لوگوں ایمان لیکر آؤ جو ’’محمد‘‘ پر نازل ہوا۔] محمدؐ اللہ تعالیٰ کے وہ واحد رسول ہیں جو پوری دنیا کے لئے رسول بناکر بھیجے گئے جیسے اللہ فرماتا ہے: [قُلْ یَااَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّی رَسُولُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً ہ (۷:اعراف:۱۵۸) (اے محمد!) کہہ دو! کہ تمام لوگوں کو، میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔] قرآن کے مطابق آپؐ سے قبل تمام رسولوں کو اللہ نے ایک خاص قوم کے لئے رسول بناکر بھیجا تھا۔ جیسے [قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ اِنِّیْ رَسُولُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ ہ (۶۱:صف:۶) عیسیٰ ابن مریم نے کہا کہ اے (قومِ) بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔] اور دنیا کے تمام قومی رسولوں نے عالمی رسول ’’محمدؐ‘‘ کے دنیا میں آنے کی پیشگوئی بھی کی تھی، اس عالمی رسولؐ کو اللہ فرماتا ہے: [وَکَذَلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُرْآناً عَرَبِیّاً لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَھَا (۴۲:الشوری:۷) اور اسی طرح تمہارے پاس قرآن عربی بھیجا ہے تاکہ تم اُمُّ القری کے رہنے والوں کو اور جو لوگ اس کے اردگرد رہتے ہیں ان کو راستہ دکھاؤ۔] اوررسول اللہ نے یہ پیغام عربی زبان میں پہنچایا تو عربی زبان کی حیثیت بھی عالمی ہوگئی اور دنیا میں جہاں جہاں عربی بولی جاتی تھی وہاں وہاں یہ پیغام حق عربی میں پہنچا اور اب دنیا کی ہر زبان میں یہ پیغام حق پہنچ رہا ہے۔ جس طرح آہستہ آہستہ اسلام پوری دنیا کا عالمی دین بنتا جارہا ہے اسی طرح عربی لسان بھی عالمی زبان بنتی جارہی ہے۔ حبِ اسلام کے تحت آج بھی اکثر مسلمین کی لغتِ ثانی عربی ہے اور ماضی میں بھی عربی زبان اور اس کے علوم کی خدمت کرنے والے مسلمان اہل علم زیادہ تر غیر عرب تھے۔ آج جس طرح اسلام ایک عالمی دین ہے اگرتمام مسلمین عربی کو صحیح معنوں میں پھیلانے اور اس کو ترقی دینے میں بھر پور کردار ادا کریں تو پوری دنیا میں عربی کے مقابل کوئی عالمی زبان نہیں رہے گی کیونکہ اگر دین اسلام اللہ کا عالمگیر دین ہے تو اس عالمی دین کی زبان بھی عالمی اور آفاقی ہوگی!!!
(9) عربی رسول اللہ کی ایک زندہ سنت:
محمد رسول اللہؐ عربی النسل تھے اسی لئے آپ رسول اللہؐ نے ساری عمر عربی میں بول چال فرمائی۔ عربی بولنا وہ واحد سنت ہے جس کا اقرار مسلمانوں کے تمام فرقے کرتے ہیں مگر عمل کم لوگ کرتے ہیں جبکہ لکھا ہے: [فَاِنَّمَا یَسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْن ہ(۴۴:دخان:۵۸)ہم نے اس (قرآن) کو آپ (محمد رسول اللہ) کی زبان میں آسان کردیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں۔ ‘‘ یعنی قرآن بہت آسان ہے لیکن محمدؐ کی زبان عربی میں اور اللہ فرماتا ہے: [لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃُ‘ حَسَنۃُ‘ ہ(۳۳: احزاب:۲۱)اس نے (محمد) رسول اللہ کی (طرزِ زندگی) تمہارے لئے بہترین نمونہ بنادی ہے۔] یعنی رسولؐ کا ہر عمل جیسے عربی اندازِ تکلم (ناکہ اُردو اندازِ تکلم)، عربی لباس (ناکہ شلوار قمیض)، عربی کھانا (ناکہ انڈین کھانا) اور عربی ثقافت (ناکہ صوبائی ثقافت) وغیرہ یعنی وہ تمام عمل جو رسولؐ نے اپنی زندگی میں کئے اور جو ہوئے وہ سب ہمارے لئے بہترین نمونہ ہیں اور ان کو اپنانا حبِ قرآن و رسولؐ کا تقاضہ بھی ہے۔ عربی سیکھنے سے قرآن بھی ہمارے لئے آسان ہوجاتا ہے۔ جیسے کہ اللہ فرماتا ہے: [وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ ہ(۵۴:قمر:۱۷)اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے ۔] اس لئے زبانی طور پر شاعری میں اللہ اور رسولؐ سے محبت کرنے کے دعوے کے بجائے صحابہؓ اور تابعین ؒ کی طرح عملی طور پر محبت کو ثابت کرنا چاہئے۔ تمام جبلی وغیر جبلی سنتِ محمدی جو کردار اور گفتار پر مبنی ہو اس پر عمل کرنا اللہ کا حکم بھی ہے تو رسول اللہؐ نے جس طرح کی عربی زبان کا استعمال کیا ویسی ہی عربی انداز ہم کو بھی اپنانا چاہئے کیونکہ رسولؐ کا کوئی عمل بعدِ نبوت غلط نہیں ہوسکتا!!!
(10) دنیا کی پہلی عالمی زبان عربی:
اگر ہم خلقِ انسانی کے قرآنی فلسفے پر غور کریں تو لکھا ہے: [ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَجَعَلَ مِنْھَا زَوْجََہَا ہ(۷:اعراف:۱۸۹)وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں ایک نفس (یعنی انسان) سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا۔] یعنی روئے زمین پر جس قدر لوگ، قبائل اور قومیں رہتی ہیں اگر یہ سب ایک انسان کی اولاد ہیں تو ان اولین انسانوں کی پہلی زبان کونسی تھی؟ [وَمَا کَانَ النَّاسُ اِلاَّ اُمَّۃ وَاحِدَۃ ہ(۱۰:یونس:۱۹) اور سب انسان پہلے ایک ہی امت تھے ۔] قرآن کے مطابق آدمؑ کو جو چیز دوسروں سے نمایاں کرتی تھی وہ زبان کا علم تھا، جس کی برتری نے آدمؑ کو خلافت تک پہنچایا جیسے اللہ فرماتا ہے: [وَعَلَّمَ آدَمَ الاَسْمَاء کُلَّھَا ہ(۲: البقرہ:۳۱)اور اس نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے۔] بنی نوع انسان کی پہلی زبان کے بارے میں تاریخ کی کتابیں اختلافات سے بھری ہوئی ہیں لیکن اگر ہم قرآن و بائبل میں ابتدائی دور یعنی آدمؑ تا نوح ؑ کے زمانے میں موجود ہستیوں، مقامات اور مصنوعی خداؤں کے اسمائے معرفہ پر غور کریں۔ تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ نے دنیا میں انسانوں کے لئے پہلی زبان عربی بنائی تھی۔ آدم (انسان، رہنے والا)، ہوآء ناکہ حوا ( اوپرسے نیچے گرنی والی)، حابل ناکہ ہابیل(رسی سے باندھنے والا عہد، ذمہ)، ( قابِل (قبول کرنے والا)، نوح (غم زدہ)، وَدّ (چاہت)، عدن (رہنا، بسنا) ، فرات (میٹھا پانی)، یغوث (جوفر یا درسی کرتا ہے)، نسر (گدھ)، شیطان (زیادتی کرنے والا)، ابلیس (ناامید) اور جبریل (الٰہ کا جبار) جیسے الفاظ خالص عربی زبان کے ہیں کیونکہ یہ عربی میں ایک خاص معنی رکھتے ہیں جن سے ان کی حیثیت، ہیت اور اسبابِ اسم پر روشنی پڑتی ہے کسی دوسری زبان میں یہ الفاظ اس طرح بمعنی نہیں ہیں۔ اسی طرح اللہ نے مکہ کو قرآن کریم میں بستیوں کی ماں ’’اُمَّ الْقُرَی‘‘ (۴۲:شوریٰ:۷) قراردیا یعنی روئے زمین پر سب سے اولین بستی اور بستیوں کا آغاز کرنے والی بستی اور کعبہ کو ’’اَوَّلَ بیتٍ‘‘ (۳: عمران:۹۶)’’پہلا گھر‘‘ اور ’’بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقٍ‘‘ (۲۲: حج:۲۹) ’’سب سے قدیم گھر‘‘قرار دیا۔ یعنی دنیا کی آبادی کا آغاز مکہ اور کعبہ کے علاقے سے ہوا اور وہاں کی زبان عربی ہے اسی لئے دنیا میں صرف عربی لسان کو ہی ’’اُمّ الالسنۃ‘‘ یعنی زبانوں کی ماں کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ یعنی یہ تمام باتیں ثابت کرتی ہیں کہ عربی ہی دنیا کی پہلی زبان تھی، دنیا کی دوسری زبانوں کی پیدائش عربی کے بعد ہوئی ہے اسی لئے عربی کے الفاظ دنیا کی ہر زبان میں ملتے ہیں جس کا اقرار تمام ماہر لسانیات بھی کرتے ہیں خاص طور پر مسلم قوموں کی زبانوں میں عربی زبان کے الفاظ کی تعداد پچاس فیصد سے لیکر اسی فیصد تک استعمال ہوتی ہے عربی کے کئی الفاظ مثلاً ’’کتاب، قلم‘‘ وغیرہ تو ہر مسلم زبان میں استعمال ہوتے ہیں اس لئے عربی لسان سیکھنا تمام انسانوں خصوصاً مسلمین کے لئے بہت آسان ہے۔ اللہ نے دنیا کی پہلی عالمی زبان عربی کو بنایا، کیا اب تمام انسانوں خاص طور پر مسلمین کا فریضہ نہیں کہ وہ بھی عربی لسان کو عالمی زبان بنائیں؟؟
(11) تمام مسلمین امت واحد ہے :
ابتداء میں تمام انسان ایک امت اور ایک زبان تھے۔ جیسے اللہ فرماتا ہے۔ [وَمَا کَانَ النَّاسُ اِلاَّ اُمَّۃ وَاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا ہ(۱۰:یونس:۱۹)اور سب لوگ پہلے ایک ہی امت تھے پھر وہ مختلف ہوگئے۔] یعنی اللہ نے امتِ واحدہ میں سے مختلف امتیں بناکر انہیں جدا جدا کیا۔ [لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَمِنْھَا جاً وَلَوْشَاء اللّٰہُ لْجَعَلَکُمْ اُمَّۃً ہ(۴:مائدہ:۴۸)ہم نے تم میں سے ہر ایک (اُمت) کے لئے ایک دستور اور طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر اللہ نے چاہا تو سب کو ایک امت بنادیگا۔] یعنی ہرُ امت کے مختلف طور طریقے الٰہی ہیں امتِ واحدہ کیوں مختلف ہوئی؟ کا جواب اللہ نے ایسے دیا : [یَا اَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّن ذَکَرٍ وَاُنْثَی وَجَعَلْنَا کُمْ شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوْا ہ (۴۹:الحجرات:۱۳)اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مذکر اور ایک مونث سے خلق کیا ہے ’’تعارف‘‘ کے لئے تمہاری شعوب اور قبائل بنائے۔] تعارف کی تشریح: [وَقُلِ الْحَمْدُلِلّٰہِ سَیُرِیْکُمْ آیَاتِہِ فَتَعْرِفُونَھَا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْن ہ(۲۷:نمل:۹۳)اور کہو الحمد للہ پھر وہ تمہیں اپنی آیات دکھائے گا تو تم ان (آیات) کا ’’تعارف‘‘ جان جاؤگے اور جو عمل تم کرتے ہو تمہارا رب ان سے غافل نہیں۔] یعنی یہ قومیں اور قبائل اللہ نے صرف انسانی تعارف کے لئے نہیں بلکہ حق کے تعارف کے لئے بھی بنائے ہیں تاکہ معلوم ہوکہ کون سا شخص حق کی بات اور اللہ کی آیات کو مانتا ہے۔ جیسے اللہ فرماتا ہے: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ ہ(۵۱:ذاریات:۵۶)اور میں نے جن اور انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔] جس طرح اللہ نے رات کے ساتھ دن اور خیر کے ساتھ شرکو پیدا کیا، اسی طرح اللہ نے اچھی ، ناقص زبانیں اور اچھے، برے اقدار بھی پیدا کئے تاکہ سچے مسلم اللہ کی اچھی زبان اور اچھی ثقافت و تمدن کو قبول کریں۔ اللہ فرماتا ہے: [وَلَوْشَاء رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَاحِدۃً وَلاَ یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ اِلاَّ مَنْ رَّحِمَ رَبُّک ہ (۱۱: ھود:۱۱۹) اور اگر تمہارے رب نے چاہا تو تمام انسانوں کو ایک امت بنادیگا وہ مختلف نہیں رہیں گے مگر جن پر تمہارا رب رحم کرے۔] یعنی تمام انسانوں کا ایک امت بننا اللہ کی رحمت ہے اور یہ وعدہ اللہ نے عالمی رسول محمدؐ کو بھیج کر پورا کیا پھر مسلمین سے فرمایا: [اِنَّ ھَذِہِ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَاحِدَۃً وَاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنَ وَتَقَطَّعُوْا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ کُلُّ‘ اِلَیْنَا رَاجِعُوْنَ ہ(۲۱:انبیاء:۹۳)بے شک(مسلمانو ں)یہ تمہاری اُمت، اب ایک اُمت ہے اور میں تمہارا رب ہوں تم میری ہی بندگی کرو اور جس نے اپنے امر (یعنی اُمت) کو باہم ٹکڑے کیا (تو) وہ سب ہماری طرف رجوع کرنے والے ہیں۔]اسی لئے قرآن میں ابراہیم خلیل اللہ کی یہ دُعا ہے۔[ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَینِ لَکَ ومِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُ مَّۃً مُّسْلِمَۃُٗ لَّکَ (۲:بقرۃ:۲۸ا)اے ہمارے رب،تو ہمیں اپنا مسلم بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی تو (صالح لوگوں کو) اُمتِ مسلمۃ بنا ۔] یعنی اب تمام مسلمین ایک اسلامی ثقافت کی حامل ایک اُمت ہے اور اس اُمت کی زبان عربی ہے۔ چونکہ ’’زبان‘‘ امت کے تمدن، ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے بلکہ ثقافت اور تمدن کو پیدا کرنے اور بیدار کرنے کے لئے ایک معاون کی حیثیت بھی رکھتی ہے اور قومی تشخص پر بھی اثر انداز ہوتی ہے جبکہ مختلف زبانیں تفرقے کی وجہ بنتی ہیں، جس میں فخر و نفرت دونوں کا عنصر ہوتا ہے جس کی وجہ سے دُنیا میں لسانی فساد بھی ہوتے ہیں اسی لئے اللہ نے امت مسلمہ کو اپنی رحمت سے امت واحدہ میں تبدیل کیا۔ کیا اب بھی تمام مسلمین مختلف زبانوں و اقوام میں تقسیم رہیں گے یا امر الٰہی کے مطابق ایک لسان و قوم کی شکل میں یکجا ؟؟؟
(12) تمام مسلمین ایک قوم بھی ہے:
عربی کی لغت( قاموس) میں ’’قوم Nation\ ‘‘ ان گروہ کو کہا جاتا ہے جن کی زبان اور ثقافت مشترک ہواور’’ اُمت‘‘ اس گروہ کو کہا جاتا ہے جس کی ثقافت، تمدن، زبان،دین، لباس، تاریخ اور تہوار وغیرہ مشترک ہو ۔ لغت کی رو سے دو الگ الگ زبانیں بولنے والوں کو ایک قوم نہیں کہہ جاسکتا۔ قرآن مجید کے مطابق بھی قوم کے لئے ایک زبان کا ہونا ضروری ہے۔ [وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ اِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لیُبَیِّنَ لَھُمْ ہ(۱۴: ابراہیم:۴)اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا ہے تاکہ انہیں (احکام الٰہی) کھول کھول کر بتائے۔] یعنی ہر قوم اور ہر زبان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیجے ہیں اور اللہ نے قرآن میں امت اور قوم کو ہم معنی لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً [ثُمَّ اَرْسَلْنَا رسلنا تَتْرَاکُلَّ مَاجَاء اُمَّۃً رَّسُوْلُھَا کَذَّبُوْہُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَھُمْ بَعْضاً وَجَعَلْنَاھُمْ اَحَادِیْثَ فَبُعْداًلِّقَوْمٍ لاَّیُوْمِنُوْنَ ہ(۲۳:مومنون:۲۴)پھر ہم پے در پے اپنے رسول بھیجتے رہے۔ جب کسی’’امت‘‘کے پاس اس کا رسول آتا تھا تو وہ اسے جھٹلا دیتے تھے تو ہم بھی بعض کو بعض کے پیچھے لاتے رہے اور ان کی احادیث بناتے رہے پس جو ’’قوم‘‘ ایمان نہیں لاتی ان پر لعنت ہے۔] [وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلُ ہ(۱۰:یونس:۴۷)اور ہر ’’امت ‘‘کے لئے ایک رسول ہے ۔] [وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ ہ(۳:رعد:۷)اور ہر ’’قوم‘‘ کے لئے ایک ہدایت کرنے والا ہے۔] یعنی ان آیات کے مطابق قوم اور اُمت تھوڑے سے فرق کے ساتھ ہم معانی لفظ ہیں۔ عربی لفظ قوم کا اصل مادہ (ق۔و۔م۔)ہے جس کے معنی جگہ ،کھڑے ہونا، متوازن ہونا، کسی جگہ پر ٹھہر جانا،رک جانا کے ہیں اسی مادہ سے لفظ (قوام) عدل اور توازن ،(قامۃ) آدمی کا قد، (تقویم) کیلنڈر، توازن کا حامل (استقام) متوازن، (قیمۃ)قدر، (مقام) جگہ، (قیوم) ثابت قدم ،اللہ کا نام (قیامت) کھڑے ہونا (مستقیم) سیدھا ، درست راستہ وغیرہ نکلے ہیں ۔ (قوم) کے معنی وہ گروہ ہے جو ایک جگہ ایک ساتھ رہائش پذیر ہوں جن کی زبان او ر ثقافت ایک ہوجائے وہ گروہ ’’قوم‘‘ کہلاتا ہے۔اُمت لفظ کا مادہ (ا۔م۔م۔) ہے جس کے معنی اِرادہ، اَساس، بنیاد ،مرجع،مرکزی اور اصل کے ہیں اوراسی مادہ سے لفظ (اُمّ) ماں ، (امام) آگے، سامنے، مستقبل (امام) جو شخص آگے ہو، (امامۃ) آگے ہونا، پگڑی (اُمی) اُم القری ٰ کے رہنے والے، سب قوموں سے آگے قوم، ماں کا جنا ہوا وغیرہ نکلے ہیں۔ (اُمت) کے معنی وہ گروہ ہے جن کی تمام بنیادی اَساس بچپن سے ایک ہویعنی دین،ثقافت،زبان وغیرہ مسلمین کا گروہ اس تعریف پر پورا اُتارتا ہے جن کی ماں قرآن نے ’’اَزواج الرسول ؐ ‘‘ کو قرار دیا ہے۔[َ اَزْوَاجُہُ اُمَّھَاتُھُمْ (۳۳:احزاب:۶)] اور یہ رشتہ مجازی سے زیادہ حقیقی جیسا ہے۔[وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْْ ا اَ زْ وَجَہٗ مِنْ م بَعْدِ ہٖٓ اَبَدً ا ط (۳۳:۵۳) ]۔ قرآن میں مسلمین کے لئے ’’قوم‘‘ کا لفظ بھی آیا ہے جیسے قرآن میں لکھا ہے۔ [وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوْا ھَذَا الْقُرْآنَ مَھْجُوْراً ہ (۲۵: فرقان:۳۰)اور رسول (اللہ) نے کہا کہ اے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو مہجور یعنی باندھ کر بے حرکت بنالیا ہے۔] یعنی قرآن سے ہدایت نہیں لیتے ہیں جیسے کہ قرآن میں لکھا کہ ’’ الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاس ہ‘‘ (۲:البقرہ:۱۸۰) ’’قرآن تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے ۔‘‘ اگر قرآن میں رسول کی مخاطب ’’قوم‘‘ تمام مسلمین ہے تو تمام مسلمین کو بھی قرآن کے مطابق ایک قوم بننا چاہئے!!!
مسلم ایک خاندان
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک قوم میں بدلنے کے بعد اتحاد کی تعلیمات کو مزید قریب لاتے ہوئے مسلم قوم کو ایک خاندان میں بھی بدل دیا جیسے اللہ فرماتا ہے: ’’اِنَّمَا الْمُؤُمِنُوْنَ اِخْوَۃ ہ‘‘ (۴۹: حجرات:۱۰) ’’بے شک مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ ’’النَبِیُّ اَوْلَی بِالمومنین مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَاَزْوَاجُہُ اُمَّھَاتُھُمْ وَاُوْلُوْا الْاَرْحَامِ ہ‘‘ (۳۳: احزاب:۶) ’’نبیؐ مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں ان (محمد رسول اللہ) کی بیویاں ان (مومنوں) کی مائیں اور خون کے رشتے کے قریب ہیں۔‘‘ یعنی اگر محمد رسول اللہؐ کی ازواج ’’اُمَّہات المؤمنین‘‘ ہیں تو ’’ابو المؤمنین‘‘ یعنی مؤمنوں کے باپ رسولؐ ہوئے جیسے ابراہیم ؑ بھی تمام مؤمنین کے باپ تھے۔’’مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ہ‘‘ (۲۲:حج:۷۸) ’’اور اللہ نے حکم دیا: ’’فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ اَبْنَاء نَا وَاَبْنَاء کُمْ وَنِسَاء نَا ونِسَاء کُمْ ہ‘‘(۳: العمران:۶۱) ’’پس (اے محمد) کہو! (ان عیسائیوں سے) کہ آئیں، ہم بلائیں اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو۔‘‘ یعنی اس آیت میں صاف طور پر مجازی معنی میں مومنوں کو رسول کے بیٹے کہا گیاہے۔ حقیقی طور پر محمد رسول اللہؐ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں تھے۔ ’’مَا کَانَ مُحَمَّدُ‘ اَبَااَحْدٍمِّنْ رِّجَالِکُمْ ہ‘‘ (۳۳: احزاب:۴۰)‘‘ اور سورۃ کوثر میں ’’کوثر‘‘ کے معنی ’’کثرت‘‘ کے ہیں جو ’’ابتر‘‘ یعنی ’’بے اولاد‘‘ کے مقابلے میں آیا ہے۔ تو اس سورۃ سے بھی آسانی سے پتا چل جاتا ہے کہ اللہ نے اس سورۃ میں رسول کو مجازی اولاد کی کثرت کا بتایا تھا۔ جس سے اللہ نے رسولؐ کے تمام دشمنوں کو محروم رکھا، ورنہ رسولؐ کے دشمنوں کی حقیقی اولاد تو کثرت میں تھی۔ یعنی مختصراً الفاظ میں تمام مسلمین ایک خاندان ہے اور دنیا میں اس سے قریب کوئی انسانی رشتہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ مشاہدہ عام ہے کہ ہر خاندان ایک ہی زبان بولتا ہے، وہ خاندان چاہے انسان کا ہو یا حیوان کا ہو۔ ایسا کبھی نہیں ہو تاکہ بچے اپنے والدین کی زبانوں کو نہ اپنائیں اور اپنے بہن بھائی کی زبانیں نہ جانے۔ اگر رسولؐ اور انکی ازواج ہمارے ماں باپ ہیں تو ہمارے درمیان ایک زبان کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اسلام ’’اتحاد‘‘ چاہتا ہے، اتحاد کے لئے ضروری ہے’’رابطہ‘‘ ، رابطہ کے لئے ضروری ایک ’’زبان‘‘ کا ہونا کیونکہ دو الگ الگ زبانیں بولنے والے ایک دوسرے سے صحیح طور پر براہ راست رابطہ نہیں کرسکتے ہیں۔ آپس میں رابطہ کے لئے قرآن کی زبان سے بہتر کونسی زبان ہوسکتی ہے؟ اور عربی لسان کے بغیر اسلامی خاندان کے رشتے کو بھی زیادہ مضبوط نہیں بنایا جاسکتا!!!
(13) صلوٰۃ اور حج:
حج و عمرہ مسلمین کے اتحاد کے لئے ایک بین الانسانی اجتماع ہے جس میں دنیا بھر کے مسلمین اکٹھا ہوتے ہیں۔’’ وَ اَ ذِّ نْ فِی النَّا سِ بِا لْحَجِّ یَاْ تُوْ کَ رِ جَا لًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَا مِرٍ یَّاْ تِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍٍ ہ‘‘ (۲۲:حج:۲۸) ’’ اور لوگوں میں حج کے لئے آذان دو کہ تمہارے پاس مرد ( یا پیدل) آئیں اور تمام ضامر کیساتھ جو آئیں گی ہر دور کشادہ رستوں سے تاکہ وہ شہادت دیں اس میں ان کا منافع ہے اور معلوم ایام میں اللہ کے اسم کا ذکر کریں۔‘‘ اس موقع پر عربی زبان زیادہ تر مقامی اور غیر مقامی مسلمین کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔ کیونکہ عربی مسلمانوں میں سب سے زیادہ بولے جانے والی زبان ہے۔ صلوٰۃ (یعنی نماز) مسلمانوں کا محلہ کی سطح کا اجتماع ہے جس میں صلوٰۃ کے ذریعے آپس میں فلاح و تعلیم کا خیال رکھا جاتا ہے جس میں روزانہ رکوع با رکوع درسِ قرآن ہوتا ہے۔ جو صلوٰۃ کا بنیادی مقصد بھی ہے اور مساجد کے ذریعے تعلیم قرآن کا یہ سلسلہ پوری دنیا میں عام ہے اور یہ درسِ قرآن صرف عربی زبان میں ہوتا ہے۔ ’’وَکَذَلِکَ اَنْزَلْنَاہُ حُکْماً عَرَبِیّاً ہ‘‘ (۱۳: رعد:۳۷) ’’اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو عربی زبان کا حکم بنا کر نازل کیا ہے‘‘ یعنی اللہ کے تمام احکام عربی زبان میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ الصَّلاَۃَ اَنْتُمْ سُکَارَی حَتَّی تَعْْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ ہ (۴:نساء:۴۳) ’’اے مومنو! جب تم سکاریٰ (نشہ، غندوگی، اوسانِ خطا اور بے سمجھی) کی حالت میں ہو تو جب تک جو منہ سے کہو سمجھنے نہ لگو صلوٰۃ کے قریب نہ جاؤ ۔‘‘ یعنی صلوٰۃ میں قرآن کی عربی قرأت کو بے سمجھی کی حالت میں سننے سے اللہ منع کرتا ہے بلکہ ایسی حالت میں جانا بھی منع ہے۔ ’’فَوَیْلُ‘ لِّلْمُصَلِّیْنَ ہ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَتِھِمْ سَاھُوْنَ ہ الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَاؤُوْنَ ہ‘‘ (۱۰۷:ماعون:۶) ’’تو ایسے مصلین پر ملامت، جو اپنی صلوٰۃ سے غافل ہیں، جو صرف ریا کاری کررہے ہیں۔‘‘ اگر اجتماعِ صلوۃ بتائے گئے قرآنی احکام پرعمل نہ کرنا غفلت ہے تو اللہ تعالیٰ کے احکام کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے عربی کو نہ سیکھنا کیا اس سے بڑی غفلت نہیں؟؟؟
عربی کی وسعت
عربی ’’الفاظ‘‘ کے لحاظ سے دنیا کی سب سے وسیع زبان ہے۔ عربی میں چھوٹی سی چھوٹی چیزوں کے بڑے تفصیل سے علیحدہ علیحدہ نام ہوتے ہیں جس کا کسی دوسری زبان میں تصور بھی نہیں ہوتا۔ مثلاً عربی میں دن کے ہر گھنٹے کا علیحدہ نام اور انسانی جسم کی ہر اعضاء اور ہر انگلی کے لئے جدا گانہ نام وغیرہ۔ عربی میں الفاظ کی اتنی وسعت ہے کہ کئی ایک چیزوں کے سیکڑوں نام ہیں۔ مثلاً صرف تلوار کے لئے ایک ہزار (۱۰۰۰) الفاظ استعمال ہوتے ہیں، اونٹ کیلئے (۲۲۵)، سانپ کے لئے(۱۰۰) اور پانی کے لئے (۱۷۰) لفظ استعمال ہوتے ہیں، خود قرآن میں اللہ نے گروہ کے لئے بیس (۲۰) سے زیادہ لفظ استعمال کئے ہیں۔ عربی میں دو سو سے زائد ایسے الفاظ ہیں جن کے معنی تین تین ہیں، سو سے زائد کے چار چار معنی ہیں اور بعض کے پچیس پچیس معنی ہیں۔ مثلاً لفظ خال کے (۲۷)، عین کے (۳۵) اور عجوز کے (۶۰) معانی ہیں۔ جیسے اردو میں بھی لفظ ’’گولی‘‘ کے قریباً آٹھ معانی ہیں۔ (۱) سپاہی چور سے کہتا ہے، اگر بھاگنے کی کوشش کی تو گولی مار دونگا۔ (۲)درزی شاگرد سے کہتا ہے، بساطی کی دوکان سے سیلیٹی رنگ کی گولی لے آؤ۔ (۳) ڈاکٹر صاحب، مریض کو مشورہ دیتے ہیں یہ گولی کھالو، درد، دور ہوجائے گا۔ (۴) ماں بچے کو کہتی ہے کہ بیٹا ہر وقت گولیاں نہ کھیلو۔ (۵)حامد نے شادی کی تقریب کے لئے بازار سے بندوق کی ایک درجن گولیاں خریدیں۔ (۶) استاد شاگرد سے کہتا ہے تم مجھے کافی دنوں سے گولیاں دے رہے ہو۔ لیکن آج تمہاری گولی فٹ نہیں ہوگی۔ (۷)شاگرد: ’’میں نے بھی کوئی کچی گولی نہیں کھیلی‘‘ (۸) جس طرح ایک اُردو دان لفظ ’’گولی‘‘ کے اِن آٹھ معانی کو بخوبی سمجھتا ہے۔ اسی طرح ایک عربی دان عربی کے ایک سے زیادہ معانی والے الفاظ کو سمجھتا ہے۔ فرق صرف اہل زبان کا ہے!!!
عربی کی جامعیت اور اختصار پسندی کا یہ عالم ہے کہ بڑے سے بڑے مفہوم کو چند الفاظ میں نہیں بلکہ چند حروف میں بھی ادا کیا جاسکتا ہے اور جبکہ اس زبان کے ایک لفظ کا مفہوم کو واضح کرنے کے لئے دوسری زبانوں میں کئی کئی جملے بھی ناکافی ہوتے ہیں اور عربی اور غیر عربی زبان کی قرآنی تفسیریں ان کی بہترین مثالیں ہیں۔
عربی کی خاص خاصیت
اس زبان کی سب سے بڑی خصوصیت جو دنیا کی کسی بھی زبان میں نہیں ہے۔ وہ یہ کہ عربی قواعد کی مدد سے ہزار زمانے کی نت نئی سائنسی ایجاد اور تکنیکی ضرورتوں کے ماتحت اس میں جدید الفاظ و اصطلاحات آسانی سے بنائی جاسکتیں ہیں۔ مثلاً آج کل ٹیلی فون کے لئے (ہاتف)، ریڈیو (اشعالی)، ٹرین(قطار)، ٹینک (دبابۃ)، بینک (مصرف)، فریج (ثلاجۃ)، میزائل (صاروخ)، کار (سیارۃ)، دوربین (منظار)، تھرمامیٹر (میزان حرارۃ)، دوائی (حبوب)، مارنے والی گولی (رصاصۃ)، ٹیپ (مسجلۃ)، کمپیوٹر (حاسوب)، کیکولیٹر (حاسبۃ)، ٹائپ رائیٹر (الۃ کاتبۃ)، ڈیسک (مکتب)، لائبریری (مکتبۃ) اورجنگی جہاز کے لئے (بارجۃ) وغیرہ کے جدید لفظ استعمال ہوتے ہیں جو ان چیزوں کی کیفیت وصفات کے عین مطابق ہیں۔ عربی نے کسی دوسری زبان کے الفاظ کو قبول نہیں کیا مَعْدُودے چند الفاظ کے، ان میں بھی عربی کی جامعیت وَوسعتِ معنی کا خاص خیال رکھا گیا اور اسی خاصیت کی وجہ عربی دنیا کی خالص ترین زبان ہے۔
عربی میں مادّے کی اہمیت
مادّہ عربی لسان کی بنیاد ہے اور عربی کی قاموس بھی مادّے کی ترتیب سے لکھی جاتی ہے۔ دنیا کی دوسری لسان کی طرح لفظ بلفظ کی ترتیب سے نہیں لکھی جاتی ہے۔ مادّے کی ترتیب سے قاموس مرتب کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عربی زبان میں ایک مادّہ سے سینکڑوں الفاظ، اسماء، افعال، صفات اور صیغے بن جاتے ہیں۔ عربی کی مشہور قاموس ’’تاج لعروس‘‘ سید مرتضیٰ زُبیدی، متوفی ۱۲۰۵ھ کے مادّہ ہائے الفاظ کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہیں۔
ایک مادّہ (ک:ت:ب) سے بنے چند الفاظ کی مثال جو قرآن میں آئے ہیں: کَتَبَ۔ اس نے لکھا [۲:۱۸۷]، کُتِبَ۔ وہ لکھا گیا [۲:۱۸۰]، کَتَبَتْ۔ اس (مؤنث)نے لکھا[۲:۸۹]، کَتَبْتَ۔ تونے لکھا [۴:۷۷] ، کَتَبْنَا۔ ہم نے لکھا[۴:۶۶] ، کِتَابُ۔کتاب، مضمون [۲:۲] ، کُتُبٍ۔کتابیں [۹۸:۳]، کُتُبِہٖ۔اس کی کتابیں [۲: ۲۸۵]، کَاتِبُ‘۔لکھنے والا [۲:۲۸۲]، کَاتِبُونَ۔لکھنے والے [۲۱:۹۴]، کَاتِبِیْنَ۔لکھنے والے [۸۲:۱۱]، مَکْتُوْباً۔ خط، لکھا ہوا [۷:۱۵۷]، اُکْتُبْ۔تو لکھ دے [۷:۱۵۶]، اَکْتُبُھَا۔میں اس (مونث) کو لکھتاہوں [۷:۱۵۶]، نَکْتُبُ۔ ہم لکھتے ہیں [۳:۱۸۱]، یَکْتُبُ۔وہ لکھتا ہے [۲:۲۸۲]، یَکْتُبُوْنَ۔وہ لکھتے ہیں [۲:۷۹]، تُکْتَبُ۔لکھی جاتی ہے [۴۳:۱۹]، تَکْتُبُوْہُ۔تم اس کو لکھو [۲:۲۸۲] وغیرہ وغیرہ
اگر چہ ان الفاظ کی شکلیں اور آگے پیچھے کے الفاظ مختلف ہونے کے باوجود ہر لفظ کے اندر ’’مادّہ‘‘ اپنے صحیح معنی کے ساتھ موجود رہتا ہے۔ یہ مختلف شکلیں جو مادے سے بنتی ہیں اپنے مخصوص قواعد و ضوابط کے تحت بنائی جاتی ہیں جو بہت آسان ہے۔ عربی چونکہ فصاحت و بلاغت کی زبان ہے اس لئے اس کی ہر کروٹ اور ہر پہلو میں کوئی نہ کوئی ضابطہ اور کوئی نہ کوئی قاعدہ موجود ہوتا ہے اور عربی نے جس طرح ہر دور میں نت نئے اسالیب نئے الفاظ و محاورات اور نت نئی اصلاحات کو اپنانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ ان دلائل کی بنیاد پر آج بھی اکثر ماہرین لسانیات عربی گرامر کو دنیا کی سب سے بہترین گرامر قرار دیتے ہیں، اسی بہترین عربی قوائد کی وجہ سے قرآن حکیم کے کسی حرف پر زیر و زبر کی تبدیلی بھی آسانی سے پہنچانی جاسکتی ہے بلکہ جدید عربی بغیر زیر زبر کے ہی لکھی جاتی ہے