ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
قرآن کریم کی روشنی میں ثبوتِ قراء ات
قاری صہیب احمد میر محمدی
الحمد ﷲ رب العالمین، والصَّلوۃ والسلام علی أشرف الانبیاء والمرسلین ومن تبعہم بإحسان إلی یوم الدین۔ أما بعد !جناب قاری صھیب اَحمد میرمحمدی﷾کی زیر نظر تحریر ان کی عربی تصنیف جبیرۃ الجراحات في حجیَّۃ القراء ات کی ایک فصل کا ترجمہ ہے اور ترجمہ کی کاوش قاری محمد صفدر،مدرس کلِّیۃ القرآن الکریم، لوکو ورکشاپ ورکن مجلس التحقیق الاسلامی نے فرمائی ہے۔ (ادارہ)
قال اللّٰہ تبارک وتعالی:’’اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ۔ خَلَقَ الِانْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَأ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ۔الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ‘‘(العلق: ۱تا۴)
’’پڑھو (اے محمدﷺ!) اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے۔پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے علم سیکھایا۔‘‘
وقال: ’’یٰٓأیُّھَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ‘‘ (المدثر: ۱تا ۳)
’’اے (وحی کی ہیبت سے) کپڑا اوڑھنے والے! اُٹھو اورمکہ والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤ اور اپنے مالک کی بڑائی بیان کرو۔‘‘
گذشتہ آیات میں سے قرآن مجیدکی ابتداء اللہ تعالی کے پہلے ارشادسے ہوتی ہے۔ دوسری وتیسری آیت میں اللہ تعالی نے اپنے نبی1کو ابلاغ ِقرآن کاحکم دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺکو سب سے بڑا کام ابلاغ ِقرآن کا سونپا تھا، چنانچہ ایک اور مقام پر فرمایا:وقال: ’’یٰٓأیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا أنْزِلَ إِلیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اﷲَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ‘‘ (المائدۃ :۶۷)
’’اے پیغمبرﷺ! آپ کے رب کریم کی طرف سے جو نازل کیاگیاہے، اسے آگے پہنچایئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے حق رسالت ادا نہ کیا اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ یقینا اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں دے گا۔‘‘
جبریل نے جیسے آپﷺ کوپڑھایا، ویسے آپﷺ نے اپنے صحابہ کو پڑھایا۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ وَقُرْآنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکثٍ وَنَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلاً‘‘ (الإسراء :۱۰۶)
’’ہم نے قرآن کو حصے حصے کرکے اس لئے تقسیم کردیا تاکہ آپﷺ اسے لوگوں پرٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور ہم نے اس کو بالکل آہستہ آہستہ نازل کیا ہے۔‘‘
نبی کریم ﷺ ہر سال رمضان میں جبریل سے دور کیا کرتے تھے، جیساکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:’’جب جبریل وحی لے کر آتے، تو آپﷺ اسے بغور سنتے اور جب وہ واپس چلے جاتے تو آپﷺ بالکل جبریل کے پڑھنے کی طرح پڑھتے تھے۔ ‘‘ (صحیح البخاري: ۵)
دوسری روایت میں آپﷺ کی موت کے سال کے الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاري: ۴۹۹۸)’’رسول اللہﷺ نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ جبریل مجھ سے ہر سال ایک مرتبہ دور کیا کرتے تھے، لیکن اس سال دو مرتبہ کیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میری موت کا وقت قریب آگیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري: ۳۲۲۴)
رسول اللہﷺ ڈرے کہ اگر اُمت کو ایک ہی حرف پر قرآن پڑھنے کا پابند کردیا گیا تو وہ مشکل میں پڑ جائے گی، کیونکہ اہل عرب جن کی طرف قرآن نازل کیاگیاتھا مختلف لہجات ، متنوع لغات اور قسما قسم کی بولیاں بولنے والے تھے۔جب آپﷺنے آسانی کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سات حروف پرنازل فرمایا۔ جن میں سے ہرہر حرف شافی اور کافی تھا، جیساکہ احادیث اس بات پرشاہد ہیں۔
اگر قرآن مجید کو اختلافِ لہجات کے بجائے ایک ہی لغت پر اتاردیا جاتاتو اس سے حصول ِہدایت انتہائی مشکل اَمر ہوتا اور یہ ایسی تکلیف کے قبیل سے ہوتا جو انسانی طاقت کی حدود سے ماوراء ہوتی، کیونکہ انسان کا مادری زبان سے کسی دوسری زبان کی طرف پلٹنا انتہائی مشکل کام ہے، حالانکہ مشکلات پیدا کرنا تو روح ِاسلام کے منافی ہے۔ اسلام تو دفع حرج و رفع مشقت کاحامی ہے۔ جب ہم قرآن مجید کابنظر غائر مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے چند ایسی آیات آتی ہیں جونہ صرف سبعہ اَحرف کے ساتھ نزول ِقرآن پر دلالت کرتی ہیں، بلکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ ان حروف کی قراء ت بھی منزل من اللہ ہے، جیساکہ فرمان الٰہی ہے:
یہ آیت اس امر پردلالت کرتی ہے کہ اللہ نے اپنے مومن بندوں کی سہولت اور آسانی کی خاطر ان سے تنگی اور مشقت کو رفع فرمایا ہے۔ اللہ نے اُمت پرتخفیف کرتے ہوئے مذکورہ آیت کے مصداق کئی اَحکام میں رخصت عنائت فرمائی، جن کی آپؐ نے وضاحت فرمائی۔ (التفسیر الواضح از ڈاکٹر محمد محمود حجازی:۱۷؍۷۸)’’ وَمَاجَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ‘‘ (الحجّ:۷۸)
’’دین کے معاملہ میں تم پرکوئی تنگی نہیں رکھی گئی ہے۔‘‘
یہ آسانی اس بات کا تقاضاکرتی ہے کہ لہجات ِعرب کی مناسبت سے قراء ات بھی مختلف ہوتیں،کیونکہ انسان بچپن سے بڑھاپے تک جو زبان بولتا ہے، اسے یکبارگی چھوڑنا یقینا ایک مشکل کام ہے۔ مذکورہ آیت ہرقسم کے رفع حرج پر دلالت کرتی ہے۔ (أثر القراء ات فی الفقہ الإسلامي از ڈاکٹر صبری: ۱۱۸)
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ آیت اُمت ِمحمدیہ کاخاصہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سارے اَحکام کابھی اِحاطہ کئے ہوئے ہے۔‘‘ [تفسیر قرطبی: ۴۴۹۲]
فصیح لہجات کااختیار اور رفع حرج بھی ان اَحکام میں سے ہیں،جوشریعت اِسلامیہ نے ہمیں عطا کئے ہیں۔ اس آیت کے تحت لوگوں کے مانوس لہجات کے جائز ہونے میں کوئی چیزمانع نہیں ہے۔
فرمانِ ربانی ہے: ’’ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ‘‘ (الحجر:۹)
اس آیت سے سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نبیﷺ پرنازل کرنے کے ساتھ اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اٹھائی اور مالک ِکائنات چیلنج کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مطلب یہ کہ اس کو غیر محفوظ بنانے والی کوئی چیز نہیں ہے، کیونکہ یہ تو سب سے سچے مالک کا کلام ہے، جیسا کہ وہ خود اپنے متعلق فرماتا ہے:’’ لاَ یَأتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ‘‘ ( حم السجدۃ: ۲۲)
’’اس قرآن کریم کے آگے یا پیچھے سے کوئی بھی باطل چیزداخل نہیں ہوسکتی۔ یہ تو بزرگی اور حکمت والے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے۔‘‘
آپﷺ نے بھی اپنے خطبہ کے اندر اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:’’ وَمَنْ أصْدَقُ مِنَ اﷲِ حَدِیْثًا ۔۔۔ وَمَنْ أصْدَقُ مِنَ اﷲِ قِیْلًا ‘‘ (النساء: ۸۷،۱۲۲)
’’ اللہ سے زیادہ اپنے وعدے، خبر اور بات کے متعلق کون سچا ہوسکتا ہے۔ ‘‘
(إِنَّ أَصدَقَ الْحَدیثِ کِتَابُ اﷲ) (تفسیر ابن کثیر: ۱؍۵۶۹)
اب اگر کوئی یہ کہے،جیسا کہ بعض غالی قسم کے لوگوں نے کہا ہے کہ قراء ات کو قرآن کریم سے کچھ تعلق نہیں بلکہ یہ تومعاذ اللہ محض قراء کی کذب بیانیاں ہیں، تو اس سے اللہ کے قول: ’’ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘کا باطل ہونالازم آتاہے، کیونکہ قرآن کامحافظ توخود اللہ تعالیٰ ہے پھریہ کیسے ممکن ہے کہ مخلوق میں سے کوئی اُٹھے اور اپنی مرضی سے رطب و یابس کو قرآن کاحصہ بنا دے۔ والعیاذ باللہ
قرآن مجید اس بات سے پاک ہے، کیونکہ اس کامطلب ہوگا کہ مخلوق میں بھی ایسے قادرالکلام لوگ ہیں، جو اللہ کے قول کو رد کرنے یا اس کے مقابل ایسا حکم لانے کی قوت رکھتے ہیں جو اللہ کے حکم کے خلاف ہو۔ اللہ تو ایسے لوگوں کی خود ساختہ باتوں اور نظریات سے مبرا ہے اور وہ ایسے لوگوں کی بہتان طرازیوں سے پاک ہے۔ ہم اللہ سے ایسے گمراہ کن عقیدہ کے خلاف پناہ چاہتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ قراء ات بدعت اور قراء کی جعل سازیوں کے سوا کچھ نہیں، تو ہم پوچھتے ہیں کہ اللہ نے جو اپنے نبیﷺکی بابت فرمایا:
اس آیت کاکیامطلب ہے؟اس کا مطلب تو صاف ظاہر ہے کہ محمد رسول اللہﷺ بھی قرآن میں نقص و زیادتی کے مجاز نہیں۔ اگر وہ ایساکرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی شہ رگ کاٹ دیتے اور انہیں ایسے عذاب سے دوچار کرتے کہ کوئی چھڑانے والا نہ ہوتا۔’’ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْل لَاَخَذْنَا مِنْہُ باِلْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ فَمَامِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْن ‘‘ (الحاقۃ:۴۴تا۴۷)
’’اگر اس نبیﷺ نے کوئی بات خود گھڑ کر ہماری طرف منسوب کی ہوتی تو ہم اس کادایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے۔ پھر تم میں کوئی بھی ہمیں اس کام سے روکنے والا نہ ہوتا۔‘‘
اس آیت میں اللہ نے کہاکہ ہم دائیں ہاتھ سے پکڑلیتے،یہ اس لیے کہ بیان میں مبالغہ مقصود ہے، کیونکہ بائیں ہاتھ سے پکڑنے میں گرفت مضبوط نہیں ہوتی۔ ’وتین‘ ثباط القلب، پھیپھڑوں سے نکلنے والی موٹی رگ کو کہا جاتاہے، جس پر دل معلق ہے، جیساکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ [تفسیر ابن کثیر: ۴؍۴۴۵]
جب افضل البشر ایسا کام کرنے سے موردِ عذاب ٹھہرتے ہیں تو عام آدمی تو بالاولیٰ اس وعید کا مصداق ٹھہرتا ہے۔ قراء یاعلماء کے لئے تو ممکن ہی نہیں کہ وہ قرآن میں کمی یا زیادتی کریں اور قراء ات کو گھڑ کر قرآن میں داخل کر سکیں۔