ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
قرآن کی متعدد قراء ات کو ثابت کرنے والی
جملہ اَحادیث کی تخریج اور جائزہ
جملہ اَحادیث کی تخریج اور جائزہ
ڈاکٹر اَبومجاہد عبدالعزیز القاری
مترجم:ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
مترجم:ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
حدیث ’سبعہ احرف‘ کا شمار چند اہم اور عظیم احادیث میں ہوتا ہے۔جملہ حفاظ حدیث اس کے متواتر ہونے پر متفق ہیں۔ آئمہ دین نے اس حدیث کو اپنی کتب میں مسلسل ذکر کیاہے اور حدیث کی کوئی کتاب بھی اس کے ذکر سے خالی نہیں۔زیرنظر مقالہ مدینہ یونیورسٹی کے شعبہ کلِّیۃ القرآن کے سابق سربراہ الشیخ ابو مجاہد عبدالعزیز القاری حفظہ اللہ کی محنت شاقہ کا ثمر ہے، جس میں قرآن مجید کے سات حروف کے بارے میں وارد احادیث کی تحقیق، سات حروف سے مراد، سات حروف کا مروّجہ قراء ات سے تعلق وغیرہ مباحث کو ائمہ و محدثین کی تائید سے پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالعزیز القاری حفظہ اللہ مدینہ منورہ یونیورسٹی کے شعبہ کلِّیۃ القرآن الکریم کے کئی سال پرنسپل رہے ہیں۔ موصوف حفظہ اللہ کا قراء ات قرآنیہ سے تعلق کے ساتھ ساتھ اصل تخصص فقہ و اُصول فقہ ہے۔ ان کا زیر نظر مضمون سہ ماہی مجلہ، مجلَّۃ کلِّیۃ القرآن الکریم،جامعہ اسلامیہ سے ماخوذ ہے۔ مقالہ کا اصل عنوان تو حدیث ’سبعہ اَحرف‘ اور اس کے متعلقات ہیں، لیکن ادارہ نے اس کے موضوعات کے پیش نظر اسے چار مستقل حصوں میں تقسیم کردیا ہے، جن کے ترجمہ کی سعادت مختلف اَرکان مجلس التحقیق الاسلامی کے حصہ میں آئی ہے۔مضمون ہذا اسی مقالہ کے پہلے حصہ پرمشتمل ہے۔ (ادارہ)
حدیث ’’سبعۃ أحرف‘‘ کی تخریج کرنے والے محدثین عظام
اس حدیث کی تخریج امام المحدثین امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی اورامام نسائی رحمہم اللہ نے اپنی سنن نیز عمل الیوم واللیلہ میں، امام ابوداؤدرحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ، امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی موطأ میں اور ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں کی ہے۔ علاوہ ازیں ابوعبیدالقاسم بن سلام رحمہ اللہ ’فضائل القرآن‘ میں ابوداؤد الطیالسی رحمہ اللہ، امام احمدرحمہ اللہ اور ابویعلی رحمہ اللہ اپنی اپنی مسانید میں اور عبدالرزاق اپنی ’مصنف‘ میں اس کو روایت کرتے ہیں۔ امام طبرانی ’الاوسط‘ اور ’الکبیر‘ میں جبکہ امام طحاوی رحمہ اللہ متعدد طرق سے ’مشکل الاثار‘ میں، ابن جریررحمہ اللہ اپنی تفسیر کے مقدمہ میں، بیہقی رحمہ اللہ اپنی ’سنن‘ میں اور حاکم رحمہ اللہ اپنی ’مستدرک‘ میں اس کونقل کرتے ہیں۔
اسی طرح حافظ ابن کثیررحمہ اللہ نے ’فضائل القرآن‘ میں اس کے طرق کی تحقیق اور اس بارے میں وارد ہونے والی جملہ احادیث کو شمار کیا ہے۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ’فتح الباری‘ میں اور ابن قتیبہ الدنیوری نے ’مشکل القرآن‘ میں حدیث سبعہ احرف کی مفصل تشریح و توضیح کی ہے۔
شیخ ابوالفضل عبدالرحمن بن احمد بن حسن بن بندار بن ابراہیم الرازی العجلی المقری رحمہ اللہ(متوفی:۴۵۴ھ) (ترجمۃ فی غایۃ النھایۃ:۱؍۳۶۱) نے ایک مستقل کتاب میں صرف اسی حدیث کی جملہ روایات جمع کرنے کے ساتھ ساتھ تفصیل سے ان کی شرح کی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں (ترجمۃ فی غایۃ النھایۃ:۱؍۳۶۵)کہ ابومحمد عبدالرحمن بن اسماعیل رحمہ اللہ (مجموع الفتاوی لابن قاسم :۱۳؍۳۸۹) المعروف ’بابن شامہ‘ رحمہ اللہ(متوفی:۶۶۵ھ) نے بھی اسی حدیث پر ایک مستقل کتاب تصنیف کی ہے۔ ابومجاہد (صاحب ِ مضمون)کا کہنا ہے کہ مجھے بھی ۴۰۰ صفحات کے لگ بھگ ، دو جلدوں میں حافظ یوسف بن عبدالہادی رحمہ اللہ کی ایک کتاب ’ہدایۃ الانسان إلی الاستغناء بالقرآن‘ ملاحظہ کرنے کا اتفاق ہوا، جس میں ابن شامہ رحمہ اللہ سے بکثرت اَقوال اور تحقیقات مذکور ہیں اور اس کتاب کے مصنف کے بقول ’ابن شامہ کی‘ ’حدیث ِ سبعہ احرف ‘ پرایک مستقل تصنیف ہے جو ’المرشد‘ کے نام سے ہے۔
ابن شامہ رحمہ اللہ کی اسی تصنیف کی طرف امام محمد بن جزری مقری رحمہ اللہ (صاحب ’النشر‘) نے بھی اشارہ کیاہے، جیسا کہ اپنی کتاب میں حدیث الاحرف السبع روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’علامہ ابن شامہ رحمہ اللہ نے بھی اس کے بارے میں ایک جامع کتاب تالیف کی ہے۔‘‘ (۱)
حدیث الاحرف السبع پر مستقل تصنیف کرنے والوں میں خود ابن جزری رحمہ اللہ کا نام نامی بھی شامل ہے۔ قراء ات کی مشہور ترین کتاب ’النشر‘ میں آپ نے ذکر کیا ہے کہ مجھے بھی اس حدیث کے طرق کے تتبع کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور ان طرق کو میں نے ایک مستقل جز میں جمع کردیا ہے۔(النشر فی القراء ات العشر:۱؍۱۹)
حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
حدیث’الاحرف السبع‘ کو صحابہ کرامؓ میں سے امیرالمومنین عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، ابی بن کعب، عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، ہشام بن حکیم بن حزام، عبداللہ بن عباس، عمرو بن عاص، حذیفہ بن یمان، عبادہ بن صامت، سلیمان بن صرد الخزاعی، ابوبکر انصاری، ابوطلحہ انصاری، انس بن مالک، (بواسطہ ابی بن کعب)، سمرہ بن جندب، ابوجہیم انصاری، عبدالرحمن بن عوف اور اُم ایوب انصاریہ رضوان اللہ اجمعین نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح عبدالرحمن بن عبدالقاری اور مسور بن مخرمہ نے بھی بالواسطہ اس حدیث کو روایت کیا ہے، اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ کی مجموعی تعداد ۲۲ سے زائد ہے۔
زیرنظر حدیث کو صحابہ کرام سے بے شمار تابعین اور ائمہ حدیث کی ان گنت تعداد نے متعدد اسانید طرق سے روایت کیاہے۔ ذیل میں ہر ایک صحابی سے روایت کرنے والے محدثین اور رواۃ کے اجمالی بیان کے ساتھ اس سے نقل ہونے والی روایت کے متن و سند میں اختلاف اور اس کے متعدد طرق کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جاتاہے تاکہ جملہ وارد شدہ اَحادیث، متن اور سند کے اختلافات اور متعدد طرق کو ایک خاص ترتیب سے ذکر کردیا جائے جس سے قاری کے لیے آئندہ بھی ان سے استفادہ ممکن ہوسکے۔
حدیث عمر بن خطاب و ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما
تین طرق سے کتب احادیث میں مذکور ہے:
١ امام محمد بن شہاب زہری رحمہ اللہ کے طریق سے جنہوں نے عروہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور عروہ رحمہ اللہ نے عبدالرحمن بن عبدالقاری رحمہ اللہ اور مسور بن مخرمہ سے اس حدیث کا سماع کیا۔جب کہ امام زہری رحمہ اللہ سے مالک بن انس رحمہ اللہ(امام دارالہجرۃ)(۲)، عقیل بن خالدرحمہ اللہ(اخرج روایۃ البخاری و ابوعبیدوالطحاوی)،معمر بن راشد الازدیرحمہ اللہ(۳)، یونس بن یزیدرحمہ اللہ مولیٰ معاویہ بن سفیان(اخرج روایۃ مسلم والنسائی و ابن جریر و ابو عبید والطحاوی)، عبدالرحمن بن عبدالعزیز الانصاری رحمہ اللہ (اخرج روایۃ الطحاوی)،فلیح بن سلیمان الخزاعی رحمہ اللہ(اخرج روایۃ الطیالسی فی مسندہ)اور شعیب بن حمزہ رحمہ اللہ(اخرج روایۃ ابوعبید) نے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
٢ اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ رحمہ اللہ کے طریق سے: جوکہ اس طرح اسحق بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ عن عمر ؓ (أخرج الحدیث من طریقہ ابن جریر فی تفسیرہ:۱؍۲۵)
٣ عبیداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے طریق سے: بروایت عبیداللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر عن عمر بن الخطاب (۴)
’ابن شہاب زہری رحمہ اللہ‘ کے طریق سے متن ِحدیث
اس حدیث کا متن صحیح بخاری میں مسور بن مخرمہ اورعبدالرحمن بن عبدالقاری کی سند سے یوں ہے:
حضرت عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ کی حیات طیبہ میں ہشام بن حکیم کو سورۂ فرقان پڑھتے ہوئے سنا۔ (عبدالرزاق رحمہ اللہ سے بروایت معمریہ منقول ہے کہ میں ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے قریب سے گزرا جو کہ نبی کریمﷺ کی حیات میں سورۂ فرقان تلاوت کررہے تھے۔)
میں نے ہشام رضی اللہ عنہ کی قراء ت کو جب غور سے سنا تو معلوم ہواکہ وہ متعدد الفاظ اس طرح قراء ت کررہے ہیں جو نبی اکرمﷺ نے مجھے نہیں سکھائے تھے۔ (نسائی سے بروایت معمریہ الفاظ منقول ہیں کہ انہوں نے ایسے حروف پر پڑھا جو نبی اکرمﷺ نے مجھے نہیں سکھائے تھے۔)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں ہشام کو نماز میں ہی (جھپٹ کر) روک لینے پر تیار ہوگیا۔ (مالک کی روایت میں ہے: میں قریب ہوا کہ اس کی طرف جلدی کروں)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے بمشکل اپنے آپ کو اس فعل سے روکے رکھا حتی کہ جیسے ہی ہشام نے سلام پھیرا تو میں ان کے لباس سے کھینچتے ہوئے ان کو نبی اکرمﷺ کی طرف لے چلا۔ (مالک کی روایت میں ہے: میں نے ان کو سلام پھیرنے تک کی مہلت دی اور معمرکے الفاظ میں: میں ان کو دیکھتا رہا حتیٰ کہ انہوں نے سلام پھیر لیا… ابن عبید کی روایت میں ہے: میں نے انہیں ان کے کپڑوں سے پکڑا)
پھر میں نے ہشام رضی اللہ عنہ سے سوال کیاکہ آپ کو یہ سورہ مبارکہ اس طرز پر کس نے سکھائی ہے(جس طرح میں نے ابھی آپ سے سنی ہے) انہوں نے جواب دیا کہ نبی اکرمﷺ نے مجھے ایسے ہی سکھایا ہے تو میں نے کہا کہ تم غلط بیانی کرتے ہو، کیونکہ مجھے نبی اکرمﷺ نے یہی سورت اس طریقے پرنہیں پڑھائی جس پر میں نے تمہیں سنا ہے۔
(معمر اور یونس کی روایت میں ہے: ’تم نے غلط کہا ہے…‘اللہ کی قسم نبی اکرمﷺ نے مجھے بھی یہ سورت سکھائی ہے جو ابھی تم تلاوت کررہے تھے)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں انہیں رسول اللہﷺ کی طرف لے چلا۔ (وہاں جاکررسول اکرمﷺ سے) میں نے کہا: مجھے اس شخص سے ایسے طریقہ پرسورہ فرقان سننے کا اتفاق ہوا ہے جس پر آپﷺ نے مجھے یہ سورت نہیں پڑھائی۔
(معمر کی روایت میں ہے: ’’تم ان سے پڑھو جو بھی تمہیں میسر ہو‘‘ اور یونس کی روایت میں ’’ان سات حروف میں سے اس پر پڑھو جو تمہیں میسر ہو۔‘‘ )نبی اکرمﷺ نے مجھے فرمایا: ہشام کو چھوڑ دو اور ہشام تم پڑھو: تب ہشام نے اسی طرح تلاوت کی جس طرح میں نے ہشام سے سنا تھا۔ نبی اکرمﷺ نے کہا: ’’یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے۔‘‘(معمر اور یونس کی روایت میں اور مالک سے دو مقام پر یہ الفاظ ہیں: ہکذا أنزلت)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر نبی کریمﷺ نے مجھے پڑھنے کا حکم دیا۔ میں نے اس طرز پر قراء ت کی جس پر آپ نے مجھے سکھایا تھا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اسی طرح (بھی) نازل کی گئی ہے۔یہ قرآن مجید سات حروف پرنازل کیا گیاہے، لہٰذا جو حرف تمہیں آسان معلوم ہو، اس پر قرآن کی تلاوت کرو۔‘‘
ابوعبید نے بروایت عقیل ان الفاظ کو مزید نقل کیا ہے کہ ابن شہاب نے سبعہ احرف کے بارے میں کہا کہ یہ سب قراء ات ایک ہی بات اور حکم ثابت کرتی ہیں جس میں ان قراءتوں کے اختلاف کی وجہ سے معنی یا مراد میں کوئی اختلاف واقع نہیں ہوتا۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں امام مسلم نے بھی ابن شہاب زہری سے یہ اضافہ نقل کیا ہے: ’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ یہ سات حروف ایک ہی حکم کو ثابت کرتے ہیں اورکسی شے کے حلال و حرام ہونے میں باہم مختلف نہیں ہوتے۔‘‘