• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی کرنے والا کس چيز سے اجتناب کرے :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
12006184_752710308185820_8346839285321587145_n.jpg

قربانی کرنے والا کس چيز سے اجتناب کرے

الحمد للہ :

شیخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب کوئي شخص قربانی کرنا چاہے اورچاندنظرآنے یا ذی القعدہ کے تیس دن پورے ہونے کی بنا پرذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے توقربانی ذبح کرنے تک اس کے لیے اپنے بال اورناخن یا جلد وغیرہ سے کچھ کاٹنا حرام ہے ۔

اس کی دلیل مندجہ ذیل حدیث ہے ۔

ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو ۔

اورایک روایت کے الفاظ ہيں :

جب عشرہ ( ذی الحجہ ) شروع ہوجائے اورتم میں سے کوئي قربانی کرنا چاہے تووہ اپنے بال اورناخن نہ کٹوائے )

مسند احمد اورصحیح مسلم ۔

اورایک روایت کے الفاظ ہيں :

توقربانی کرنے تک اپنے بال اورناخن نہ کٹوائے ۔

اورایک روایت کے الفاظ ہيں :

تووہ اپنے بال اورجلد میں سے کچھ بھی نہ لے ۔

اورجب کوئي شخص عشرہ ذی الحجہ کے دوران قربانی کرنے کی نیت کرے تواسے اپنی نیت کے وقت سے ہی بال اورناخن کٹوانے سے رک جانا چاہیے ، اوراس نے قربانی کرنے کی نیت سے قبل جوکچھ کاٹا ہے اس کا کوئي گناہ نہيں ہوگا ۔

اس ممانعت میں حکمت یہ ہے کہ جب قربانی کرنے والا شخص قربانی کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کےلیے حاجی کے بعض اعمال میں شریک ہوا تو بال اورناخن وغیرہ نہ کٹوانے سے رکنے کے ساتھ احرام کے بعض خصائص میں بھی شریک ہوگيا ۔

اوریہ حکم یعنی بال اورناخن وغیرہ نہ کٹوانے کا حکم صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ ہی خاص ہے ، اورجس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہے وہ اس سے تعلق نہيں رکھتا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( اورتم میں سے کوئي قربانی کرنے کاارادہ کرے تو )

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ : یا جس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہو ، اوراس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول نہيں کہ آپ نےانہيں بال وغیرہ کٹوانے سےمنع فرمایا ہو ۔

تواس بنا پرقربانی کرنے والے کے اہل وعیال کے لیے عشرہ ذی الحجہ میں بال ، ناخن وغیرہ کٹوانے جائز ہیں ۔

اورجب قربانی کرنے کا اراہ رکھنے والا عشرہ ذی الحجہ میں اپنے بال ، ناخن یا اپنی جلد سے کچھ کاٹ لے تواسے اللہ تعالی کے ہاں توبہ کرنی چاہیے اورآئندہ وہ ایسا کام نہ کرے ، اوراس پرکوئي کفارہ نہيں ہوگا اورنہ ہی یہ اس کے لیے قربانی کرنے میں مانع ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ اس سے قربانی میں ممانعت پیدا ہوجاتی ہے ۔

اوراگرکسی شخص نے بھول کریا جہالت میں بال وغیرہ کٹوا لیے یا اس کے بال بغیر قصد وارادہ کے گر گئے تواس پرکوئي گناہ نہیں ، اوراگراسے اتارنے کی ضرورت پیش آجائے تواسے کاٹنے میں کوئي گناہ اورحرج نہيں ہوگا مثلا کسی کا ناخن ٹوٹ جائے اوراسے ٹوٹا ہواناخن تکلیف دیتا ہوتواس کےلیے کاٹنا جائز ہے ، اوراسی طرح اگر اس کے بال آنکھوں میں پڑنے لگیں تواس کے لیے اسےزائل کردے ، یااسے کسی زخم کے علاج کے لیے بال کٹوانے کی ضرورت ہوتواس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے ۔ .

دیکھیں : فتاوی اسلامیۃ ( 2 / 316 ) ۔

http://islamqa.info/ur/36567
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
قربانی کرنے والے کے اہل وعیال عشرہ ذی الحجہ میں اپنے بال اورناخن وغیرہ کاٹ سکتے ہیں

الحمد للہ :

جی ہاں ایسا کرنا جائز ہے ، اورسوال نمبر ( 36567 ) کے جواب میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ قربانی کرنے والے شخص کےلیے اپنے بال اورناخن یا جسم کے کسی بھی حصہ سےکچھ کاٹنا حرام ہے ، اوریہ حکم صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ خاص ہے جس نے قربانی کرنی ہو، آپ اس کی تفصیل وہاں دیکھ سکتے ہیں۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

اورقربانی کرنے والے کے اہل وعیال پرکچھ نہیں ، اورعلماء کرام کے صحیح قول کے مطابق انہیں بال اورناخن کاٹنے سے منع نہيں کیا جائيگا ، بلکہ یہ حکم توصرف قربانی کرنے والے کے ساتھ خاص ہے جس نے اپنے مال میں سے قربانی خریدی ہے ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی اسلامیۃ ( 2 / 316 ) ۔

اوراللجنۃ الدائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) کے فتوی میں ہے کہ :

جوشخص قربانی کرنا چاہے اس کے حق میں یہ مشروع ہے کہ وہ ذی الحجۃ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے بال اورناخن اپنے جسم کےکسی بھی حصہ سے کوئي بھی چيز نہ لے ، اس کی دلیل امام بخاری کے علاوہ محدثین کی ایک جماعت کی روایت کردہ مندرجہ ذیل حدیث ہے :

ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اورتم میں سے کوئي ایک قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوتووہ اپنے بالوں اورناخن ( کے کاٹنے ) سے رک جائے ) ۔

اورابوداود اورمسلم کے الفاظ یہ ہیں :

( جس کے پاس ذبح کرنے کے لیے کوئي قربانی ہو توجب ذی الحجہ کا چاند نظر آجائے تووہ قربانی ذبح کرنے تک وہ اپنے بال اورناخن نہ کاٹے )

سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2791 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1977 )


چاہے وہ قربانی خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے یا پھر اسے ذبح کرنے میں کسی اورکووکیل بنائے ، لیکن جس کی جانب سے ذبح کی جارہی ہے اس کےحق میں مشروع نہيں ، کیونکہ اس میں کوئي چيز وارد نہيں ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 11 / 397 ) ۔

اورشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب " الشرح الممتع میں کہتےہیں :

جس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہے اس کےلیے ( بال وغیرہ ) کاٹنے میں کوئي حرج نہيں ، اس کی دلیل مندرجہ ذيل ہے :

1 - حدیث کا ظاہر یہی ہے کہ یہ حرمت صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ خاص ہے ، تواس بنا پرتحریم گھر کے سربراہ کے ساتھ مختص ہوگی ، لیکن اہل وعیال پریہ حرام نہيں ہوگا ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم قربانی کرنے والے کےساتھ معلق کیا ہے ، لھذا اس کا مفھوم یہ ہوا کہ جس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہے اس کےلیے یہ حکم ثابت نہيں ہوتا ۔

2 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے لیکن ان سے یہ یہ منقول نہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر والوں کوبھی یہ فرمایا ہو ، تم اپنے بال اورناخن اورجسم کےکسی بھی حصہ سے کچھ بھی نہ کاٹو ، اگران پریہ حرام ہوتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم انہيں اس سے منع کرتے ، اور راجح قول یہی ہے ۔ اھـ

دیکھیں : الشرح الممتع لابن عثیمین رحمہ اللہ ( 7 / 530 )

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/33743
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
کیا عید کی قربانی کرنے والے کیلئے کسی عذر کی بنا پر قربانی کرنے سے پہلے بال کاٹنا جائز ہے؟

سوال: میں نے سوال نمبر: (36567) کا جواب پڑھا ہے، اور اس جواب کے آخری پیرے میں ہے کہ: "یااسے کسی زخم کے علاج کے لیے بال کٹوانے کی ضرورت ہوتواس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے"تو کیا میری حالت بھی اسی کے ضمن میں آسکی ہے کہ میری مونچھیں مکمل طور پر نہیں آتیں تھوڑی سی جگہ پر بال قدرتی طور پر نہیں اگتے، جسکی وجہ سے مجھے کافی لوگوں کے سامنے خفگی اور شرم اٹھانی پڑتی ہے، تو کیا میں اس سے بچنے کیلئے اپنی مونچھیں مکمل طور پر مونڈ سکتا ہوں؟

الحمد للہ:

اول:

عید کی قربانی کرنے والے شخص کیلئے اپنے بال ، ناخن، اور جلد کے کسی حصہ کو کاٹنا اہل علم کے ہاں ایک اختلافی مسئلہ ہے، اور ویب سائٹ پر جس موقف کو اپنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ: عید کی قربانی کرنے والے کیلئے ناخن، بال، اور جلد کے کسی حصہ کو کاٹنا منع ہے؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (جب تم ذو الحجہ کا چاند دیکھ لو، اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، تو وہ اپنے بال اور ناخن مت کاٹے) مسلم: (1977) اور مسلم کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ : (جب عشرہ [ذو الحجہ] شروع ہوجائے ، اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال، اور جلد کے کسی حصہ کو مت کاٹے)

مزید معلومات کیلئے سوال نمبر: (83381) اور سوال نمبر: (36567) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

اگر مونچھوں کے بال نہ مونڈنے پر بالکل واضح عیب نظر آئے، یا آپکے کہنے کے مطابق بال نہ ہونے کی وجہ سے اذیت اور تکلیف بھی ہو، تو –اللہ اعلم-یہی لگتا ہے کہ اس حال میں عیب زائل کرنے کیلئے بال مونڈنا جائز ہوگا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :

"اگر کوئی ضرورت پڑنے پر بال، ناخن، یا جلد کے کسی حصے کو کاٹ دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً: اسے زخم لگ جانے کی وجہ سے بال کاٹنے پڑیں، ناخن ٹوٹ جانے کی وجہ سے اسے تکلیف ہوتی ہو، یا جلد کا اوپر سے چھلکا اتر جائے، جسکی وجہ سے تکلیف ہوتی ہو، اور وہ اس تکلیف سے بچنے کیلئے اسے کاٹ دے تو ان تمام صورتوں میں اس پر کوئی حرج نہیں ہے"انتہی

" مجموع فتاوى ابن عثيمين " (25/161

واللہ اعلم .

اسلام سوال وجواب


http://islamqa.info/ur/192308
 
Top