ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
قراء ات کا ثبوت…اجماع ِ اُمت کی روشنی میں
قاری صہیب احمد میر محمدی
مترجم: قاری محمد صفدر
مترجم: قاری محمد صفدر
علوم شرعیہ میں کوئی ایسا علم نہیں کہ جس میں قراء ات سے استفادہ اور معاونت حاصل نہ کی گئی ہو۔ برابر ہے یہ علم صرف ونحو اور بلاغت کا ہو یاکتب لغت وغیرہ ہوں ان تمام میں قراءات قرآنیہ بنیادی رکن اور اساسی حیثیت کی حامل ہیں۔ اس بات کی وضاحت کا اہتمام علماء کرام نے کیا، علامہ جیساکہ علامہ عبدالعال سالم علی نے اپنی کتاب اثر القراء ت فی الدراسۃ النحویۃمیں، علامہ عبدالوھاب حمودہ نے القراء ات واللَّھجات میں، علامہ عبدہ الراجحی نے القراء ات واللَّھجات میں، علامہ محمد عبدالخالق عضیمہ نے دراسات لاسلوب القرآن الکریم میں، ڈاکٹر محمدسالم مُحَیْسن نے القراء ات وأثرھا فی علوم العربیۃ میں اور علامہ عبدا لصبور شاہین نے القراء ات القرآنیۃ فی ضوء علم اللُّغۃ والحدیث میں اس بات کی وضاحت فرمائی ہے۔زیر نظر مضمون مؤلف کی عربی تصنیف جبیرۃ الجراحات فی حجیۃ القراء اتکی دو فصلوں کا ترجمہ ہے۔ مجلس التحقیق الاسلامی نے کتاب کی افادیت کے پیش نظرکتاب کا مکمل ترجمہ تیار کیا ہے ، جسے عنقریب کتابی صورت میں شائع کردیا جائے گا۔ قاری محمد صفدر، مدرّس کلیۃ القرآن الکریم، لوکو ورکشاپ ورکن مجلس التحقیق الاسلامی نے کتاب کے ترجمہ کی سعادت حاصل کی ہے۔ (ادارہ)
اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا علوم عربیہ کی ترقی قرآن اور علوم قرآن کی وجہ سے ہوئی؟
شیخ سعید افغانی رحمہ اللہ قرآن مجید کے بارہ میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’بلاغت، نحو، صرف اور لغت میں قرآن مجیدسے استدلال کرنا بالکل صحیح اور مجمع علیہ ہے۔قرآن مجید کی تمام قراء ات ہم تک صحت سند کے ساتھ پہنچی ہیں یہ ایسی دلیل ہیں جس کا کوئی مد مقابل نہیں ہے اور ہاں ان قراء ات کے مختلف طریقہ ادائی بھی اسی قبیل سے ہیں، کیونکہ وہ صحابہ اور قراء تابعین سے منقول ہیں یہ تمام حضرات ایسی (معتمد) شخصیات تھیں کہ انہوں نے قراء ات کواپنی بھرپور کوشش کے ساتھ آپﷺ سے سنا اور انہیں لکھ کر محفوظ کیا۔اس باب میں ان کی بات حجت سمجھی جاتی تھی۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ ابوعمرو بصری، کسائی اور یعقوب حضرمی نہ صرف قراء ت میں امام تھے بلکہ لغت کے بھی امام تھے۔ ‘‘ (أصول النحو، ۲۸،۲۹)
شیخ محمد عبدالخالق عضیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قرآن مجید خواہ متواتر ہو یا غیر متواتر عربیت میں ویسے ہی حجت ہے جیسے شریعت میں قراء ت شاذہ ،اگرچہ تواتر کی شرط مفقود ہوتی ہے، لیکن چونکہ ثقہ کے واسطے سے ہم تک پہنچی ہیں لہٰذا لغت اوراسلوب لغت میں اس کی حیثیت یاشان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی کیونکہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ لغت میں خبرواحد بھی کفایت کرجاتی ہے۔ ‘‘(دراسات لاسلوب القرآن: ۱؍۲)
ایک فقیہ آدمی قراء ات متنوعہ سے قرآن مجید کا تفقّہ اور احکام شرعیہ کے استنباط میں فائدہ اٹھاتا ہے جیسا کہ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:سو قرآن مجید قراء ات صحیحہ اور سنت نبویﷺ عقائد واَحکام کے اَخذ کرنے میں مصدر و منبع ہیں۔ شریعت اور علوم شریعت میں انہیں نہایت اہم مقام حاصل ہے۔ اس لئے مفسر قرآن کے لئے ضروری ہے کہ وہ قراء ات کا علم رکھتا ہو کیونکہ جب کوئی مفسر کسی قرآنی آیت کے معنی کی وضاحت کرتاہے تو قراء ات مختلفہ اس مسئلہ کو کھول کر بیان کرتی ہیں۔ جبکہ ایک قراء ت سے معنی اس طرح واضح نہیں ہوتا۔بسااوقات کسی ایسی آیت جو ایک سے زائد معانی کااحتمال رکھتی ہو قراء ات کے ذریعے ان میں سے راجح معنی کی وضاحت ممکن ہوتی ہے۔ایسے ہی قرآن مجید کا نطق اور کیفیت ادائی معلوم ہوتی ہے جس میںنہ صرف نظم و معانی قرآن کا اعجاز حاصل ہوتا ہے بلکہ الفاظ کی ترکیب اور کلمات کے حروف کااعجاز بھی حاصل ہوتاہے۔ (الاتقان: ۴؍۱۸۴، اسرار التعبیرفی القرآن :ص ۲۲تا۲۵)
’’ہمیشہ سے علماء کا وطیرہ رہا ہے کہ ایسا حرف جسے کوئی قاری پڑھتا ہے، سے ایسے مسائل اخذ کرتے ہیں جو دوسری قراء ت میں نہیں پائے جاتے تھے۔ سو قراء ات فقہاء کے نزدیک استنباط مسائل کے لئے حجت ہیں، علماء کرام ان قراء ات سے حصول صراطِ مستقیم کے لئے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔‘‘(لطائف الاشارات: ۱؍۱۷۱ کا إتحاف فضلاء البشر کے ساتھ مقارنہ کرتے ہوئے)
جب قراء ات کا مرتبہ ومقام اس قدر واضح اور بلندہے تو اس بارہ میں متبحر ماہرین علماء قراء ات کے اقوال نقل کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔
اُمت اِسلامیہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ عزوجل نے صحابہ کی آسانی کی غرض سے انہیںکئی لغات پر قرآن مجید پڑھنے کی اجازت دی، لیکن شرط یہ تھی کہ وہ محض آپؐ سے سن لینے کی بناء پر ہو نہ کہ اس کے مطابق پڑھنے کی اجازت تھی جس کاان کی لغت تقاضا کرتی تھی اور جو ان کاعادۃً محاورہ بن چکا تھا، کیونکہ قراء ات میں رائے اور اجتہاد کا کوئی عمل دخل نہیں قراء ات سبعہ کے تواتر پر اُمت اسلامیہ کا اجماع ہوچکا ہے، جیسا کہ شیخ زکریا انصاری فرماتے ہیں:
’’قراء ات سبعہ جو قراء سبعہ سے منقول ہیں نبیﷺ سے ہم تک بطریق تواتر پہنچی ہیں۔‘‘ ( غایۃ الوصول شرح لب الاصول اززکریا انصاری رحمہ اللہ: ص ۳۴)
اسی طرح ابن ابی شریف رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سروجی حنفی رحمہ اللہ نے اہل سنت والجماعت سے قراء ات سبعہ کاتواتر نقل کیاہے۔ (الدّر اللوامع اَز ابن ابی شریف :ص ۸۷)
اسی طرح سیدمحمد الطباطی، جو کہ امامیہ شیعہ کے بہت بڑے عالم ہیں، نے لکھا ہے کہ
’’ علماء نے قراء ات سبعہ پرتواتر نقل کیا ہے اور مطلق طور پر قراء ات سبعہ کے تواتر کے قائلین میں سے علامہ ابن المطہر، ابن فہد،محدث حرملی اور فاضل جواد وغیرہ ہیں۔‘‘ (مفاتیح الاصول از طباطبی:)
اسی طرح ابن ساعانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ
’’ قراء ات سبعہ متواترہ ہیں، ہاں قرآن کابعض حصہ غیرمتواتر ہے، جیسا کہ مالک اور ملِک وغیرہ۔ ‘‘ (بدیع النظام از ابن ساعاتی،ص۵۶ مخطوطہ)
اسی طرح ابن نُجَیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ
’’ اگر ہم قراء ات سبعہ میں غوروخوض کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہرقراء ت متواترہ، مشہورہ اور (علماء فن کے ہاں) مقبولہ ہے۔ نسل در نسل لوگوں نے ان کونقل کیا اور یہ قراء ات مصحف عثمانی کے موافق ہیں۔جو قراء ات مصحف عثمانی کے مطابق مشہور اور متواتر ہیں ان پر نسل در نسل لوگوں نے اجماع نقل کیاہے۔‘‘ (فتح الغفار از ابن نجیم :۱؍۸۷)
قاضی عبدالجباررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ صحابہ نے لوگوں کو مصحف عثمانی پر جمع کیا انہوں نے منزل متواتر قراء ات میں سے کچھ بھی ہم تک پہنچنے سے نہیں روکا۔قراء ات متنوعہ ثبوت کے اعتبار سے متواتر ہیں جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور صحیح ترین قراء ات کاعلم حاصل کرناہم پرواجب ہے۔‘‘ (المغني از قاضی عبدالجبار :ص۵۹،۶۰)
احمد الونشر یشی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
’’ہم سب پر واجب ہے کہ منقول قراء ات متواترہ پر ایمان لائیں۔ یہ بات دینی اور عقلی طورپر ناممکن ہے کہ ان میں تصحیف (غلطی) یا تحریف ہوئی ہو۔‘‘ (المعیارالمعرب : صفحہ ۸۷)
نواب صدیق الحسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’اہل اصول کا دعویٰ ہے کہ تمام قراء ات سبعہ، بلکہ عشرہ متواترہ میں۔‘‘(حصول المامون از صدیق حسن بہادرa: ص ۳۵ )
امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’قراء ات عشرہ کے تواتر پراجماع ہوچکاہے اور قراء ات سنت متبعہ ہیں ان میں اجتہاد کو کوئی عمل دخل نہیں۔‘‘ (البرہان از امام زرکشی رحمہ اللہ: ۱؍۳۲۲)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :’’یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ‘‘ (المائدۃ:۶۷)ہاںشیعہ نے اس اجماع سے بیزاری کااظہارکیاہے۔ وہ تواتر قراء ات کی نفی کرتے ہیں،لیکن اس گمراہ کن فرقہ کااختلاف اُمت اِسلامیہ کے اجماع کے لئے مضر نہیں ہے۔ امت اِسلامیہ کاقراء ات کے متواتر ہونے پر اجماع ہوچکا ہے ۔ ( أثر القراء ات فی الفقہ الاسلامی :ص ۱۳۰تا۱۳۲)
’’اے رسول جوکچھ آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے اس کو آگے پہنچائیے اگر آپؐ نے ایسا نہ کیاتو گویا آپ نے حق رسالت ہی ادا نہ کیا۔اللہ آپ کو کافروں سے بچائے گااور وہ کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں عطا کرے گا۔‘‘
اس آیت میں اللہ نے اپنے نبیﷺکو ابلاغ رسالت کاحکم دیاہے اور اس میں کوتاہی کی صورت میں انجام سے بھی باخبر کیاہے۔امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ اس آیت میں ابلاغ سے مراد تواتر ہے۔‘‘(البرہان: ۲؍۱۲۷)
اسی طرح امیر بادشاہ رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ ’’ قرآن سارے کاسارا متواتر ہے۔‘‘ (تیسیرالتحریر فی أصول الفقہ ازامیر بادشاہ: ۳؍۱۲)
امام غزالی رحمہ اللہ کتاب اللہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مصحف کے دو گتوں کے مابین مشہور احرف سبعہ پر مشتمل جوچیز تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے ،اس کانام کتاب اللہ ہے۔‘‘ (المستصفی، ص ۱۰۱)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ علماء میں سے کسی نے بھی قراء ات عشرہ کا انکار نہیں کیا۔‘‘(منجد المقرئین، ص۱۲۹)
ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’متواترکاانکار صحیح نہیں،کیونکہ اس پرامت کااجماع ہوچکاہے۔قراء ات کا تواتر ایسے حتمی اُمور میں سے ہے جن کاجاننا واجب ہے۔‘‘ (الفقہ الاکبر از ملا علی قاری حنفی،ص۱۶۷)
امام طبری رحمہ اللہ (المتوفی ۳۱۰ھ) فرماتے ہیں:
’’ آپ نے اللہ کی اجازت کے ساتھ جو قراء ات بھی احرف سبعہ میں سے اُمت کو پڑھائیں ہمارے نزدیک صحیح ہیں صحابہ کرام نے ان قراء ات کو (عقیدہ)قرآن کے ساتھ پڑھا۔ جب کسی پڑھنے والے کی قراء ات رسم مصحف کے موافق ہوتو ہمارے لئے جائز نہیں کہ اسے غلط کہیں۔‘‘(الابانہ: ص۶۰ بحوالہ کتاب القراء ات از طبری)
ابواسحاق زجاج رحمہ اللہ [المتوفی ۳۲۴ھ] فرماتے ہیں:
’’قراء ات سنت (متواترہ) ہے۔کسی قاری کے لئے جائز نہیں کہ وہ ایسی قراء ت پڑھے جسے صحابہ، تابعین یا ان قراء نے جومختلف شہروں میں قراء ات کے حوالے سے معروف تھے،نے نہیں پڑھی تھی۔‘‘ (معانی القرآن واعرابہ: ۱؍۴۸۲)
امام ابن مجاہدرحمہ اللہ (المتوفی۳۲۴ھ) فرماتے ہیں:
’’وہ قراء ات جو آج کل مکہ،مدینہ، کوفہ، بصرہ اور شام میں رائج ہیں۔ یہ وہ قراء ات ہیں جوانہوں نے اپنے پہلوں سے حاصل کیں۔ انہی قراء ات کی اشاعت کے لئے ہر شہر میں ایسے لوگ کھڑے ہوئے جنہوں نے تابعین سے وہ قراء ات حاصل کیں جس پر سب عام و خاص جمع ہیں۔‘‘(الاعلام: ۱؍۲۶۱، کتاب السبعۃ،ص۴۹تا۵۲، کچھ اختصار اور تصرف کرتے ہوئے)
ابن خالویہ رحمہ اللہ (المتوفی۳۷۰ھ) فرماتے ہیں:
’’میں نے پانچ معروف شہروں کے ائمہ سبعہ کی قراء ات پر ان کی صحت نقل اور پختگی حفظ کے حوالے سے غوروفکر کیا تو ان ائمہ کو الفاظ روایت کی ادائیگی پرامین پایا۔ میں نے ہرہر امام کو دیکھا جس حرف کے اختیار میں وہ منفرد ہے وہ عربیت کے موافق ہے قیاس کو اس میں کوئی سروکار نہیں۔ ان کا مذہب طریق نقل کے بیان میں لفظ کے موافق ہے اور آثار واجبیہ کے اختیار میں روایت غیرموثر نہیں ہوتی۔‘‘(کتاب الحجۃ: ۶۱)
اور اسی طرح فرماتے ہیں: ’’اس بات پر لوگوں کابلااختلاف اجماع ہے کہ جو لغت قرآن میں پائی جاتی ہے وہ غیر قرآن والی لغت سے زیادہ فصیح ہے۔‘‘ (المزھر:۱؍۲۵۷)
امام خطابی رحمہ اللہ (المتوفی ۳۸۸ھ) فرماتے ہیں:
’’ حجاز، شام اور عراق کے قراء میں سے ہر ایک کی مختارہ قراء ت کسی نہ کسی ایسے صحابی کی طرف منسوب ہے جس نے یہ قراء ت رسول اللہﷺ سے حاصل کی ہو۔پورے قرآن مجید میں ایک بھی قراء ت اس اصول سے مستثنیٰ قرارنہیں دی گئی۔‘‘ (الاعلام: ۲؍۲۷۳)
قاضی ابوالطیب رحمہ اللہ(المتوفی ۴۰۳ھ) اپنی کتاب الانتصار میں فرماتے ہیں:
’’عثمان کا جمع قرآن کا مقصد محض ابوبکر کی طرح قرآن مجید کودوگتوں میں جمع کرنا نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد تو رسول اللہﷺ سے منقولہ متواترہ معروفہ اورثابتہ قراء ات کو جمع کرناتھا اور جن کی شان یہ نہ تھی ،ان سے قرآن کو خالی کرناتھا۔‘‘ (ابحاث فی قراء ات القرآن الکریم از قاضی عبدالفتاح رحمہ اللہ:ص۲۵)
مکی بن ابی طالب قیسی رحمہ اللہ(المتوفی ۴۳۷ھ) فرماتے ہیں:
’’ یہ بات جان لینی چاہئے کہ جو قراء ات ہمارے ہاں ثابت ہیں وہ ساری کی ساری ایسی سنت سے ثابت ہیں جس کاردّکرنے والی کوئی چیز نہیں۔‘‘ (کتاب التبصرۃ:ص ۶۰)
ابوعمرو دانی رحمہ اللہ(المتوفی ۴۴۴ھ) فرماتے ہیں:
’’ائمہ قراء ات کسی بھی فصیح ترین لغت یا عربیت کے زیادہ قرین قیاس وجہ پرقراء ت کی بنیادنہیں رکھتے تھے بلکہ ان کے ہاں جو وجہ نقل و روایت میں زیادہ فصیح ہوتی قراء ت ٹھہرتی۔ جب کوئی روایت ان سے صحیح طریقے سے ثابت ہوجائے تو اسے(قوی نحوی وجہ پر) قیاس اور فصیح لغت رد نہیں کرسکتی کیونکہ قراء ت سنت متبعہ ہے اس کاقبول ہم پر لازم ہے۔‘‘ (منجدالمقرئین، ص۲۴۳)
ابن حزم رحمہ اللہ (المتوفی ۴۵۶ھ) ان نحویوں کے موقف، جو کہ قراء ات کے خلاف ہیں،کے بھونڈے پن کی وضاحت کرتے ہوئے لکھے ہیں کہ
’’اس شخص سے زیادہ عجیب(کم عقل) اور کون شخص ہوسکتا ہے جو امرؤ القیس، زہیر، جریر، حطیئہ، طرماح، اعرابی، سلمی، اسعدی، تمیمی یا ان کے علاوہ کسی بھی عرب کی کوئی کچی پکی بات جو اس نے اپنی نظم یا نثر میں کہی ہوتی ہے اس پر پکا ہو جاتاہے اسے حرف آخر سمجھتا ہے اور اس سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہوتا، لیکن پھر اگر یہی آدمی، اللہ تعالی جو لغات اور اہل لغات کاخالق ہے ،کے کلام میں کوئی ایسی بات پاتا ہے تو اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اس سے منہ موڑ لیتا ہے ۔ اس کلام میں تحریف کرنے کے درپے ہو جاتا ہے اور ایسی دور رس تاویلات کرتاہے جو اس کے ذہن کی پیداوار ہوتی ہے اور یہی معاملہ رسول اللہ1 کے کلام کے ساتھ کرتاہے۔ اللہ کی قسم محمدﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم قبل از نبوت جب مکہ میں ایک عام نوجوان تھے، اس وقت بھی اپنی قوم کی امت کو سب سے زیادہ جاننے والے اور سب سے زیادہ فصیح ادا والے تھے۔حمیری، قضاعی، تمیمی، ایادی، ربیعی، قیسی اور خندقی جیسے تمام قبائل (کے ادباء) آپ کی زبان زیادہ حجت تسلیم کرتے تھے تو یہ کیسے ممکن ہے جب اللہ نے آپ کو نبوت و رسالت کے لئے چن لیا،اپنی مخلوق اور اپنے مابین واسطہ بنایا اورآپ کی زبان مبارک پر اپنا کلام جاری کیا پھر آپؐ کی زبان میں نقص آگیا ہو۔‘‘ (الفصل فی الملل والنحل: ۳؍۱۹۲)
امام قرطبی رحمہ اللہ (المتوفی۲ ۴۶ھ) فرماتے ہیں:
’’تمام مسلمانوں کا اس بات پرپختہ اعتماد اور اجماع ہے کہ جو بھی ان آئمہ نے دیکھا اس کونقل کیا یااپنی کتابوں میں لکھا وہ سب ٹھیک ہے اس سے اللہ کے حفظ کتاب کے وعدہ کی بھی تائید ہوتی ہے یہی مذہب قدیم محققین ابن جریر طبری اورقاضی ابوبکر بن طیب رحمہ اللہ وغیرہ کاہے۔‘‘ (ابحاث فی قراء ات القرآن الکریم:ص ۲۵ )
امام قشیری رحمہ اللہ(المتوفی۴۷۵ھ)زجاج، جس نے بعض قراء ات پر اعتراض کیا، کاتعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس طرح کی بات ائمہ دین کے ہاں مردود ہے جیسا کہ اہل فن جانتے ہیں جو قراء ات ائمہ قراء ات نے نقل کی ہیں آپﷺ سے بطریق تواتر ثابت ہیں تو نبیؐ سے ثابت شدہ کسی چیز کی تردید کرنا ایسے ہی ہے جیسے نبیﷺ کی تردید کی گئی ہے۔ جس چیز کی آپﷺ نے تلاوت کی اس کو ردّ کرنابھی اسی قبیل سے ہے۔یہ بہت خطرناک بات ہے اس معاملہ میں ائمہ لغت یا نحو کی پیروی نہیں کی جائے گی۔‘‘(ابراز المعانی:ص۲۷۵)
اسی طرح امام قشیری رحمہ اللہ(المتوفی۴۷۵ھ) کا ایک اور قول یوں ہے کہ فرماتے ہیں:
’’بعض لوگوں کاخیال ہے کہ یہ قبیح اورمحال ہے کیونکہ جب کوئی قراء ت نبیﷺ سے ثابت ہوتی ہے تو وہ فصیح ہوتی ہے نہ کہ قبیح۔ ‘‘ (جامع احکام القرآن : ۷؍۹۳)
مبردنے جب قراء ات محکمہ پر اعتراض کیا ،تو اس کے تعاقب میں امام حریری رحمہ اللہ(المتوفی ۵۱۶ھ)لکھتے ہیں:
’’یہ بات بالکل مبرد کا تساہل اور فضول قسم کی بکواس ہے، کیونکہ یہ قراء ت تو سبعہ متواترہ میں سے ہے اسی طرح بعض نحوی اس غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں جن کے ہاں قراء ات غیر متواترہ ہیں کہ جیسے چاہو اپنی مرضی کے مطابق پڑھ لو تو یہ خیال اور مذہب باطل اورناقابل التفات ہے۔‘‘ (درۃ الغواص:ص ۹۵ کچھ تصرف کے ساتھ)
امام ابن عطیہ رحمہ اللہ(المتوفی ۵۴۳ھ) فرماتے ہیں کہ
’’قراء ات سبعہ بلکہ عشرہ (کے پرھنے پڑھانے) پر اعصار (زمانوں کے زمانے)اور امصار (شہروں کے شہر) گزر چکے ہیں۔ان کی نماز میں تلاوت کی جاتی تھی کیونکہ یہ اجماع سے ثابت شدہ ہیں۔‘‘ (ابحاث قراء ات القرآن الکریم :ص۲۵)
امام رازی رحمہ اللہ(المتوفی۶۰۶ھ) فرماتے ہیں:
’’ جب ہم مجہول شعر سے لغت کے اثبات کو جواز فراہم کرتے ہیں تو قرآن اس کا زیادہ حق رکھتا ہے ہم اکثر نحویوں کو قرآن مجید میں موجو دالفاظ کے بارہ میں حیران و ششدر پھرتے دیکھتے ہیں کہ جب کسی غیر معروف شعر کو اس کے استشہاد میں پیش کرتے ہیں تو اس وقت بڑے خوش ہوتے ہیں۔ مجھے ان پر انتہائی تعجب ہوتا ہے اگر وہ قرآن میں وارد لفظ سے اس مجہول شعر کے لئے استدلال کرے تو یہ زیادہ مناسب تھا۔(نہ کہ اس کے برعکس)‘‘ (تفسیرالکبیر للرّازی: ۳؍۱۹۳)
علامہ ابن منیر رحمہ اللہ(المتوفی۶۳۳ھ) فرماتے ہیں:
’’ ہمارا یہ مقصدنہیں کہ قواعد عربیہ کو سامنے رکھتے ہوئے قراء ات کو صحیح کریں بلکہ ہمارا مطلوب تو یہ ہے کہ قراء ات کو سامنے رکھتے ہوئے قواعد عرب کی تصحیح کی جائے۔‘‘(الانتصاف علی الکشاف: ۱؍۴۷۱)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(المتوفی ۷۲۸ھ)فرماتے ہیں :
’’کسی بھی عالم نے قراء ات عشرہ کا انکار نہیں کیا ہاں جس کو قراء ات کا علم نہیں یا وہ قراء ت اس کے نزدیک ثابت نہیں جیساکہ بلاد مغرب کی قراء ات تو ایسے آدمی کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس کی تلاوت کرے، کیونکہ قراء ات سنت (متبعہ)ہیں جسے پچھلے اگلوں سے نقل کرتے ہیں۔اس کامطلب یہ بھی نہیں کہ جس قراء ت کاعلم نہیں اس کاانکار کردیاجائے۔‘‘ (منجد المقرئین:ص۱۲۹تا۱۳۰)
اسی طرح امام موصوف رحمہ اللہ کا ایک اور قول ہے۔ فرماتے ہیں:
’’ تنوع قراء ات کا سبب رسم عثمانی میں ان کااحتمال ہے اور یہ احتمال شارع کی مرضی اور صوابدید پر تھا کیونکہ اس رسم کی اصل بھی تو سنت اور اتباع ہی ہے نہ کہ رائے اور بدعت۔ ‘‘ (مجموع الفتاویٰ: ۱۳؍۴۰۲)
امام ابوحیان رحمہ اللہ(المتوفی ۷۴۵ھ) فرماتے ہیں:
’’ہم نہ تو بصری نحویوں کے قول کے پجاری ہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی اور کے، کیونکہ کتنے ہی ایسے حکم کلام عرب میں موجود ہیں جو کوفیوں کے ہاں ثابت شدہ ہیں لیکن بصریوں نے ان کو نقل نہیں کیااور اس کے برعکس بھی ایسی صورتحال ہے۔‘‘ (البحرالمحیط: ۳؍۱۵۶)
علامہ عبدالوھاب سبکی رحمہ اللہ(المتوفی۷۷۱ھ) فرماتے ہیں:
’’ قراء ات سبعہ جنہیں امام شاطبی رحمہ اللہ نے نقل کیا اوران کے علاوہ قراء ات ثلاثہ جو ابوجعفررحمہ اللہ، یعقوب رحمہ اللہ اور خلف العاشررحمہ اللہ کی قراء ات ہیں،یہ متواتر اور دین میں اٹل حقیقت ہیں اگر ائمہ عشرہ میں سے کوئی بھی کسی حرف کونقل کرنے میں منفرد ہوا ہے تو وہ حرف بھی دین کی اٹل حقیقت اور لازمی حصہ ہے، کیونکہ وہ حرف بھی آپﷺ پر نازل شدہ حروف میں سے ایک ہے۔ قراء ات ثابتہ میں سے کسی ایک کابھی انکار صرف جاہل آدمی ہی کرسکتا ہے۔ان قراء ات کا تو صرف ان کے نقل کرنے والوں کی حد تک نہیں بلکہ ان کا تواتر تو ہر اس شخص کے ہاں مسلم ہے جو أشھد أن لا الہ إلا اﷲ وأشھد أن محمداً رسول اﷲ کااقرار کرتا ہے۔بھلے وہ کتنا ہی سادہ لوح کیوں نہ ہو اور اس نے قرآن کاایک حرف بھی یاد نہ کیاہو۔ ہرمسلمان کی یہ ذمہ داری اور حق ہے کہ وہ اللہ کی تصدیق کرتے ہوئے یہ پختہ عقیدہ رکھے کہ جس تواتر کاہم نے ذکر کیاہے وہ یقینی طور پر ثابت ہے۔ اسے شک اور ظن کی بناء پررد نہیں کیاجاسکتا۔‘‘ (أبحاث فی قراء ات القرآن الکریم:ص۲۶)
موصوف رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’قراء ت متواترہ قرآن ہے اور تمام کاتمام قرآن قراء ات ہے امت اسلامیہ اس بات سے بالکل بے خوف ہے کہ قرآن مجید کو کسی بھی زمانے میں بطریق آحاد نقل کیا گیاہو۔‘‘ (رفع الحاجب لابن السبکی،ص ۱۲۸)
خلاصۂ کلام یہ نکلا کہ ائمہ دین نے قراء ات سبعہ عشرہ کو متواترقرار دیا ہے، جیساکہ امام بغوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر : ۱؍۳۱۳ میں اور امام جزری رحمہ اللہ نے النشر : ۱؍۳۸تا۴۸ میں کئی ائمہ، جن میں مندرجہ ذیل ائمہ شامل ہیں،کاشمار ان لوگوں میں فرمایا ہے، جوکہ قراء ات عشرہ کو قطعی الثبوت سمجھتے ہیں:
محی السنہ ابو محمد حسن بن مسعود بغوی رحمہ اللہ، حافظ مشرق رحمہ اللہ،جن کے علم و فضل پر لوگوں کااجماع ہے،ابوالعلاء حسن بن احمد ہمدانی رحمہ اللہ، حافظ ومجتہد ابوعمرو بن صلاح رحمہ اللہ، حافظ ومجتہد العصر ابوالعباس احمد بن تیمیہ رحمہ اللہ، تاج الدین سبکی رحمہ اللہ اور ان کے بیٹے اور اس قسم کے کئی ائمہ سے قراء ات کو متواترسمجھتے ہیں۔ اسی طرح امام قسطلانی رحمہ اللہ (متوفی۹۲۳ھ)نے لطائف الاشارات:۱؍۷۴تا۷۷ میں اور علامہ د میاطی رحمہ اللہ (متوفی ۱۱۸۶ھ)نے الاتحاف:۷) میں اس بات کی وضاحت کی ہے۔
امام زرکشی رحمہ اللہ(المتوفی۷۹۴ھ) فرماتے ہیں:
’’ اختلاف قراء ات توقیفی ہے نہ کہ کسی جماعت کااپنااختیارکردہ۔ ‘‘ (البرھان فی علوم القرآن: ۱؍۳۲۱)
امام دمامینی رحمہ اللہ(المتوفی ۸۲۷ھ) فرماتے ہیں:
’’ناقلین قراء ات کی تعداد،ِاقوال و اشعارِ عربی کے ناقلین سے کم نہیں ہے، تو جسے ثقہ لوگ نقل کریں اس کی بابت یہ کہنا کہ یہ اس کے مثل نہیں ہے کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟ اگر ناقلین غیر معروف سے کسی چیز (یعنی شعر وغیرہ)کو نقل کریں تو یہ اسے تو قبول کرلیتے ہیں توجسے ثقہ لوگ نقل کریں اس کو تو باالاولیٰ قبول کرناچاہئے۔‘‘ (المواھب الفتحیۃ: ۱؍۵۴، عن اللغۃ والنحو،ص ۹۷)
امام ابن ابن جزری رحمہ اللہ (المتوفی ۸۳۳ھ) نحویوں کارد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ ان لوگوں کا رسول اللہﷺسے بطریق تواتر اورمشہور ثابت شدہ چیز کاانکار ماسوائے تار عنکبوت کے اورکچھ نہیں ہے۔ ان لوگوں پر اعتماد نہیں کیاجائے گا انہوں نے اپنے قیاسات پرقراء ات کو محمول کیا اوروہ سمجھ بیٹھے کہ انہوں نے عرب کی تمام فصیح ترین اور فصیح لغات کو جمع کرلیا ہے حتیٰ کہ جب ان پر قرآن مجید میں سے کوئی ایسی چیز پیش کی جاتی ہے جوان کے ظاہری قیاس کے مطابق ہوتی ہے تو اسے فوراً قبول کرلیتے ہیں۔اور اگر ان سے ایسی قراء ت کے بارہ میں پوچھا جائے جو ان کے خیال میں قیاس کے مخالف ہو تو اس کاانکار کردیتے ہیں اور قطعی طور پر اسے شاذ قرار دیتے ہیں۔ ‘‘ (منجد المقرئین،ص ۲۴۱)
اسی طرح امام موصوف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہروہ قراء ت جو کسی عربی (نحوی) وجہ کے موافق ہو، رسم مصحف کے مطابق ہو بھلے یہ مطابقت تقدیری ہواور اس کی سند صحیح ہو تو وہ قراء ت صحیح ہوگی۔اس کو رد کرنا یااس کا انکار صحیح اور جائز نہیں ہوگا۔ ‘‘ (النشر: ۱؍۹)
امام موصوف رحمہ اللہ مزیدفرماتے ہیں:
’’آج جوقراء ات ہم تک پہنچی ہیں وہ صحیح اورمتواتر ہیں ان کے بارہ میں یہ بات قطعی طور پر ثابت شدہ ہے کہ وہ ائمہ عشرہ اور ان کے رواۃ کی قراء ات ہیں۔یہ بات علماء کے اقوال کا ماحاصل ہے اور یہی مذہب آج کل شام، عراق، مصر اور حجاز کے لوگوں کا ہے۔‘‘ (منجد المقرئین:ص ۲۳ تا۲۴)
امام موصوف رحمہ اللہ مزید وضاحت کرتے ہیں:
’’ان قراء ات میں سے جو بھی نبیﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں، ان کو قبول کرنا واجب ہے۔کسی بھی امام نے ان کورد کرنے کی جرأ ت نہیں کی ہے ان پر ایمان لانالازم ہے وہ تمام کی تمام منزل من اللہ ہیں۔اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے (یوں کہاجائے گا کہ) ہرقراء ت دوسری قراء ت کے لئے ایسے ہی ہے جیسے ایک آیت دوسری آیت کے ساتھ ان تمام پرایمان لانا لازم ہے۔یہ قراء ات علمی اورعقلی طور پر جن معانی کااحاطہ کئے ہوئے ہیں ان کی اتباع کرنا ضروری ہے۔یہ خیال کرتے ہوئے کہ ایک قراء ت دوسری کے متعارض ہے کسی قراء ت کو ردّ کرنا جائز نہیں ۔‘‘ (النشر : ۱؍۵۱، )
امام ابن جزری رحمہ اللہ نے اپنے آخری قول میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مجموع الفتاوی کے صفحہ۳۹۱،۳۹۲ کے ساتھ باربار مقارنہ کرکے اپنی بات کو واضح کیا ہے۔