ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
قراء ت شاذہ…تعارف اور شرعی حیثیت
حافظ عمران ایوب لاہوری
لغوی: لفظ قرا ء ت لغوی اعتبار سے قرأ یقرأسے مصدر سماعی ہے۔ ماہرین لغت کے نزدیک اس کامعنی جمع کرنا، منانا اور تلاوت کرناوغیرہ موجود ہے ۔ (لسان العرب:۱؍۱۲۹،المفردات فی غریب القرآن:ص ۴۰۲)اِصطلاحی: اعتبار سے اہل علم نے قراء ت کی مختلف تعریفات ذکر کی ہیں:
الشیخ عبدالفتاح قاضی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ علم قراء ت ایسا علم ہے کہ جس میں قرآنی کلمات کوبولنے کی کیفیت اور انہیں اَدا کرنے کا مختلف فیہ اور متفقہ طریقہ ہر ناقل کی قر اء ت کی نسبت کے ساتھ معلوم ہوتاہے۔‘‘ (البدورالزاہرۃ: ۷)
قاری فتح محمد پانی پتی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’قراء ت اس علم کوکہتے ہیں جس سے کلمات قرآنیہ میں قرآن مجید کے ناقلین کا وہ اتفاق اور اختلاف معلوم ہو،جو آپ ﷺ سے سن لینے کی بناء پر ہے ، اپنی رائے کی بناء پر نہیں۔‘‘ (عنایات رحمانی:۱؍۱۳)
علم قراء ت کا موضوع قرآ ن کریم کے کلمات ہیں، کیونکہ اس علم میں ان کلمات کے تلفظ کے حالات پرہی بحث کی جاتی ہے۔ (عنایات رحمانی:۱؍۱۳)
کسی بھی قراء ت کو قرآنی حیثیت سے قبول کرنے کے لئے اہل علم نے تین شرائط مقررکی ہیں:
(١) نحوی قواعد کے موافق ہو۔
(٢) رسم عثمانی کے موافق ہو۔
(٣) اس کی سند صحیح ومتصل ہو۔
یہ تیسری شرط ہی اَصل ہے، باقی دو اس کی تائید کے لیے ہیں اگر یہ تینوں شرائط موجود ہیں توقراء ت کو قرآنی حیثیت سے قبول کرنا فرض ہے۔ (الیسرشرح شاطبیہ: ۱۴)
اِمام سیوطی رحمہ اللہ وغیر ہ اہل علم نے قرا ء ت کی باعتبار سند چھ اَقسام بیان کی ہیں۔ملاحظہ فر مائیے :
متواتر:جسے ایک بڑی جماعت نقل کرے اور اس جماعت کا جھوٹ پر جمع ہونا ناممکن ہو۔
مشہور:وہ قراء ت جس کی سند صحیح ثابت ہواور وہ درجہ تواتر تک نہ پہنچنے کے باوجود عربی قواعد اور رسم عثمانی کے موافق ہو،نیز قراء میں مشہو ربھی ہو۔
آحاد:ایسی قراء ت جس کی سند توصحیح ہو مگر وہ عربی قواعد یا رسم عثمانی کے خلاف ہویا درج بالادونوں قرا ء توں کے برابر مشہور نہ ہو۔اور نہ اس کی قرا ء ت کی جاتی ہو۔
شاذ:جس کی سند صحیح نہ ہو۔
موضوع:جو بغیر کسی اصل کے اپنے قائل کی طر ف منسو ب ہو۔
مدرج :ایسی قرا ء ت جو دیگر قراء توں میں بطورِ تفسیر زیادہ کی گئی ہو۔ (الا تقان للسیوطی:۱/۷۷)
چونکہ یہاں ہمارے پیش نظر صرف قراء ت شاذہ پر بحث کرنا ہے اس لئے آئندہ سطورمیں اسی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے گی ۔