• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی اور قرآن مجید

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
قربانی اور قرآن مجید​
قرآن مجید میں جس مخصوص انداز میں جہاں دوسرے مسائل زندگی کا بیان موجود ہے وہاں قربانی کی مشروعیت تاریخ اور تفصیل بھی موجود ہے۔چنانچہ سورۃ حج میں ہے۔اور ہم نے ہر ایک امت کےلئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے مویشیوں پر اس کا نام زکر کریں۔الحج (34
مفسرین کی تصریحات
امام فخر الدین رازی 6067ھ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔کہ حجرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے کے کر ما بعد کی تمام امتوں میں قربانی مشروع چلی آرہی ہے۔اور منسک زبر کے ساتھ قربانی کے معنی میں ہے۔
(تفسیر کبیر ج6 ص 232)
امام ابن کثیر 7744 اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بتا رہا ہے کہ اس کے نام قربانیاں ذبح کرنا اور خون بہانا تمام امتوں میں اک مشروع عمل چلا آرہاہے۔
(تفسیر ابن کثیر ج3 ص 221)
امام شوکانی 12504ھ لکھتے ہیں۔
المنسك ههنا المصدر من نسك ينسك اذا اذبح القربان والمعني وجعلنا لكل اهل دين من الاديان ذبحا يذبحونه ود ما ير يقونه
(فتح القدیر ج3 ص52)
کہ منسک یہاں نسک ینسک کامصدر ہے جس کا معنی ہے قربانی زبح کرنا اور آیت مقدسہ کا معنی یہ ہے کہ ہم نے تمام اہل ادیان پرقربانی ٹھرا ئی جو وہ ذبح کرتے تھے۔امام شوکانی نے بالکل تصریح کردی کہ یہاں منسک کے معنی قربانی ہی ہیں۔
شاہ عبد القادر محدث دہلوی رقمطراز ہیں۔جتنے مویشی ہیں ان کا حق یہی ہے کہ کام لے لیجئے پھر کعبے کے پاس لے جا کر نیاز چڑھا دیجئے یہ بات شزوار ہے تگو یہاں بسم اللہ ۔اللہ اکبر۔کہا اور ذبح کیا یہ نشانی ہے کہ اللہ کی نیا ز کعبے کو چڑھایا دو رہو یانزدیک موضح القرآن ص۔
شاہ صاحب نے اس مختصر تفسیر میں قربانی کی پوری حقیقت سمو کر رکھ دی ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دوہلوی م۔قربانی کے اسرار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
الذبح لا يكون قربة الابتنا الحاج
(حجة الله ج1 ص 99)
یہ قربانی حاجیوں سے عملی تشابہ کیلئے ہی تو ہے۔دوسرے مقام پر مزید لکھتے
يوم الاضحي فيه تشبه بلحاج وتعرض لنفحات الله تعالي المعدة
(حجۃ اللہ ج1 ص 99)
مکہ مکرمہ سے باہر دوسرے اطراف کے مسلمانوں کو بھی پابند کیاگیا ہے کہ وہ حاجیوں سے مشابہت پیدا کر کے اللہ تعالیٰ کے اس فیضان سے مستفیض ہوں جو ان کے لئے تیار فرمایا گیا ہے۔قربانی کایہ طریقہ جس طرح پہلی امتوں کےلئے اسی طرح ہماری امت شرعیت محمدی کےلئے بھی مقرر کیاگیا ہے۔
2۔آیت نمبر 2۔
اے محمدﷺ کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف رب العالمین کیلئے ہے۔ ا س کا کوئی شریک نہیں۔اور اسی چیز کا مجھے حکم دیا گیا ہے۔اور سب سے پہلے میں سر اطاعت جھکانے والا ہوں
(سورۃ انعام 162۔163)
امام ابن کثیر لکھتے ہیں۔اللہ نے ان آیات میں رسول اللہ ﷺ کو یہ حکم دے رہا ہے کہ مشرکین پ واضح کر دیں کہ تم جو غیر اللہ کی نماز پڑھتے ہو۔اورغیر اللہ کے نام قربانی کرتے ہو۔اسطریق عبادت کے سخت مخالف ہوں کہ میر ی نماز بھی خالصۃ اللہ کےلئے ہے اور میری قربانی بھی اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے
( تفسرابن کثیر ج2 ص 198 وفتح القدیر ج2 ص 185)
3۔مفسرین کے ارشادات
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿٢﴾
پس اپنے رب کے لئے نما ز پڑھ اور قربانی کر
تقریباً تمام قدیم و جدید مفسرین کے نزدیک ۔النحر۔۔سے مراد دس زوالحجہ کی قربانی ہے چنانچہ مفسر فخر الدین رازی شافعی متوفی 606ھ امام ابن کثیر 7744ھ مفسر شوکانی 1250 ھ مفسر محمود الوسی حنفی 1270ھ مفسر قرطبی مالکی 671ھ نواب سید صدیق حسن ار شیخ احمد مراغی 1945ء وغیرہ نے اس کو ترجیح دی ہے۔ہمیں اعتراف ہے کہ مفسرین نے اس کے علاوہ اور معنی بھی کئے ہیں۔لیکن وہ صحیح نہیں ہے۔ان دلائل قاطعہ اور نصوص ساطعہ سے نہ صرف ی ثابت ہو اکہ قربانی بلا شبہ مشروع اورشعار اسلام میں سے ہے بلکہ مسئلہ قربانی کے منکرین کے اس مغالطہ کی بھی قلعی کھل گئی۔کہ قرآن میں جس قربانی کا تذکرہ ہے وہ تو صرف مکہ میں منیٰ کے میدان میں حاجی کے ساتھ خاص ہے۔ اب یہاں پر تو کوئی حج وٖغیرہ کا زکر نہیں۔رسول اللہ ﷺ کو خطاب کر کے ساری امت کو قربانی ذبح کرنے کاحکم دیا گیا ہے لیذا عید الاضحیٰ کی قربانی کا انکار اصل میں قرآن نا فہمی کی بات ہے۔اعازنا اللہ منہ
(فتاویٰ علمائے اہل حدیث جلد نمبر 13)
 
Top