کچھ لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس کی اجازت ہونی چاہیئے کیونکہ اِس سےقرآن کی تعلیم عجمیوں )غیر عربی( میں رائج کرنے کی سہولت ہے کیونکہ وہ عربی نہیں پڑھ سکتے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بات خلافِ واقعہ ہے کیونکہ مشاہدہ اس کا گواہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ماضی میں اگر نظر دوڑائیں تو کتنے ہی غیرعربیوں نے قرآن پڑھا اور تجوید و قرات و رسم الخط کے امام مانے گئے۔بالفرض اگر اِس مصلحت کو تسلیم کیا بھی جائے تو بھی صرف اِ س وجہ
سے اجماعِ امت کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ خود حضرت عثمان رضیاللہ عنہ نے اِس مصلحت کی طرف نظر نہیں فرمائی باوجود اسکے کہ اُسوقت اس مصلحت کی زیادہ ضرورت تھی کیونکہ آج کل کی طرح اُس وقتلوگوں میں زیادہ زبانیں سیکھنے کا رواج نہ تھا۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہاُس وقت دوسری زبان میں کتابت کرانا ممکن نہ تھا کیونکہ خود کاتبِ وحیحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مختلف زبانیں جانتے تھے اسکے باوجودصرف عربی رسم الخط میں ہی کتابت کراکے قرآن کے نسخے مختلف ممالکبھیجے گئے۔
ایک بات بھی ذہن میں آئی کہ انگریزی رسم الخط میں قرآن لکھنے سےحرف "خ" ، "ط" ، "ض" یا "ظ" وغیرہ کا حق ادا نہیں ہوسکتا اور حرکات کوظاہر کرنے کے لیئے آپ کو باقاعدہ حروف کا اضافہ کرنا پڑیگا۔ یہ معاذ اللہ
تحریف کے زمرہ میں بھی آسکتا ہے۔