دور حاضر میں جہاں ایک طرف ملحدین کے سیلاب نے زور پکڑا ہے وہیں دوسری طرف شریعت بیزاری بھی عروج پر ہے۔ ایک طبقہ جہاں رسولؐ الله کی سنتوں کا انکار کیے جا رہا ہے, وہاں ایک دوسرا طبقہ قرآن پاک کی بعض آیات سے یہ استدلال پیش کرتا ہے کہ خاتمہ بالخیر کے لیے ایمان بالرسالتؐ کوئی بنیادی حیثیت رکھتا ہی نہیں ہے۔
اگرچہ یہ طبقہ ساری دنیا میں ہی کسی نہ کسی درجہ میں موجود ہے مگر برصغیر کے مخصوص سیاسی، سماجی اور مذہبی پس منظر کی وجہ سے زیادہ زور پکڑ گیا ہے۔ دراصل ہندو مذہب میں آستھا یا عقائد کی بجائے سنسکرتی یا ریت رواج کی اہمیت زیادہ تھی۔ لہذا دین کو اپنی خواہشات کے مطابق موڑنا یہاں چنداں مشکل کام نہیں تھا۔ مغل شہنشاہ اکبر کے دین الہی سے لیکر بیسویں صدی کے برابمو سماج تک، ہر تحریک میں کہیں نہ کہیں سیاسی مقاصد کے ساتھ ساتھ اسلام بیزاری کا نظریہ بھی پنہاں تھا۔ مقامی پیری فقیری نے بھی معاملہ کو مزید گہرا کیا ہے، مندر مسجد ھکڑو نورکی آوازیں مسلمان صوفیاء کی طرف سے لگائی گئی ہیں- گویا وحدت ادیان کے فلسفے کی آبیاری کے لیے سرزمین ہندوستان بہترین کردار ادا کرتی رہی ہے- جب کہ دوسری طرف اسلام کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ایک آفاقی مذہب ہونے کے ناطے کسی علاقے کے مقامی رسم و رواج اسکے مزاج میں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور بنیادی اہمیت عقائد اور پھر عبادات کی ہوتی ہے۔ گویا دین کی اساس سنسکرتی پر نہیں ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد میں عقیدہ رسالت بھی ایک اہمیت رکھتا ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:
“رسول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اِس رسول کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اوراس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ: “ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے﴿۲۸۵﴾”
سوره بقرہ کی اس آیت سے یہ واضح ہے کہ ایمان بالرسالت عقائد کا لازمی حصہ ہے۔ اسی قسم کا مضمون سوره نساء کی آیت ۱۳٦ میں بھی ہے۔ نبی پاکؐ اور قرآن پر ایمان رکھنے کا لازمی نتیجہ گویا اپنے آپ کو شریعت میں باندھ لینا ہے، اس سے فرار کا ایک آسان حل یہ نکالا گیا ہے کہ قرآن سے یہ استدلال پیش کردیا جاہے کہ رسالت نبوی اور قران پر ایمان رکھنا بنیادی ضروریات میں سے نہیں ہے، محض ایک معبود اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوہے معروف کے مطابق نیک کام کر لیے جائیں تو مقصود اصلی حاصل ہوجائے گا بشرط یہ کہ آپ مسلمان، یہودی، صابی یا نصرانی ہوں۔ اور اس سلسلے میں سورہ بقرہ (٦٢) کی ایک آیت کے ساتھ ساتھ سورہ مائدہ کی بعض آیات پیش کی جاتی ہیں۔ سورہ مائدہ مدنی سورت ہے جو ذوالقعدہ ٤ ہجری میں نازل ہوئی، دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ سوره الاعراف جو کہ مکی سورت ہے، اس کی آیت ۱۵۸ میں اعلان کیا گیا ہے کہ رسول الله کی بعثت تمام انسانیت، بلا تفریق اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سب کے لئے ہے۔ مزید یہ کہ آیت ۱۵۷ میں اہل کتاب سے خصوصی طور پر کہا گیا ہے کہ اس رسولؐ پر ایمان لے کر آئیں جس کا ذکر وہ اپنی کتابوں میں پاتے ہیں اور اپنے آپ کو اس پیغمبرؐ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق ڈھالیں۔
سورہ اعراف کی ان دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ اہل کتاب یعنی یہودیوں، صابیوں اور نصرانیوں پر بھی نبی پاک ﷺ پر ایمان لانا لازمی تھا۔ ٣ ہجری میں سورہ آل عمران نازل ہوئی (یعنی سورہ مائدہ سے قبل)، اس کی آیات ١٩ تا ٢١ میں پھر واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ الله کے نزدیک دین صرف اور صرف اسلام ہے۔ اور جو لوگ الله کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب کی وعید بھی دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ سوره آل عمران کی ان آیات کا مخاطب اصلی اہل کتاب اور ان میں بھی بالخصوص یہود ہیں۔ سوره آل عمران اور سوره الاعراف کے اتنے واضح بیان کے باوجود بھی سوره بقرہ کی آیت ٦٢ اور سوره مائدہ کی آیت ٦٩ سے بعض لوگوں نے وہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی ہے جس سے ایمان بالرسالت اور ایمان بالقران بالکل ہی معطل ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایمان بالرسالت کا انکار دراصل سنت کے انکار پر منتج ہوتا ہے، نتیجتاً پوری شریعت ہی کالعدم قرار پاتی ہے۔
سوره مائدہ کی آیت ٦٩ میں ارشاد ہوتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَىٰ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (٦٩)
یہی آیت الفاظ کے چند فرق کے ساتھ سوره بقرہ (آیت ٦٢) میں بھی آئی ہے۔
اس آیت کی تشریح سے پیشتر یہ بتانا ضروری ہے کہ ہر زبان میں حروف جر اور حروف عطف کے معنی لازماً متعین نہیں ہوتے۔ بلکہ جملے کی ساخت اور سیاق و سباق ان کے معنی کا تعین کرتے ہیں کہ کسی جر یا عطف کا مراد حقیقی کسی مخصوص کلام میں کیا ہے۔ سوره مائدہ کی زیر بحث آیت کے ابتدائی حصے میں تین دفعہ حرف “و” یا “واؤ” آیا ہے۔عربی زبان مین حرف “واو” کے نو (۹) معنی بیان کیے جاتے ہیں، جن میں سے بیشتر استعمالات قرآن میں بھی آئے ہیں۔
اس ابتدائی حصے کا ترجمہ بجز ‘واو’ کے یوں بنے گا :
بیشک جو لوگ ایمان لائے “واؤ” وہ جو یہودی ہوئے “واؤ” صابی “واؤ” نصاریٰ۔
اس آیت میں “واؤ” کی عطف کو مشارکی مان کر یعنی کہ اس کو “اردو زبان کےاور” کے معنوں میں لے کر آیت کا ترجمہ یوں کیا جاتا ہے:
“بیشک جو لوگ ایمان لائے ‘اور’ وہ جو یہودی ہوئے’ اور’ صابی’ اور’ نصاریٰ، جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اُس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے”
اس ترجمہ کا ناگزیر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمان، یہودی، صابی، اور نصاریٰ چاروں گروہوں کو الله کی نظر میں ایک درجہ پر پہنچادیا جاتا ہے۔ اور ان گروہوں میں سے جو بھی الله، اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے نیک اعمال کرے گا وہ الله کی نظر میں کامیاب ٹھہرے گا۔ اگرچہ اس آیت میں صابی کا لفظ سامریوں (یعنی بنی اسرائیل کا وہ گروہ جو صرف توریت کو مانتا ہے) کے لئے استعمال ہوا ہے، مگر بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق ساری دنیا ہی کے مختلف گروہوں کو اس میں شامل کر دیا ہے اور اس طرح وحدت ادیان کے فلسفے کو قرآن سے ثبوت فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس چیز کو فراموش کرتے ہوئے کہ قرآن واضح طور پر ایمان بالرسالتؐ اور ایمان بالقرآن کی تعلیم دے رہا ہے جن کی چند مثا لیں اسی مضمون کی ابتداء میں سورہ الأعراف اور سورہ آل عمران کے حوالے سے دے دی گئی ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ سوره بقرہ کی آیت ٦٢ اور سوره مائدہ کی آیت ٦٩ کے سیاق و سباق اس براہمو سماجی تفسیر کی اجازت دے بھی رہے ہیں کہ نہیں، یہ دیکھ لیا جائے کہ آیا حرف عطف “واؤ” قرآن میں کیا ہمیشہ مشارکی طور پر بمعنی “اور” کے ہی آیا ہے یا تخییری طور پربمعنی “خواہ” کے بھی آیا ہے۔
ذیل میں اب قرآن سے چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جہاں “واو” کا استعمال ‘اردو کے اور’ کی بجائےعطف تخییری یعنی’ خواہ ‘کے طور پر آیا ہے:
فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ۔۔۔۔۔ ﴿سورہ نساء، ۳﴾
جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو “خواہ” تین تین “خواہ” چار چار سے نکاح کرلو، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو ۔۔۔۔۔۔﴿۳﴾
مذکورہ بالا آیت میں مثنیٰ، ثلث اور ربع کے درمیان میں آنے والے ‘واو’ کو اگر مشارکی یعنی ‘اور’ کے معنوں میں لیا جائے تو ایک مرد کے لیے زیادہ سے زیادہ کی حد ٤ کی بجائے دو جمع تین جمع چار حاصل نو ٹھہرے گی جو کہ درست نہیں ہے، یہاں بتایا جارہا ہے کہ اگر ایک سے زائد نکاح کی خواہش ہے تو بیویوں کی تعداد چار تک بڑھائی جاسکتی ہے۔گویا مثنیٰ، ثلث اور ربع کے درمیان میں آنے والے ‘واو’ مشارکی نہیں تخییری ہیں اور اس ‘واو’ کا اردو ترجمہ ‘خواہ ‘ہوگا۔
سورہ نساء ہی کی ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿ سورہ نساء،١٣٦﴾
جس نے اللہ سے “خواہ” اس کے ملائکہ سے “خواہ” اس کی کتابوں سے “خواہ” اس کے رسولوں سے “خواہ” روز آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا ﴿ ١٣٦﴾
اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ ایمانیات کے لوازم توحید،ملائکہ، کتب سماوی، رسل یا عقیدہ آخرت میں سے کسی ایک کا بھی انکار کیا گیا، تو انسان گمراہ ہوگیا، یہاں بھی ‘واو’ تخییری ہی ہے، مشارکی نہیں ہے
اسی طرح سورہ بقرہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ ﴿۹۸﴾
جو اللہ کے “خواہ” اس کے فرشتوں کے “خواہ” اس کے رسولوں کے “خواہ” جبریل کے “خواہ” میکائیل کے دشمن ہیں، اللہ ان کافروں کا دشمن ہے ﴿۹۸﴾
اس آیت سے بالکل پچھلی آیت (۹۷) میں مدینہ کے بعض یہودیوں کا ذکر ہورہا ہے، جو مدینہ میں یہ شام غریباں پڑھ رہے تھے کہ ہم تو اللہ کے فضیلت شدہ بندے ہیں، لہذا یہ جو وحی قرآن کی صورت میں بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل کے فرد پر آگئی ہے، یہ ضرور جبریل کی شرارت ہے۔اسکے جواب میں آیت ۹۸ آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کوئی اللہ کا دشمن ہو خواہ اسکے فرشتوں کا یا رسولوں کا یا جبرائیل یا میکائیل کا، اللہ اسکا ضرور پکا دشمن ہے- یہاں بھی ‘واو’ مشارکی نہیں بلکہ تخییری ہے، اور اسکے معنی ‘اور’ کی بجائے ‘خواہ ‘ کے ہونگے۔
ان مثالوں کے علاوہ بھی قرآن سے متعدد مثالیں ملتی ہیں، جہاں ‘واو’ بمعنی ‘خوا ہ’ کے آیا ہے نہ کہ بمعنی ‘اور’ کے۔ ‘واو’ کے اس قرانی استعمال کی وضاحت کے بعد بہتر ہوگا کہ سورہ مائدہ کی آیت ٦٩ کے ترجمہ کے لیے اس کی تقریر کا سیاق و سباق دیکھ لیا جائے کہ یہاں آیت میں وارد ‘واو’ کے معنی مشارکی لیے بھی جاسکتے ہیں یا نہیں کہ اس کی بنیاد پر قران سے براہمو سماجیت ثابت بھی کی جاسکے۔
سورہ مائدہ اور وحدت ادیان:
سوره مائدہ میں اہل کتاب سے براہ راست خطاب آیت ١٢ سے شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس خطاب کی پہلی آیت میں ہی اہل کتاب کو رسولوں پر ایمان لانے اور ان کی مدد کرنے کے حکم کا ذکر کیا گیا ہے۔ رسولوں پر ایمان اور ان کی مدد ان شرائط کے ساتھ بیان کی گئی ہیں جن کے ذریعہ وہ اہل کتاب جنت کے حقدار قرار پاتے۔ بصورت دیگر گمراہ گردانے جاتے۔
اور خدا نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا اور ان میں ہم نے بارہ سردار مقرر کئے پھر خدا نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہو گے اور میرے پیغمبروں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے ۔۔۔﴿۱۲﴾
آیت نمبر ١٥ میں پھر یہی بات دہرائی گئی ہے اور اہل کتاب کے تمام گروہوں سے کہا گیا ہے کہ ہمارا رسول تمہارے پاس آ گیا ہے اور ہدایت کی کتاب قرآن بھی آ گئی ہے۔ آیت نمبر ١٩ میں پھر ایمان بالرسالت کی بات ہوئی ہے کہ زمانہ فترت کے بعد اب پھر ہمارا رسول تمہارے پاس آ گیا ہے جو دین کی تعلیم واضح طور پر تم کو دے رہا ہے لہٰذا اب تمھارے پاس کوئی عذر نہیں رہ جاتا کہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا نہیں آیا۔
آیت نمبر ٤٤ میں بتایا گیا ہے کہ جتنے بھی رسول تھے وہ سب مسلمان ہی تھے اور آیت نمبر ٤٦ میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی بعثت بھی اسی ہی دین پر ہوئی تھی جس پر انبیائے شابق یا حضرت موسیٰ تھے۔ توریت جتنی بھی ان کے دور میں موجود تھی انھوں نے اس کی تصدیق کی اور انجیل بھی اسی سلسلے کا تسلسل تھی۔ حضرت عیسیٰ کوئی الگ دین لے کر نہیں ائے تھے۔ آیت نمبر ٥١ میں مسلمانوں کو واضح حکم دیا گیا ہے کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائئیں، بصورت دیگر ان کا شمار ظالموں میں ہو گا۔ یعنی نبی پاکؐ جو کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کا تسلسل لیکر آئے تھے، ان کا انکار کر کے یہودی اور عیسائی ظالموں کی صف میں کھڑے ہو چکے ہیں۔
آیت نمبر ٥٩ میں پھر یہی بات دہرائی گئی ہے کہ اہل کتاب کا مسلمانوں سے حسد کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس ہدایت کو قبول کر لیا ہے جو پہلے سے ہی نازل ہوتا رہا ہے اور جس ہدایت پر پچھلے رسول یعنی حضرت موسیٰ اور عیسیٰ بھی تھے۔ آیت ٦٤ میں یہود کے اس نظریہ کا ابطال کیا گیا ہے کہ الله کی رحمت ان کے خاندان کے ساتھ خاص ہے جب کہ درحقیقت الله کے ہاتھ توبہت کشادہ ہیں۔ اب جو یہ ہدایت غیر اسرائیلی حضرت محمّدؐ پر نازل ہو گئی ہےتو اس چیز نے ان کے بغض اور عداوت کو زیادہ نمایاں کر دیا ہے۔
پھر آیت نمبر ٦٥ میں کہا گیا کہ اگر اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے لئے بہتر ہوتا۔ ظاہر ہے یہاں پر ایمان باللہ کی بات نہیں ہو رہی بلکہ رسول خدا حضرت محمّدؐ کی رسالت اور قرآن پر ایمان کی بات ہو رہی ہے۔ پھر ٦٦ میں کہا گیا ہے کہ اگر انھوں نے اپنی کتابوں کو قائم کیا ہوتا تو بہتر ہوتا۔ واضح رہے کہ ان کی کتابوں میں ایک انے والے رسول کے اشارے موجود ہیں۔
پھر آیت ٦٨ میں دوبارہ ان کو ان کی کتابوں کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اتنی لمبی تقریر کے بعد وہ آیت نازل ہوئی ہے جس کو وحدت ادیان کے فلسفے سے جوڑا گیا ہے۔ اس پوری تقریر میں ایمان بالرسالت اور ایمان بالقرآن پر زور ہے۔ جب کہ وحدت ادیان تو انہی دو نظریات کی مکمل طور پر نفی کرتا ہے
آیت نمبر ٦۹ کے فوری بعد آیت ۷۰ میں پھر اسی بات کا اعادہ ہے کہ رسولوں کی مدد کا ابنی اسرائیل سے عہد لیا گیا تھا۔ مگر جب بھی کوئی رسول ان کی خواہش کے برخلاف ہو گئے اور نبی پاکؐ کی تو بعثت ہی ان کی بنیادی خواہش یعنی غیر اسرائیلی خون میں تھی تو اس لئے ان کو جھٹلایا گیا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ اک ہی تقریر میں ایمان بالرسالت اور ایمان بالقرآن پر اتنا زور دیا جا رہا ہو اور اس کے درمیان ایک آیت اس عقیدے کی ١٠٠ فیصد نفی کر دے۔ اور یہ بات تو قرآن کے بنیادی دعوے کے بھی خلاف ہے کہ اگر اس کتاب میں اختلاف ہوتا تو یہ منجانب اللہ نہ ہوتی ایک ایسی تقریر جس کا محور ہی ایمان بالرسالت ہو اس کی ایک آیت کی تفسیر اسی نظریہ کے بالکل خلاف جا رہی ہو تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں سمجھنے میں غلطی ہو رہی ہے۔ جیسے یہاں مختلف گروہوں کے درمیان استعمال شدہ لفظ ‘واو’ کو مشارکی سمجھ لیا گیا ہے جبکہ یہاں پر یہ تخییری ہے۔
اوراس میں یہ کہا گیا ہے کہ جو بھی بنی اسرائیل میں سے اس رسول پر ایمان لایا خواہ وہ یہودی ہو یا صابی ہو یا نصرانی ہو، اس کے لئے نیک وعدے ہیں۔ اور واضح رہے کہ ابتداء میں جس ایمان کی بات کی گئی ہے وہ بنیادی طور پر ایمان بالرسالت اور ایمان بالقرآن ہی ہے۔ کیونکہ اس تقریر کا بنیادی محور یہی دونوں چیزیں ہیں۔ اور کہا گیا ہے کہ اہل کتاب میں سے ان تینوں گروہوں میں سے جو بھی رسالت اور قرآن پر ایمان لایا، اور وہ الله اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ الله کے پاس سے بہتر اجر پائے گا۔
سورہ بقرہ اور وحدت ادیان:
سوره بقرہ میں یہ آیت (٦٢) جس تقریر کا حصہ ہے وہ آیت ٤٠ سے شروع ہوتی ہے۔ تمہیدی آیت کے فوری بعد ہی بنی اسرائیل سے قرآن مجید پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ یہ اُس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ ۔۔۔ ﴿٤١﴾
اس کے بعد آیت نمبر ٤٣ میں فرمایا کہ مسلمانوں کے ساتھ تم اسرائیلی بھی الله کے سامنے رکوع کرو، واضح رہے کہ یہودی اپنی معمول کی نمازوں میں رکوع کا اہتمام نہیں کرتے گویا بنی اسرائیل سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ شریعت محمدی پر اپنی نمازوں کو ڈھالو اور مسلمانوں میں ہی شامل ہو جاؤ۔ گویا ایک طرح سے پھر ایمان بالرسالت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
اس کے بعد الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنے پچھلے احسانات اور انعامات کے حوالے دیے ہیں، جن میں فرعون سے نجات، من و سلوی کی عنایت، توریت کا ملنا وغیرہ شامل ہیں۔ اور پھر اسکے بعد آیت ٦١ میں یہودیوں کی طرف سے جواباً جو طریقہ کار اپنایا گیا اس کا حوالہ دیا گیا ہے کہ انھوں نے ان تمام عنایات کے بعد بھی الله کی آیات کا انکار کیا ہے اور اسکےپیغمبروں کو قتل کیا ہے۔
اس تمام تقریر کے بعد وہ آیت (٦٢) آئی ہے جس کو وحدت ادیان کی اساس مان لیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل سے وابستہ گروہ اپنے عقیدے پر رہتے ہوئے بھی اگر نیک اعمال کریں تو وہ الله سے جنت کی امید رکھ سکتے ہیں۔ یہاں پر بھی وہی بات کی گئی جو کہ سوره مائدہ میں کی گئی یعنی واؤ کو تخییری کی بجائے مشارکی مان لیا گیا ہے اور پھر آیت کے ابتدائی الفاظ “ان الذین امنو” یعنی ‘جو لوگ ایمان لائے’ کو مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا ہے۔ اور پھر مسلمانوں کو یہودیوں، نصرانیوں اور صابیوں کے برابر کھڑا کر کے بتایا گیا ہے ان چاروں گروہوں میں سے جو بھی الله اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوے نیک عمل کرے گا اس کا انجام بخیر ہو گا۔ گویا ایمان بالرسالت اور ایمان بالقرآن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
جس تقریر کا آغاز ہی قرآن پر ایمان لانے کے مطالبے سے ہو وہ اپنے اختتام پر اس بنیادی نکتہ سے ہی ہٹ چکی ہو، یہ سقم تو کسی انسانی تقریر میں بھی ممکن نہیں تو ایک آفاقی تقریر میں کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔ دراصل یہاں پر کہا گیا ہے کہ بنی اسرائیل گروہوں میں سے جو بھی ایمان لائے اس چیز پر جس کا تقریر کے آغاز میں مطالبہ کیا گیا ہے یعنی کہ قرآن شریف پر، اور ایمانیات کے بقیہ اجزا مثلاً توحید اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے اعمال صالحہ کرے جن میں شریعت محمدی کے تحت نماز پڑھنا بھی شامل ہے (آیت ٤٣) تو وہ الله کی طرف سے انعام کا حقدار ہو گا۔
حرف آخر:
دراصل ان آیتوں کو سمجھنے میں اتنی بڑی دشواری اس امت کو اس لیے آئی ہے کہ اس نے اس قرآن کو ایک غیر مربوط کلام مان لیا ہے، گویا ہر آیت اپنے اندر ایک جدا مفہوم رکھتی ہے، جس کا اسکے ماقبل اور مابعد سے کوئی علاقہ نہیں، پہلی صدی کے اختتام سے ہی عراق میں ایک لابی اس کام کے لیے بیٹھ گئی تھی کہ اس امت سے قران کس طرح چھینا جائے، تابعیوں کا روپ دھاری یہ قوم ہر آیت کے ایک ایک لفظ کے وہ وہ معنی بتاتی تھی جو کہ آیت کے ربط سے ثابت ہی نہیں ہوتا تھا۔ لہذا ان کے بتائے ہوئے معنوں کو امت نے بحیثیت مجموعی قبول کیا ہو یا نہیں، ان کے پیدا کردہ اس نظریہ کو ضرور قبول کرلیا کہ قرآن کی متصل آیات میں کوئی ربط نہیں ہے۔ اسی چیز کا شکار سورہ بقرہ کی آیت ٦۲ اور سورہ مائدہ کی آیت ٦۹ بھی بنی ہیں، کہ امت یہ فیصلہ ہی نہ کرپائی کہ یہاں ‘واو’ تخییری ہے نہ کہ مشارکی۔ بعض مفسرین نے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ یہ آیات منسوخ ہیں۔ گویا قرآن میں نسخ کا عقیدہ مان کر پھر عراقیوں کے اصل مقصد کو تقویت پہنچا گئے کہ محض قرآن سے ہدایت کے اصول اخذ نہیں کیے جاسکتے کیونکہ اسکا ایک حصہ باوجود تلاوت کے، منسوخ ہوچکا ہے۔ ایک دوسرے طبقہ نے جس نے ان آیات کو منسوخ نہ مانا وہ وحدت ادیان کے فلسفے کی نظر ہو گیا اور بلواسطہ قرآن میں تضاد کے نظریہ کا قائل ہو گیا. ایک ایسا نظریہ جس کو بار بار قرآن کے چیلنج کے باوجود مشرکین مکہ اور مدینہ کے یہودی بھی نہ نکال پائے.
قرآن کی آیات کو سمجھنے کے لیے بنیادی ضرورت عجمی روایات نہیں بلکہ نظم قرآن کی ہے۔ آیات کا نظم خود گواہی دیدیگا کہ اس آیت مین استعمال شدہ حروف کے معنی کیا لیے جائیں۔ آخر میں پچھلی آیات کے ربط کے مطابق ،جن میں بنی اسرائیل سے رسول ؐ اور قرآن پر ایمان لانے کی بات ہورہی ہے، سورہ مائدہ کی اس آیت کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
بیشک (بنی اسرائیل سے وابستہ) کوئی بھی گروہ (اس رسول اور کتاب پر) ایمان لائے خواہ یہودی ہوں خواہ صابی ہوں خواہ عیسائی ہوں، جو بھی اللہ اور روز آخر پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے بے شک اس کے لیے (بروز حشر) نہ کسی خوف کا مقام ہوگانہ رنج کا ﴿٦۹﴾