• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآنِ کریم کے متنوع لہجات اور ان کی حجیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
قرآنِ کریم کے متنوع لہجات اور ان کی حجیت

حافظ عبد الرحمن مدنی
نوٹ

ماہنامہ رشد علم قراءت نمبر حصہ اول کی فہرست پر جانے کےلیے یہاں کلک کریں​
زیر نظر مضمون معروف عالم دین اور ادارہ کلِّیۃ القرآن الکریم، جامعہ لاہور الاسلامیہ کے بانی وسرپرست اعلیٰ حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کے اُن ارشادات پرمشتمل ہے، جوانہوں نے کلِّیۃ القرآن الکریم کے زیراہتمام منعقد ہونے والی عالمی محفل قراء ت ۲۰۰۷ء میں تفصیلی خطاب کی صورت میں پیش فرمائے۔اس خطاب کی خصوصیت یہ تھی کہ حافظ صاحب حفظہ اللہ نے نامور صحافیوں اورجلیل القدر علماے حدیث و قراء ات کی موجودگی میں علم قراء ات کو عوامی انداز میں مثالوں کے ساتھ پیش فرمایاتاکہ ثبوت قراء ات کو عقلی و عرفی ذہن سے سمجھایا جاسکے۔ (ادارہ)
’’وَقُرْاٰنًافَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہُ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیْلًا‘‘ (بنی إسرائیل:۱۰۶)
اگر چہ میں آج آپ کے سامنے اِسلامی دنیا کے اندر قرآن مجید پڑھنے کے مختلف اُسلوب اورلب ولہجے کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں،لیکن چند ایک باتیں جو صحیح بخاری کے متعلق ہیں،میں ان کا ذکر بھی مناسب سمجھتا ہوں۔اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلامی دنیا اورعالم عرب کے تقریباً ہر خطے میں پہنچنے کا موقع دیا ہیـ۔وہاں جاکر میں نے بغور اہل علم کے رجحانات اوران کے اَسالیب کا جائزہ لیا۔
چند سال پہلے مجھے مراکش کے بادشاہ حسن ثانی نے اپنے ہاں لیکچر کے لئے دعوت دی،اسکے علاوہ بھی ان کی خصوصی مجلسوںمیں شرکت کا موقع ملا، تو دنیاکے اندر میں نے پہلی دفعہ یہ اہتمام دیکھا کہ جس طرح ہمارے ہاں ستائیسویں رمضان کوقرآن مجید ختم کیاجاتاہے اورمٹھائی تقسیم ہوتی ہے اسی طرح شاہی محل اور اس کی متابعت میں پورے مراکش میں تقریب ختم ِبخاری کا بھی اہتمام ہوتاہے۔ ۲۷ ؍رمضان المبارک کو قرآن مجید کے ختم کے بعد صحیح بخاری شریف کے ختم کی تقریب ہوتی ہے اور اس تقریب کے بعد کافی دیرتمام حاضرین صحیح بخاری شریف کی آخری حدیث میں موجود کلموں سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم کاورد کرتے ہیں۔ میں نے جب یہ فضا دیکھی تو بڑا حیران ہوا کہ صحیح بخاری شریف کو بھی بڑے اہتمام کے ساتھ۲۷؍رمضان کو ختم کیا جاتاہے۔ علاوہ ازیں میں نے مجمع ملک فہد کی طرح حدیث کا بڑا ادارہ مراکش میں پایا ،اس کانام دار الحدیث الحسنیۃ ہے۔ اس میں حدیث اورسنت کے موضوعات پر خصوصی لیکچرز کا اہتمام ہوتا ہے اورانہیں موضوعات پر تحقیقات کروائی جاتی ہے۔
امام عاصم رحمہ اللہ، جوکہ کوفہ سے تعلق رکھتے تھے، کے دو شاگر د امام حفص رحمہ اللہ اورامام شعبہ رحمہ اللہ ہیں۔ہماری مشرقی اسلامی دنیا میں امام عاصم رحمہ اللہ کی قراء ت ،جو ان کے شاگرد امام حفص رحمہ اللہ کی روایت سے چلتی ہے، پڑھی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں جو قرآن مجید مطبوع ہیں وہ بھی اسی روایت میں ہیں۔ امام عاصم رحمہ اللہ کے بالمقابل ایک دوسرے امام سیدنا نافع رحمہ اللہ ہیں،ان کے دو شاگرد امام ورش رحمہ اللہ اور امام قالون رحمہ اللہ ہیں۔ اس وقت اسلامی دنیا میں، خصوصاً مراکش اور افریقہ کے وسطی علاقوں میں امام نافع رحمہ اللہ کے شاگر د امام ورش رحمہ اللہ کی روایت اس طرح معروف ہے جس طرح ہمارے ہاں امام حفص رحمہ اللہ کی روایت معروف ہے، بلکہ عام لوگ اس روایت کے علاوہ کسی روایت کوجانتے ہی نہیں، جبکہ امام نافع رحمہ اللہ ہی کے شاگر د امام قالون رحمہ اللہ کی روایت لیبیااور تیونس میں پڑھی جاتی ہے۔
بعض لوگ جن کو قرآن مجید کی قراء توں سے اختلاف ہے، وہ عام طور پر یہ اسلوب اختیار کرتے ہیں کہ قرآن مجید قولی تواترسے ثابت ہے اور قولی تواترسے ان کی مراد ہوتی ہے کہ یہ سینہ بہ سینہ اور نسلابعد نسل چلا آرہا ہے۔ جس طرح قرآن مجید ہمارے علاقوں میں امام عاصم رحمہ اللہ کی قراء ت اور امام حفص رحمہ اللہ کی روایت سے سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچا، اسی طر ح مراکش ،لیبیااور تیونس وغیرہ میں قرآن مجید سینہ بہ سینہ اور نسلا بعد نسل دیگر قراء ات سے پہنچاہے۔ یہاں قالون عن نافع اور ورش عن نافع کی روایات رائج ہیں۔ اسی طرح سوڈان وصومالیہ وغیرہ کی عام مساجد میں امام ابو عمرو بصری رحمہ اللہ اوران کے شاگر امام دوری رحمہ اللہ کی قراء ت پڑھی جاتی ہے۔ یہاں قرآن کے مصحف بھی دوری عن ابو عمر و بصری کے نام سے طبع ہوتے ہیں۔ آئمہ حضرات نمازوں میں قراء ت بھی دوری عن ابو عمر و بصری کی کرتے ہیں۔ مجھے اللہ تعالی نے توفیق بخشی کہ میں نے مذکورہ سارے علاقوں کا سفر کیا اور تلاوت کے یہ تمام اسالیب خود مشاہدہ کیے ہیں۔ اس سارے ماحول کو دیکھ کر قراء ات کے حوالے سے ذہن میں موجود تشویش اور وسوسوں کا ازخود علاج ہوجاتا ہے۔
یہ مختلف لب ولہجے دیکھ کر بعض لوگ اشکال کا شکار ہوجاتے ہیں کہ کیا قرآن مجید میں بھی اختلاف ہے، حالانکہ یہ قرآن مجیدکا اختلاف نہیں۔ آسان انداز میں بات یوں سمجھئے کہ دنیا کی ہر زبان کے اندر لب ولہجہ کا اختلاف ہے۔ مثال کے طورپر آپ اردو زبان کو ہی لے لیں،اس میں ایک لفظ ہے ناپ تو ل، بعض لوگ اسے ناپ تول کہتے ہیں جبکہ بعض لوگ ماپ تول۔اس کے علاوہ ایک لفظ سسرہے، بعض لوگ ا سے سسر اوربعض اسے خسرکہتے ہیں۔انگریزی زبان کاایک لفظ ہے شیڈول، بعض انگلش بولنے والے اسے شیڈول اوربعض سیکیجوئل کہتے ہیں۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتاکہ ایک غلط ہے اور دوسرا صحیح۔ نزول قرآن مجیدکے متعلق صحیح احادیث میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے کہا کہ میری اُمت قرآن مجید کوایک اندازسے نہیں پڑھ سکتی۔ (صحیح مسلم : ۸۲۱) ایک دوسری روایت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری اُمت میں بوڑھے بھی ہیں، لڑکے اور لڑکیاں بھی ہیں ،عمروں کاتفاوت اورزبانوں کا فرق ہے۔ اگر ایک لب ولہجہ لازم کر دیاگیا تو امت مشکل میں پڑ جائے گی، کیونکہ عرب کے مشہورقبائل ،جن کی لغتیں یالہجے چلتے تھے وہ سات ہیں: قریش کے علاوہ مشہور قبیلہ تمیم، ہذیل ،غز،ربیعہ،ہوازن اور ثقیف وغیرہ ۔ (سنن ترمذی:۲۹۴۴)
اصل میں جس طرح مختلف زبانوں او رلہجوں کا فرق ہوتا ہے، اسی طرح عربی زبان میں بھی لب ولہجے کا فرق موجود ہے۔ اس حوالے سے اردو زبان کی مثالیں مذکورہ سطور میں گزر چکی ہیں۔صحابہ کرام کے مکالمے او رنبی اکرمﷺ کے فیصلے کے بعد ثابت ہواکہ دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں پڑھے جانے والے تمام لب ولہجے اوراُسلوب ایک ہی انداز میں سینہ بہ سینہ اور نبی کریم ﷺ سے متواترۃ ثابت ہیں۔ تمام قراء حضرات قرآن مجید کی ہی تلاوت کرتے ہیں،ناکہ غیر قرآن کی۔ جو قراء ت سوڈان میں پڑھی جاتی ہے اس میں لفظ ’الناس‘کو ’الناس‘کی بجائے ’نیس‘پڑھا جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بچوں کو پڑھاتے وقت ’با ،تا،ثا‘ کو ’بے ،تے،ثے‘بول دیتے ہیں۔یہ صرف لب ولہجے کا فرق ہے، ورنہ اصل میں وہی ’بے،با‘ہے وہی ’تے ،تا‘ہے اور وہی ’ثے ،ثا‘ہے ۔یہ تلاوت ِقرآن کے دو مختلف انداز ہیں،جنہیں فتح واِمالہ کہتے ہیں۔ اِمالہ دو طرح کا ہوتا ہے: امالہ کبری، امالہ صغری۔’ با‘ کو’ بے‘ پڑھنا امالہ کبری ہے۔
پاکستانی اورسعودی علماء جانتے ہیں کہ یہ تمام اسلوب، لب ولہجے اور انداز نبی اکرم ﷺ سے تواتر سے منقول ہیں، لیکن عوام اپنے ہاں مروّج لہجوں کے علاوہ دوسرے اَسالیب سے واقف نہیں ہوتے۔ مراکش اورلیبیا سمیت دنیا کے کئی اسلامی ممالک ایسے ہیں، جہاں پر روایت حفص نہیں پڑھی جاتی۔ اما م عاصم رحمہ اللہ کے شاگرد امام حفص رحمہ اللہ کی قراء ت ان ممالک میں نہیں پڑھی جاتی، حالانکہ وہاں بھی قرآن مجید قولی تواتر سے پہنچا ہے اور قولی تواتر کا انداز بھی وہی ہے جو کہ ہمارے ہاں امام عاصم رحمہ اللہ کے شاگرد امام حفص رحمہ اللہ کی قراء ت کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا لوگوں کاقرآن مجید بھی مختلف ہے؟ جواب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔یہ بالکل ایسے ہے جیسے لکھنو کااردو بولنے والا دہلی کی اردو کیسے بولے؟ اور سرائیکی بولنے والاامرتسرکی پنجابی کیسے بولے؟
یہ مشکل اس وقت پیداہوتی ہے، جب کوئی چیز ہماری اپنی زبان میں اتری ہو اور ہمیں اپنی زبان کے علاوہ دوسرے لب ولہجے میں پڑھنا پڑ جائے۔ یہی مشکل نبی اکرم ﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام کے سامنے پیش کی۔بعض اَحادیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ بار باراس بات کامشورہ دینے والے حضرت میکائیل علیہ السلام تھے۔نبی اکرم ﷺ بار بار اس بات کا اصرار کرتے رہے کہ میری اُمت میں بوڑھے ، بچے اوربچیاں بھی ہیں، مختلف بولیاں بولنے والے بھی ہیں، لب ولہجے مختلف ہیں اور انداز جداجدا ہیں، اس لئے مختلف قراء توں میں پڑھنے کی اجازت دی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آسانی باربار ہوتی رہی یہاں تک کہ یہ آسانی سات تک پہنچی گئی۔ اس کے بعد نبی مکرم ﷺ نے حضرت میکائیل علیہ السلام کی طرف دیکھاتو وہ خاموش ہوگئے ، لہٰذا جب میکائیل علیہ السلام خاموش ہوگئے تو نبی اکرم ﷺ بھی خاموش ہوگئے۔
لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاجوچاہے، جیسے چاہے قرآن مجید کو اپنے لب ولہجہ میں اوراپنی بولی میں پڑھتا پھرے؟ قرآن مجید کے ہر لفظ میں، مختلف قبائل کے لب ولہجے اور الفاظ کے اختلاف کا لحاظ کرتے ہوے تبدیلی نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ تبدیلیاں آپ ﷺ نے خود متعین فرما دیں ہیں۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کو جمع کیا توتمام کے تمام الفاظ وانداز پر مشتمل قرآن مجید سات علاقوں کی جانب روانہ کر دیے۔ ان سات علاقوںمیں جو قرآن مجید بھیجے گئے تھے، ان تمام نسخوں میں تمام کے تمام لب ولہجے متعین کردئیے گئے تھے۔ ان مصاحف میں لہجوں اورالفاظ کا فرق موجود تھا۔ اس طرح دنیا میں اب قراء ت ِقرآن میں مختلف لہجوں اور الفاظ کا فرق پایا جاتاہے، جو نسلا بعد نسل قولی تواتر کے ذریعے سے ان علاقوں تک پہنچا ہوا ہے۔ قرآن مجید کے ان مختلف لہجوں اور لغتوں کو قاریوں کی اصطلاح میں ’’قراء ا ت‘‘ کہا جاتاہے، لیکن اس وقت دنیا میں جو قراء تیں پڑھی جا رہی ہیں یہ عین وہی سات لہجے یا لغتیں نہیں ہیں جو آسمانوں سے اتریں۔ نبی اکرم ﷺ نے جو سا ت قسم کے مختلف تنوعات متعین کردئیے تھے اورجو تواتر سے ثابت بھی ہیں،کو بعد ازاں قراء حضرات نے آپس میں خلط ملط کر دیا؟ وہ اس لئے کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے ایک ہی نماز میں قراء ت کرتے ہوئے جب مختلف لغتوں اور لہجوں کو، جن کو حدیث میں ’حر وف کثیرہ‘ کہا گیاہے، جمع کردیا توحضرت عمررضی اللہ عنہ کواتنا غصہ آیا کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ میرادل چاہتا تھا کہ میں نماز توڑ کر حالت ِنمازمیں ہی ان کے گلے میں کپڑا ڈال لوں۔ جب نماز ختم ہوئی تو انہوں نے ہشام رضی اللہ عنہ کو پوچھا کہ آپ نے قرآن مجید کس طر ح پڑھا ہے؟ گویا کہ ہشام رضی اللہ عنہ نے کئی حروف ، کئی لہجے اکٹھے کردئیے تھے، تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے اسی طرح پڑھایا ہے۔ تب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ بڑی عجیب بات ہے کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے یوں نہیں پڑھا یا، چنانچہ دونوں حضرات نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے او راپنا اپنا موقف بیان کیا۔ آپ ﷺ نے دونوں کو سننے کے بعد کہا کہ تم نے بھی ٹھیک پڑھا ہے اور تم نے بھی ٹھیک پڑھا ہے، لیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طبیعت میں ذرا جوش تھا، اس لئے ان کوتسلی نہ ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے جب دیکھا کہ میری تسلی نہیں ہورہی تو انہوں نے میرے سینے پر ہاتھ ما را تومیری تسلی ہوگئی اور سمجھ آ گئی۔
الغرض یہ جو سات حروف ہیں بعد میں پڑھنے والوں نے انہیں محفوظ تو رکھا ہے، لیکن یہ حروف آپس میں خلط ملط کر دیے ہیں، کیونکہ مقصود یہ نہیں تھا کہ کسی ایک حرف میں الگ تلاوت کی جائے بلکہ آپ ﷺ نے ہشام رضی اللہ عنہ کو ایک ہی رکعت میں مختلف لب ولہجوں میں تلاوت ِقرآن کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اسی بناء پر اگر یہ حروف کسی ایک تلاوت میں اکٹھے ہوجائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ سورہ بقرہ میں ایک لفظ یبصط آتاہے، جو کہ سین کے ساتھ بھی ہے اور صاد کے ساتھ بھی، اسی طرح’لست علیہم بمصیطر‘ سین کے ساتھ بھی ہے اورصاد کے ساتھ بھی، آپ نے دیکھاہو گا کہ یہ لفظ جہاں پر صادکے ساتھ لکھا ہواہے اس کے ساتھ چھوٹا سین بھی موجودہے، سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے جونسخے تیارکروائے تھے ان میں یہ گنجائش رکھی تھی کہ ان کو اگر دوسر ے لب و لہجہ والا پڑھنا چاہے تو پڑھ سکے۔ انہوں نے رسم الخط میں صاد کے ساتھ سین بھی لکھ دیاتاکہ جوسین پڑھنا چاہے وہ سین بھی پڑھ سکے۔ یہ محض آسانی پیداکرنے کے لئے کیا گیا، اگر کوئی عام آدمی قرآن مجید پڑھ رہاہو تووہ عام طور پر صاد اور سین کافرق نہیں کرسکتا۔ اگر صاد کی جگہ سین پڑھ دے توغلط نہیں ہوگا بلکہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے آسانی پیدافرما دی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ اس کو وہاں پڑھا جاسکتا ہے جہا ں اللہ تعالیٰ نے گنجائش دی ہے، ہر جگہ اجازت نہیں ہے۔
اس لئے ہمیں قرآن کے تلفظ کی اداء و انداز میں زیادہ سے زیادہ محنت کرناچاہیے۔ سین کی جگہ صاد پڑھنا یہ قاری کی منشاء و مرضی پر منحصر نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتاتوقرآن مجید محض ایک کھیل بن جاتا،جو چاہتا جیسے چاہتا جب چاہتا قرآن مجید کوپڑھتا پھرتا۔جہاں قرآن مجید کو سین کی جگہ صاد پڑھنا تواتر سے ثابت ہے، صرف وہاں جائز ہے۔ اب جو قراءتیں موجودہیں یہ ایک ایک حرف نہیں،بلکہ ان قراء توں میں حروف کا اختلاط ہواہے اور اس میںکئی انواع و اقسام اکٹھی ہوگئیں ہیں۔اس بناء پر روایت حفص کے اندر ہی جائزہ لیاجاسکتاہے کہ صاد کی جگہ بعض جگہوں پر سین کی گنجائش ہے۔ روایت حفص کے اندر یہ گنجائش بتارہی ہے کہ یہ صرف ایک روایت والاقرآنی نسخہ نہیں، بلکہ اس کے اندر اور قراءتوں کی بھی گنجائش موجود ہے، لیکن اسے ہم روایت حفص ہی کہیں گے اس لئے کہ روایت حفص میں کئی حرف اکٹھے ہوئے ہیں۔ ویسے نبی اکرم ﷺ پرجو حروف نازل ہوئے تھے وہ الگ الگ تھے ،لیکن فاقرء وا ما تیسَّر فرماکر بعد ازاں آپ نے ان کوخلط ملط کرنے کی اِجازت دے دی تھی۔ اس لئے اہل علم نے جو قراء تیں تیارکیں ہیں وہ خلط شدہ سبعہ احرف سے بنی ہیں۔ بڑے بڑے ائمہ نیذاتی سہولت اور ذوق کے مطابق اُصول اورضوابط متعین کرکے اپنی قراء توں کو تیار کیاہے۔ اس لئے جو قراء تیں آج پڑھی جاتی ہیں، وہ اماموں سے منسوب ہیں، چنانچہ ان کو یوں نہیں کہا جاتاکہ یہ فلاں حرف ہے۔ اب جو قراء تیں اماموں کی طرف منسوب ہوتی ہیں ان کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے شریعت تو ہماری ایک ہے، لیکن اماموں کی فقہیں زیادہ ہیں، اسی طرح قراء توں کا معاملہ ہے۔ البتہ قراء ات اور فقہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ فقہ کی بنیاد تو رائے وقیاس، جبکہ قراء ات میں سبعہ احرف کے اندار اماموں کی طرف سے ہونے والے باہمی تداخل سے قراء توں کی تعداد سات سے متجاوز کرگئی ہے۔ اب قراء تیں اماموں کی طرف منسوب ہیں حتی کہ ان سے روایت کرنے والے راویوں کی روایت بھی انہی کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ اب اہل علم اس بات کا اہتمام وانتظام کر تے ہیں کہ وہ اماموں کی قراء ات کو ایک ہی طرح پڑھیں، دوسرے امام کی قراء ت کو اس میں خلط ملط نہ کریں، لیکن بہر حال اہل فن کے لیے اس کی اجازت موجود ہے۔ اس لئے کہ اصل احرف سات تھے، جو آپس میں خلط ملط ہوئے ہیں۔ اب وہ سات کے سات احرف ان قراء توں کے اندر موجود ہیں، لیکن ائمہ کی طرف منسوب قراء توں کی گنتی سات سے زیادہ ہے۔ مثلا امام عاصم کوفی رحمہ اللہ نے متعدد لہجوں کو اپنی قراء ت میں جمع کرلیا ہے۔ ان کے استاد کا نام ابوعبدالرحمن السلمی رحمہ اللہ ہے، جو کہ مشہور تابعی ہیں، ان کی روایت امام حفص رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں۔ امام عاصم رحمہ اللہ نے ابوعبدالرحمن السلمی رحمہ اللہ کے علاوہ زر بن حبیش رحمہ اللہ سے بھی پڑھا ہے۔ زر بن حبیش رحمہ اللہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں موجود لفظ رأی کوکبا کو ’’ رأے کوکبا ‘‘پڑھا ہے اور یہ امام عاصم رحمہ اللہ سے امام شعبہ رحمہ اللہ کی روایت ہے۔
المختصراگر آپ مراکشی باشندوں کو دیکھیں تووہ بات کرتے وقت الفاظ کو طوالت ولمبائی سے اَداکرتے ہیں۔ اس لیے کہ روایت ورش میں حروف کو لمبا لمبا کرکے پڑھا جاتا ہے اور قراء حضرات بھی اس روایت کو پڑھنے کے لئے لمبے سانس کی مشق کرتے رہتے ہیں،کیونکہ روایت ورش کے مدات میں بہت زیادہ طوالت پائی جاتی ہے۔ ایک الف کو تین تین الفوں کے برابر کھینچاجاتاہے۔ مراکشی باشندوں کے طرزِ تکلم میں بہت زیادہ چاشنی وشیرینی اور مٹھاس وحلاوت پائی جاتی ہے، جبکہ بعض عرب ممالک کے باشندوں کے طرزِ تکلم اور اندازِ گفتگو میں آپس میں لڑائی جھگڑے کی آمیزش اورجھلک پائی جاتی ہے۔ شامیوں کے اندازِ کلام سے احساس ہوتاہے کہ گویاان کے تکلم میں قرآن کریم کی سی فصاحت وبلاغت کا پہلو موجود ہے۔
بعض دانشور کہتے ہیں کہ قراء توں کا اختلاف فصاحت وبلاغت کے منافی ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو مختلف اندازوں اور لغتوں میں اتارا ہی اس لیے ہے کہ مقتضائے حال کی رعائت ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ سات لغتوں میں لہجوں کے ساتھ ساتھ معانی ِقرآن میں موجود مشکلات کے حل کے لیے بعض مقامات پر بات کو دوسرے انداز میں سمجھانے کی غرض سے کلمات کی تقدیم وتاخیر، حروف میں کمی وزیادتی اور صیغوں کی تبدیلی وغیرہ کی قبیل کے بعض اختلافات بھی قراء توں کے ضمن میں اترے۔ یہ تمام لغتیں، طرزیں اور تمام اسالیب بلاغت قولی تواترکے ساتھ ہم تک پہنچے ہیں اور ان سے قرآن کی فصاحت وبلاغت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
 
Top